Pages

Monday, 5 June 2017

مرد اور عورت کی نماز میں فرق مستند دلائل کی روشنی میں

مرد اور عورت کی نماز میں فرق مستند دلائل کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوشل میڈیا پر بعض جہلا یہ بات پھیلا رہے ہیں کہ مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں کوئی فرق نہیں جبکہ قدرت نے مرد اور عورت میں بعض اوصاف مساوی رکھے ہیں اور بعض میں فرق رکھا ہے، چونکہ اسلام دین فطرت ہے۔ اس لئے اس کے احکام میں بھی بعض میں مساوات اور بعض میں فرق رکھا ہے۔ جہاں جہاں فرق ہر ایک کو نظر آتا ہے، اس بارے ہر سلیم الفطرت آدمی سمجھتا ہے کہ اس سے بہتر صورت ممکن نہ تھی۔

علماء کا موقف : المرأة ترفع يديها حذاء منکبيها، وهو الصحيح لأنه أسترلها.(ابن همام، فتح القدير، 1 : 246)
ترجمہ : تکبیر تحریمہ کے وقت، عورت کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے یہ صحیح تر ہے کیونکہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔

فإن کانت إمرأة جلست علی إليتهاالأيسری و أخرجت رجليها من الجانب الأيمن لأنه أسترلها.(ابن همام، فتح القدير، 1 : 274)
ترجمہ : اگر عورت نماز ادا کر رہی ہے تو اپنے بائیں سرین پر بیٹھے اور دونوں پاؤں دائیں طرف باہر نکالے کہ اس میں اس کا ستر زیادہ ہے۔

والمرأة تنخفض فی سجودها و تلزق بطنها بفخذ يها لأن ذلک أسترلها.(مرغينانی، هدايه،1 : 50)
ترجمہ : عورت اپنے سجدے میں بازو بند رکھے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملا دے کیونکہ یہ صورت اس کے لئے زیادہ پردہ والی ہے۔

علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فأما المرأة فينبغی أن تفترش زرا عيها و تنخفض ولا تنتصب کإنتصاب الرجل و تلزق بطنها بفخذيها لأن ذلک أسترلها.(الکاسانی، بدائع الصنائع، 1 : 210)
ترجمہ : عورت کو چاہیے اپنے بازو بچھا دے اور سکڑ جائے اور مردوں کی طرح کھل کر نہ رہے اور اپنا پیٹ اپنے رانوں سے چمٹائے رکھے کہ یہ اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے۔

علامہ شامی علیہ الرّحمہ لکھتے ہیں کہ : انها تخالف الرجل فی مسائل کثيرة.
ترجمہ : عورت کئ مسائل(چند) میں مرد کے خلاف ہے۔ (1) عورت تکبیر تحریمہ کے وقت کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھائے گی۔ (2) آستینوں سے باہر ہاتھ نہیں نکالے گی ۔ (3) سینے کے نیچے ہاتھ پہ ہاتھ باندھے گی۔ (4) رکوع میں مرد کی نسبت کم جھکے گی۔ (5) انگلیوں کو گرہ نہیں دے گی نہ انگلیاں زیادہ پھیلائے گی بلکہ ملا کر رکھے گی۔ (6) ہاتھ گھٹنوں کے اوپر رکھے گی۔ (7) گھٹنوں میں خم نہیں کرے گی۔ (8) رکوع و سجود میں گھٹنوں کو ملائے گی۔ (9) سجدے میں بازو زمین پر پھیلائے گی۔ (10) التحیات کے وقت دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر بیٹھے گی۔ (11) مرد کی امامت نہیں کر سکتی۔ (12) نماز میں کوئی بات ہو جائے تو امام کو بتانے کے لئے تالی بجائے گی۔ سبحان اللہ نہیں کہے گی۔ (13) بیٹھتے وقت ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے گھٹنوں سے ملائے گی / انگلیاں ملائے گی۔ (14) عورتوں کی جماعت مکروہ ہے مگر پڑھیں تو ان کی امام درمیان میں کھڑی ہو گی آگے نہیں۔ (15) عورت کا جماعت میں حاضر ہونا مکروہ ہے (ہم اس سے متفق نہیں) (16) مردوں کے ہمراہ باجماعت نماز ادا کریں تو مردوں سے پیچھے کھڑی ہوں۔ (17) عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ادا کرے گی تو ادا ہو جائے گی۔ (18) عورت پر نماز عید واجب نہیں پڑھے گی تو ہو جائے گی۔ (19) عورت پر تکبیرات تشریق نہیں۔ (20) صبح کی نماز روشن کر کے پڑھنا عورت کے لئے مستحب نہیں۔ (21) جہری نمازوں میں جہری قراءت نہیں کریں گی۔ (22) عورت نماز میں سجدہ وقعدہ میں پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہ کرے۔ یہ تمام تفصیل نماز کے حوالہ سے ہے ورنہ عورت اور مرد میں دیگر احکام میں بہت اختلاف ہے۔(شامی، ردالمختار، 1 : 506)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

والمرأة الاتجافی رکوعها وسجودها وتقعد علی رجليها وفی السجده تفترش بطنها علی فخذيها. (شيخ نظام الدين وجماعة علماء هند، عالمگيری، 1 : 75)
ترجمہ : عورت رکوع اور سجدہ میں اعضاء کھول کر نہ رکھے، پاؤں پر بیٹھے، سجدہ میں اپنا پیٹ رانوں پر رکھے۔
والمرأة تنحنی فی الرکوع يسيرا ولا تعتمد ولا تفرج أصابعها ولکن تضم يديها وتضع علي رکبتيها وضعا وتنحنی رکبتيها ولا تجافی عضد تيها.(شيخ نظام الدين وجماعة علماء هند، عالمگيری، 1 : 74)
ترجمہ : عورت رکوع میں کم جھکے، ٹیک نہ لگائے نہ انگلیاں کھلی رکھے، ہاتھوں کو بند رکھے اور گھٹنوں پر ہاتھ جما کر رکھے، گھٹنوں کو ٹیڑھا رکھے اور بازو دور نہ رکھے۔

عورت سجدہ میں کیسے ہو؟ احادیث مبارکہ کی روشنی میں :  عن علی رضی الله عنه قال اذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتضم فخذيها.(ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2777) ترجمہ : حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ کر کرے اور اپنی ران (پیٹ اور پنڈلیوں) سے ملائے رکھے۔

عن ابن عباس أنه سئل عن صلاة المرأة فقال تجتمع وتحتفر. (ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2778) ترجمہ : ابن عباس سے عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا، انہوں نے فرمایا جسم کوسکیٹر کر اور سمٹا کر نماز ادا کرے۔

عن مغيرة عن ابراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها والتضع بطنها عليها. ( ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2779)
ترجمہ : جب عورت سجدہ کرتے تو اپنے ران جوڑ کر اپنا پیٹ ان پر رکھے۔

عن مجاهد أنه کان يکره أن يضع الرجل بطنه علی فخذيه إذا سجد کما تضع المرأة. ( ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2780)
ترجمہ : (ابن عباس کے شاگرد) مجاہد کہتے ہیں مرد سجدہ میں اپنا پیٹ عورتوں کی طرح رانوں پر رکھے، یہ مکروہ ہے۔‘‘

عن الحسن (البصری) قال المرأة تضم فی السجود. (ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2781) ترجمہ : عورت سجدہ میں سمٹ جڑ کر رہے۔

عن إبراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتلزق بطنها بفخذيها ولا ترفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجافی الرجل. (ابن ابی شيبه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2782)
ترجمہ : جب عورت سجدہ کرے تو پیٹ اپنے زانوؤں سے ملائے اور اپنی پیٹھ (سرین) مرد کی طرح بلند نہ کرے۔

عورت نماز میں کیسے بیٹھے؟ احادیث کی روشنی میں : عن خالد بن اللجلاج قال کن النسآء يؤمرن أن يتربعن إذا جلسن فی الصلوة ولا يجلسن جلوس الرجل علی أور اکهن يتقی علی ذلک علی المرأة مخافة أن يکون منها الشی ۔ (ابن ابی شبيه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2783)
ترجمہ : عورتوں کو نماز میں چوکڑی بھر کر (مربع شکل میں) بیٹھنے کا حکم تھا اور یہ کہ وہ مردوں کی طرح سرینوں کے بل نہ بیٹھیں تاکہ اس میں ان کی پردہ پوشی کھلنے کا ڈر نہ رہے۔

عن نافع ان صفية کانت تصلی وهی متربعة. (ابن ابی شبيه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2784) ترجمہ : نافع سے روایت ہے حضرت سیدہ صفیہ نماز میں مربع شکل میں بیٹھا کرتی تھیں۔

عورت کو رکوع و سجود میں جسم کھلا نہیں رکھنا چاہیے : قال إبراهيم النخعی کانت المرأة تؤمر إذا سجدت أن تلزق بطنها بفخذيها کيلا ترتفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجا فی الرجل. (بيهقی، السنن الکبری، 2 : 223)
ترجمہ : ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں عورت کو حکم تھا یہ سجدہ کرتے وقت اپنا پیٹ رانوں سے ملائے رکھے تاکہ اس کی پیٹھ بلند نہ ہو۔ اس طرح بازو اور ران نہ کھولے جیسے مرد۔

قال علی رضی الله عنه إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها. (بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014)
ترجمہ : حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا عورت سجدہ میں سکڑ کر رہے اعضاء کو ملا کر رکھے۔

عن ابی سعيد الخدری صاحب رسول اﷲ عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم  أنه قال خير صفوف الرجال الاول و خير صفوف النساء الصف الأخر وکان يامر الرجال أن يتجا فوا فی سجودهم يأمر النسآء أن ينخفضن فی سجود هن وکان يأمر الرجال أن يفر شوا اليسریٰ وينصبوا اليمنی فی التشهدو يأمر النسآء أن يتربعن وقال يا معشر النسآء لا ترفعن أبصار کن فی صلاتکن تنظرن إلی عورات الرجال. (بيهقی، السنن الکبری،2 : 222، الرقم : 3014)
ترجمہ : ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا نماز میں مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سرکار مردوں کو نماز میں سجدہ کے دوران کھل کھلا کر رہنے کی تلقین فرماتے اور عورتوں کو سجدوں میں سمٹ سمٹا کر رہنے کی۔ مردوں کو حکم فرماتے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھائیں اور دایاں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو مربع شکل میں بیٹھنے کا حکم دیتے اور فرمایا عورتو! نماز کے دوران نظریں اٹھا کر مردوں کے ستر نہ دیکھنا۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : إذا جلست المرأة فی الصلاة وضعت فخذها علی فخذها الاخریٰ و إذا سجدت الصقت بطنها فی فخذيها کأستر مايکون لها وإن اﷲ تعالی ينظر إليها ويقول يا ملآ ئکتی أشهد کم إنی قد غفرت لها. (بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014)
ترجمہ : جب عورت نماز میں اپنا ایک ران دوسرے ران پر رکھ کر بیٹھتی ہے اور دوران سجدہ اپنا پیٹ رانوں سے جوڑ لیتی ہے جیسے اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھ کر فرماتا ہے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ بنا کر اس کی بخشش کا اعلان کرتا ہوں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

عن يزيد بن أبی حبيب أن رسول اﷲ  صلی الله عليه وآله وسلم  مر علی إمرأتين تصليان فقال إذا سجدتما فضمّا بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأة ليست فی ذلک کالر جل.(بيهقی، السنن الکبری، 2 : 223، الرقم : 3016)
ترجمہ : یزید بن ابی حبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نماز پڑھنے والی دو عورتوں کے پاس سے گزرے۔ فرمایا جب تم سجدہ میں جاؤ تو گوشت کا کچھ حصہ زمین سے ملا کر رکھا کرو! عورت مرد کی طرح نہیں۔

قلت لعطاء التشير المرأة بيديها کالر جال بالتکبير؟ قال لا ترفع بذلک يديها کالر جال وأشار أفخفض يديه جدا وجمعهما إليه وقال إن للمرأة هية ليست للرجل.(عبدالرزاق، المصنف، 3 : 137، الرقم : 5066)
ترجمہ : میں نے عطا سے پوچھا کہ عورت تکبیر کہتے وقت مردوں کی طرح ہاتھوں سے اشارہ کرے گی؟ انہوں نے کہا عورت تکبیر تحریمہ کے وقت مردوں کی طرح ہاتھ نہیں اٹھائے گی، اشارہ سے بتایا عطاء نے اپنے ہاتھ بہت نیچے کئے اور اپنے ساتھ ملائے اور فرمایا عورت کی صورت مرد جیسی نہیں۔

عطا کہتے ہیں : تجمع المراة يديها فی قيامهاما استطاعت ۔ ترجمہ : عورت کھڑے ہوتے وقت نماز میں جہاں تک ہوسکے ہاتھ جسم سے ملا کر رکھے۔(عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 137، الرقم : 5067)

حسن بصری اور قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : إذا سجدت المرأة فأنها تنفم ما استطاعت ولا تتجافی لکی لا ترفع عجيز تها. (عبدالرزاق، المصنف،3 : 137، الرقم : 5068)
ترجمہ : جب عورت سجدہ کرے تو جتنا ہو سکے سمٹ جائے اعضاء کو جدا نہ کرے مبادا جسم کا پچھلا حصّہ بلند ہو جائے۔

کانت تؤمر المرأة ان تضع زراعيها بطنها علی فخذيها إذا سجدت ولا تتجا فی کما يتجا فی الرجل. لکی لا ترفع عجيز تها.(عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5071)
ترجمہ : عورت کو حکم دیا گیا ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنے بازو اور پیٹ رانوں پر رکھے اور مرد کی طرح کھلا نہ رکھے تاکہ اس کا پچھلا حصہ بلند نہ ہو۔

عن علی قال إذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتلصق فخذ يها ببطنها. (عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5072)
ترجمہ : حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ جائے اور اپنے ران اپنے پیٹ سے ملائے۔

جلوس المراءۃ (عورت کا بیٹھنا) : عن نافع قال کانت صفية بنت أبی عبيد إذا جلست فی مثنی أوأربع تربعت. (عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5074)
ترجمہ : صفیہ بنت ابوعبید جب دو یا چار رکعت والی نماز میںبیٹھتیں مربع ہو کر بیٹھیتں۔

عن قتاده قال جلوس المرأة بين السجدتين متورکة علی شقها الأيسر وجلوسها تشهد متربعة.(عبدالرزاق، المصنف، 3 : 139، الرقم : 5075)
ترجمہ : عورت دو سجدوں کے درمیان بائیں طرف سرینوں کے بل بیٹھے اور تشہد کے لئے مربع صورت میں۔

پس عورت اور مرد مسلمان کی نماز کی ادائیگی میں کھڑا ہونے، رکوع و سجود اور بیٹھنے میں شرعاً فرق ہے۔ ہر چند کہ ایسا کرنا فرض و واجب میں شامل نہیں۔ تاہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور صحابہ کرام و تابعین، محدثین، فقہائے امت سے جب معتبر کتابوں کے حوالہ سے یہ فرق ثابت ہے اور امام بخاری و مسلم اور دیگر محدثین کے استاذ امام الحدثین حضرت امام عبد الرزاق اور دوسرے اکابر محدثین و فقہائے امت کی تصریحات، روایات تحقیقات سے بھی یہ فرق ثابت ہو رہا ہے۔ عقل و نقل کی رو سے یہ فرق ثابت ہے تو اس پر عمل کرتے رہیں۔ یہی راہ مستقیم و ہدایت حق ہے۔

شریعت کا منشاء یہی ہے اور یہ عورت کے وقار، عزت، احترام اور سترکا تقاضا بھی ہے۔ یہی اسلامی طریقہ ہے، مرد اور عورت کی نماز میں یہ فرق نہایت مناسب اور معنوی ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کی خصوصیات کا ہر جگہ خیال و لحاظ رکھا ہے۔ ان کی خلاف ورزی اور وہ بھی بلا دلیل شرعی مسلمان کا کام نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم دکھائے، سمجھائے اور اس پر چلائے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔