Pages

Monday, 5 June 2017

بدعت کی حقیت وہ جنہیں بدعت کے دورے پڑتے ہیں ان کو جواب

بدعت کی حقیت وہ جنہیں بدعت کے دورے پڑتے ہیں ان کو جواب : بد عت کا لغوی معنی : بد عت‘عر بی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہو تا ہے ’کسی سابقہ نمونہ کے بغیر کو ئی نئی چیز ایجاد کر نا۔چنانچہ عر بی لغت کی مشہور کتاب’المنجد‘میں بدعت کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے’اختر عہ وصنعہ لا علی مثال‘یعنی کسی سابقہ مثال کے بغیر کو ئی نئی چیز بنا نا اور ایجاد کر نا ۔

بدعت کا شرعی معنیٰ : شر یعت میں بد عت ہر اس کام کو کہتے ہیں جو حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں نہ ہوا ،چنا نچہ اما م یحییٰ بن شر ف نووی بد عت کی تعریف کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ’البدعۃ ھی احداث ما لم یکن فی عھد رسول اللہ ﷺ‘بدعت ایسے نئے کام کا ایجاد کر نا ہے جو عہد رسالت مآب ﷺ میں نہ ہو ۔(نووی ،تہذیب الاسماء واللغت۔۳:۲۲۔)
کچھ لوگ بدعت کی تعریف اس طر ح سے کرتے ہیں کہ:وہ کام جو حضور ﷺاور خلفائے راشدین کے زمانے میں نہ ہوا وہ بدعت ہے۔حالانکہ یہ تعریف خود ساختہ ہے جسے کسی عالم نے نہیں بیان کیا ۔اور صحیح حدیث کی روشنی میں بالکل غلط ہے۔کیو نکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں تراویح کے نمازکی با ضابطہ جماعت قائم کرنے کے بعد ارشاد فر مایاکہ:یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔
اب آپ خود ہی غور کریں کہ جو کام خلفائے راشدین کے زمانے کے بعد ہو وہ بدعت ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو کیسے بدعت کہا جو خود ان کے زمانے میں ہوا؟کیا نعوذباللہ وہ بدعت کی تعریف نہیں جانتے تھے؟یقینا ایسا نہیں تو معلوم ہوگیا کہ یہ تعریف بالکل صحیح نہیں۔صحیح وہی ہے جو اوپرامام نووی کے حوالے سے بیان کیا گیا۔

ہر بدعت بری نہیں ہوتی : ہر بدعت بری اور گمراہی نہیں ہو تی،کیو نکہ اگر ہر بدعت بری اور گمراہی ہو تی تو صحا بئہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کو ئی ایسا کام نہیں کرتے جو رسو ل اللہ ﷺ کے زمانے میں نہ ہوا تھا ،مگر بد لتے حالات کے تقاضے کے مطابق بہت سارے ایسے کام جوحضور ﷺ کے زمانے میں نہ ہوا تھا صحابئہ کرام رضی اللہ تعالی علیھم اجمعین نے کیا اور اسے اچھا بھی سمجھا ،یہاں پر مختصراََ چند مثالیں حاضر خدمت ہیں۔
مثال نمبر 1 : سرکار مدینہ راحت قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تراویح کی نماز با قاعدہ رمضان المبارک میں ہر رات کو نہیں ہوتی تھی ۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے با قاعدہ تراویح کی جماعت قائم کی ۔اور جب یہ جماعت قائم ہو گئی تو آپ نے ارشاد فرمایاــ’’نعم البدعتہ ھٰذہ‘‘یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔(صحیح بخاری کتاب صلاۃالتراویح باب فضل من قام رمضان حدیث۱۹۰۶)
غور کریں !اگرہر بدعت بری اور گمراہی ہوتی تو حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ’’بدعت‘‘ کے ساتھ ’’اچھی ‘‘کا لفظ کبھی استعمال نہ فرماتے مگر آپ نے ’’بدعت‘‘کے ساتھ’’ اچھی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ۔معلوم ہوا کہ ہر بدعت بری اور گمراہی نہیں ہوتی ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مثال نمبر 2 : حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے زمانہء مبارک میں جمعہ کے د ن صرف دو اذان ہوتی تھی۔ پہلی اذان اس وقت ہوتی جب امام منبر پر بیٹھ جاتے تھے او ر دوسری اذان (یعنی اقامت)نماز کے شروع ہونے سے پہلے ہوتی تھی۔ مگر جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور آیا توآپ نے بدلتے حالات کے تقاضے کے مطابق ایک ’’اذان ‘‘کااضافہ کیا اور مقام ’’زورائ‘‘پر دینے کا حکم دیا ۔اس طرح سے جمعہ کے دن بشمول’’اقامت‘‘کے تین اذانیں ہو گئیں(صحیح بخاری،کتاب الجمعۃ،باب الاذان یوم الجمعۃ، حدیث: ۹۱۲)
سو چنے کی بات ہے ۔اگر ہر بد عت بری اور گمراہی ہو تی تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ وہ کا م کیسے کرتے جو حضور ﷺ کے زمانے میں نہ ہوا تھا ۔مزید یہ کہ اس وقت کثیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین باحیات تھے کسی نے بھی اعتراض نہ کیا کہ آپ ایک ایسا کام جو حضور ﷺ ،سیدنا ابوبکراور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں نہ ہوا ۔اسے آپ نے کیوں کیا؟بلکہ تمام صحابہ و تا بعین نے اسے قبول کیا اور آج تک تمام مسلمانون کا اسی پر عمل ہے۔اب آپ خود ہی فیصلہ کریں !کیا وہ تمام صحابہ کرام اور تابعین عظام اور آج تک کے تمام مسلمان، اس پر عمل کرنے کی وجہ سے گمراہ اور جہنمی ہیں؟ یا وہ جہنمی ہیںجو صحابہ اور عام مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر اپنا الگ راستہ بنا تا ہے؟ارشاد باری تعالیٰ ہے:اور جو مسلمانوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے کو جائے تو اُس کو ہم پھیر دیں گے،جدھر وہ پھرا۔اور اُسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ کیا ہی بُری جگہ ہے پھر نے کی۔(سورہ نسائ،آیت:۱۱۵)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مثال نمبر 3 : سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور کے حالات کے مد نظر جب سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو قرآن شریف باقاعدہ ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا ’کیف نفعل شئیا لم یفعلہ رسول اللہ ﷺ ؟ہم کیسے وہ کام کریں جسے حضور ﷺ نے نہ کیا؟ تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ’ھذا واللہ خیر ‘قسم بخدا یہ بہت اچھا کام ہے۔(صحیح بخاری ،کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن ،حدیث:۴۹۸۶)
مذکورہ بالا حدیث شریف کو دوبارہ پڑھیں اور سوچیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک ایسے کام کے بارے میں جسے حضور ﷺ نے نہ کیا ،قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یہ غلط نہیں بلکہ اچھا کام ہے اور صرف اچھا ہی نہیں بلکہ بہت اچھا کام ہے ۔مگر کچھ لوگ اپنی جہالت  کی بنیاد پر ہر بدعت کو گمراہی سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالی ہی ہدایت نصیب کر نے والاہے۔

بدعت کے دورے میں مبتلا لوگ کہتے ہیں : حدیث شریف میں ہے ’کل بدعۃ ضلالۃو کل ضلالۃ فی النار‘کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔اس سے تو ثابت ہواکہ ہر بدعت گمر اہی ہے۔
اس کا جواب : اس حدیث شریف میں بدعت سے مراد ’بد عت سئیہ ‘ہے یعنی ’بری بدعت‘اور اس حدیث شریف کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہر وہ نیا کام جو دین کے خلاف ہوشر یعت کے مزاج کے مخالف ہو وہ سب کے سب غلط اور گمراہی ہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر نیا کام چاہے وہ اچھا ہو یا برا سب کے سب غلط اورگمراہی ہے۔کیو نکہ اگر ایسا ہی ہو تا تو مدرسے بنانا ،مساجدکو مزین کرنا ،قرآن حکیم پر اعراب لگانا،پورے رمضان المبارک میں تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنا،جمعہ کے دن اذان اول دینا اور اس کے علاوہ بے شمار باتیں گمراہی ہو تیں۔ حالانکہ ایسا کوئی نہیں مانتا ،لہذا معلوم ہوا کہ ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ صرف وہ بدعتیں گمراہی ہیں جو دین و شریعت کے مخالف ہیں ۔

مسلمانوں کو بدعتی کہنے والے کہتے ہیں : کیا بدعت کا حسنہ (یعنی اچھی)اور سئیہ(یعنی بری)ہوناحدیث شریف سے ثابت ہے؟
اس کا جواب : بدعت کا اچھی اور بری ہونا حدیث شریف سے ثابت ہے۔حضرت جر یر رضی اللہ تعالی عنہ سے مر وی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’من سنَّ فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجر ھا و اجر من عمل بھا بعدہ من غیر ان ینقص من اجورھم شئی و من سن سنۃ سئیۃ کان علیہ وزرھا و وزر من عمل بھا من بعدہ من غیر ان ینقص من اوزارھم شئی‘‘جس نے اسلام میںکسی اچھے طر یقے کو رائج کیا تو اس کو اپنے رائج کر نے کا ثواب ملے گا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی ثواب ملے گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کر تے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کو ئی کمی نہ ہو گی،اور جس شخص نے اسلام میں کو ئی برا طریقہ رائج کیا تو اس شخص کو اس کے رائج کر نے کا گناہ ہو گا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی گناہ ہو گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرتے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی بھی نہ ہو گی۔(صحیح مسلم،کتاب الزکوۃ ،باب الحث علی الصدقہ ،حدیث:۱۰۱۷)
اس حدیث مبارکہ سے روز روشن کی طرح ظاہر ہوگیا کہ نئے کام کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ برے اورحضور ﷺ نے دونوں کا حکم صاف صاف لفظوں میں بتا دیا ،اور اسی حدیث شریف کو مد نظر رکھتے ہوئے امام غزالی،امام نووی،امام بدرالدین عینی،علامہ ابن حجر عسقلانی،میر سید شریف جر جانی،علامہ ابن اثیر جزری،علامہ ابو اسحاق شاطبی،شیخ عبد الحق محدث دہلوی وغیرہ نے بدعت کی تقسیم کی۔ اور سب نے یہ تسلیم کیا کہ بعض بدعتیں اچھی ہو تیں ہیں اور بعض بری(یہاں پر سب کے اقوال الگ الگ پیش کرنے کی گنجائش نہیں تفصیل کے لئے مطالعہ کیجئے ’شرح صحیح مسلم ،مصنفہ میرے استاد بھائی علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ ،جلد نمبر ۲،صفحہ ۵۳۹تا ۵۶۴)
ان تماتر حقیقتوں سے آنکھیں بند کر کے اگر کو ئی صرف یہیں رٹتا رہے کہ کوئی بھی بدعت اچھی نہیں ہوتی(یعنی کوئی بھی نیا کام اچھا نہیں ہوتا)بلکہ سب غلط اور گمراہی ہے۔ تو یقینا ایسے شخص کو حضور ﷺکے ارشادات،صحابہ کرام کے افکار و نظریات اور علمائے کرام کے اقوال سے کو ئی مطلب نہیں وہ فقط اپنے نفس کی پیر وی کر نے والا ہے ایسے شخص سے مسلمانوں کو دور رہنے ہی میں بھلائی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔