یزید کی بد کرداریاں و کفر یزید حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یزید کی شراب نوشی اور لہو و لعب
یزید کی شراب نوشی اورلہوولعب کی زندگی پر قدیم و جدید تمام مورخین متفق ہیں ۔یہ سب وہ نہیں جو یزید کی صرف برائیاں بیان کرتے ہیں ،اس کوایک مکروہ شخصیت قرار دیتے ہیں ۔بل کہ ان میں وہ بھی ہیں جو اس کی فصاحت و بلاغت اورشجاعت وفطانت کے مداح ہیں ۔ان میں سب سے مشہور ومعروف اورثقہ ومستند محدث و مورخ امام ذہبی (متوفیٰ ۷۴۸ھ ) ہیں ۔جن کی اسماء الرجال وتاریخ میں دسیوں تصانیف ہیں ان کی سب سے زیادہ مفصل کتاب سیر اعلام النبلاء ہے (طبعۃ مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت ،۲۵ مجلدات ،جلداخیر فہارس الاعلام )جو ان کی ایک انتہائی ضخیم تاریخ ’’تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام ‘‘(۸مجلدات ،طبعۃ ۱۹۸۸ءومابعدھا ،بیروت)کے بعد لکھی گئی ہے ۔اس میں یزید کے سوانح حیات پانچ صفحات میں ہیں (ج ۴،ص ۳۵۔۴۰)
وَكَانَ نَاصِبِيّاً فَظّاً غَلِيْظاً,جلْفاً, يتناول المسكر, ويفعل المنكر
وہ ناصبی ،سخت گیر ،کھرااوربدمزاج اکھڑتھا،شراب پیتااوربرے افعال کا ارتکاب کرتاتھا۔سیراعلام النبلاء الذہبی ،ج۴۔ص۳۷)
اوراس کے فوراًبعد دوسرے جملےمیں وہ کہتے ہیں
افْتَتَحَ دَوْلَتَهُ بِمَقْتَلِ الشَّهِيْدِ الحُسَيْنِ, وَاخْتَتَمَهَا بِوَاقِعَةِ الحَرَّةِ فَمَقَتَهُ النَّاسُ وَلَمْ يُبَارَكْ فِي عُمُرِه.
اس نے اپنی سلطنت کی ابتداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کے قتل سے کی اوراختتام واقعہ (یعنی جنگ )حرہ پر کیا ،اس لیے لوگ اس سے نفرت کرتےتھے اوراس کی عمر میں برکت نہیں دی گئی ۔
یادرہے کہ یزید واقعہ حرہ کے چالیس دن یا ڈھائی ماہ بعد دمشق سے دورحوّارین میں گھوڑے سے گر کر کے مرگیاتھا۔اس کی عمر اس وقت صرف ۳۸سال تھی ۔
حضرت عمر بن عبد العزیز کے سامنے کسی نے یزید کو امیر المومنین کہا ، آپ نے بیس کوڑ ے لگوائے ، تاریخ الخلفاء ص209، 361
یزید اپنی بد اعمالیوں میں اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ اور اس کے اس تجاوز کو اس کے استحقاق کے بغیر اس کے سپرد نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ اس کی سزا کاکماحقہ عرفان انسان کے بس کی بات نہیں ۔
حوالہ: تحریرالشہاتین شرحِ سرالشادتین ۔۔از مولانا سلامت اللہ کشفی تلمیذ شاہ عبدالعزیز دہلوی
زید شرابی ، بدکردار اور تارک الصلوۃ تھا
یزید شرابی تھا، فحاشی و عریانی کا دلدادہ تھا اور نشے میں رہنے کے باعث تارک الصلوٰۃ بھی تھا۔ اُس کی انہی خصوصیات کی بناء پر اہل مدینہ نے اس کی بیعت توڑ دی تھی، جس کا ذکر امام ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں یوں ملتا ہے : ۔
ذکروا عن يزيد ما کان يقع منه من القبائح في شربة الخمر وما يتبع ذلک من الفواحش التي من اکبرها ترک الصلوة عن وقتها بسبب السکر فاجتمعوا علي خلعه فخلعوه. عند المنبر النبوي (البدايہ و النہايہ، 6 : 234)
ترجمہ : یزید کے کردار میں جو برائیاں تھیں ان کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شراب پیتا تھا، فواحش کی اتباع کرتا تھا اور نشے میں غرق ہونے کی وجہ سے وقت پر نماز نہ پڑھتا تھا۔ اسی وجہ سے اہل مدینہ نے اس کی بیعت سے انکار پر اتفاق کر لیا اور منبر نبوی کے قریب اس کی بیعت توڑ دی۔
یزید ملعون کا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کا حکم دینا
جب اس نے گورنرِ مدینہ کو سیدنا امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں سے بیعت لینے کا حکم دیا تو اس موقع پر ہونے والی شیطانی مشاورت میں کہا گیا کہ اگر وہ یزید کی بیعت پر راضی ہو جائیں تو درست ورنہ انہیں قتل کر دیا جائے۔ ملاحظہ ہو امام ابن اثیر کی کتاب الکامل:
تدعوهم الساعة وتامرهم بالبيعة فان فعلوا قبلت منهم وکففت عنهم وان ابوا ضربت اغناقهم قبل ان يعلموا بموت معاويه. (الکامل لابن اثیر، 3 : 377)
ترجمہ : انہیں اسی لمحے بلایا جائے اور انہیں حضرت امیر معاویہ (رض) کی موت کی خبر ملنے سے پہلے (یزید کی) بیعت کرنے کا حکم دیا جائے۔ پھر اگر وہ مان لیں تو اسے قبول کر لیا جائے اور انہیں چھوڑ دیا جائے اور اگر وہ انکار کریں تو ان کی گردنیں توڑ دی جائیں۔
اگر واقعہ کربلا (نعوذ باللہ) اتفاقی حادثہ تھا یا معرکہ حق و باطل نہ تھا تو اہل مدینہ نے تو یزید کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے تھے، انہوں نے تو اہل بیعت کے قتل اور یزید کے کردار کے باعث محض بیعت سے انکار کیا تھا۔ ان سے قتال کیونکر جائز ہو گیا؟
فلما بلغ ذالک بعث اليهم سرية يقدمها رجل مسلم بن عقبه . . . . . فلما ورد المدينة استباحها ثلاثة ايام فقتل في عضون هذه الايام بشراً کثيراً . . . . الف بکر (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 6 : 234)
ترجمہ : جب اسے اس بات کی خبر ملی تو اس نے ان کی طرف لشکر بھیجا، جس کی قیادت مسلم بن عقبہ نامی شخص کر رہا تھا ۔ پس جب وہ مدینہ منورہ پہنچا تو اس نے تین دن کے لئے مدینہ کو (قتل و غارت گری کے لئے) حلال کر دیا۔ ان دنوں میں کثیر تعداد میں لوگ قتل ہوئے۔۔۔۔۔ (ایک روایت کے مطابق) وہ ایک ہزار (مقتول) تھے۔
وقال عبدالله بن وهب عن الامام مالک قتل يوم الحره سبعمائة رجل من حملة القرآن (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 6 : 234)
ترجمہ : اور عبداللہ بن وھب امام مالک کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یوم الحرہ کو سات سو ایسے افراد قتل کئے گئے جو حافظ قرآن تھے۔
حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے جرم میں نہ سہی، کیا 700 حفاظ قرآن کے قتل کے جرم سے بھی اسے بری قرار دلوانے کے لیے دشمنانِ اہلبیت اطہار کے راویوں سے روایات نقل کریں گے؟ کیا خدا کا خوف بالکل ہی ختم ہوگیا ؟
یزید نے مدینہ کی طرف لشکر روانہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ اگر اہل مدینہ بیعت نہ کریں تو میں مدینہ کو تمہارے لئے حلال کر رہا ہوں
اور پھر کیا ہوا، امام ابن کثیر سے پوچھئے کہ ایک بدبخت نے اپنے کردار کو دیکھنے اور کفر سے توبہ کرنے کی بجائے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کروایا۔ ہزاروں مسلمانوں، جن میں بیشتر صحابہ کرام رضہ اللہ عنہم اجمعین بھی تھے، کو قتل کروانے والا جہنمی اگر لعنت کا مستحق نہ قرار پائے تو اور کیا اسے پھول مالا پیش کی جائے ؟؟؟
مسلمان عورتوں کی عصمت دری
بدبخت یزیدی لشکر نے صرف سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو شہید ہی نہیں کیا بلکہ بے شمار عصمت شعار خواتین کی عزتیں بھی لوٹیں:
ووقعوا علي النساء في قيل انه حبلت الف امرة في تلک الايام من غير زوج . . . . . قال هشام بن حسان ولدت الف امرة من اهل المدينه بعد وقعة الحرة من غير زوج (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 8 : 221)
ترجمہ : اس واقعہ کے دوران میں انہوں نے عورتوں کی عصمت دری بھی کی۔ ایک روایت ہے کہ ان دنوں میں ایک ہزار عورتیں حرامکاری کے نتیجے میں حاملہ ہوئیں۔۔۔۔۔۔ ہشام بن حسان کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی ایک ہزار عورتوں نے جنگ حرہ کے بعد حرامی بچوں کو جنم دیا۔
بدبختوں نے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گھوڑے باندھے۔
مسلمان صحابہ و تابعین کو شھید کیا۔
مسلمان خواتین کی عزتیں لوٹیں۔
تین دن تک مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اذان اور نماز معطل رہی۔
عن سعيد بن مسيب رايتني ليالي الحرة .... وما يتني وقت الصلاة الا سمعت الاذان من القبر.
ترجمہ : سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ میں نے حرہ کے شب و روز مسجد نبوی میں (چھپ کر) گزارے ۔۔۔۔۔ اس دوران میں مجھے صرف قبرِ انور میں سے آنے والی اذان کی آواز سے نماز کا وقت معلوم ہوتا۔
اس ظلم و ستم کے باوجود آپ کے دل میں یزید کی محبت اس قدر گھر کر گئی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے قاتل کے دفاع میں حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو صحابہ کرام کی شان میں گستاخی قرار دینے پر تل گئے ؟ بجائے اس کے قاتلِ صحابہ کرام یزید کو برا بھلا کہتے ۔ آپ الٹا اسے شہادتِ حسین رضی اللہ سے بری الذمہ قرار دے کر اس پر خاموشی اختیار فرمانے کو ترجیح دیتے ہیں ؟ انا للہ وانا الیہ راجعون
ذرا سوچئیے۔ کل قیامت کے روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں کے مطابق آپ کا سامنا حضرت حسین یا نانائے حسین سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ سے ہو گیا تو یزید کے حواریو کیا جواب دو گے ؟( جاری ہے )
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔