Pages

Thursday, 1 June 2017

مزارات اور قبور پر عمارت بنانے پر اعتراضات کے جوابات

مزارات اور قبور پر عمارت بنانے پر اعتراضات کے جوابات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مخالفین کے اس مسئلہ پر صرف دو ہی اعتراض ہیں اول تو یہ کہ مشکوٰۃ باب الدفن میں بروایت مسلم ہے۔
نھی رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ان یجصص القبور وان یبنی علیہ وان یقعد علیہ
"حضور علیہ السلام نے منع فرمایا اس سے کہ قبروں پر گچ کی جاوے اور اس سے کہ اس پر عمارت بنائی جاوے اور اس سے کہ اس پر بیٹھا جاوے۔"
نیز عام فقہاء فرماتے ہیں کہ یکرۃ البناء علی القبور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین کام حرام ہیں قبر کو پختہ بنانا۔ قبر پر عمارت بنانا، اور قبر پر مجاور بن کر بیٹھنا۔
جواب قبر کو پختہ کرنے سے منع ہونے کی تین صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ قبر کا اندرونی حصہ جو کہ میت کی طرف ہے اس کو پختہ کیا جاوے۔ اسی لیے حدیث میں فرمایا گیا۔ ان یجصص القبور یہ نہ فرمایا گیا۔ علی القبور دوسرے یہ کہ عامۃ المسلمین کی قبور پختہ کی جاویں کیونکہ یہ بے فائدہ ہے تو معنٰی یہ ہوئے کہ ہر قطر کو پختہ بنانے سے منع فرمایا۔ تیسرے یہ کہ قبر کی سجاوٹ، تکلف یا فخر کے لیے پختہ کیا۔ یہ تینوں صورتیں منع ہیں اور اگر نشان باقی رکھنے کے لیے کسی ولی اللہ کی قبر پختہ کی جاوے تو جائز ہے۔ کیونکہ حضور علیہ السلام نے عثمان ابن مغلعون کی قبر پختہ پتھر کی بنائی۔ جیسا کہ پہلے باب میں عرض کیا گیا۔ لمعات میں اسی ان یخصص القبور کے ماتحت ہے لما فیہ من الزینۃ والتکلف کیونکہ اس میں محض سجاوٹ اور تکلف ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اگر اس لیے نہ ہو تو جائز ہے ان ینی علیہ یعنی قبر پر عمارت بنانا منع فرمایا۔ اس کے بھی چند معنٰی ہیں اولاً تو یہ کہ خود قبر پر عمارت بنائی جاوے اس طرح کہ قیر دیوار میں شامل ہو جاوے۔
چنانچہ شامی باب الدفن میں ہے۔
وتکرہ الزیادۃ علیہ لما فی المسلم نھی رسول اللہ علیہ السلام ان یجصص القبر وان یبنی علیہ
قبر کو ایک ہاتھ سے اونچا کرنا منع ہے کیونکہ مسلم میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے قبر کو پختہ کرنے اور اس پر کچھ بنانے سے منع فرمایا۔"
درمختار اسی باب میں ہے
وتکرہ الزیادۃ علیہ من التراب لانہ بمنزلۃ البناء [قبر پر مٹی زیادہ کرنا منع ہے کیونکہ یہ عمارت بنانے کی درجہ میں ہے- اس سے معلوم ہوا کہ قبر پر بنانا یہ ہے کہ قبر دیوار میں آجاوے اور گنبد نانا یہ حول القبر یعنی قبر کے اردگرد بنانا ہے یہ ممنوع نہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ حکم عامۃ المسلمین کے لیے قبروں کے لیے ہے۔ تیسرے یہ کہ اس بنانے کی تفسیر خود دوسری حدیث نے کردی جوکہ مشکوٰۃ باب المساجد میں ہے۔
اللھم لا تجعل قبری ووثنا یعبد اشتد غضب اللہ علی قوم ن اتخذوا قبور انبیاءھم مسجد
"اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی پوجا کی جاوے اس قوم پر خدا کا سخت غضب ہے جس نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔"
اس سے معلوم ہوا کہ کسی قبر کو مسجد بنانا اس پر عمارت بنا کر اس طرف نماز پڑھنا حرام ہے یہ ہی اس حدیث سے مراد ہے۔ قبروں پر کیا نہ بناؤ مسجد۔ قبر کو مسجد بنانے کے یہ معنٰی ہیں کہ اس کی عبادت کی جاوے۔ یا کم از کم اس کو قبلہ بناکر اس کی طرف سجدہ کیا جاوے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح بخاری میں فرماتے ہیں۔
قال البیضاویلما کانت الیھود والنصری یسجدون لقبور الانبیاء تعظیما لشانھم ویجعلونھا قبلۃ یتوجھون فی الصلوٰۃ ونحوھا واتخذوھا اوثانا لعنھم ومنع المسلمون عن مثل ذلک
"بیضاوی نے فرمایا کہ جبکہ یہود و نصارٰی پیغمبروں کی قبروں کو تعظیماً سجدہ کرتے تھے اور اس کو قبلہ بناکر اس کی طرف نماز پڑھتے تھے اور ان قبور کر انہوں نے بت بنا کر رکھا تھا لٰہذا اس پر حضور علیہ السلام نے لعنت فرمائی اور مسلمانوں کو اس سے منع فرمایا گیا۔"
یہ حدیث معترض کی پیش کردہ حدیث کی تفسیر ہوگئی۔ معلوم ہوگیا کہ قبہ بنانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا۔ چوتھا یہ کہ یہ ممانعت حکم شرعی نہیں ہے۔ بلکہ زہد و تقوٰی کی تعلیم ہے جیسے کہ ہم پہلے باب میں عرض کرچکے کہ رہنے کے مکانات کو پختہ کرنے سے بھی روکا گیا۔ بلکہ گرا دئیے گئے پانچویں یہ کہ جب بنانے والے کا یہ اعتقاد ہو کہ اس عمارت سے میت کو راحت یا فائدہ پہنچتا ہے تو منع ہے کہ غلط خیال ہے اور اگر زائرین کی آسائش کے لیے عمارت بنائی جاوے تو جائز ہے۔
ہم نے توجہیں اس لیے کیں کہ بہت سے صحابہ کرام نے خاص خاص قبروں پر عمارت بنائی ہیں یہ فعل سنت صحابہ ہے چنانچہ حضرت فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور علیہ السلام کی قبر انور کے گرد عمارت بنائی۔ سیدنا ابن زبیر نے اس پر خوبصورت عمارت بنائی۔ حسن مثنی کی بیوی نے اپنے شوہر کی قبر پر قبہ ڈالا جس کو ہم بحوالہ مشکوٰۃ باب البکاء سے نقل کر چکے۔ زوجہ حسن مثنی کے اس فعل کے ماتحت ملا علی قاری شرح مشکوٰۃ باب البکاء میں فرماتے ہیں۔
الظاھر انہ لاجتماع الاحباب للذکر والقراءۃ وحضور بالمغفرۃ اما حمل فعلھا علی العبث المکروہ فغیر لائق لصنیع اھل البیت
"ظاہر یہ ہے کہ یہ قبہ دوستوں اور صحابہ کے جمع ہونے کے لیے تھا تاکہ ذکر اللہ اور تلاوت قراٰن کریں اور دعائے مغفرت کریں۔ لیکن ان بی بی کے اس کام کو معض بے فائدہ بنانا جو کہ مکروہ ہے یہ اہل بیت کی شان کے خلاف ہے۔"
صاف معلوم ہوا کہ بلا فائدہ عمارت بنانا منع اور زائرین کے آرام کے لیے جائز ہے۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کی قبر پر قبہ بنایا۔
متقٰے شرح مؤطاء امام مالک میں ابو عبد سلیمان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں۔
وضربہ عمر علی قبر زینب جحش وضربۃ عائشۃ علے قبر اخیھا عبدالرحمٰن وضربہ محمد ابن الحنیفۃ علی قبر ابن عباس وانما کرھہ لمن ضربہ علی وجہ السمعۃ والمباھات
"حضرت عمر نے زینب حجش کی قبر پر قبہ بنایا حضرت عائشہ نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن کی قبر پر قبہ بنایا محمد ابن حنیفہ (ابن حضرت علی) نے ابن عباس کی قبر پر قبہ بنایارضی اللہ عنہم اور جس نے قبہ بنانا مکروہ کہا ہے تو اس کے لیے جو کہ اس کو فخر دریا کے لیے بنائے۔"
بدائع الصنائع جلد اول 320 میں ہے۔
روی ان عباس لما مات بالطائف صلے علیہ محمد ابن الحنیفۃ وجعل قبرہ مسنما وضرب علیہ فساطا
"جبکہ طائف میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان پر محمد ابن حنیفہ نے نماز پڑھی اور ان کی قبر ٍڈھلوان بنائی اور قبر پر قبہ بنایا۔"
عینی شرح بخاری میں ہے ضربہ محمد ابن الحنیفۃ علی قبر ابن عباس ان صحابہ کرام نے یہ فعل کیے اور ساری اُمت روضۃ رسول علیہ السلام پر جاتی رہی۔ کسی محدث کسی فقیہ کسی عالم نے اس روضہ پر اعتراض نہ کیا لٰہذا اس حدیث کہ وہ ہی توجہیں کی جاویں جو کہ ہم نے کیں۔ قبر پر بیٹھنے کے معنٰے ہیں قبر پر چڑھ کر یہ منع ہے نہ کہ وہاں مجاور بننا۔ مجاور بننا تو جائز ہے۔ مجاور اسی کو تو کہتے ہیں جو قبر کا انتظام رکھے کھولنے بند کرنے کی چابی اپنے پاس رکھے وغیرہ وغیرہ یہ صحابہ کرام سے ثابت ہے، حضرت عائشہ صدیقہ مسلمانوں کی والدہ حضور علیہ السلام کی قبر انور کی منتظمہ اور چابی والی تھیں۔ جب صحابہ کرام کو زیارت کرنی ہوتی تو ان سے ہی کھلوا کر زیارت کرتے۔ دیکھو مشکوٰۃ باب لدفن۔ آج تک روضہ مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر مجاور رہتے ہیں کسی نے ان کو ناجائز نہ کہا۔
اعتراض2 :۔ مشکوٰۃ باب الدفن میں ہے۔
وعن ابی ھیاج ن الا سدی قال قال لی علی الا ابعثک علی ما بعثی رسول اللہ علیہ السلام ان لا تدع تمثالا الا طمسۃ ولا قبرا مشرفا الا سؤیتہ۔
"ابو ہیاج اسدی سے مروی ہے کہ مجھ سے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھ کو حضور علیہ السلام نے بھیجا تھا وہ یہ کہ تم کوئی تصویر نہ چھوڑو مگر مٹادو اور نہ کوئی اونچی قبر مگر اس کو برابر کردو۔"
بخاری جلد اول کتاب الجنائز باب الجریر علی البقر میں ہے۔
ورای ابن قسطاطا علی قبر عبدالرحمٰن فقال انرعہ یا غلام فانما یظللہ عملہ
"ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عبدالرحمٰن کی قبر پر قبہ خیمہ دیکھا پس آپ نے فرمایا کہ اے لڑکے اس کو علیحدہ کردو کیونکہ ان پر ان کے عمل سایہ کر رہے ہیں۔"
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ اگر کسی قبر پر عمارت بنی ہو یا قبر اونچی ہو تو اس کو گرا دینا چاہئیے۔
نوٹ ضروری: اس حدیث کو آڑ بنا کر نجدی وہابیوں نے صحابہ کرام اور اہل بیت کے مزارات کو گرا کر زمین کے ہموار کر دیا۔
جواب: جن قبروں کو گرا دینے کا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہے وہ کفار کی قبریں تھیں۔ نہ کہ مسلمین کی۔ اس کی چند وجوہ ہیں۔ اولاً تو یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم کو اس کام کے لیے بھیجتا ہوں۔ جس کے لیے مجھے حضور علیہ السلام نے بھیجا۔ حضور علیہ السلام کے زمانہ میں جن قبروں کو حضرت علی نے گرایا وہ مسلمانوں کی قبریں نہیں ہو سکتیں۔
کیونکہ ہر صحابی کے دفن میں حضور علیہ السلام شرکت فرماتے تھے۔ نیز صحابہ کرام کوئی کام بھی حضور علیہ السلام کے بغیر مشورہ کے نہ کرتے تھے لٰہذا اس وقت جس قدر قبور مسلمین بنیں۔ وہ یا تو حضور کی موجودگی میں یا آپ کی اجازت سے تو وہ کون سے مسلمانوں کی قبریں تھیں جو کہ ناجائز بن گئیں اور ان کو مٹانا پڑا۔ ہاں عیسائیوں کی قبور اونچی ہوتی تھیں۔
بخاری شریف صفحہ61 مسجد نبوی کی تعمیر کے بیان میں ہے۔
امر النبی علیہ السلام بقبور المشرکین فنبشت
"حضور علیہ السلام نے مشرکین کی قبروں کا حکم دیا پس اکھیڑ دی گئیں۔"
بخاری شریف جلد اولصفحہ61 میں ایک باب باندھا ھل ینبش قبور مشرکی الجاھلیۃ کیا مشرکین زمانہ جاہلیت کی قبریں اکھیڑ دی جاویں اسی کی شرح میں حافظ ابن حجر فتح الباری شرح بخاری جلد دوم صفحہ26 میں فرماتے ہیں۔
ای دون غیرھا من قبور الانبیاء واتباعھم لما فی ذلک اھانۃ لھم
"یعنی ماسوا انبیاء اور ان کے متبعین کے کیونکہ ان کی قبریں ڈھانے میں ان کی اہانت ہے۔"
دوسری جگہ فرماتے ہیں۔
وفی الحدیث جواز تصرف فی المقبرۃ المملوکۃ وجواز نبش قبور الدارسۃ اذالم یکن محرمۃ"اس حدیث میں اس پر دلیل ہے کہ جو قبرستان ملک میں آگیا اس میں تصرف کرنا جائز ہے اور پرانی قبریں اکھاڑ فی جاویں بشرطیکہ محترمہ نہ ہوں۔"
اس حدیث اور اس کی شرح نے مخالف کی پیش کردہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر کردی کہ مشرک کی قبریں گرائی جاویں۔ دوسرے اس لیے کہ اس میں قبر کے ساتھ فوٹو کا کیوں ذکر ہے۔ مسلمان کی قبر پر فوٹؤ کہاں ہوتا ہے؟ معلم ہوا کہ کفار کی قبریں ہی مراد ہیں۔ کیونکہ ان کی قبروں پت میت کا فوٹو بھی ہوتا ہے۔ تیسرے اس لیے کہ فرماتے ہیں کہ اونچی قبر کو زمین کے برابر کردو اور مسلمان کی قبر کے لیے سنت ہے کہ زمین سے ایک ہاتھ اونچی رہے۔ اس کو بالکل پیوند زمین کرنا خلاف سنت ہے۔ ماننا پڑے گا کہ یہ قبور کفار تھیں ورنہ تعجب ہے کہ سیدنا علی تو اونچی قبریں اکھڑوائیں اور ان کے فرزند محمد ابن حنیفہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قبر پر قبہ بنائیں۔ اگر کسی مسلمان کی قبر اونچی بن بھی گئی۔ تب بھی اس کو نہیں اکھیڑ سکتے کیونکہ اس میں مسلمان کی توہین ہے۔ اولاً اونچی نہ بناؤ مگر جب بن جائے تو نہ مٹاؤ۔ قرآن پاک چھوٹا سائز چھاپنا منع ہے دیکھو شامی کتاب الکرہیت۔ مگر جب چھپ گیا تو اس کو پھینکو نہ جلاؤ۔ کیونکہ اس میں قرآن کی بے ادبی ہے احادیث میں وارد ہے کہ مسلمان کی قبر پر بیٹھنا وہاں پاخانہ کرنا وہاں جوتہ سے چلنا ویسے بھی اس پر چلنا پھرنا منع ہے مگر افسوس کہ نجدی نے صحابہ کرام کے مزارات گرائے اور معلوم ہوا کہ اب جدہ میں انگریز عیسائیوں کی اونچی اونچی قبریں برابر بن رہی ہیں صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقتلون اھل الاسلام ویترکون اھل الاصنام ہر ایک کو اپنی جنس سے محبت ہوتی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے سند لانا محض بے جا ہے وہ تو خود فرما رہے ہیں کہ میت پر اعمال کا سایہ کافی ہے جس سے معلوم ہوا کہ اگر میت پر سایہ کرنے کے لیے قبہ بنایا تو جائز ہے۔
عینی شرح بخاری اسی حدیث ابن عمر کے ماتحت فرماتے ہیں۔
وھی اشارۃ الی ان ضرب الفسطاط لغرض صحیح لاتشترمن الشمس مثلا للاحیاء لا لا ضلال المیت جاز
"ادھر اشارہ ہے کہ قبر پر صحیح غرض کے لیے خیمہ لگانا جیسے کہ زندوں کو دھوپ سے بچانے کے لیے نہ کہ میت کو سایہ کرنے کے لیے جائز ہے۔"
اس کا تجربہ خود مجھ کو اس طرح ہوا کہ میں ایک دفعہ دوپہر کے وقت ایک گھنٹہ کے لیے سیالکوٹ گیا۔ بہت شوق تھا کہ ملا عبدالحکیم فاضل سیالکوٹی رلیہ الرحمۃ کے مزار پر فاتحہ پڑھوں۔ کیونکہ ان کے حواشی دیکھنے کا اکثر مشغلہ رہا وہاں پہنچا۔ قبر پر کوئی سائبان نہ تھا۔ زمین گرم تھی دھوپ تیز تھی بمشکل تمام چند آیات پڑھ کر فوراً وہاں سے ہٹنا پڑا۔ جذبہ دل دل ہی میں رہ گیا۔ اس دن معلوم ہوا کہ مزارات پر عمارت بہت فائدہ مند ہیں۔ تفسیر روح البیان پارہ26 سورہ فتح زیر آیت اذیبا یعونک تحت الشجرۃ ہے کہ بعض مغرور لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ آج کل لوگ اولیاء اللہ کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں لٰہذا ہم ان قبروں کو گرائیں گے تاکہ یہ لوگ دیکھ لیں کہ اولیاء اللہ میں کوئی قدرت نہیں ہے ورنہ وہ اپنی قبروں کر گرنے سے بچا لیتے-
فاعلم ان ھذا الصنیع کفر صراح ماخوذ من قول فرعون ذرونی اقتل موسی ولیدع وبہ انی اخاف ان یبدل دینکم اور ان یظھر دی الارض الفساد
"تو جان لو کہ یہ کام خالص کفر ہے فرعون کے اس قول سے ماخوذ ہے کہ چھوڑ دو مجھ کو میں موسٰی کو قتل کردوں وہ اپنے خدا کو بلالے میں خوف کرتا ہوں کہ تمہارا دین بدل دیگا یا زمین میں فساد پھیلا دیگا۔"
مجھ سے ایک بار کیسی نے کہا کہ اگر اولیاء اللہ یا صحابہ کرام میں کچھ طاقت تھی تو نجدی وہابیوں سے اپنی قبروں کو کیوں نہ بچایا؟ معلوم ہوا کہ یہ محض مردے ہیں پھر ان کی تعظیم و توقیر کیسی؟ میں نے کہا کہ حضور علیہ السلام سے پہلے کعبہ معظمہ میں تین سو ساٹھ 360 بت تھے اور احادیث میں ہے کہ قریب قیامت ایک شخص کعبہ گرادے گا۔ آج لاہور یں مسجد شہید گنج سکھوں کا گوردوارہ بن گئی۔ بہت سی مساجد ہیں جو کہ برباد کر دی گئیں تو اگر ہندو کہیں کہ اگر خدا میں طاقت تھی تو اس نے اپنا گھر ہمارے ہاتھوں سے کیوں نہ بچالیا۔ اولیاء اللہ یا ان کی مقابر کی تعظیم ان کی محبوبیت کی وجہ سے کی ہے۔ نہ کہ محض قدرت سے جیسے کہ مساجد اور کعبہ معظمہ کی تعظیم ابن سعود نے بہت سی مسجدیں بھی گرادیں جیسے کہ مسجد سیدنا بلال کوہ صفاء پر وغیرہ وغیرہ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔