Pages

Wednesday, 7 June 2017

شرک کی بحث میں دیابنہ اور وہابیہ کی کجروی

شرک کی بحث میں دیابنہ اور وہابیہ کی کجروی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بیانِ شرک کے مسئلہ میں ہمارے مخالفین کی کجروی قابلِ ملاحظہ ہے کہ حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام و اولیائے عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے لئے عطائی علوم غیبیہ ماننے کو بھی شرک قرار دے دیا۔ اسی طرح نفع و ضرر کے اختیارات عطائے الٰہی سے کسی مخلوق کے لئے تسلیم کرنے کو بھی شرک صریح لکھ دیا اور بزرگانِ دین سے غائبانہ طور پر مافوق الاسباب امور میں عطائے الٰہی کا اعتقاد رکھتے ہوئے مدد طلب کرنے کو بھی شرک خالص بنا دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ جو شخص انبیائے کرام علیہم السلام کے علم غیب عطائی کو علم الٰہی کے مساوی نہ مانتا ہو وہ بھی مخالفین کے نزدیک کافر و مشرک ہے۔
اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ انبیاء و اولیاء علیہم السلام زمین و آسمان کے غیب یا ہمارے اعمال و افعال کا علم ہر وقت تو نہیں رکھتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ طاقت دی ہوئی ہے کہ جس وقت جس چیز کو چاہیں جان لیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے طاقت دی ہوئی ہے کہ جب چاہیں آنکھیں کھول کر دیکھ لیں۔ جب چاہیں بند کر لیں تو مخالفین کے نزدیک یہ بھی کفر و شرک ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر مخالفین نے اپنی کتابوں میں صاف لکھ دیا کہ اگر انبیائے کرام و اولیائے عظام علیہم السلام کے لئے کوئی شخص عطائی علم و قدرت بھی نہ مانتا ہو بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صرف شفاعت کرنے والا یعنی سفارشی سمجھتا ہو وہ بھی قطعاً کافر و مشرک ہے۔
اس بیان کے تمام اجزاء مذکورہ بالا کی دلیلیں مخالفین نے اپنی کتابوں میں حسب ذیل تفصیل کے ساتھ تحریر کی ہیں۔
۱: چونکہ مشرکین مکہ اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا مملوک اور متصرف بالعرض مانتے تھے لہٰذا ثابت ہوا کہ کسی نبی و ولی کو متصرف بالعرض بتملیک اللّٰہ ماننا بھی شرک ہے۔
۲: چونکہ مشرکین عرب کا یہ اعتقاد تھا کہ ہمارے معبود علم و قدرت میں اللہ تعالیٰ کے مساوی نہیں لہٰذا ان کا یہ اعتقاد اس دعویٰ کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص انبیاء و اولیاء کو علم و قدرت میں اللہ تعالیٰ کے مساوی نہ مانے تب بھی کافر و مشرک ہے۔ (جواہر القرآن ص ۱۴۰/ ۱۲)(طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
۳: مشرکین مکہ اپنے معبودوں کو محض سفارشی سمجھ کر پکارتے تھے۔ جیسا کہ قرآن مجیدمیں ان کا قول مذکور ہے ’’مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی‘‘ اسی طرح دوسری آیت میں ہے ’’وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہُمْ وَلَا َینْفَعُہُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآئُ نَا عِنْدَاللّٰہِ‘‘ معلوم ہوا کہ کسی نبی و ولی کو عطائی علم و قدرت سے متصف مانے بغیر بھی انسان صرف اس وجہ سے مشرک ہو جاتا ہے کہ اس نے ان کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنا سفارشی قرار دیا۔ (جواہر القرآن ص ۱۴۴)
۴: چونکہ یہود ونصاریٰ اور مشرکین عرب سب کا یہی خیال تھا کہ حضرت عیسیٰ و مریم و عزیر و ابراہیم و اسمٰعیل علیہم الصلوٰۃ والسلام کو نفع نقصان کے اختیارات دے دیئے ہیں لہٰذا معلوم ہوا کہ بزرگانِ دین کے لئے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات ماننا شرک ہے۔ (جواہر القرآن، ص ۱۲۲، ج۱۲)
اس پر مزید ستم ظریفی ملاحظہ فرمایئے کہ بزرگانِ دین کے لئے بعطائے الٰہی علم و تصرف ماننے پر کفر و شرک کا فتویٰ لگانے والوں سے جب سوال کیا گیا کہ اگر بزرگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کے دینے سے بھی علم و تصرف کا اعتقاد رکھنا کفر و شرک ہے تو معتبر کتابوں میں بالاستقلال وغیرہ الفاظ کی قید کیوں لگائی گئی ہے؟
اس کے جواب میں مخالفین نے لکھا ہے کہ جن کتابوں میں بالاستقلال یا بالذات وغیرہ کی قیدیں آئی ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے پیروں فقیروں کو طاقت دے دی ہے کہ جس وقت جو چیز چاہیں جان لیں یا جس کو چاہیں نفع و نقصان پہنچا دیں۔ انتہیٰ
دعویٰ سے پہلے تفصیلِ دلائل کی نوعیت قابلِ غور ہے کہ بحث کے ہر جزو کے ثبوت کا دارو مدار مشرکین کے عقائد و اعمال کو قرار دیا ہے گویا مخالفین کے نزدیک رد شرک کی دلیل مشرکین کا قول و فعل ہے۔ سبحان اللّٰہ! کیا عجیب استدلال ہے کہ چونکہ مشرکین اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا مملوک کہتے اور انہیں متصرف بالعرض مانتے تھے اس لئے غیر اللہ کو متصرف بالعرض سمجھنا شرک ہے اور چونکہ مشرکین اپنے معبودوں کو سفارشی سمجھتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ کے دربار میں کسی کو سفارشی سمجھنا شرک ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ان عقل کے دشمنوں سے کوئی اتنا نہیں پوچھتا کہ ارے بے وقوفو! مشرکین کا قول و فعل بھی حجت شرعیہ ہو سکتا ہے؟ پھر یہ کہ توحید جو اصل دین ہے اس کے اثبات کے لئے نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی قول تمہیں ملا نہ اس کے رسول ﷺ کا، ایسے عظیم الشان دعویٰ پر دلیل لائے تو کہاں سے؟ مشرکین کے عقائد و اعمال سے؟ لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ! تمہیں شرم نہیں آتی کہ ہم بزرگان دین کا کوئی کلام یا عمل و اعتقاد اپنے مسلک کی تائید میں پیش کرتے ہیں تو تم یہ کہہ کر رد کر دیتے ہو کہ بزرگوں کے اقوال و اعمال دلیل شرعی نہیں ہو سکتے۔ حجت شرعیہ صرف قرآن و حدیث ہے لیکن اپنی خود ساختہ توحید کے ثبوت میں مشرکین کے اقوال و افعال سے استدلال کر رہے ہیں۔ ع

بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بو العجبی است

مخالفین نے اپنی کجروی میں انتہا کردی کہ بزرگانِ دین کے اقوال کو جو باب فضائل میں فی الجملہ قابل استدلال ہیں، رد کر دیا اور مشرکین کے عقائد و اعمال کو حجت شرعیہ قرار دے دیا۔ ع

ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئیے

اس بحث میں بعض معاندین کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں کہ مشرکین عرب اپنے بتوں کی عبادت کرنے کی وجہ سے مشرک قرار پائے لیکن عبادت کے معنی بھی تو یہی ہیں کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنا سفارشی سمجھے یا نفع و نقصان پہنچانے کے اختیارات اس کے لئے مانے۔ اگرچہ وہ اس کو ’’متصرف فی الامور بالعرض بتملیک اللّٰہ‘‘ اعتقاد کرے اور اس کے علم و قدرت کو اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت کے مساوی نہ مانے لیکن جب وہ مافوق الاسباب نفع و نقصان کا مختار جانتے ہوئے غائبانہ طور پر پکارتا ہے او راس سے اپنی حاجات طلب کرتا ہے تو اس کا یہی فعل غیر اللہ کی عبادت ہے اور اس سے مستقل و بالذات سمجھنے کا مفہوم بھی یہی ہے۔
اس کے جواب میں عرض ہے کہ عبادت اور استقلال ذاتی کے یہ معنی قرآن و حدیث میں قطعاً وارد نہیں ہوئے نہ سلف صالحین سے منقول ہیں بلکہ مخالفین نے امت مسلمہ کو کافر و مشرک بنانے کے لئے قرآن وحدیث کی طرف سے آنکھیں بند کر کے اپنے دل سے گھڑ لئے ہیں جن کی کوئی اصل نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن حدیث میں اکثر و بیشتر ایسے الفاظ وارد ہوئے ہیں جن کے معنی اس قدر روشن اور ظاہر ہیں کہ ہر شخص انہیں جانتا اور سمجھتا ہے ان کے بیان کی کسی کے لئے حاجت نہیں اسی واسطے ان کی تفصیل قرآن و حدیث میں وارد نہیں ہوئی۔ مثلاً حمد، شکر، تعظیم، وغیرہا بکثرت الفاظ وارد ہیں مگر ان کے معانی کی تفصیل کتاب و سنت میں کہیں مذکور نہیں۔ اسی طرح عبادت بھی ایک ایسا لفظ ہے، جس کے معنی نہایت واضح اور روشن ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ عبادت کے معنی بندگی ہیں۔ یعنی کسی کو حقیقی بے نیاز مان کر اس کے غیر کو اس کا حقیقی نیاز مند سمجھنا۔ اس لئے علمائے مفسرین نے عبادت کے معنی غایۃ الخضوع والخشوع کئے ہیں جن کو ہمارے مخالفین نے بھی تسلیم کیا ہے۔
مشرکین عرب اپنے بتوں کو قطعاً اور مطلقاً بے نیاز تصور کر کے اپنے آپ کو ہر طرح کلیتاً ان کا نیاز مند سمجھتے تھے اور ظاہر ہے کہ تذلّل و خضوع کی غایت یہی ہے۔ مختصر یہ کہ عبادت کے معنی صرف بندگی، غایت خشوع و خضوع ہیں۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے مخالفین نے عبادت کی تفسیر استعانت سے کر دی حالانکہ یہ دونوں الگ الگ معنی کے لئے موضوع ہیں اور ہر ایک کا مفہوم دوسرے سے مختلف اور جداگانہ ہے جیسا کہ آیہ کریمہ ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ سے واضح ہے اور بعض مفسرین نے استعانت سے خاص استعانت علی العبادت مراد لے کر اس بات کو خوب واضح کر دیا کہ استعانت و عبادت باہم متغائر ہیں البتہ اگر کسی استعانت میں غایت اور بندگی، خشوع و خضوع کا وصف بھی پایا جائے گا تو ہم اسے بھی محض اس لئے عبادت قرار دیں گے کہ اس میں غایت تذلل کی صفت پائی جاتی ہے۔(طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
جن آیاتِ قرآنیہ سے مخالفین کو دھوکا لگا ہے ان میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو کہ کسی کے لئے نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار ماننا یا حاجات میں امداد طلب کرنا عبادت ہے بلکہ ان آیات میں اس امر کو بیان کیا گیا ہے کہ مشرکین اپنے بتوں سے علی وجہ العبادت استعانت کے قائل تھے یا انہیں اس بات کی تنبیہہ کی گئی ہے کہ عقل سلیم کے مطابق معبود وہی ہو سکتا ہے جو فی الواقع ہر قسم کی امداد کرنے والا اور تمام حاجات بر لانے والا ہو نیز مستقل بالذات، مختار ہونا اس کی صفت ہو۔
اس مقام پر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ہم بھی ہر استعانت کو عبادت نہیں کہتے بلکہ اسی استعانت کو عبادت قرار دیتے ہیں جس میں غایت تذلل پایا جائے مگر ایسی استعانت ہمارے نزدیک وہی ہے جو مافوق الاسباب امور میں غائبانہ نداء کے ساتھ کی جائے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ غایتِ تذلل اور عبادت کا تعلق نہ مافوق الاسباب امور سے ہے نہ غائبانہ ندا سے، اس کا تعلق تو محض اعتقاد سے ہے یعنی انسان اپنے آپ کو کسی کے سامنے ذلت اور پستی کے اس آخری درجہ میں سمجھے جس کے بعد عاجزی اور ذلت کا کوئی درجہ نہ ہو تو وہ انسان اس کا عابد قرار پائے گا جس کے سامنے اس نے اپنے آپ کو ذلت و عاجزی کے آخری درجہ میں سمجھا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس قسم کی عاجزی کرنے والا عابد ہے اور جس کے لئے یہ عاجزی کی گئی ہے وہ معبود ہے اور ایسی عاجزی عبادت ہے۔ اس مفہومِ عبادت کے مافوق الاسباب اموریا غائبانہ ندا وغیرہ سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں، فافہم و تدبر۔
سلسلہ کلام میں ایک آخری شبہ کا جواب دے کر اس بحث کو ختم کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ابن قیم نے مدارج السالکین میں عبادت کے حسب ذیل معنی لکھے ہیں۔
العبادۃ عبارۃ عن الاعتقاد والشعور بان للمعبود سلطۃ غیبیۃ (ای فی العلم والتصرف) فوق الاسباب یقدربہا علی النفع والضرر فکل دعاء وثناء وتعظیم ینشاء من ہذا الاعتقاد فہی عبادۃ (جواہر القرآن ص ۱۲۹)(طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
یعنی اس اعتقاد اور شعور کا نام عبادت ہے کہ (علم تصرف) معبود کے لئے فوق الاسباب ایسی غیبی قوت حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ نفع اور ضرر پر قدرت رکھتا ہے۔ لہٰذا ہر وہ دعا اور ثناء اور تعظیم جو اس اعتقاد سے پیدا ہو وہ عبادت ہے۔
یہ عبارت اس مفہوم میں صریح ہے کہ فوق الاسباب امور میں کسی کو غائبانہ طور پر پکارنا اور حاجات طلب کرنا عبادت ہے۔
جوا بًا عرض ہے کہ اول تو ابن قیم کی عبارت ہم پر حجت نہیں۔ دوسرے یہ کہ عبادت کی یہ تعریف غلط ہے۔ اس لئے کہ ’’للمعبود سلطۃً غیبیۃ‘‘ میں لفظ معبود تعریف عبادت کا جزو ہے جو عبادت سے ماخوذ ہے۔ جب تک عبادت کے معنیٰ معلوم نہ ہوں، معبود کے معنی معلوم نہیں ہو سکتے، ایسی صورت میں دور لازم آتا ہے۔ (۱)
تیسرے یہ کہ یہ تعریف اپنے تمام افراد کو جامع نہیں اس لئے کہ جو شخص کسی کو غایتِ تعظیم کا مستحق جان کر اس کے لئے انتہائی تذلل اختیار کرتا ہے مگر وہ اس کے حق میں قدرت غیبیہ کا قائل نہیں تو اس کا یہ فعل بالاتفاق عبادت ہے مگر ابن قیم کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی۔ (۱)
چوتھے یہ کہ مخالفین نے غائبانہ طور پر کسی کو پکارنے اور مافوق الاسباب امور میں حاجات طلب کرنے کا نام عبادت رکھا ہے او رظاہر ہے کہ طلب و ندا دونوں فعل محض ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اعتقاد نہیں حالانکہ ابن قیم نے صرف اعتقاد کو عبادت قرار دیا ہے اور مسلّمہ طور پر لکھا ہے کہ کسی کے حق میں قدرت غیبیہ کے اعتقاد اور شعور کو عبادت کہتے ہیں۔ اعتقادِ مذکور کے بغیر کسی قول و فعل کو ابن قیم نے عبادت نہیں کہا اور اگر مخالفین کے قول میں طلب و نداء کے ساتھ اعتقاد کی قید کا لحاظ بھی کر لیا جائے تب بھی ابن قیم کے بیان کے ساتھ مطابقت نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ مخالفین نے صرف غائبانہ نداء اور طلب حاجات کو عبادت قرار دیا اور ابن قیم کے قول کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر وہ قول و فعل جو اعتقاد مذکور سے پیدا ہو وہ عبادت ہے خواہ وہ دعا یا تعظیم ہو یا ثناء۔
اس بحث سے تنگ آ کر مخالفین یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اچھا ہم نے مان لیا کہ مافوق الاسباب امور میں حاجات طلب کرنا اور کسی کو غائبانہ پکارنا عبادت نہیں مگر شرک تو ضرور ہے۔ لہٰذا یہ فعل شرک فی العلم والتصرف قرار پائے گا۔ اس کے جواب میں مخالفین سے دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہاں کس چیز کو شرک سمجھتے ہیں۔
۱: مافوق الاسباب امور میں غیر اللہ کے لئے علم و قدرت کا اثبات شرک ہے۔
۲: یا محض غائبانہ ندا کو آپ شرک کہتے ہیں۔
۳: یا ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ شرک قرار دیتے ہیں۔
۴: یا دونوں کے مجموعے کو شرک مانتے ہیں۔
دوسری اور تیسری صورت میں چونکہ محض ندائے غائبانہ کو شرک قرار دیا گیا ہے اس لئے لازم آتا ہے کہ غائبانہ نداء کرنے والے تمام لوگ کافر و مشرک ہو جائیں گے حالانکہ یہ بات ہمارے مخالفین کے نزدیک بھی بالکل غلط ہے۔ چنانچہ ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ‘‘ ندائے غائبانہ ہونے کے باوجود نہ صرف جائز بلکہ بالاتفاق واجب ہے۔ اگر اسے شرک قرار دیا جائے تو معاذ اللہ عہد رسالت سے لے کر قیامت تک تمام نمازی مشرک قرار پائیں گے اور چوتھی صورت میں علم و قدرت کے اعتقاد اور ندائے غائبانہ دونوں کے مجموعے کو شرک مانا گیا ہے۔ اس لئے اس کا واضح مفہوم یہی ہے کہ ان دونوں کا صرف مجموعہ شرک ہے۔ اگر ان دونوں اجزاء یعنی غیر اللہ کے حق میں علم و قدرت و تصرف کے اعتقاد اور غیر خدا کے لئے ندائے غائبانہ کو ایک دوسرے سے الگ کر لیا جائے تو ان دونوں میں سے کوئی بھی شریک نہ رہے حالانکہ یہ صریح البطلان ہے ورنہ مخالفین کے نزدیک وہ تمام لوگ اصحابِ توحید قرار پائیں گے جو غیر اللہ کو غائبانہ طور پر کبھی نہیں پکارتے مگر اس کے لئے علم و قدرت اور تصرف فی الامور کے قائل ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اب رہی پہلی صورت اور وہ یہ کہ غیر اللہ کے لئے مافوق الاسباب امور میں علم و قدرت اور تصرف کے اثبات کو آپ شرک کہتے ہیں یا غیر مستقل ذاتی غیر مقید بالاذن علم و قدرت اور تصرف کا اثبات کرنا بھی آپ کے نزدیک کفر و شرک ہے۔ بر تقدیر اول ہمیں آپ سے اختلاف نہیں لیکن آج تک کسی مسلمان نے کسی غیر اللہ کے لئے مستقل اور ذاتی علم و قدرت اور غیر مقید بالاذن تصرف ثابت نہیں کیا۔ پھر آپ خواہ مخواہ مسلمانوں پر کفر و شرک کا الزام کیوں لگاتے ہیں اور دوسری تقدیر پر ہم عرض کریں گے کہ غیر مستقل عطائی مقید بالاذن علم و قدرت اور تصرف کا اثبات غیر اللہ کے لئے اسی وقت شرک ہو سکتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی اسی قسم کا غیر مستقل، عطائی اور مقید بالاذن علم و قدرت اور تصرف ثابت کیا جائے کیونکہ صفات الٰہیہ کا غیر اللہ کے لئے ثابت کرنا ہی شرک ہے۔ اگر غیر مستقل علم و قدرت اللہ تعالیٰ کی صفت نہیں تو شرک کیسے ہو گا؟ اور اگر اللہ تعالیٰ کے لئے بھی عطائی اور غیر مستقل صفت مانی جائے تو ایسا عقیدہ خود کفر و شرک ہے۔ ع

وہ الزام ہم کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

اس کے بعد اس حقیقت کا انکشاف بھی ضروری ہے کہ معترض کے جواب میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کی اصل معترض کے مسلم بزرگوں اور اکابر کی کتابوں میں مذکور ہے چنانچہ مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنی آخری تصنیف بوادر النوادر حصہ سوم میں ص ۷۰۷ میں لکھا ہے کہ مشرکین عرب اپنے اٰلِہَہ کے لئے قدرتِ مستقلہ کے قائل تھے۔
’’حاصل اس اعتقاد تاثیر و عدم اعتقادِ تاثیر کے معیار فرق کا یہ ہے کہ بعض کا تو یہ عقیدہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے کسی خاص مخلوق کو جو اس کا مقرب ہے کچھ قدرت مستقلہ نفع و ضرر کی اس طرح سے عطا فرما دی ہے کہ ا س کا اپنے معتقد و مخالف کو نفع و ضرر پہنچانا مشیت جزئیہ حق پر موقوف نہیں۔ گو اگر روکنا چاہے تو پھر قدرت حق ہی غالب ہے جیسے سلاطین اپنے نائبین و حکام کو خاص اختیارات اس طرح دے دیتے ہیں کہ ان کا اجراء اس وقت سلطانِ اعظم کی منظوری پر موقوف نہیں آتا،گو روکنا چاہے سلطان ہی کا حکم غالب رہے گا سو یہ عقیدہ تو اعتقاد تاثیر ہے اور مشرکین عرب کا اپنے اٰلِہَہ باطلہ کے ساتھ یہی اعتقاد تھا‘‘۔
اس کے بعد تھانوی صاحب نے تقریر شرک کے دو مقدمے مقرر کر کے انہیں عقلی اور نقلی دلیلوں سے ثابت کیا ہے وہ دو مقدمے حسبِ ذیل ہیں فرماتے ہیں
’’ایک یہ کہ مشرکین اس تصرف غیر مقید بالاذن کے قائل تھے۔ دوسرے یہ کہ تصرف مقید بالاذن کا قائل ہونا شرک اکبر نہیں‘‘۔
شرک کی تفصیل میں جتنی عبارات پائی جاتی ہیں ان میں ایک مفہوم کو متعدد اور مختلف عنوانات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مثلاً کہیں شرک کے معنی اعتقاد تاثیر کئے گئے ہیں اور کسی جگہ قدرت مستقلہ کے عقیدے کو شرک کہا گیا ہے۔ بعض مقامات پر شرک کی تفصیل کے تحت تصرف غیر مقید بالاذن بولا گیا ہے۔ ان مختلف عنوانوں کا فائدہ یہ ہے کہ کوئی عنوان بھی اپنے مفہوم کے اعتبار سے مبہم نہیں رہا لیکن بعض جہلا نے مفہوم استقلال کے بیان میں اختلالِ حواس کا ثبوت دیتے ہوئے ایسا گول مول کلام کیا ہے جس کا کوئی واضح مفہوم متعین نہیں ہوتاالبتہ بطورِ احتمال اتنا سمجھ میں آتا ہے کہ مستقل ہونے کا مفہوم معترض کے نزدیک صاحبِ اختیار ہونا ہے۔ جس کا قول علماء امت میں سے آج تک کسی نے نہیں کیا بلکہ بلغۃ الحیران کی عبارت کے پیشِ نظر معترض خود مشرک قرار پاتا ہے۔ اس لئے کہ بلغۃ الحیران ص ۱۵۷ میں صاف مذکور ہے کہ انسان خود مختار ہے۔ جب مختار ہونا استقلال کا مفہوم ٹھہرا تو ثابت ہو گیا کہ صاحب بلغہ بندے کو مستقل فی الاعمال مانتا ہے اور اس کا شرک ہونا معترض کے نزدیک بھی مسلم ہے۔ اس لئے صاحب بلغۃ الحیران کا مشرک ہونا لازمی امر ہے۔
اب مولوی اشرف علی تھانوی کی تصریحات اسی مسئلے میں ملاحظہ فرمائیے۔ تھانوی صاحب نے کہیں قدرتِ مستقلہ کا لفظ بولا جیسا کہ ان کی عبارتِ منقولہ میں آپ ابھی پڑھ چکے ہیں اور کسی جگہ تصرف غیر مقید بالاذن تحریر فرمایا۔ اس اختلافِ تعبیر سے ہر عنوان کے معنی واضح ہو گئے یعنی اعتقاد تاثیر اور قدرتِ مستقلہ کا عقیدہ، سب کا خلاصہ یہ ہے کہ تصرف غیر مقید بالاذن کا اعتقاد پایا جائے ۔ معلوم ہوا کہ استقلال کے جو معنی معترض کے کلام سے مفہوم ہوتے ہیں وہ قطعاً باطل ہیں بلکہ اس کا صحیح مفہوم غیر مقید بالاذن ہونا ہے اور بس۔
لیجئے بوادر النوادر سے تھانوی صاحب کی اور عبارت بھی ہمارے بیان کی تائید اور معترض کے ردِ بلیغ میں ملاحظہ فرما لیجئے۔ تھانوی صاحب بوادر النوادر حصہ دوم ص ۷۰۷ میں لکھتے ہیں : ’’اور جاہلانِ عرب کا مشرک ہونانص سے ثابت ہے پس لا محالہ وہ تصرف غیر مقید بالاذن کے قائل تھے‘‘۔
(از افادات استاذی المکرّم غزالی زماں قبلہ سیّد احمد سعید کاظمی صاحب علیہ الرّحمہ)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔