Pages

Thursday, 29 June 2017

عبادت و استعانت حصّہ اوّل

عبادت و استعانت حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جب عبد مومن اپنے معبود کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اس نے اپنے رب کی حمد کی، اس کی ثنا بجا لایا، اس کی بزرگی بیان کی۔ یہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی حمد ہی تو ہے۔ ’’اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ اللہ تعالیٰ کی ثنا ہے اور ’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ اللہ تعالیٰ کی بزرگی کا بیان ہے۔ یہ اللہ کی حمد، اللہ کی ثنا، اللہ کی بزرگی کا بیان، یہ اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کے آداب میں شامل ہے۔ یہاں تک وہ اپنے معبود کی بارگاہ میں غائب کے صیغوں سے مخاطب تھا۔ اب اسے اپنے معبود کی بارگاہ میں حاضری کا وہ درجہ حاصل ہوا کہ گویا وہ غیبت سے عیاں کی جانب منتقل ہو گیا اور بے ساختہ کہتا ہے ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ اے اللہ! تو نے مجھے حاضری کا شرف عطا فرما کر غیبت سے عیاں کا مرتبہ عطا فرمایا، اب میں حاضر کے صیغوں سے خطاب کر کے عرض کرتا ہوں ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
٭ دیکھیے عبادت اور استعانت دونوں اللہ ہی کے ساتھ خاص ہیں۔ اللہ ہی معبود ہے اور وہی مستعان ہے۔ لاریب، لاریب، آمنا وصدقنا، نہ اس کے سوا کوئی معبود ہے اور نہ اس کے سوا کوئی مستعان ہے۔ ’’واللّٰہ المستعان‘‘
٭ بعض لوگوں نے عبادت کے معنی میں کچھ افراط و تفریط سے کام لیا۔ یہ صحیح ہے کہ عبادت کی روح تعظیم ہے۔ اگر تعظیم کا محصول نہ ہو تو عبادت کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا۔ یقینا تعظیم روحِ عبادت ہے لیکن بعض لوگ ہر تعظیم کو عبادت سمجھنے لگے، یہ غلط ہے۔
٭ دراصل عبادت ’’اقصٰی غایۃ الخضوع و التذلل‘‘ کا نام ہے۔ یعنی حد درجہ تعظیم و انکسار کا نام عبادت ہے۔ تعظیم کا وہ مقام جس کے آگے تعظیم کا اور کوئی درجہ نہ ہو، اسے ہم بندگی سے عبارت کرتے ہیں اور اسی کو عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے سوا عبادت کا اور کوئی مفہوم نہیں ہے۔
٭ اب ایک تو ہے تعظیم اور ایک ہے ’’اقصٰی غایۃ التعظیم‘‘ تو اللہ کے سوا اللہ کے رسول، اللہ کے نبی، اللہ کے مقرب اولیاء صالحین، یہ تمام کے تمام تعظیم کے تو مستحق ہیں، مگر ’’اقصٰی غایۃ التعظیم‘‘ کا مستحق فقط اللہ ہے۔ تعظیم رسولوں کے لئے بھی ہے۔ تعظیم نبیوں کے لئے بھی ہے۔ تعظیم ولیوں کے لئے بھی ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے تو ان پتھروں کی تعظیم کا بھی حکم دے دیا، جن کی نسبت اللہ تعالیٰ کے بندوں سے ہو گئی۔
٭ دیکھیے، بیت اللہ یعنی کعبہ، معظم ہے یا نہیں؟ یقینا معظم ہے۔ تو کیا کعبہ تعظیم کے بغیر ہی معظم ہو گیا؟ بھئی اس کی تعظیم ہوتی ہے، تبھی تو وہ معظم ہے۔ اب اگر محض تعظیم ہی کو عبادت کہیں گے تو پھر کعبہ بھی معبود ہو گیا۔ حالانکہ کعبہ تو معبود نہیں، وہ تو ہماری عبادت کی ایک جہت اللہ نے مقرر کی۔ بعض لوگوں نے یہ غلط فہمی پھیلائی کہ بھئی جہاں جس کی تعظیم کرو گے، بس عبادت ہو جائے گی۔ ادھر تم نے کسی کی تعظیم کی ادھر مشرک ہو گئے۔ بھولے بھالے مسلمانوں کے لئے خواہ مخواہ کی ایک مصیبت کھڑی کی ہوئی ہے۔ جب حرمین طیبین کی حاضری ہوتی ہے تو اس کا پورا پورا نقشہ سامنے آ جاتا ہے۔ بہرحال میں عرض کر رہا تھا کہ محض تعظیم کو عبادت کہنا بہت زیادتی ہے اور دین میں فتنہ پیدا کرنا ہے۔ صحاحِ ستہ میں مشہور مجموعۂ احادیث ابن ماجہ کی ایک حدیث میرے ذہن میں آ رہی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے تعجب کے ساتھ کعبۃ اللہ کو فرمایا، اے بیت اللہ! تیری عظمتوں کا کیا کہنا، تو تو بہت ہی عظمتوں والا ہے۔ الخ۔
٭ اب اگر محض مطلق تعظیم کو ہی شرک قرار دیتے ہو تو کعبہ کو بھی معظم مت قرار دو۔ اور اگر معظم سمجھتے ہو تو اپنے فتویٰ کے مطابق اسے بھی معبود سمجھو۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ مطلق تعظیم کا نام عبادت نہیں ہے۔ بلکہ ’’اقصٰی غایۃ التعظیم‘‘ کا نام عبادت ہے۔ یعنی ایسی تعظیم کہ اس کے آگے تعظیم کا کوئی درجہ متصور نہ ہو۔
٭ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ (پ۲۔ س بقرۃ۔ آیت ۱۵۸)
ترجمہ٭ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔
٭ یعنی جن پتھروں پر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت حاجرہ کے قدم لگ گئے، وہ پتھر بھی معظم ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا
وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوٰی الْقُلُوْبِ (پ۱۷۔ س الحج۔ آیت ۳۲)
ترجمہ٭ اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم بجا لایا تو بے شک یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔
٭ یعنی اللہ تعالیٰ سے نسبت اور تعلق رکھنے والی چیزوں کا ادب و احترام بجا لانا اور اس کی تعظیم کرنا شرک میں داخل نہیں بلکہ عین توحید کی نشانیوں میں سے ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والے لوگ ہی ان چیزوں کی قدر کرتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف بالواسطہ یا بلا واسطہ منسوب ہیں۔
٭ اب یہ شعائر اللہ جن کی تعظیم کی جاتی ہے، کیا یہ اللہ ہیں؟ اگر شعائر اللہ کو اللہ کہیں گے تو پھر ہزاروں خدا ہو جائیں گے۔ بہر حال شعائر اللہ کی تعظیم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اعلان فرما دیا
وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ(پ۱۷۔ س الحج۔ آیت ۳۲)
٭ پتہ چلا کہ مطلقاً تعظیم شرک نہیں بلکہ ’’اقصٰی غایۃ التعظیم‘‘ شرک ہے اور کوئی مسلمان ایسی تعظیم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کیلئے نہیں بجا لاتا۔
٭ اے اللہ! تو ہی ہمارا معبود ہے اور ہم تیرے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتے۔ ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ کے معنیٰ آپ کی سمجھ میں آ گئے۔
’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ اے اللہ! ہم تجھ ہی سے استعانت کرتے ہیں۔
٭ استعانت کے معنی کیا ہیں؟ میں آپ کو بتا دوں کہ جس طرح ہر تعظیم کا نام عبادت نہیں، اسی طرح ہر مدد طلب کرنے کا نام استعانت نہیں۔ ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ میں جس استعانت کا ذکر ہے، وہ ہر استعانت نہیں ہے اور اگر اس سے مراد ہر استعانت ہے تو پھر یہ تو بڑی مصیبت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ـ (س المائدہ۔ آیت ۲۔ پ ۶)
ترجمہ٭ یعنی ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘
٭ ’’تَعَاوَنُوْا‘‘ باب تفاعل سے ہے، اس کے معنی شرکت کے ہوتے ہیں۔ یعنی تم اس کی عون (مدد) کرو۔ وہ تمہاری مدد کرے گا۔ نیک کام میں آپ مجھ سے مدد طلب کر سکتے ہیں۔ میں آپ سے مدد طلب کر سکتا ہوں۔ اب اگر ہر استعانت شرک ہو تو پھر ’’وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی‘‘ کے کیا معنی ہوں گے۔ پھر تو نیکی کے کاموں میں کسی سے مدد طلب کرنا شرک ہو جائے گا۔
٭ حالانکہ قرآن تو اس کا حکم دیتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ ہر طرح کی عون کو ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ کے تحت لانا غلط ہے۔ جیسا کہ ہر تعظیم کو ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ کے تحت لانا غلط ہے۔ وہ تعظیم خاص ہے، جو ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ کے میں مراد ہے۔ اور وہ استعانت خاص ہے جو ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ میں مراد ہے۔ اگر ہم کسی کو مستعان حقیقی سمجھ کر مدد طلب کریں اور ہمارا اعتقاد یہ ہو کہ یہ مدد کرنے میں مستقل بالذات ہے، اس کو کسی کی احتیاج نہیں، یہ خود بخود بغیر کسی کا محکوم ہوئے، بغیر کسی کی مشیت اور ارادہ کے ماتحت ہوتے ہوئے اپنی ذات سے مستقلاً ہماری مدد کر سکتا ہے، تو یہ شرک ہے کیونکہ کسی کو مستقل بالذات مستعان سمجھ کر مدد طلب کرنا بھی ’’اقصٰی غایۃ التعظیم‘‘ ہے اور اسی کو عبادت کہتے ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
٭ ہمارا ایمان ہے کہ جس سے بھی مدد طلب کرتے ہیں، اس کے متعلق ہمارا کبھی یہ اعتقاد نہیں ہوتا کہ یہ اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مدد کرے گا۔ یا اللہ کی مرضی کے بغیر یا مشیت کے بغیر ہماری مدد کرے گا۔ یا اللہ کے ارادے کے بغیر ہماری مدد کرے گا۔ ہمارا اعتقاد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مدد کرنے کی قدرت دی ہے۔ اللہ کی دی ہوئی قدرت سے یہ ہماری مدد کرے گا۔ اللہ کے حکم سے ہماری مدد کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہماری مدد کرے گا۔ اگر اللہ کی مشیت متعلق نہ ہو تو یہ ہماری مدد نہیں کر سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ متعلق نہ ہو تو کوئی ہماری مدد نہیں کر سکتا۔ اللہ نے اس کو مستقل بالذات کوئی قوت نہیں دی۔ کیونکہ استقلال ذات الوہیت کا وصف ہے اور الوہیت کا وصف غیر الٰہ میں ہو نہیں سکتا۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ یعنی اے اللہ! ہم تجھے مستعانِ حقیقی اعتقاد کر کے فقط تجھی سے مدد طلب کرتے ہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ ارشاد فرمایا، ’’وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ‘‘ باسبب یہ ہے، سبب اور وسیلہ ایک ہی بات ہے۔ یعنی صبر اور صلوٰۃ، یہ وسیلہ ہیں استعانت کے، استعانت تو اللہ ہی سے ہو گی۔ جس طرح صبر اور صلوٰۃ وسیلہ ہیں، اسی طرح اولیاء کرام بھی وسیلہ ہیں اور جس طرح اعمالِ صالحہ وسیلہ ہو سکتے ہیں، تو جو اعمالِ صالحہ سے متصف ہیں، وہ بھی وسیلہ ہیں۔ اسی لئے ہم اولیاء اللہ سے توسل کرتے ہیں۔ ہم ان کی ذات کا توسل نہیں کرتے بلکہ ان کے وصف ولایت کی بنا پر توسل کرتے ہیں۔ ان کی صالحیت اور اعمالِ صالحہ کی بناء پر توسل کرتے ہیں۔ بہت سی احادیث میں آیا ہے کہ اللہ کے نیک بندوں نے اعمالِ صالحہ سے توسل کر کے اللہ سے مدد طلب کی اور اعمالِ صالحہ سے توسل کرنا یہ بناء ہے صالحین سے توسل کرنے کی، ہم یہی کہتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء کرام و صالحین ہمارے وسیلہ ہیں، ہاں مدد کرنے والا اللہ ہے۔ عون فرمانے والا اللہ ہے۔ حاجت بر لانے والا اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے صالحیت کو، اعمالِ صالحہ کو، نیکی کو، تقویٰ کو، صبر کو، صلوٰۃ کو وسیلہ بنایا اور جو محل ہیں صبر کے، جو متصف ہیں صلوٰۃ سے اور جو متصف ہیں اعمال صالحہ سے وہ باعتبار اعمالِ صالحہ کے ہمارا وسیلہ ہیں اور ان سے قطع نظر کر کے محض ان کی ذات کو ہم وسیلہ قرار نہیں دیتے کیونکہ ان کے توسل کا معنی ان کا اعمالِ صالحہ سے متصف ہونا ہے اور اعمالِ صالحہ سے توسل یعنی استعانت قرآن سے ثابت ہے، قرآن نے کہا، ’’وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ‘‘۔
٭ اب اگر مطلقاً استعانت کو شرک کہو گے تو قرآن کی اس آیت کو کہاں لے جاؤ گے۔ پھر تو صبر اور صلوٰۃ کے ذریعہ مدد طلب کرنا بھی شرک ہو جائے گا۔ کیونکہ صبر بھی خدا نہیں ، صلٰوہ بھی خدا نہیں ہے۔ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی عبادتیں ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اے اللہ! ہم تجھ ہی کو مستعانِ حقیقی مانتے ہیں۔ اگر تو نہ چاہے تو کوئی ہماری مدد نہیں کر سکتا۔ اگر تیرا ارادہ اور مشیت نہ ہو تو کوئی ہماری مدد نہیں کر سکتا۔
٭ اب یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ جب یہ اللہ کی مشیت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے تو ان کا تو کچھ مقام نہ ہوا اور ان کی کوئی فضیلت نہ ہوئی۔
٭ دیکھیے، یہ اللہ کے نیک بندے، اللہ کی مشیت سے ہی تو مدد کر سکتے ہیں۔ بغیر مشیت کے تو مدد نہیں کر سکتے۔ تو پتہ چلا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے ساتھ مشیت الٰہی متعلق ہو گئی ہے۔ کیا یہ ان کی فضیلت نہیں؟ ان کے ساتھ مشیت الٰہیہ متعلق ہوتی ہے۔ ارادہ الٰہیہ متعلق ہوتا ہے۔ تو جو متعلق ہو مشیت الٰہیہ سے اور جو متعلق ہو ارادہ الٰہیہ سے، بتائیے کہ وہ فضیلت کا مرکز قرار پائے گا یا نہیں؟
٭ یہاں ایک اور شبہ کا ازالہ بھی کر دوں، کہ جب ہم کہتے ہیں، ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ ہم تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں تو شبہ یہ ہے کہ اس میں حصر ہے۔ یعنی ہم فقط تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں، تیرے غیر سے نہیں۔
٭ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے ہم دیکھیں کہ حصر کے معنی کیا ہیں؟ تو عرض ہے کہ حصر کے معنی ہیں ما سوا مذکور کی نفی، مثلاً کلمہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ ہے، اس میں مذکور کون ہے؟ ’’اللہ‘‘ کیونکہ یہاں اللہ کے سوا ہر ایک سے الوہیت کی نفی ہو گئی اور اللہ کے ماسوا سب غیر مذکور ہیں۔ تو ہر غیر مذکور سے الوہیت کی نفی ہو گئی۔ اب ہم کہتے ہیں ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ تو ’’اِیَّاکَ‘‘ میں مذکور تو اللہ کی ذات ہے کیونکہ ’’اِیَّاکَ‘‘ میں جو ضمیر خطاب ہے، اس کا مصداق اللہ تعالیٰ ہے۔ تو اب مذکور تو فقط اللہ ہے اور غیر کی نفی ہو گئی کیونکہ مذکور کے ماسوا سب کی نفی ہوتی ہے۔ تو پتہ چلا کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور سے استعانت نہیں کر سکتے۔ کسی سے مدد نہیں مانگ سکتے، اللہ سے مدد مانگنا خاص ہے۔ کیونکہ مذکور وہی ہے اور حصر میں ماسوائے مذکور کی نفی ہے۔ لہٰذا اللہ کے سوا سب ماسوا کی نفی ہو گئی۔ اللہ کے ماسوا جو بھی ہے، اس سے استعانت نہیں ہو سکتی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
٭ اب سوال یہ ہے کہ فقط مردے ہی اللہ کے ماسوا ہیں؟ کیا زندہ اللہ کے ماسوا نہیں؟ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جناب مردوں سے مدد مانگنا شرک ہے اور زندوں سے مدد مانگنا جائز ہے۔ ارے خدا کے بندو! ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ میں تو حصر ہے اور حصر میں تو ماسوائے مذکور کی نفی ہوتی ہے۔ تو ماسوائے مذکور فقط مردہ ہیں۔ کیا زندہ ماسوائے مذکور نہیں ہیں؟ کیا صرف مردوں کو غیر اللہ کہو گے؟ اور زندوں کو عین اللہ کہو گے؟ خبر نہیں، ان لوگوں کا دماغ کہاں چلا گیا؟
٭ آپ آنکھ سے استعانت کرتے ہیں دیکھنے کے لئے، کان سے استعانت کرتے ہیں سننے کیلئے، زبان سے استعانت کرتے ہیں بولنے کیلئے، ہاتھ سے استعانت کرتے ہیں پکڑنے کیلئے، پاؤں سے استعانت کرتے ہیں چلنے کیلئے، دماغ سے استعانت کرتے ہیں سوچنے کیلئے۔ آپ اپنے دوستوں سے استعانت کرتے ہیں، مقدمات میں وکیلوں سے استعانت کرتے ہیں۔ جھگڑوں میں پولیس سے استعانت کرتے ہیں، کارِ خیر کے کاموں میں مالداروں سے استعانت کرتے ہیں۔ کون سی چیز ہے، جس سے استعانت نہیں ہوتی؟ اب بتائیے کہ ماسوا مذکور میں تو سارے داخل ہیں۔ تو پھر کسی سے بھی استعانت مت کرو اور ہر ایک کی استعانت کو شرک قرار دو۔ جواب میں کہا جاتا ہے کہ بھئی یہ تو زندہ ہیں، تو کیا زندہ اللہ ہیں؟
٭ الحمد للّٰہ! ہمارا عقیدہ بالکل صاف ہے، بالکل سچا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی زندہ سے بھی مستعانِ حقیقی سمجھ کر مدد مانگتا ہے تو وہ مشرک ہے، کیونکہ ’’اِیَّاکَ‘‘ میں حصر ہے اور حصر میں ماسوائے مذکور کی نفی ہوتی ہے۔ زندہ بھی ماسوائے مذکور ہیں اور مردہ بھی ماسوائے مذکور ہیں۔ اگر کسی فوت شدہ کو مستقل بالذات مان کر مدد مانگو گے، تب بھی مشرک ہو جاؤ گے اور اگر کسی زندہ کو مستقل مستعان بالذات جان کر مدد مانگو گے تو تب بھی مشرک ہو جاؤ گے۔ اگر استقلالِ ذاتی کا عقیدہ نہیں تو نہ مردہ سے مددمانگ کر مشرک ہو گے اور نہ زندہ سے مدد مانگ کر مشرک ہو گے۔
٭ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ غیر اللہ سے مانگنا یہ تو اللہ کو عاجز سمجھنا ہے۔ کیا اللہ مدد نہیں کر سکتا؟
٭ بھئی، بندوں سے مدد مانگنا، اگر اللہ کے عاجز و مجبور ہونے کی دلیل ہے تو اللہ بھی بندوں سے مدد مانگتا ہے۔ آپ کہیں گے اللہ کا مدد مانگنا کہاں ہے؟ میں نہیں کہتا قرآن نے صاف کہا
’’اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ‘‘ (س محمد۔ آیت ۷۔ پ ۲۶)
’’اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ‘‘ جملہ شرطیہ ہے۔
٭ اللہ فرماتا ہے کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔
٭ اب اگر کوئی کہے کہ ہم تو اللہ ہی سے مدد مانگیں گے تو جناب اللہ نے تو اپنی مدد کرنے کو مشروط کر دیا، تمہاری مدد کرنے سے، کہ تم میری مدد کرو گے تو بعد کو میں تمہاری مدد کروں گا۔ کیونکہ قاعدہ ہے کہ جزا شرط کے بعد ہوتی ہے۔اب آیت کے معنی کیا ہوں گے؟ آیت کے معنی یہ ہوں گے
’’اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ اَیْ اِنْ تَنْصُرُوْا دِیْنَ اللّٰہِ یَنْصُرْکُمْ‘‘
ترجمہ٭ یعنی اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔
٭ اب دیکھیے، اللہ اپنے دین کی مدد تم سے کرا رہا ہے۔ آپ کیوں نہیں کرتا۔ کیا اللہ مجبور ہے؟ ارے بھائی یہ تم سے جو مدد کرا رہا ہے۔ یہ اللہ ہی کا مدد کرنا تو ہے۔ اسیطرح اولیاء اللہ کا مدد کرنا، وہ اللہ ہی کا مدد کرنا تو ہے۔ کیونکہ اللہ ہی نے تو مدد کرنیکی طاقت ان کو دی ہے۔ اللہ ہی کا تو حکم متعلق ہے اور اللہ ہی کی مشیت متعلق ہے۔ اگر تمہارا مدد کرنا اللہ کا مدد کرنا ہے، تو ہر ولی کا مدد کرنا بھی اللہ کا مدد کرنا ہے۔
٭ بہرحال ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ بالکل واضح ہے اور ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ بالکل واضح ہے۔ ہمارا معبود بھی وہی ہے اور ہمارا مستعانِ حقیقی بھی وہی ہے۔
از افادات استاذی المکرّم غزالی زماں علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔