مِن دُونِ اللّهِ کا صحیح معنی و مفہوم (حصّہ دوم )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مِن دُونِ اللّهِِ کا صحیح اِطلاق : مِن دُونِ اللّهِِ کا لغوی معنی ہے ’’اللہ کے سوا‘‘ مگر ہر جگہ سیاق و سباق کے حوالے سے اس کے دائرہ اطلاق اور مراد کو متعین کیا جانا ضروری ہے۔جب ہم توحید اور شرک کے باب میں غیر کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد لغوی معنی میں غیر ہو گا۔ اس میں ذاتِ باری تعالیٰ، اس کی صفات و افعال اور اسماء کے علاوہ باقی ہر چیز مخلوق ہے اور وہی ما سِوَ اﷲ کہلاتی ہے۔ذیل میں ہم ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کا اطلاق آیاتِ قرآنی کی روشنی میں قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ قرآن مجید میں مندرجہ ذیل تین معانی میں استعمال ہوا ہے :(1)معبودانِ باطلہ مِن دُونِ اللَّهِ ہیں۔قرآن مجید میں اکثر و بیشتر مقامات پر کفار و مشرکین کے مزعومہ معبودانِ باطلہ (اصنام، اوثان اور طواغیت) کو ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کہا گیا ہے۔ جیسا کہ درجِ ذیل آیات سے واضح ہوتا ہے :(1)وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ.ترجمہ:اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں۔ پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔(الانعام، 6 : 108)
(2)وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَآ أَنفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ ۔ ترجمہ:اور جن (بتوں) کو تم اس کے سوا پوجتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنے آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔(الاعراف، 7 : 197)
اس طرح دیگر بیسیوں آیات میں ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار و مشرکین اور ان کے معبودانِ باطلہ کی مذمت کی ہے، بتوں کی عبادت پر ان کی زجر و توبیخ کی گئی ہے۔ ان آیات کے الفاظ ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ میں انبیاء و اولیاء اور ملائکہ و مقربین قطعاً اور یقیناً شامل نہیں ہیں۔
(2) غیراللہ کو مستحقِ عبادت سمجھنا ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کے ذیل میں شمار ہوگا:یہ اصول ذہن نشین رہے کہ قرآن حکیم کی جن آیات میں عبادت و اُلوہیت اور پوجنے کا ذکر ہو وہاں انبیاء و اولیاء اور ملائکہ و مقربین ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ میں شامل ہوتے ہیں کیونکہ عبادت فقط اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہے اور استحقاقِ عبادت کے لئے ما سِوَ اﷲ ہر شئے غیر ہے۔ لہٰذا یہ مِن دُونِ اللّهِ ِ کا دوسرا اطلاق ہے جو عبادت و الوہیت سے مشروط ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے اسی باطل طرزِ عمل کو قرآن میں بیان کیا :اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ۔ ترجمہ: انہوں نے اللہ کے سوا اپنے عالموں اور زاہدوں کو رب بنا لیا تھا اور مریم کے بیٹے مسیح (علیہ السلام) کو (بھی) حالانکہ انہیں بجز اس کے (کوئی) حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اکیلے ایک (ہی) معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان سے پاک ہے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔(التوبة، 9 : 31)
(3)مظاہرِ فطرت کو معبود جاننا ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کے ذیل میں شمار ہو گا:قرآن مجید میں کئی مقامات پر ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ سورج، ستاروں، جنات اور شیاطین کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اقوام سابقہ میں مظاہرِ فطرت کی پرستش کا رواج عام تھا۔ قرآن مجید نے ان کے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے ان معبودانِ باطلہ کو ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کہا ہے :وَجَدْتُّهَا وَ قَوْمَهَا يسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اﷲِ.ترجمہ:میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کی بجائے سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا ہے۔النمل، 27 : 24)
معبودانِ باطلہ ولی اور نصیر نہیں جبکہ صالحین ولی ہوتے ہیں:کفار اور مشرکین بتوں کو اپنا ولی اور نصیر گردانتے اور ان کو مشکل کشا تصور کرتے ہوئے ان سے مرادیں مانگتے تھے۔ وہ ان کے نام کی نذر بھی مانتے تھے جبکہ حقیقی مددگار کو کلیۃً بھول گئے تھے اس لئے قرآن مجید نے ان کے اس عقیدے کو رد فرمایا اور واضح کر دیا کہ حقیقی ولی اور نصیر فقط اللہ تعالیٰ ہے۔ تمہارے یہ بت اور جھوٹے خدا قیامت کے روز تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔ یہ تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکیں گے اس لئے ان کو چھوڑ کر فقط اللہ ہی کو اپنا ولی اور نصیر سمجھو۔ اس پر درج ذیل آیاتِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے :(1)أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ۔ترجمہ:کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے، اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ ہی مددگار۔(البقرة، 2 : 107)(2)لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلاَ أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا ۔ ترجمہ:(اللہ کا وعدہء مغفرت) نہ تمہاری خواہشات پر موقوف ہے اور نہ اہلِ کتاب کی خواہشات پر، جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اورنہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگار۔(النساء، 4 : 123)(3)أُولَـئِكَ لَمْ يَكُونُواْ مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ يُضَاعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ مَا كَانُواْ يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ وَمَا كَانُواْ يُبْصِرُونَ۔ترجمہ:یہ لوگ (اﷲ کو) زمین میں عاجز کر سکنے والے نہیں اور نہ ہی ان کے لئے اﷲ کے سوا کوئی مددگار ہیں۔ ان کے لئے عذاب دوگنا کر دیا جائے گا (کیونکہ) نہ وہ (حق بات) سننے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ (حق کو) دیکھ ہی سکتے تھے۔(هود، 11 : 20)(4)وَمَن يَهْدِ اللّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِهِ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا۔ترجمہ:اور اﷲ جسے ہدایت فرما دے تو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ ان کے لئے اس کے سوا مدد گار نہیں پائیں گے، اور ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اٹھائیں گے اس حال میں کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے، ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، جب بھی وہ بجھنے لگے گی ہم انہیں (عذاب دینے کے لئے) اور زیادہ بھڑکا دیں گے۔(الاسراء، 17 : 97)
5. وَلَمْ تَكُن لَّهُ فِئَةٌ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنتَصِرًا۔ترجمہ:اور اس کے لئے کوئی گروہ (بھی) ایسا نہ تھا جو اﷲ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتے اور نہ وہ خود (ہی اس تباہی کا) بدلہ لینے کے قابل تھا۔(الکهف، 18 : 43)(6)أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِيُّ وَهُوَ يُحْيِي المَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔ ترجمہ:کیا انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اولیاء بنا لیا ہے، پس اللہ ہی ولی ہے (اسی کے دوست ہی اولیاء ہیں) اور وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔(الشوري، 42 : 9)(7)إِنَّهُمْ لَن يُغْنُوا عَنكَ مِنَ اللَّهِ شَيئًا وإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ۔ترجمہ:بیشک یہ لوگ اللہ کی جانب سے (اسلام کی راہ میں پیش آمدہ مشکلات کے وقت میں وعدوں کے باوجود) ہرگز آپ کے کام نہیں آئیں گے، اور بیشک ظالم لوگ (دنیا میں) ایک دوسرے کے ہی دوست اور مددگار ہوا کرتے ہیں، اور اللہ پرہیزگاروں کا دوست اور مددگار ہے۔(الجاثية، 45 : 19)
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ بعض لوگ مِن دُونِ اللَّهِ پر قیاس کرتے ہوئے (معاذ اﷲ) انبیاء و اولیاء اور صلحاء و متقین کو کافروں اور مشرکوں کی صف میں ہی شمار کرتے ہیں اور ان کے بھی ولی اور نصیر ہونے کی نفی کرتے ہیں۔ یہ لوگ دلیل کے طور پر ان آیات کو پیش کرتے ہیں جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئیں حالانکہ درحقیقت یہ وہ آیات ہیں جن میں بتوں کے ولی اور نصیر ہونے کی نفی کی گئی ہے لہٰذا ایسی آیات کو دلیل بنا کر انبیاء و مؤمنین کا ایک دوسرے کے لئے ولی اور نصیر ہونے کی نفی کرناخلافِ شریعت ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جن آیات میں ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں وہاں اس سے مراد بت، اوثان، اصنام اور طواغیت وغیرہ ہیں جو کہ بالکل بے بس و بے اختیار ہیں، وہ کسی چیز کے بھی مالک نہیں، جبکہ انبیاء و اولیاء ان آیات کے تحت ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کے زمرے میں شامل ہی نہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنے برگزیدہ انبیاء و اولیاء کو اذن و اختیار عطا فرمایا ہے پس انہیں ولی اور نصیر ماننا شرک نہیں۔
قرآنی آیات سے مؤمنین کا ایک دوسرے کے لئے ولی و نصیر ہونا صراحتہً ثابت ہے۔ ان سب کی ولایت اور مدد من جانب اللہ ہوتی ہے جبکہ بتوں کے لئے ولایت من جانب اللہ کا کوئی تصور نہیں۔ اس لئے ’’مِن دُونِ اللَّه‘‘ کے حکم کا اطلاق صرف بتوں پر ہوتا ہے اور ان کو ولی اور نصیر ماننا صریحاً شرک اور ظلم ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔