دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے! بحر ظلمات مین دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ویسے تو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کا گھر بار چھوڑنا‘ آبائو اجداد کاوطن چھوڑنا اور باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنا اور حق کا ساتھ دینا ہی سب سے بڑا کارنامہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ مجموعی زندگی کے علاوہ جنگی زندگی میں بھی صحابہ رضی اﷲ عنہم نے بے مثال کارنامے انجام دیئے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میدان جنگ میں بہادری اور دلیری کے ساتھ ساتھ فہم و فراست سے بھی کام لیتے اور جنتی تدابیر بھی کیا کرتے۔ ذیل کے واقعات صحابہ کی بہادری اور تدبیر کی چند مثالیں۔
منجنیق کا استعمال
روم کی جنگوں میں قلعہ بہنسا کی لڑائی مشہور لڑائی ہے۔ اس میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو کافی دشواریوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں کا بادشاہ بطلیموس انتہائی شاطر‘ مکار اور سرکش جرنیل تھا۔ یہ مسلمانوں کو کئی دفعہ دھوکا دے چکا تھا۔ مسلسل لڑائی کے بعد بالاخر اس سے صلح تو ہوگئی لیکن حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہکو اس پر پورا اعتماد نہیں تھا۔ آپ نے دو سو صحابہ کو قلعہ کے اندر متعین فرمادیا۔ بطلیموس صحابہ کو ضرورت کی ہر چیز مہیا کرتا رہا اور اعتماد دلاتا رہا اور ساتھ ہی سامان رسد بھی قلعے میں جمع کرتا رہا۔ دو ماہ میں اس نے کافی حد تک صحابہ کو مطمئن کرلیا اور سامان رسد بھی مکمل کرلیا لیکن پھر دوبارہ بغاوت کردی۔ اندر جتنے صحابہ تھے سب کو سوتے میں زنجیروں میں جکڑ دیا اور باہر کی فوج پر عام حملہ کردیا اور ایک مرتبہ پھر شکست کھا کر قلعہ بند ہوگیا اور اندر والے قیدی صحابہ کو قلعے کی فصیل پر لاکر سب کے سامنے شہید کردیا جس سے صحابہ میں مزید غصہ پیدا ہوگیا۔ شہداء کو دفنانے کے بعد صحابہ حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کے پاس جمع ہوئے کہ اس قلعے کا کیا علاج کیا جائے کہ اب اس جنگ کو تین برس گزر چکے ہیں۔ ایک صحابی حضرت عبدالرزاق رضی اﷲ عنہ نے تجویز دی کہ آپ لوگ ہم چندساتھیوں کو روئی کی بھری ہوئی بوریوں میں اسلحہ سمیت بند کرکے منجنیقوں کے ذریعے قلعے کی فصیل پر پھینک دیں۔ ہم بوریوں کو کاٹ کر نکل آئیںگے اور پھر کارروائی کریں گے۔ چنانچہ منجنیقوں کا انتظام کیا گیا اور رات کی تاریکی میں انہیں فصیل پر پھینکا گیا۔ انہوں نے فصیل پر پہنچ کر بوریاں کاٹیں اور پہرے داروں کو قتل کرکے دروازہ کھول دیا۔ رات کی تاریکی میں اسلامی لشکر شہر میں داخل ہوگیا۔ ادھر شہر والے بھی جاگ گئے۔ اب ہر سڑک پر رستے اور ہر گلی کوچے میں دست بدست لڑائی ہونے لگی۔ بڑے گھمسان کی جنگ جاری تھی کہ بطلیموس حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کے ہتھے چڑھ گئے۔ آپ نے تاک کر نیزہ مارا جو اس کے سینے سے باہر ہوگیا پھر تلوار مار کر اس کا سر دو ٹکڑے کردیا۔ کفار کے تیس ہزار آدمی مارے گئے اور بیس ہزار گرفتار ہوئے اور روم میں کفار کی کمر ٹوٹ گئی۔
روئی کی بوریوں میں چند آدمیوں کا اندر جانا بے شک بہادری اور حسن تدبیر کی ایسی مثالیں ہیں کہ جن کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔
ہاتھیوں کا مقابلہ
جنگ قادسیہ اسلام کی مشہور جنگوں میں سے ہے۔ اس جنگ میں صحابہ کو ایک نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایرانی فوج جب میدان میں اتری تو اس کے ساتھ جنگی ہاتھی بھی تھے جن پر ایران کے چوٹی کے بہادر سوار تھے۔ ان ہاتھیوں کی سونڈ کے کناروں پر تلواریں لگائی گئی تھیں‘ یہ مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر سونڈیں ہلاتے جس سے مسلمان سپاہی شہید ہوجاتے اور ان دیوہیکل ہاتھیوں کو دیکھ کر گھوڑے بھاگ جاتے اور اس طرح ان ہاتھیوں نے کافی نقصان پہنچایا۔ صحابہ نے اس کے بدلے میں یہ تدبیر نکالی کہ اونٹوں پر چادریں ڈال دیں اور انہیں ہاتھیوں سے کہیں زیادہ خوفناک بنا دیا۔ اب یہ مصنوعی ہاتھی جدھر کا رخ کرتے‘ ایرانی گھوڑے بدک جاتے اور ایرانی پسپا ہوجاتے۔
انوکھا انداز
جنگ قادسیہ میں لشکر اسلام کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ کو دانے نکلے ہوئے تھے جس کی وجہ سے آپ خود نہ لڑ سکتے تھے۔ آپِ ایک اونچی جگہ خیمہ لگائے جنگ کی کمان کررہے تھے۔ ہر کونے پر آپ کی نظر تھی۔ فوج کو کوئی پیغام دینے کے لئے یا جنگ کا نقشہ بدلنے کے لئے آپ کاغذ پر لکھ کر اس کی گولی بنا کر سامنے والے سپاہی کی طرف پھینکتے وہ اپنے سامنے والے کی طرف پھینکتا اسی طرح بغیر کسی وقفے کے حکم پہنچ کر نافذ ہوجاتا۔ اسی جنگ میں ایران کا مشہور جرنیل رستم قتل ہوا۔
یہ صحابہ کرام کی جرات اور بہادری کے کارناموں کی وہ لازوال حقیقی داستان ہے کہ جس کو چھپانے کے لئے ’’رستم‘‘ اور ’’سہراب‘‘ جیسی فرضی کہانیاں گھڑی گئیں۔
ایک تیر سے تیل قتل
غزوہ احد میں کافروں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ کی طرف ایک تیر چلایا آپ نے وہ تیر اٹھا کر ایک کافر کو مارا اور قتل کردیا۔ کفار نے وہی تیر دوبارہ آپ پر چلایا آپ نے پھر اسی تیر سے ایک اور کافر کو قتل کردیا۔ کفار نے وہی تیر تیسری مرتبہ آپ پر چلایا۔ آپ نے پھر وہی تیر چلا کر تیسرے کافر کو ڈھیر کردیا۔ مسلمان حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کے اس کارنامے سے بڑے حیران اور خوش ہوئے جبکہ دونوں جہاں کے سردار نبی اکرمﷺ نے اس دن حضرت سعد رضی اﷲ عنہ سے فرمایا کہ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں۔ اس سے بڑا اعزاز کیا ہوگا۔
بھیس بدلنا
جنگ نہاوند کے دوران سپہ سالار حضرت نعمان بن مقرن رضی اﷲ عنہ شہید ہوگئے۔ ان کے بھائی نعیم بن مقرن نے آپ کا لباس پہن کر علم ہاتھ میں لے لیا اور لشکر والوں کو آخر تک پتا نہ چل سکا کہ سپہ سالار شہید ہوگئے ہیں۔ اس طرح نہاوند صحابہ کے زبردست صبر و استقلال‘ بہادری اور حکمت عملی سے فتح ہوگیا اور دشمنان اسلام کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔
سیف اﷲ کی کاٹ
ہرمز ایران کا مشہور جنگجو سردار تھا۔ اس کی دھاک تمام عرب اور ہندوستان تک بیٹھی ہوئی تھی۔ کیونکہ وہ جنگی بیڑہ لے کر ہندوستان کے ساحلوں پر بھی حملہ آور ہوجایا کرتا تھا۔ جنگ ذات السلال میںسیف اﷲ (حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کا لقب جو حضورﷺ کی طرف سے انہیں ملا‘ جس کا مطلب ہے اﷲ کی تلوار) اور ہرمز کے درمیان پیدل لڑائی جاری تھی۔ ہرمز نے حضرت خالد رضی اﷲ عنہ پر وار کیا۔ آپ نے اس کا وار خطا کردیااور نیچے بیٹھ کر اس کی کلائی پکڑ لی اور اس سے تلوار چھین لی۔ وہ آپ سے لپٹ گیا اور کشتی ہونے لگی۔ آپ نے اٹھا کر اسے اس زور سے زمین پر مارا کہ حرکت نہ کرسکا۔ آپ نے فورا اس کا سر تن سے جدا کردیا۔ اس کے بعد عام جنگ شروع ہوئی مگر کفار تھوڑی دیر ہی میں بھاگ گئے۔ اس جنگ میں کفار کی فوج کا ایک حصہ پائوں میں زنجیریں باندھ کر آیاتھا تاکہ میدان جنگ سے بھاگ نہ سکیں مگر انہیں بھی زنجیریں کاٹ کر بھاگنا پڑا۔ انہیں زنجیروں کی وجہ سے اس لڑائی کا نام ذات السلاسل پڑا۔ سلاسل زنجیروں کوکہتے ہیں۔
ساٹھ ہزار بمقابلہ ساٹھ
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم روم کی فتح میں مصروف تھے۔ مسلمانوں نے عرب عیسائیوں کے سردار جبلہ بن ایہم کو اسلام کی دعوت دی اور سمجھایا کہ تم بھی عرب ہو اور ہم بھی۔ لہذا ہم نہیں چاہتے کہ تم رومیوں کی خاطر ہم سے لڑو اور اگر تم لڑوگے تو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو تم سے پہلے والوں کا ہوا۔ یہ سن کر وہ ڈر گیا اور اپنے لشکر میں واپس چلا گیا۔ اس کا خوف دیکھ کر رومیوں نے اس کا حوصلہ بڑھایا اور کہا کہ یہ کچھ بھی نہیں بلکہ تمہارے جیسے عرب ہیں۔ آخر وہ جنگ پر آمادہ ہوگیا۔ اپنے ساٹھ ہزار عربی سپاہی لے کر سونے کی زرہ پہنے میدان میں نکلا۔ ادھر حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہ نے جو سپہ سالار تھے‘ صحابہ سے مشورہ فرمایا۔ حضرت خالد نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں ان ساٹھ ہزار کے مقابلے میں تیس آدمی لے کر جائوں۔ جن میں سے ہر ایک دو ہزار پر حاوی ہو۔ صحابہ نے کہا کیاآپ مذاق فرماتے ہیں؟ کہنے لگے خدا کی قسم مذاق نہیں کرتا۔ ایک صحابی نے کہا کہ آپ ساٹھ ہزار کے مقابلے میں کم از کم ساٹھ تو لے جائیں چنانچہ آپ ساٹھ جرنیل صحابہ کو اپنے ساتھ لے کر نصرانی عربوں کے سامنے جاکر کھڑے ہوئے۔ نصرانیوں کے چند آدمیوںنے دیکھا تو کہنے لگے۔ ہم لڑنے کی تیاری کرچکے اور تم ابھی تک صلح کے خواب دیکھ رہے ہو۔ ہم قیامت تک صلح نہیں کریں گے۔ حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے تعجب سے پوچھا کہ کیا تم ہمیں قاصد تصور کرتے ہو حالانکہ ہم لڑنے آئے ہیں۔ جبلہ کہنے لگا اے نوجوان تو غرور میں اپنی قوم کو تباہی کی طرف لے کر نکلا ہے۔ آپ نے فرمایا تو ہمیں تھورا نہ جان ہم غرور میں نہیں بلکہ اﷲ پر بھروسہ کرکے نکلے ہیں۔ جبلہ نے اپنے ساتھیوں کو حملے کا حکم دے دیا۔ صحابہ نے بھی ثابت قدمی سے لڑنا شروع کردیا۔ دونوں طرف سے بہادروں کی چیخ و پکار اور تلواروں کی جھنکار کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ جنگ کے شعلے بلند تھے۔ صحابہ تکبیر کی آوازیں بلند کررہے تھے۔ حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے صحابہ سے فرمایا کہ آج اسی میدان کو میدان حشر سمجھو اور کفار کو سبق سکھائو۔ صحابہ کفار کے اندر گھرے ہونے کے باوجود بڑھ بڑھ کر حملے کرتے رہے۔ شام تک صحابہ ایسے لڑتے رہے جیسے بالکل تازہ دم ہوں اور ابھی ابھی لڑائی شروع کی ہو۔ ادھر لشکر اسلام پریشانی کے عالم میںتھا۔ ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہ سمجھے کہ صحابہ شہید ہوگئے۔ لشکر اسلام لڑنے کے لئے تیار ہوگیا۔ مگر شام ہوتے ہی کفار کو شکست فاش ہوگئی اور صحابہ واپس آگئے۔ واپس آنے والے صحابہ بیس تھے۔ ایک مرتبہ پھر پریشانی بڑھ گئی کہ شاید چالیس صحابہ شہیدہوگئے مگر میدان جنگ میں جاکر دیکھا گیا تو صرف دس لاشیں ملیں صحابہ نے کہا کہ ضرور تیس لوگوں کو کفار گرفتار کرکے لے گئے ہیں۔ صحابہ نے کفار کا پیچھا کیا تو مزید پچیس صحابہ مل گئے جو کفار کی شکست کے بعد ان کا پیچھا کرتے ہوئے آگے نکل گئے تھے۔ اس جنگ میں دس صحابہ شہید ہوئے جبکہ پانچ گرفتار ہوئے۔ جبکہ نصرانی عربوں کے پانچ ہزار آدمی مارے گئے۔ ساری دنیا کے لوگ مل کر بھی کوشش کریں تو بھی ایسی شاندار مثال نہیں لاسکتے۔
دریا میں گھوڑے
مدائن کی فتح کے موقع پر ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ مدائن سے پہلے فتح دہشیر کے موقع پر جب کفار کی فوج مدائن کی طرف بھاگی تو جاتے ہوئے دریائے دجلہ کا پل توڑ دیا۔ اب لشکر اسلام اس طرف تھا اور مدائن اس طرف۔ اب مدائن کی طرف جانے کا کوئی راستہ نہ تھا بالاخر حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ آپ کے پیچھے باقی صحابہ نے بھی اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دیئے۔ کفار نے تیر اندازی شروع کردی مگر صحابہ نے کوئی پرواہ نہ کی اور پار ہوگئے۔ ایران کا بادشاہ یزدگرد مسلمانوں کی اس طرح آمد سن کر بھاگ گیا اور مسلمان مختلف سمتوں سے مدائن میں داخل ہوگئے اور دمائن فتح ہوگیا۔
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
آج بھی ان واقعات کو پڑھ کر مسلمان اپنے دل میں ایمان کی تازگی اور جذبہ جہاد کی لذت محسوس کرتے ہیں جبکہ غیر مسلم آج بھی پڑھتے ہیں تو ان کے منہ کھلے رہ جاتے ہیں اور آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آتے ہیں۔
سب سے کم عمر ڈاکٹر : یارہ سال کی عمر کھیلنے کودنے کی ہوتی ہے۔ بچے دن رات کھیلوں میں لگے رہتے ہیں۔ کوئی کرکٹ کھیلتا نظر آتا ہے تو کوئی ہاکی اور فٹ بال میں دلچسپی لیتا ہے۔ غرض یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ بچے کی توجہ پڑھائی پر کم اور کھیل پرزیادہ ہوتی ہے۔ لیکن ہندوستان کی ریاست مدراس کا ایک لڑکا بالا مرلی کوشنا صرف گیارہ سال کی عمر میں بی ایس سی فائنل میں تھا اور صرف سترہ سال کی عمر میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرکے دنیا کا سب سے کم عمر لڑکا بن گیا
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔