کچھ علماء کرام نے لکھا ہے کہ لفظ "علیہ السلام " انبیاء اور فرشتوں کے لئے ہی بولا جائے ۔ تاکہ ایک الگ پہچان قائم رہے۔ لیکن ان علماء کرام نے بھی اس کو واجب یا فرض کا درجہ نہیں دیا۔ یعنی انہوں نے بھی اس پر کوئی سختی نہیں کی۔ کہ اگر کوئی غیر نبی کے لئے علیہ السلام بولے گا تو وہ گناہ گار ہوگا۔ ایسا کسی عالم نے نہیں کہا۔
کیونکہ اس کے بارے احادیث میں کو ئی حکم بھی موجود نہیں۔ صرف الگ شناخت کے لئے ایسا کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی علیہ السلام کے مطلب ہے۔ "ان پر سلامتی ہو" یا "ان پر اللہ کا سلام ہو"۔ تقریبا یہ ہی معنی السلام علیکم کےبھی ہیں۔ جو ہم آپس میں ملتے ہوئے ایک دوسرے کو بولتے ہیں۔
کئی جگہ پر بخاری شریف میں ہے ۔ امام بخاری اہل بیت اطہار کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ جیسے آپ یہ ایک حدیث کے الفاظ ملاحظہ کریں۔
أتي عبيد الله بن زياد برأس الحسين بن علي عليه السلام ، فجعل في طست ، فجعل ينكت ، وقال في حسنه شيئا ، فقال أنس : كان أشبههم برسول الله صلى الله عليه وسلم ، وكان مخضوبا بالوسمة .
صحيح البخاري - الرقم: 3748
اس حدیث میں امام بخاری نے امام حسین بن علی کے لئے لفظ علیہ السلام استعمال کیا ہے۔
اسی طرح امام ابو داود نے اس روایت میں امام علی علیہ السلام کے ساتھ لفظ استعمال کیا
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِى إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِىٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ يُصَلِّى قَبْلَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ.
سنن أبي داود ج۲ ص ۳۸ المؤلف : أبو داود سليمان بن الأشعث السجستاني
اسی طرح عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد ہفتم (7) صفحہ 237 مطبوعہ قسطنطنیہ میں ’’فاطمۃ علیہاالسلام ‘‘ہے.("ارشاد الباری شرح صحیح البخاری")
قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی نے اپنی تفسیر مظہری جلد ہفتم صفحہ 412 پر لکھا
رواہ احمد عن الحسین بن علی علیھما السلام ۔۔ ۔ وروی الطبرابی بسند حسن عن الحسین بن علی علیھما السلام -
اسی طرح امام شافعی علیہ رحمہ تو اہل بیت کے نام کے ساتھ لفظ علیہ السلام ہی استعمال کرتے تھے۔
اسی طرح مسلم شریف میں بھی کئی جگہوں پر امام مسلم نے اہل بیت کے ساتھ لفظ علیہ السلام استعمال کیا ہے۔
اکثر اسلامی کتب میں حضرت مریم علیہ السلام کے ساتھ لفظ سلام اللہ علیہا اور علیہ السلام پڑھا ہے۔
احتیاط کے پیش نظر ایک یہ بھی فتویٰ ہے صاحبِ بہارشریعت کا
سُوال:غیر نبی کے ساتھ''علیہِ السّلام''لکھنا اور بولناکیساہے؟
جواب:مَنع ہے ۔ چُنانچِہ حضرتِ صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ علامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی خدمت میں سُوال ہوا:یاحُسین علیہ السلام کہنا جائز ہے یا نہیں اور ایسا لکھنا بھی کیسا ہے اور پکارنا کیسا ہے؟الجواب:یہ سلام جو نام کے ساتھ ذِکر کیا جاتا ہے یہ (یعنی یہ علیہ السلام کہنا لکھنا)سلامِ تَحِیَّت (یعنی ملاقات کا سلام)نہیں جو باہم ملاقات کے وَقت کہا جاتا ہے یا کسی ذَرِیعہ سے کہلایا جاتا ہے بلکہ اس (یعنی علیہ السلام )سے مقصود صاحِبِ اِسم(یعنی جس کانام ہے اُس)کی تعظیم ہے ۔عُرفِ اَہلِ اسلام نے اس سلام(یعنی علیہ السلام لکھنے بولنے)کو انبِیاء و ملائکہ کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ مَثَلاً حضرتِ ابراھیم علیہ السّلام حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام حضرتِ جبرئیل علیہ السّلام حضرتِ میکائیل علیہ السّلام ۔ لہٰذا (بہتر ہے کہ)غیرنبی و مَلَک (نبی اور فرشتے کے علاوہ)کے نام کے ساتھ علیہ السّلام نہیں کہنا چاہئے ۔ وَاللہُ تَعالٰی اَعلَمُ۔ (اس لیئے کہ اہل تشیعوں سے ادنا مشابہت بھی نا ہو)
تو مختصر یہ کہ غیر نبی کے لئے بھی لفظ علیہ السلام استعمال کرنے میں حرج نہیں۔اس پر زیادہ سخت موقف اختیار نہیں کرنا چاہیئے۔ ۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ انبیاء اور اہل بیت کو ہمارے سلام کی حاجت نہیں ۔ ان پر تو پہلے ہی اللہ نے سلامتی نازل کررکھی ہے۔ ہاں ہم اپنی بخشش کے لئے ہی ان ہستیوں پر سلام بھیجتے ہیں۔جیسے ہم نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔تاکہ ہم ان کی شفاعت اور اللہ کی رضا کے حقدار ٹھہر سکیں۔ وگرنہ اللہ کو ہمارے درود سلام کی کیا حاجت اللہ تو خود نبی اکرم ﷺ پر درود اور سلام بھیجتا ہے۔
قرآن پاک میں متعدد مقامات پر غیر نبی کے لئے لفظ صلوٰۃ استعمال کیا گیا۔ آیئے اُن میں سے چند مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں :
1۔ غیر نبی کے لئے لفظ صلوٰۃ
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا
(الاحزاب : 43)
’’(اللہ) وہی ہے کہ درود (رحمت) بھیجتا ہے تم پر اور اس کے فرشتے کہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالے‘‘۔
2۔ اہل ایمان پر صلوۃ
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(التوبه : 103)
’’اے محبوب ان کے مالوں میں سے صدقہ (زکوۃ) وصول کرو، جس سے آپ انہیں ستھرا اور پاکیزہ کرو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو، بے شک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے‘‘۔
3۔ منافقوں کیلئے صلاۃ نہیں
وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلاَ تَقُمْ عَلَىَ قَبْرِه إِنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُواْ وَهُمْ فَاسِقُونَ
(التوبه : 84)
’’اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بے شک وہ اللہ اور اس کے رسول سے منکر ہوئے اور نافرمانی (فسق) میں ہی مرگئے‘‘۔
4۔ صبر کرنے والوں پر صلوٰۃ
أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ
’’ان (صبر کرنے والوں) پر ان کے رب کی درودیں ہیں اور رحمت‘‘۔
(البقرة : 157)
قرآن پاک کی طرح مختلف احادیث مبارکہ میں بھی غیر نبی کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ ’’صلوٰۃ‘‘ کو استعمال فرمایا۔ ان احادیث میں سے چند یہ ہیں :
ہدیہ پیش کرنے والے پر صلوٰۃ
٭ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں جب بھی کوئی صاحب صدقہ (ہدیہ) پیش کرتا تو سرکار فرماتے اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَيه ’’اے اللہ اس پر صلوٰۃ (رحمت) نازل فرما‘‘۔ میرے والد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنا صدقہ (ہدیہ) لائے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِيْ اوفٰی.
’’اے اللہ آل ابی اوفیٰ پر درود (رحمت) بھیج‘‘۔
(بخاری کتاب الدعوات ج 2 ص 941 طبع کراچی، صحيح مسلم ج1، کتابُ الزکوة)
امام بخاری نے اس حدیث کا عنوان یعنی ترجمۃ الباب یوں لکھا ہے :
هَلْ يُصَلّٰی عَلٰی غَيْرِ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم.
’’کیا نبی کے بغیر کسی پر صلوٰۃ بھیجی جاسکتی ہے؟‘‘۔
اور ا س سے پہلے سورۃ توبہ کی آیت اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّهُم ’’اور اے حبیب ان کے لئے دعائے خیر کریں بے شک آپ کی دعائے خیر ان کے لئے باعث سکون ہے‘‘ سے اس کے جواز پر استدلال کیا ہے۔
درجہ بالا مآخذ کے علاوہ مزید حوالہ جات کے لئے دیکھئے :
1. سنن ابی دائود، کتاب الزکوة، باب دعاء المصدق لاهل الصدقة 2.106، رقم 1590
2. سنن ابن ماجه کتاب الزکوة، 1.572 رقم 1796
3. سنن نسائی، کتاب الزکوة، باب صلوٰة الامام علی صاحب الصدقة، 5.31، رقم 2459
4. مسند احمد بن حنبل، 4.383، رقم 19435
5. صحيح ابن حبان، 3.197، رقم 917، باب الادعيه
٭ سیدنا جابر اور ان کی زوجہ رضی اللہ عنہما کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی :
صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْکَ وَعَلٰی زَوْجِکَ.
’’اللہ تعالیٰ تم پر اور تمہاری بیوی پر صلوٰۃ نازل فرمائے‘‘۔
1. صحيح ابن حبان، باب الادعية، ذکرالاباحاة... 3.197، رقم 916
2. سنن ابی دائود، کتاب الصلوة، باب الصلوة علی غير النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، 2.88، رقم 1533
غیر نبی کیلئے لفظ ’’سلام‘‘ کا استعمال
لفظ ’’صلوٰۃ‘‘ کی طرح غیر نبی کے لئے قرآن پاک کے متعدد مقامات پر لفظ ’’سلام‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ چند مقامات درج ذیل ہیں :
1. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا
(النور : 27)
’’اے ایمان والو اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں اجازت لئے اور گھر والوں پر سلام کئے بغیر داخل نہ ہو‘‘۔
2. فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً
(النور : 61)
’’پھر جب کسی گھر میں جائو تو اپنوں کو سلام کرو، ملتے وقت کی اچھی دعا اللہ کے پاس سے، مبارک پاکیزہ‘‘۔
3. لاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا
’’جو تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں‘‘۔
(النسائ : 94)
4. وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ
’’جب (اے محبوب) تمہارے حضور وہ حاضر ہوں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے فرمائو، تم پر سلام‘‘۔
(الانعام : 54)
5. سَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى
(النمل : 59)
’’سلام اس کے چُنے ہوئے بندوں پر‘‘۔
کہاں تک نقل کروں، قرآن و سنت میں جابجا انبیاء و غیر انبیاء اہل ایمان پر سلام کا لفظ یا اس کا مترادف بولا گیا ہے۔
صلاۃ و سلام کی لغوی تحقیق :
آئیے ہم ان الفاظ کو لغوی اعتبار سے عربی لغت میں دیکھتے ہیں کہ ان کے کیا معنی بیان ہو ئے ہیں ،سلام کے لغوی معنی ہیں سلامتی ،اور صلاۃ کے معنی میں دعا ،چنانچہ مشہور ومتداول عربی لغت قاموس جلد ۴ ،صفحہ ۲۱۳طبع مصر میں
والصلاۃ الدعا ء والرحمۃ والاستغفار حسن الثنا ء من اللہ عزوجل علی رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم وعبادۃ فیھا رکوع وسجود
’’صلاۃ سے مراد دعاء، رحمت،استغفار اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ کی اچھی تعریف ہے‘‘
مصباح المنیر جلداول ۳۲۶طبع بولاق مصر میں ہے
والصلاۃ قیل اصلھا فی اللغۃ الدعاء ۔۔۔وقیل الصلٰوۃ فی اللغۃ مشترکۃ بین الدعا ء والتعظیم والرحمۃ و البرکۃ ‘‘
لغت میں لفظ ’’صلاۃ ‘‘ مشترک ہے اس کے معنی دعا ، تعظیم رحمت اور برکت کے ہیں
اسی طرح مختار الصحاح صفحہ ۳۳۳طبع بیروت میں لکھا ہے
والسلام السلامۃ
اسی طرح کتب لغت میں سے مغرب جلد اول صفحہ ۲۹۳ مطبوعہ حیدرآباد دکن میں بھی ہے ۔
لہٰذا صلاوسلام لغوی اعتبار سے بھی انبیا علیہم السلام کے علاوہ دیگر شخصیات پر بالا ستقال یا با لتبع کہنے کا جواز ثابت ہو تا ہے کیونکہ ان دونوں کے جو معنی بیان ہو ئے ہیں وہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں ۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ :
یہ اہل سنت کے مشاہیر علماء میں ہیں، انہوں نے اپنے فتوی میں ائمہ اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین اسماء گرامی کے ساتھ ’’علیہ السلام ‘‘ کہنا جائز قرار دیا ہے یہاں سوال وجواب دونوں کو من و عن اردو ترجمہ کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے تا کہ ہر قسم کے شکوک وشبہات کا قلع و قمع ہو جا ئے ۔
سوال :
تحفہ اثنا عشریہ میں صلاۃ سلام یعنی درودوسلام با لا ستقلال بارہ اماموں کے حق میں لکھا ہے حالانکہ یہ امر اہل سنت نے ایسی مشابہت سے پر ہیز کرنا اپنے لیے لازم جا نا ہے تو اس امر کے جواز کے لیے سند اہلسنت کی کتب معتبرہ سے بیان کر نا چاہیے ۔
جواب :
تحفہ اثنا عشریہ میں کسی جگہ صلاۃ بالا ستقلال غیر انبیاء کے حق میں نہیں لکھا گیا البتہ لفظ ’’علیہ السلام ‘‘کا حضرت امیر المومنین اور حضرت سیدۃ النسا ء جناب حسنین ودیگر ائمہ کے حق میں مذکورہ ہے اور اہل سنت کا مذہب یہی ہے کہ صلاۃ بالا ستقلال غیر انبیاء کے حق میں درست نہیں اور لفظ سلام کا غیر انبیاء کی شان میں کہہ سکتے ہیں اس کی سند یہ ہے کہ اہل سنت کی کتاب قدیمہ حدیث میں علیٰ الخصوص ابوداؤد ،صحیح بخاری میں حضرت علی وحضرات حسنین و حضرت فاطمہ وحضرت عباس کے ذکر کے ساتھ لفظ ’’علیہ السلام ‘‘ کامذکورہ ہے البتہ بعض علمأ ماوراء النہر نے شیعہ کی مشابہت کے لحا ظ سے اس کومنع لکھا ہے لیکن فی الواقع مشابہت بدون کی امر خیر میں منع ،نہیں اور یہ بھی ثابت ہے کہ پہلی کتا ب اصول حنفیہ کی ’’شاشی‘‘ ہے اس میں نفس خطبہ میں بعد حمد وصلاۃ کے لکھا ہے ’’والسلام علی ابی حنیفہ واحبابہ‘‘ یعنی سلام نازل ہوا بو حنیفہ پر اور آپ کے احباب پر اور ظاہر ہے کہ مرتبہ حضرا ت موصوفین کا جن کا نام نامی اور اوپر مذکور ہوا ہے حضرت امام اعظم کے مرتبہ سے کم نہیں تو اس سے معلوم ہو اکہ اہل سنت کے نزدیک بھی لفظ سلام کا اطلاق ان بزرگوں کی شان میں بہتر ہے اور حدیث شریف سے بھی ثابت ہے کہ لفظ ’’علیہ السلام ‘‘ کا غیر انبیاء کی شان میں بھی’’ علیہ السلام‘‘ کہنا شرعاًثابت ہے۔
(فتاویٰ عزیزی مترجم صفحہ ۲۳۴،۲۳۵ مطبوعہ فتاوی عزیزی فارسی جلداول صفحہ ۸۸،۸۹مطبع مجتبائی دہلی۱۳۱۱ھ )
نوٹ_ فتاویٰ عزیزیہ ‘‘ فارسی ۱۳۱۱ھ کے بعد والے تمام مطبوعہ نسخوں میں خائن و بددیانت ناشرین نے مندرجہ بالا فتویٰ کو مع سوال و جواب حذف کر دیا ہے آج کل جو فارسی مطبوعہ عکسی نسخہ متداول ہے یہ محرف ہے ۔البتہ کراچی سے شائع ہو نے والے اردو ترجمہ میں فتویٰ موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی طبع کے نسخے کا ترجمہ کیاگیا ہے ۔
ائمہ کرام و محدثین کے نذدیک غیر انبیاء کو علیہ السلام لکھنا :-
ائمہ حدیث اور اکابرین اہل سنت کے ہاں یہی طریقہ رائج رہا ہے چنانچہ صحیح بخاری ،صحیح مسلم اورسنن ابی داؤد وغیر ہ کتب احادیث کے قلمی اور قدیم مطبوعہ نسخوں میں بہت سے مقامات پر حضرت اہل بیت کے اسماء مبارکہ کے ساتھ ’’علیہ السلام‘‘ لکھا ہوا موجود ہے اور ان کی مشہور شروحات مثلاً فتح الباری ،عمدۃ القاری وغیرہ میں بھی اسی طرح لکھا ہوا ملتا ہے لیکن ان ہی کتب کے بعض مطبوعہ جدید نسخے بددیانت ناشرین کی تحریف کا نشانہ بن گئے اور علیہ السلام کی بجائے ’’رضی اللہ عنہ ‘‘ لکھاگیا ہے شاید اسی بنا پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی کو بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہی پڑا ہے چنانچہ لکھتے ہیں ’’متقدمین میں اہل بیت رسول(ع) اور ازواج پر سلام کہنا متعارف تھا اور مشائخ اہل سنت کی پرانی کتابوں میں اہل بیت(ع) پر سلام لکھا ہوا پا یا جاتا ہے اور متاخرین میں اس کا چھوڑ دینا مروج ہو گیا ہے ‘‘۔
(اشعۃ اللمعات جلد اول صفحہ ۲۳۴ نول کشور لکھنو)
چنانچہ خود محدث دہلوی نے اپنی تمام تالیفات میں جہاں کہیں ائمہ اہل بیت(ع) کا ذکر کیا ہے وہاں ان کے ساتھ ’’علیہ السلام ‘‘ استعمال کیا ہے جیسا کہ اپنی کتاب ’’ما ثبت بالسنہ‘‘ طبع لاہور میںیوں عنوان قائم کیا ہے
ذکر مقتل سیدنا الامام الشیھد السعید سبط رسول اللہ الامام ابی عبد اللہ الحسین سلام اللہ علیہ وعلیٰ اباۂ الکرام
اپنی ایک دوسری تصنیف میں لکھتے ہیں :
درموضع قبور امام حسن وزین العابدین ومحمد باقر وجعفرصادق سلام اللہ علیھم اجمعین
مدارج النبوۃ جلد ۲صفحہ ۵۴۵ طبع نول کشور
(الف) صحیح بخاری مع فتح الباری المطبعۃ الخیر یہ مصر جلد ششم کے صفحات ۲۶،۱۲۲،۱۳۱،۱۳۲،۱۷۷
پر فاطمہ علیہا السلام لکھا ہے ۔
ب) جلد ششم صفحہ ۱۱۹میں ’’الحسین بن علی علیہا السلام ‘‘تحریر ہے ۔
(ج) جلد ششم صفحہ ۳۶۴پر ’’الحسن علی علیہا السلام ہے ۔
(د) جلد ہفتم کے صفحات ۵۳،۵۶،۱۱۴،۲۳۶،۳۴۵اور ۳۵۵میں ’’فاطمۃ علیہا السلام ‘‘موجود ہے۔
(ھ) جلد نہم صفحہ ۱۰۹ پر ’’علی بن حسین علیہا السلام ‘‘ ۲۷۴،۴۰۷ میں ’’فاطمۃ علیہا السلام ‘‘تحریر ہے ۔
(د) جلد سیزدہم ،صفحہ ۳۴۷ پر’’حسین بن علی علیہاالسلام ‘‘لکھا ہے ۔
اس کے علاوہ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد ہفتم صفحہ ۲۳۷مطبوعہ قسطنطنیہ میں ’’فاطمۃ علیہاالسلام ‘‘ہے ارشاد الباری شرح صحیح البخاری جلداول صفحہ ۹۷ میں بھی یہی کچھ لکھا ہے ۔
(۱)علامہ فخر الدین الرازی رحمتہ اللہ علیہ نے تفسیر کبیر جلد ۲،صفحہ ۷۰۰مطبوعہ دارالطباعۃ العامرہ قسطنطنیہ میں لکھا
ھذہ الا ےۃ دالۃ علیٰ ان الحسن والحسین علیھما السلام کانا ابنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(۲)ایضاً جلد ہشتم صفحہ ۳۲۲ پر تحریر ہے
ھذہ ال آیات نزلت فی حق علی بن ابی طالب علیہ السلام ۔۔۔فی کتاب البیسط انھا نزلت فی حق علیہ السلام ۔۔۔ان الحسن والحسین علیھما السلام مرضا ۔۔۔اخذ علی علیہ السلام بید الحسن والحسین ۔۔ ۔ولا ینکر دخول علی ابن ابی طالب علیہ السلام فیہ ۔۔۔الذین یقولون ھذہ الا ےۃ مختصۃ بعلی علیہ السلام
اسی طر ح قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی نے اپنی تفسیر مظہری جلد ہفتم صفحہ ۴۱۲ پر لکھا .
اور یہ مضمون بھی پڑھیں : https://www.facebook.com/DrFaizChishti/posts/1407087232715364
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔