Pages

Thursday, 15 June 2017

علم غیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم (حصّہ دوم)

علم غیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم (حصّہ دوم)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلّم کامدینے سے مقام موتہ میں جنگ ملاحظہ فرمانا
غزوہ موتہ ۸ ؁ھ آٹھ سن ہجری میں ہوا اس غزوہ میں مسلمان تین ہزار تھے ھرقلکی رومی فوج ایک لاکھ تھی نبی کریمﷺ نے مجاہدین کے لشکر پر حضرت زید بن حارثرضی اﷲ تعالی عنہ کو امیر بنایا اور فرمایا اگر وہ شہید ہوجائیں توحضرت جعفربن ابیطالب چھنڈا لیں گے اگر وہ شہید ہوجائیں تو حضرت عبداﷲ بن رواحہ جھنڈا لیں گے جبرومیوں کاایک لاکھ کالشکر مسلمانوں کے مد مقابل ہوا تو سخت خونریز جنگ ہوئی حضرتزید شہید ہوگئے حضرت جعفر بن ابی طالب نے جھنڈ ا لیا حضرت جعفر جھنڈا لے کر جوشجہاد میں گھوڑے سے اتر پڑے اس کی کوچیں کاٹ دیں اور کفار سے لڑنا شروع کردیا یہاںتک کہ آپ کا ایک ہاتھ کٹ گیا تو جھنڈا دوسرے ہاتھ میں لیا وہ بھی کٹ گیا تو کٹےہوئے ہاتھوں کو سمیٹ کر جھنڈا دبائے رہے اسی حال میں ایک رومی نے کمر پر تلوارماری کہ آپ کے جسم کے دو ٹکرے ہوگئے اور آپ شہید ہوگئے پھر حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے جھنڈا لیایہ بھی شہید ہوگئے تو حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہنے جھنڈا لیا اس وقت مسلمان منتشر ہوچکے تھے انھوں نے بہت بہادری اور تدبر سے کاملے کر مسلمانوں کو اکٹھا کردیا ترتیب بدل دی میمنہ (دائیں جانب والوں ) کو میسرہ(بائیں جانب والوں ) پر اور میسرہ کو میمنہ پر کردیا اس سے رومیوںنے یہ سمجھا کہ مسلمانوں کے لیئے مدد آچکی ہے مسلمانوں کو اکٹھا کرکے حضرت خالد رضی اﷲ تعالٰی عنہنے پوری طاقت سے حملہ کردیاحضرت خالد اس جوش سے لڑے کہ اس دن ان کے ہاتھ سے نو۹تلواریں ٹوٹیں جس کے نتیجے میں رومیوں کو میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑا ۔ حضور اقدس ؐکے سامنے میدانِ جنگ کا پورا نقشہ تھا اور آپ ؐ مدینے میں تشریف فرماتھے حضرت زیدحضرت جعفر حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالٰی عنھم کی یکے بعد دیگرے شھادت کی خبریں دیتے رہے میدان جنگ آپ ﷺ کے پیش نظر تھا مدینے میں صحابہ کرام کو فتح کی غیبی خبر دیتے ہوئے فرمایا ۔ پھر اﷲ کی تلواروں میں ایک تلوار نے جھنڈا لیا اﷲ عزوجل نے ان کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائی ۔
بخاری شریف کے روایت کردہ الفاظ ملاحظہ ہوں : عن انس ان النبی ؐ نعی زیدا وجعفرا وابن رواحۃللناس قبل ان یاتیھم خبرھم فقال اخذ الرأیۃ زید فاصیب ثم اخذ جعفر فاصیب ثم اخذابن رواحۃ فاصیب وعیناہ تزر فان حتی ا خذ الرأیۃ سیف من سیوف اﷲ حتی فتح اﷲعلیھم،،
ترجمہ :حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبیکریم ؐ نے حضرت زید رضی اﷲ تعالٰی عنہ، جعفر رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور ابن رواحہ رضی اﷲ تعالی عنہ کی موت کی خبر آنے سے پہلے لوگوںکو ان کی موت کی خبر دی اس طرح کے آپؐ فرمارہے تھے جھنڈازید نے پکڑا ور وہ شہید ہو گئے پھر جعفر نے لے لیا ہے او ر وہبھی شہید ہو گئے پھر ابن رواحہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے لیا اور وہ بھی شہید ہو گئےاور آپ ؐ کی آنکھیں اشک بہا رہی تھیں(پھر فرمایا)حتی کہ جھنڈا اﷲ کی تلواروں میںسے ایک تلوار نے لیا (یعنی حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نی) حتی کہ اﷲ(عزوجل) نے ان (کافروں) پر (مسلمانوں کو ) فتح دی۔( الصحیح البخاری ،رقمالحدیث: ۲۶۲۴ ،کتاب المغازی ،باب غزوہ موتہ من ارض الشام ،الجلد الثانی، الصفحہ :۱۱۶،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
مفسر شہیر شیخ الحدیث والتفسیر مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:مقام موتہ میں یہ حضرات یکے بعد دیگر شہیدہورہے تھے اور یکے بعد دیگرے جھنڈا لے رہے تھے اور یہاں حضور ؐ مسجد نبوی الشریفعلی صاحبھا الصلوۃ والسلام میں تشریف فرماہوکر ان تمام واقعات کی خبر دے رہے تھےیہ ہے حضور ﷺ کاعلم غیب بلکہ حاضر ناظر ہونا آج دور بین کے ذریعے انسان دور کی چیزدیکھ لیتاہے تو نبوت کی روحانی دور بین کا کیاکہنا ۔(مراۃ المناجیح جلد ۸ صفحہ ۷۸۱)
قبر کے غیبی احوال کی خبر : عن ابن عباس قال مرّ النبیُّ ؐ بقبرین فقا ل انھما لیعذبان ومایعذبان فی کبیرٍ امااحدُ ھما فکان لایستتر من البول واما الاخرُ فکان یمشیبالنمیمۃ ثم اخذ جریدۃ رطبۃ فشقَّھا نصفین فغرز فی کل قبرٍ واحدۃً قالوا یارسول اﷲ ﷺ لم فعلت ھذا قال لعلہ یخفف عنھمامالم ییبسا،،
ترجمہ :حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنھما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گذرے توفرمایا کہ انھیں عذاب ہورہا ہی۔اور کسی کبیرہ گناہ کے باعث نہیں ان میں سے ایک توپیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلیاں کھاتا پھرتاتھا پھر ایک سبزٹہنی لی اور اس کے دو حصے کرکے ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا لوگ عرض گزار ہوئے کہ یارسول اﷲ ﷺ ! ایسا کیوں کیا ؟ فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں تو ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی۔ (الصحیح البخاری ،کتابالوضوء باب حدّثنامحمد، رقم الحدیث: ۸۱۲، صفحہ:۵۳،الجلدالاول،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل نکلتے ہیں
(1)حضور ﷺ نے االلہ تعالی کی طرف سے دیئے گئے علم غیب کے ذریعے یہ جان لیا کہ ان پر عذابہورہا ہے۔
(2)اور یہ بھی جان لیا کہ کسبناء پر ہورہا ہی۔
(3) نیز یہجان لیاکہ ان شاخوں کے رکھنے سے عذاب میں تخفیف ہوگی۔
(4) اور یہبھی جان لیاکہ کب تک ہوگی اس حدیث میںاکھٹی چار علم غیب کی خبر یں ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم پیچھے اور آگے سے یکساں دیکھتے ہیں                                     
عن انسابن مالک قال صلٰی بنا النبی ﷺ صلوۃً ثم رقی المنبر فقال فی الصلوٰۃ وفی الرکوعانی لا راکم من ورآءِ ی کما اراکم،، 
ترجمہ : حضرت انس بن مالک( رضی اﷲ تعالٰی عنہ ) نے فرمایا۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی پھر منبر پر جلوہافروز ہوکر فرمایا میں تمھیں پیچے  سے بھی اسیطرح دیکھتا ہوں جیسے سامنے سے تمہیں دیکھتا ہوں۔( الصحیح البخاری رقم الحدیث:۹۱۴ ،کتاب الصلوۃ ،باب عظۃ الامام الناس فی اتمام الصلوۃوذکرالقبلۃ، الجلد الاول ،صفحہ: ۹۵، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم دل کے خشوع کوبھی جانتے ہیں ۔  
عن ابیھریرۃ ان رسول اﷲ ﷺ قال ھل ترون قبلتی ھٰھُنا ؟ فواﷲِ مایخفٰی علی خشو عکم ولارکوعکم انی لاراکم من ورآءِ ظھری،،
ترجمہ :حضرت ابو ھریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :تم کیا یہی دیکھتے ہوکہ میرامنہ اِدھر ہی؟ اﷲ کی قسم نہ مجھپر تمہاراخشوع وخضوع پوشیدہ ہے اور نہ ہی تمہارے رکوع میں تمھیں پیٹھ کے پیچھے سےبھی دیکھتا ہوں ،( الصحیح البخاری ،کتاب الصلوۃ بابالخشوع فی الصلوۃ،قم الحدیث: ۱۴۷،الجلد الاول،صفحہ:۹۵،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
نبی کریم ﷺ کافرمانا کہ مجھ پر تمہاراخشوع ورکوع پوشیدہ نہیں اس میں نبی کریم ﷺ نے اپنی غیبی وسعت نظری کا حال بیان فرمایا ہے کیونکہ رکوع تو ظاہری اور جسمانی فعل کا نام ہے جو دوسروں کو بھی نظر آتاہے اور اس حدیث مبارکہ میں نگاہ مصطفٰی ﷺ کے دو معجزےبیان فرمائے گئے ہیں کہ آپ ﷺ پیٹھ پیچھے سے صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے رکوع بھی ملاحظہ فرمالیتے ہیں اورآنکھ کی حس کے بغیر پیچھے سے دیکھنا یقینا علم غیب ہے اوردوسرے یہ کہ ان کے دلوں کے خشوع وخضوع والی کیفیت بھی نبی کریم ﷺ کی نگاہوں سےپوشیدہ نہیں اور یہ بھی بفضل اللہ تعالی علم غیب ہے ۔
اعلحضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خا ن علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ’’اللہ عزوجل کی عطا سے علوم غیب غیرمحیط کاانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کوملنابھی قطعاًحق ہی،اورامام قسطلانی علیہ الرحمہ مواہب اللدنیہ شریف میں لکھتے ہیں کہ’’النبوۃ التی ہی الاطلاع علی الغیب‘‘یعنی نبوت کے معنی ہییہ ہیں کہ علم غیب جاننا‘‘۔اسی میں نبی کریم ﷺ کے اسم مبارک نبی کے بیان میںفرمایا’’النبوأۃ مأخوذۃ من النباء وہوالخبرای ان اللہ تعالیٰ اطلعہ علی غیبہ‘‘’’یعنی،’’حضورؐکونبی اس لئے کہاجاتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورکوعلم غیب عطافرمایا‘‘۔اسی میں ہے ’’قداشتہروانتشرامرہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بین اصحابہ بالاطلاععلی الغیب‘‘یعنی ،’’بیشک صحابہ کرام علیہم الرضوان میں یہ بات مشہورو معروف تھی کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو غیبوں کاعلم ہی‘‘۔اسی کی شرح زرقانی میں ہےکہ’’اصحابہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جازمون باطلاعہ علی الغیب‘‘یعنی،’’صحابہ کرام یقین کے ساتھ حکم لگاتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوغیب کاعلم ہی‘‘۔
نیز ملا علی قاری علیہ الرحمہ کے حوالے لکھتےہیں کہ’’الناس ینقسم الیٰ فطن یدرک الغائب کالمشاہد وہم الانبیاء والی من الغائبعلیہم متابعۃ الحس ومتابعۃ الوہم فقط وہم اکثرالخلائق فلابدلہم من معلم یکشف لہم المغیبات وماہوالاالنبی المبعوث لہذاالامر‘‘’’یعنی،’’ انسان دوقسم کے ہوتے ہیں ایکوہ زیرک کہ غیب کومشاہدہ کی طرح جانتے ہیں اوریہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ہیں،دوسرے وہ جن پرصرف حس ووہم کی پیروی غالب ہے اکثرمخلوق اسی قسم کی ہے ۔توانکوایک بتانے والے کی ضرورت ہے جوان پرغیبوں کوکھول دے اوروہ بتانے والا نہیں مگرنبی کہ خوداس کام کے لئے بھیجاجاتا ہے‘‘۔
تفسیرامامطبری اورتفسیر درمنثور میں بروایت ابوبکربن ابی شیبہ استاذامام بخاری ومسلم وغیرہ ائمہ محدثین سیدناامام مجاہد تلمیذ خاص حضر ت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمسے ہے ’’انہ قال فی قولہ تعالیٰ ولئن سألتہم لیقولن انماکنانخوض ونلعب قال رجل منالمنافقین یحدثنا محمدان ناقۃ فلان بوادی کذاوکذاومایدریہ بالغیب‘‘                        یعنی انھوں نے کہا اللہ کے فرمان’’ ولئن سألتہم لیقولن انماکنانخوض ونلعب ‘‘کی تفسیرمیں کہ منافقین میں ایک شخص نے کہاکہ محمد ﷺ ہم سے بیان کرتے ہیں کہ فلاں کی اونٹنی فلاں فلاں وادی میں ہے بھلا وہ غیب کی باتیں کیاجانیں‘‘یعنی کسی کی اونٹنی گم ہوگئی تھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ’’ وہ فلاں جنگل میں ہی‘‘ایک منافق بولا’’محمد غیب کیاجانیں‘‘اسی پراللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری کہ ان سے فرمادیجئے کہ ’’اللہ اوراسکے رسول اوراس کی آیتوں سے ٹھٹھ کرتے ہو،بہانے نہ بناؤ،تم کافرہوچکے ایمان کے بعد‘‘۔حضرت ملاحظہ فرمائیں کہ یہ آیت مخالفین پر کیسی آفت ہی‘‘۔(ملخص از:فتاویرضویہ،ج:۹۲،ص:۸۳۴۔۲۴۴،رضافاؤنڈیشن لاہور)
ان مذکورہ بالاحوالوں سےمعلوم ہواکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو بارگاہ عزوجل سے علم غیب حاصل ہے ،اختصار کے ساتھ یہ دلا ئل بیان کئے ان شاء اللہ ماننے والے کے لئے یہی کا فی ہیں ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔