بدعت کی تعریف و اقسام حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
2 ۔ علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم فی شرح خمسین حدیثا من جوامع الکلم (ص : 253)’’ میں تقسیمِ بدعت کے تناظر میں اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں :
وقد روی الحافظ أبو نعيم بإسناد عن إبراهيم ابن الجنيد قال : سمعت الشافعی يقول : البدعة بدعتان : بدعة محمودة و بدعة مذمومة، فما وافق السنة فهو محمود، وما خالف السنة فهو مذموم. واحتجّ بقول عمر رضی الله عنه : نعمت البدعة هذه.(1) ومراد الشافعی رضی الله عنه ما ذکرناه من قبل أن أصل البدعة المذمومة ما ليس لها أصل فی الشريعة ترجع إليه و هی البدعة فی إطلاق الشرع. وأما البدعة المحمودة فما وافق السنة : يعنی ما کان لها أصل من السنة ترجع إليه، وإنما هی بدعة لغة لا شرعا لموافقتها السنة.
(1) 1. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم : 250
2.بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906
3. بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379
4. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100
’’حافظ ابو نعیم نے ابراہیم بن جنید کی سند سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں۔ بدعت محمودہ اور بدعت مذمومہ۔ بدعتِ محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے مطابق و موافق ہو اور جو بدعت سنت کے مخالف و متناقض ہو وہ مذموم ہے۔ انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول نعمت البدعة هذه سے اِستدلال کیا ہے اور امام شافعی کی مراد بھی یہی ہے جو ہم نے اس سے پہلے بیان کی ہے ۔بے شک بدعت مذمومہ وہ ہے جس کی کوئی اصل اور دلیل شریعت میں نہ ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہے۔ اسی پر بدعتِ شرعی کا اِطلاق ہوتا ہے۔اس کے برعکس بدعتِ محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے موافق ہو یعنی شریعت میں اس کی اَصل ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہو یہی بدعت لُغوی ہے شرعی نہیں۔
4۔ علامہ بدر الدین محمد بن عبداللہ زرکشی اپنی کتاب ’’المنثور فی القواعد (1 : 217)’’ میں بدعتِ لغویہ اور بدعتِ شرعیہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فأما فی الشرع فموضوعة للحادث المذموم، وإذا أريد الممدوح قُيدَتْ و يکون ذالک مجازًا شرعياً حقيقة لغوية.
’’شرع میں عام طور پر لفظِ بدعت، محدثہ مذمومہ کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن جب بدعت ممدوحہ مراد ہو تو اسے مقید کیا جائے گا لہٰذا یہ بدعت مجازاً شرعی ہو گی اور حقیقتاً لغوی ہو گی۔’’
5۔ اِمام محمد عبد الباقی زرقانی بہت بڑے محدث اور شارح گزرے ہیں۔ وہ حدیث نعمت البدعة هذه(1) کے ذیل میں بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کے حوالے سے لکھتے ہیں :
(1) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء فی قيام رمضان، 1 : 114، رقم : 250
2. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269
3. ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم، 1 : 266
سماها بدعة لانه صلی الله عليه وآله وسلم لم يسن الإجتماع لها، و هو لغة ما أحدث علی غير مثال سبق، و تطلق شرعاً علی مقابل السنة و هی مالم يکن فی عهده صلی الله عليه وآله وسلم ثم تنقسم إلی الأحکام الخمسة وحديث : ’’کل بدعة ضلالة’’ (1) عام مخصوص وقد رغب فيها عمر. (2)
(1) 1. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4607
2. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة، 5 : 44، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
(2) زرقانی، شرح المؤطا، 1 : 238
’’باجماعت نماز تراویح کو بدعت سے اس لیے موسوم کیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لئے اجتماع سنت قرار نہیں دیا اور لغوی اعتبار سے بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا گیا ہو اور شرعی طور پر بدعتِ سیّئہ کو سنت کے مقابلے میں بولا جاتا ہے اور اس سے مراد وہ عمل ہوتا ہے جسے عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ کیا گیا ہو پھر بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہیں اور حدیث ’’کلّ بدعة ضلالة’’ عام مخصوص ہے اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس (نماز تراویح) کی ترغیب دی ہے۔
2 ۔ بدعتِ شرعی : ۔ بدعتِ شرعی سے مراد اَیسے نئے اُمور ہیں جو نہ صرف کتاب و سنت سے متخالف و متناقض ہوں اور اَخیارِ اُمت کے اِجماع کے بھی مخالف ہوں۔ دوسرے لفظوں میں ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی اَصل، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو، ’’بدعت شرعی’’ ہے۔ ذیل میں بدعتِ شرعی کی چند تعریفات ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ابن تیمیہ (728ھ) بدعتِ شرعی کی تعریف کرتے ہوئے اپنے معروف فتاویٰ ’’مجموع الفتاویٰ (3 : 195)’’ میں لکھتا ہے :
والبدعة ما خالفت الکتاب والسنة أو اجماع سلف الأمّة من الاعتقادات والعبادات کأقوال الخوارج والروافض والقدرية والجهمية.
’’بدعت سے مراد ایسا کام ہے جو اعتقادات و عبادات میں کتاب و سنت اور اَخیارِ اُمت کے اِجماع کی مخالفت کرے جیسے خوارج، روافض، قدریۃ اور جہمیۃ کے عقائد۔’’
2۔ شیخ ابن رجب حنبلی (المتوفی 795ھ) بدعت شرعی کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
المراد بالبدعة ما أحدث مما لا اصل له فی الشريعة يدل عليه واما ما کان له اصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعاً وان کان بدعة لغة.
ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم، 1 : 252
’’بدعت (شرعی) سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہوگا۔’’
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ أحْدَثَ فِی أمْرِنَا هَذا مَا لَيْسَ مِنْه فَهُوَ رَدٌّ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ موصوف بدعتِ لغویہ اور بدعتِ شرعیہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں :
من أحدث فی أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد(1) فکلّ من أحدث شيئا و نسبه إلی الدين ولم يکن له أصل من الدين يرجع إليه فهو ضلالة والدين بريء منه، و سواء فی ذلک مسائل الاعتقادات أو الأعمال أو الأقوال الظاهرة والباطنة. و أما ما وقع فی کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلک فی البدع اللغوية لا الشرعية.(2)
(1) 1. مسلم، الصحيح، کتاب الاقضية، باب نقض الاحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718
2. ابن ماجه، السنن،المقدمه، باب تعظيم حديث رسول اﷲ، 1 : 7، رقم : 14
3. أحمد بن حنبل، المسند : 6 : 270، رقم : 26372
4. ابن حبان، الصحيح، 1 : 207، رقم : 26
5. دار قطنی، السنن، 4 : 224، رقم : 78
(2) ابن رجب حنبلی، جامع العلوم و الحکم فی شرح خمسين حديثا من جوامع الکلم : 252
’’(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ) جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ (چیز) مردود ہے۔ پس جس کسی نے بھی کوئی نئی چیز ایجاد کی اور پھر اس کی نسبت دین کی طرف کر دی اور وہ چیز دین کی اصل میں سے نہ ہو تو وہ چیز اس کی طرف لوٹائی جائے گی اور وہی گمراہی ہوگی اور دین اس چیز سے بری ہوگا اور اس میں اعتقادی، عملی، قولی، ظاہری و باطنی تمام مسائل برابر ہیں۔ اور بعض اچھی چیزوں میں سے جو کچھ اسلاف کے کلام میں گزر چکا ہے پس وہ بدعت لغویہ میں سے ہے، بدعت شرعیہ میں سے نہیں ہے۔’’
3۔ اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے معروف غیر مقلد وھابی عالمِ نواب صدیق حسن خان بھوپالی (1307ھ) لکھتا ہے کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس کے نتیجے میں کوئی سنت متروک ہو جائے۔ جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقض نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے۔
ایک اور غیر مقلد وھابی نواب وحید الزماں اپنی کتاب ’’ہدیۃ المہدی’’ کے صفحہ 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتا ہے :
البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الاصل.
’’بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے۔ جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔’’
وہ بدعت جو مستحسن اُمور کے تحت آتی ہے اور قرآن و حدیث کے کسی حکم سے متضاد بھی نہیں وہ مشروع، مباح اور جائز ہے۔ اسے محض بدعت یعنی نیا کام ہونے کی بنا پر مکروہ یا حرام قرار دینا کتاب و سنت کی روح کے منافی ہی نہیں بلکہ منشائے اِلٰہی کے خلاف بھی ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔