Pages

Wednesday, 14 June 2017

اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ملحدین کے اعتراض کا جواب

اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ملحدین کے اعتراض کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ملحدین کا اعتراض : اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے ،مسلمانوں نے طاقت وقوت اور اسلحہ کے زور پر لوگوں کو اسلام قبول کر نے پر مجبور کیا اور کمزور لوگ ان کے سامنے بے بس ہو کر مجبوری میں کلمہ پڑ ھ کر مسلمان ہوگئے۔

اس اعتراض کا جواب : اسلامی تاریخ کاہر ادنیٰ سے ادنیٰ طالب علم یہ بخوبی جانتا ہے کہ جب ظلمت کدہ دہر میں محسن انسانیت ،حضور رحمت عالم ﷺ نے شمع ہدایت جلا یا اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو چند نفوس قدسیہ کے علاوہ پورا عرب بالخصوص کفارانِ مکہ چراغ پا ہو گئے ،پھر ان لوگوں نے دعوت حق کے قبول کر نے والوں پر ظلم وستم کا ایسا پہاڑ توڑا جس کے تصور ہی سے کلیجہ کانپ جاتا ہے،آنکھیں پتھرا جاتی ہیں ،دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے۔

اُس زمانے میں مسلمان ہو نے کا مطلب ہی تھا کہ اپنے تن ،من،دھن سے دست کش ہو نے کے لئے تیار ہو جاؤ،ظالموں کا ہر شدید سے شدید تر ظلم وستم برداشت کر نے کے لئے آمادہ ہو جاؤ،پورے خاندان اور معاشرے کی مخالفت مول لینے کے لئے تیار ہوجاؤ،مگر مخالفتوں اور رکاوٹوں کے اس قدر ہجوم کے باوجود جوق در جوق لوگ اسلام قبول کرتے رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے نہایت کم عر صہ میں وہ نورِ حق جو فاران کی چوٹی سے تنہا جلوہ گر ہوا تھا چہار دانگ عالم کو اپنی نورانی کرنوں سے روشن و تابناک کر دیا۔

کیا دنیا کا بیوقوف سے بیوقوف تر انسان بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ ایک ایسا مذہب جس میں صداقت و حقانیت نہ تھی ،جس کو اپنانے میں کوئی بھلائی نہ تھی،جس کے پیروکاروں کے پاس کھانے کو کھانا اور رہنے کا ٹھکانہ نہ تھا ،اسباب وسائل کی قلت،اس کے ساتھ دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود انہوں نے دنیا کے تین بر اعظموں پر اپنی عظمتوں کا جھنڈا تلوار کے زور سے لہرا یا ہوگا؟ہر گز نہیں پھر یہ کہنا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے کس قدر مضحکہ خیز بات ہے۔

چلئے اس دور کی بات چھوڑئیے،ہندوستان کی تاریخ پر ہی ایک نظر ڈالئے۔سب لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں جس ذات با بر کات کی وجہ سے سب سے زیادہ اسلام کی اشاعت ہوئی وہ  عطائے رسول،فخر بتول،حضور خواجہ غر یب نواز علیہ الر حمہ کی ذات پاک ہے۔جب وہ ہندوستان تشریف لائے تو اس وقت ہندوستان میں جگہ جگہ ہندو راجاؤں کی حکومت وسلطنت تھی ۔مگر آپ کے ساتھ نہ کوئی فوجی طاقت تھی،نہ کوئی لشکر تھا ،ہاتھ میں تلوار تھی نہ اور کوئی جنگی سازو سامان تھا۔بس چند صوفی منش لوگوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا قافلہ تھا جن کے جھولے میں ،لوٹا،مسواک،سر مہ دانی،اور اس کے علاوہ کچھ ضروریات کی چیزیں تھیں،مگر دنیا نے دیکھا کہ بہت جلد لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے ان کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا ۔اب آپ  اپنے آپ سے سوال کریں کہ اُن لاکھوں لوگوں کے سروں پر کس نے تلوار رکھ کر اسلام لانے پر مجبور کیا تھا؟

چلئے اسے بھی چھوڑئیے۔امریکہ جو آج کے دور میں خاص اسلام مخالفوں کی سر زمین ہے اور جہاں رات و دن لوگوں کے دلوں میں اسلام سے نفرت بھری جاتی ہیں ۔اور جہاں پر اسلام قبول کرنا ایک نہایت ہی گھناونا جرم سمجھا جاتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۲ء سے ۲۰۱۲ء تک ۱۶/لاکھ لوگوں نے اسلام قبول کیا۔اور ابھی سب زیادہ تیزی سے اسلام قبول کرنے کا سلسلہ وہیں پر جاری ہے۔اب آپ خود سوچیں کہ اِن لوگوں کے سر پر امر یکہ میں کون تلوار چلاتا ہے جس کے سامنے یہ مجبور ہو کر تیزی کے ساتھ اسلام قبول کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ دنیا کے ہزاروں لوگ جو  عیسائی،یہودی ،ہندو،بدھ مت وغیرہ کے گھرانوں میں پیدا ہوئے اور دنیاوی اعتبار سے وہ کافی خوشحال تھے ،ان میں کوئی سائنس کے میدان کا بادشاہ تھا تو کوئی صحافت کے میدان کا شہسوار ،تو کوئی کھیل کی دنیا کا راجا تھا ۔ان لوگوں نے اسلام قبول کیا جسے ہر کوئی بخوبی جانتا ہے اور آج ان میں سے بہت سارے لوگ زندہ بھی ہیں ۔آخر ان لوگوں کو کس نے تلوار کے زور سے مجبور کیا؟

اگر ان سارے سوالوں کا جواب یہی ہے کہ”کسی نے نہیں بلکہ یہ ان کے دل کی آواز تھی جس پر انہوں اپنی مر ضی سے لبیک کہا” تو پھر یہ کہنا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے؟کس حد تک صحیح ہے اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں۔

اور ہاں!یہ بھی یاد رکھیں کہ اسلام نام ہی ہے اللہ ورسول پر دل سے ایمان لانے کا۔اور تلوار کے زور سے جسم جھکایا جا سکتا ہے دِل نہیں۔اور اگر کوئی مجبوری میں کلمہ پڑ ھتا ہے اور دِل سے نہیں مانتا تو وہ مسلمان ہے ہی نہیں۔اور قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ:لا اکراہ فی الدین۔دین میں زبر دستی نہیں۔اس لئے کسی مسلمان کا کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا درست ہی نہیں ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔