【【【【 ولایت اور امامت کا بیان 】】】】
امامت دو ۲ قسم ہے: (۱) صغریٰ۔ (۲) کبریٰ۔ امامتِ صغریٰ، امامتِ نماز ہے، اِس کا بیا ن اِن شاءﷲ تعالیٰ کتابُ الصلاۃ میں آئے گا۔ امامتِ کبریٰ نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نیابتِ مطلقہ، کہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیابت سے مسلمانوں کے تمام اُمورِ دینی ودنیوی میں حسبِ شرع تصرّفِ عام کا اختیار رکھے اور غیرِ معصیت میں اُس کی اطاعت، تمام جہان کے مسلمانوں پر فرض ہو۔ اِس امام کے لیے مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ، قادر، قرشی ہونا شرط ہے۔ ہاشمی، علوی، معصوم ہونا اس کی شرط نہیں۔ اِن کا شرط کرنا روافض کا مذہب ہے، جس سے اُن کا یہ مقصد ہے کہ برحق اُمرائے مؤمنین خلفائے ثلٰثہ ابو بکر صدیق و عمرِ فاروق وعثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنھم کو خلافت سے جدا کریں، حالانکہ ان کی خلافتوں پر تمام صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنھم کا اِجماع ہے۔ مولیٰ علی کرّم ﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم و حضرا ت حسنَین رضی اﷲ تعالیٰ عنھما نے اُن کی خلافتیں تسلیم کیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عَلویت کی شرط نے تو مولیٰ علی کو بھی خلیفہ ہونے سے خارج کر دیا، مولیٰ علی، علوی کیسے ہو سکتے ہیں! رہی عصمت، یہ انبیا و ملائکہ کا خاصہ ہے، جس کو ہم پہلے بیان کر آئے، امام کا معصوم ہونا روافض کا مذہب ہے۔
مسئلہ(۱): محض مستحقِ امامت ہونا امام ہونے کے لیے کافی نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ اھلِ حَلّ و عقد نے اُسے امام مقرر کیا ہو، یا امامِ سابق نے۔
مسئلہ (۲): امام کی اِطاعت مطلقاً ہر مسلمان پر فرض ہے، جبکہ اس کا حکم شریعت کے خلاف نہ ہو، خلافِ شریعت میں کسی کی اطاعت نہیں۔
مسئلہ (۳): امام ایسا شخص مقرر کیا جائے، جو شجاع اور عالم ہو، یا علماء کی مدد سے کام کرے۔
مسئلہ (۴): عورت اور نابالغ کی امامت جائز نہیں، اگر نابالغ کو امامِ سابق نے امام مقرر کر دیا ہو تو اس کے بلوغ تک کے لیے لوگ ایک والی مقرر کریں کہ وہ احکام جاری کرے اور یہ نابالغ صرف رسمی امام ہو گا اور حقیقۃً اُس وقت تک وہ والی اِمام ہے۔
عقیدہ (۱): نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ برحق و امامِ مطلق حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق، پھر حضرت عمرِ فاروق، پھر حضرت عثمان غنی، پھر حضرت مولیٰ علی پھر چھ مہینے کے لیے حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی ﷲ تعالیٰ عنھم ہوئے، اِن حضرات کو خلفائے راشدین اور اِن کی خلافت کو خلافتِ راشدہ کہتے ہیں، کہ انھوں نے حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی سچی نیابت کا پورا حق ادا فرمایا۔
عقیدہ (۲): بعد انبیا و مرسلین، تمام مخلوقاتِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں، پھر عمر فاروقِ اعظم، پھر عثمٰن غنی، پھر مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنھم، ۔
جو شخص مولیٰ علی کرّم ﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم کو صدیق یا فاروق رضی ﷲ تعالیٰ عنھما سے افضل بتائے، گمراہ بدمذہب ہے۔
عقیدہ (۳): افضل کے یہ معنی ہیں کہ ﷲ عزوجل کے یہاں زیادہ عزت و منزلت والا ہو، اسی کو کثرتِ ثواب سے بھی تعبیر کرتے ہیں، نہ کثرتِ اجر، کہ بارہا مفضول کے لیے ہوتی ہے۔ حدیث میں ہمراہیانِ سیّدنا اِمام مَہدی کی نسبت آیا کہ: ''اُن میں ایک کے لیے پچاس کا اجر ہے، صحابہ نے عرض کی: اُن میں کے پچاس کا یا ہم میں کے؟ فرمایا: بلکہ تم میں کے۔'' تو اجر اُن کا زائد ہوا، مگر افضلیت میں وہ صحابہ کے ہمسر بھی نہیں ہو سکتے، زیادت درکنار، کہاں امام مَہدی کی رفاقت اور کہاں حضور سیّدِ عالَم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحابیت!، اس کی نظیر بلا تشبیہ یوں سمجھیے کہ سلطان نے کسی مہم پر وزیر اور بعض دیگر افسروں کو بھیجا، اس کی فتح پر ہر افسر کو لاکھ لاکھ روپے انعام دیے اور وزیر کو خالی پروانہ خوشنودی مزاج دیا تو انعام انھیں کو زائد ملا، مگر کہاں وہ اور کہاں وزیرِ اعظم کا اِعزاز؟
عقیدہ (۴): ان کی خلافت بر ترتیب فضلیت ہے، یعنی جو عند ﷲ افضل و اعلیٰ و اکرم تھا وہی پہلے خلافت پاتا گیا، نہ کہ افضلیت بر ترتیب خلافت، یعنی افضل یہ کہ مُلک داری و مُلک گیری میں زیادہ سلیقہ ، جیسا آج کل سُنّی بننے والے تفضیلیے کہتے ہیں۔۔۔ یوں ہوتا تو فاروقِ اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سب سے افضل ہوتے کہ اِن کی خلافت کو فرمایا:
((لَمْ أَرَ عَبْقَرِ یًّا یَّفْرِيْ فَرْیَہٗٗ حَتّی ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ.))
اور صدیقِ اکبر کی خلافت کو فرمایا:
((فِيْ نَزْعِہٖ ضَعْفٌ وَاللہُ یَغْفِرُ لَہٗ.))
عقیدہ (۵): خلفائے اربعہ راشدین کے بعد بقیہ عشرہ مبشَّرہ و حضرات حسنین و اصحابِ بدر و اصحابِ بیعۃ الرضوان کے لیے افضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنتی ہیں۔
عقیدہ (۶): تمام صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنھم اھلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔
عقیدہ (۷): کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے، کہ وہ حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ بغض ہے، ایسا شخص رافضی ہے، اگرچہ چاروں خلفا کو مانے اور اپنے آپ کو سُنّی کہے، مثلاً حضرت امیرِ معاویہ اور اُن کے والدِ ماجد حضرت ابو سفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہند، اسی طرح حضرت سیّدنا عَمرو بن عاص، و حضرت مغیرہ بن شعبہ، وحضرت ابو موسیٰ اشعری رضی ﷲ تعالیٰ عنھم، حتیٰ کہ حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنہوں نے قبلِ اسلام حضرت سیّدنا سید الشہدا حمزہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا اور بعدِ اسلام اَخبث الناس خبیث مُسَیْلِمَہ کذّاب ملعون کو واصلِ جہنم کیا۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے :کہ میں نے خیر النّاس و شر النّاس کو قتل کیا، اِن میں سے کسی کی شان میں گستاخی، تبرّا ہے اور اِس کا قائل رافضی، اگرچہ حضراتِ شیخین رضی ﷲ تعالیٰ عنھما کی توہین کے مثل نہیں ہوسکتی، کہ ان کی توہین، بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی فقہائے کرام کے نزدیک کفر ہے۔
عقیدہ (۸): کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کاہو، کسی صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچتا۔
مسئلہ (۵): صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنھم کے باہم جو واقعات ہوئے، ان میں پڑنا حرام، حرام، سخت حرام ہے، مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔
عقیدہ (۹): تمام صحابہ کرام اعلیٰ و ادنیٰ (اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں) سب جنتی ہیں، وہ جہنم کی بِھنک نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے، محشر کی وہ بڑی گھبراہٹ انھیں غمگین نہ کرے گی، فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا، یہ سب مضمون قرآنِ عظیم کا ارشاد ہے۔
عقیدہ (۱۰): صحابہ کر ام رضی ﷲ تعالیٰ عنھم، انبیا نہ تھے، فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں۔ ان میں بعض کے لیے لغزشیں ہوئیں، مگر ان کی کسی بات پر گرفت ﷲ و رسول (عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے خلاف ہے۔ ﷲ عزوجل نے ''سورہ حدید'' میں جہاں صحابہ کی دو قسمیں فرمائیں، مومنین قبلِ فتحِ مکہ اور بعدِ فتحِ مکہ اور اُن کو اِن پر تفضیل دی اور فرما دیا:
( وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ؕ )
''سب سے اﷲ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا۔''
ساتھ ہی ارشاد فرما دیا:
(وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿٪۱۰﴾)
ﷲ خوب جانتا ہے، جو کچھ تم کرو گے۔'' تو جب اُس نے اُن کے تمام اعمال جان کر حکم فرما دیا کہ ان سب سے ہم جنتِ بے عذاب و کرامت و ثواب کا وعدہ فرماچکے تو دوسرے کو کیا حق رہا کہ اُن کی کسی بات پر طعن کرے...؟! کیا طعن کرنے والا ﷲ (عزوجل) سے جدا اپنی مستقل حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔
عقیدہ (۱۱): امیرِ معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ مجتہد تھے، اُن کا مجتہد ہونا حضرت سیّدنا عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنھما نے حدیث ِ''صحیح بخاری'' میں بیان فرمایا ہے، مجتہد سے صواب و خطا دونوں صادر ہوتے ہیں۔ خطا دو قسم ہے: خطاء عنادی، یہ مجتہد کی شان نہیں اور خطاء اجتہادی، یہ مجتہد سے ہوتی ہے اور اِس میں اُس پر عند ﷲ اصلاً مؤاخذہ نہیں۔ مگر احکامِ دنیا میں وہ دو قسم ہے: خطاء مقرر کہ اس کے صاحب پر انکار نہ ہوگا، یہ وہ خطاء اجتہادی ہے جس سے دین میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہوتا ہو، جیسے ھمارے نزدیک مقتدی کا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا۔ دوسری خطاء منکَر، یہ وہ خطاء اجتہادی ہے جس کے صاحب پر انکار کیا جائے گا، کہ اس کی خطا باعثِ فتنہ ہے۔ حضرت امیرِ معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا حضرت سیّدنا امیرالمومنین علی مرتضیٰ کرّم ﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم سے خلاف اسی قسم کی خطا کا تھا اور فیصلہ وہ جو خود رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مولیٰ علی کی ڈِگری اور امیرِ معاویہ کی مغفرت، رضی ﷲ تعالیٰ عنھم اجمعین۔
مسئلہ (۶): یہ جو بعض جاھل کہا کرتے ہیں کہ جب حضرت مولیٰ [علی] کرّم ﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم کے ساتھ امیر معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا نام لیا جائے تو رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نہ کہا جائے، محض باطل وبے اصل ہے۔ علمائے کرام نے صحابہ کے اسمائے طیبہ کے ساتھ مطلقاً ''رضی ﷲ تعالیٰ عنہ'' کہنے کا حکم دیا ہے، یہ استثنا نئی شریعت گڑھنا ہے۔
عقیدہ (۱۲): منھاجِ نبوت پر خلافتِ حقہ راشدہ تیس سال رہی، کہ سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے چھ مہینے پر ختم ہوگئی، پھر امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی خلافتِ راشدہ ہوئی اور آخر زمانہ میں حضرت سیّدنا امام مَہدی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ہوں گے۔
امیرِ معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اوّل ملوکِ اسلام ہیں، اسی کی طرف توراتِ مقدّس میں اشارہ ہے کہ:
''مَوْلِدُہٗ بِمَکَّۃَ وَمُھَاجَرُہٗ بِطَیْبَۃَ وَمُلْکُہٗ بِالشَّامِ.''
''وہ نبی آخر الزماں (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) مکہ میں پیدا ہوگا اور مدینہ کو ہجرت فرمائے گا اور اس کی سلطنت شام میں ہوگی۔'' تو امیرِ معاویہ کی بادشاہی اگرچہ سلطنت ہے، مگر کس کی! محمد رسول ﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سلطنت ہے۔ سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک فوجِ جرّار جاں نثار کے ساتھ عین میدان میں بالقصد و بالاختیار ہتھیار رکھ دیے اور خلافت امیرِ معاویہ کو سپرد کر دی اور ان کے ہاتھ پر بیعت فرمالی اور اس صُلح کو حضور ِاقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پسند فرمایا اور اس کی بشارت دی کہ امام حسن کی نسبت فرمایا:
((إِنَّ ابْنِي ھٰذَا سَیِّدٌ لَعَلَّ اللہَ أَنْ یُّصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیْمَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ.))
''میرایہ بیٹا سیّد ہے، میں امید فرماتا ہوں کہ ﷲ عزوجل اس کے باعث دو بڑے گروہِ اسلام میں صلح کرا دے۔''
تو امیرِ معاویہ پر معاذ ﷲ فِسق وغیرہ کا طعن کرنے والا حقیقۃً حضرت امام حسن مجتبیٰ، بلکہ حضور سیّدِ عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم، بلکہ حضرت عزّت جلّ وعلا پر طعن کرتا ہے۔
عقیدہ (۱۳): ام المومنین صدیقہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا قطعی جنتی اور یقینا آخرت میں بھی محمد رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبوبہ عروس ہیں، جو انھیں ایذا دیتا ہے رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایذا دیتا ہے اور حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنھما تو عشرہ مبشَّرہ سے ہیں، ان صاحبوں سے بھی بمقابلہ امیر المومنین مولیٰ علی کرّم ﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم خطائے اجتہادی واقع ہوئی، مگر اِن سب نے بالآخر رجوع فرمائی، عرفِ شرع میں بغاوت مطلقاً مقابلہ امامِ برحق کو کہتے ہیں، عناداً ہو، خواہ اجتہاداً ، ان حضرات پر بوجہ رجوع اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا، گروہِ امیرِ معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ پر حسبِ اصطلاحِ شرع اِطلاق فئہ باغیہ آیا ہے، مگر اب کہ باغی بمعنی مُفسِد ومُعانِد وسرکش ہوگیا اور دُشنام سمجھا جاتا ہے، اب کسی صحابی پر اس کا اِطلاق جائز نہیں۔
عقیدہ (۱۴): ام المؤمنین حضرت صدیقہ بنت الصدیق محبوبہ محبوبِ ربِ العالمین جل و علا و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وعلیھما وسلم پر معاذﷲ تہمتِ ملعونہ اِفک سے اپنی ناپاک زبان آلودہ کرنے والا، قطعاً یقینا کافر مرتد ہے اور اس کے سوا اور طعن کرنے والا رافضی، تبرّائی، بد دین، جہنمی۔
عقیدہ (۱۵): حضرات حسنَین رضی ﷲ تعالیٰ عنھما یقینا اعلیٰ درجہ شہدائے کرام سے ہیں، ان میں کسی کی شہادت کا منکر گمراہ، بددین، خاسر ہے۔
عقیدہ (۱۶): یزید پلید فاسق فاجر مرتکبِ کبائر تھا، معاذﷲ اس سے اور ریحانہ رسول اللہ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سیّدنا امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے کیا نسبت...؟! آج کل جو بعض گمراہ کہتے ہیں کہ: ''ہمیں ان کے معاملہ میں کیا دخل؟ ھمارے وہ بھی شہزادے، وہ بھی شہزادے'' ایسا بکنے والا مردود، خارجی، ناصبی مستحقِ جہنم ہے۔ ہاں! یزید کو کافر کہنے اور اس پر لعنت کرنے میں علمائے اھلِ سنّت کے تین قول ہیں اور ھمارے امامِ اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا مسلک سُکُوت، یعنی ہم اسے فاسق فاجر کہنے کے سوا، نہ کافر کہیں، نہ مسلمان۔
عقیدہ (۱۷): اھلِ بیتِ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنھم مقتدایانِ اھلِ سنّت ہیں، جو اِن سے محبت نہ رکھے، مردود وملعون خارجی ہے۔
عقیدہ (۱۸): اُم المومنین خدیجۃ الکبریٰ، و ام المؤمنین عائشہ صدیقہ، و حضرت سیّدہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہنّ قطعی جنتی ہیں اور انھیں اور بقیہ بَناتِ مکرّمات و ازواجِ مطہّرات رضی ﷲ تعالیٰ عنہنّ کو تمام صحابیات پر فضیلت ہے۔
عقیدہ (۱۹): اِن کی طہارت کی گواہی قرآنِ عظیم نے دی۔
ولایت ایک قربِ خاص ہے کہ مولیٰ عزوجل اپنے برگزیدہ بندوں کو محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے۔
مسئلہ (۱): ولایت وَہبی شے ہے، نہ یہ کہ اَعمالِ شاقّہ سے آدمی خود حاصل کرلے، البتہ غالباً اعمالِ حسنہ اِس عطیہ الٰہی کے لیے ذریعہ ہوتے ہیں اور بعضوں کو ابتداء مل جاتی ہے۔
مسئلہ (۲): ولایت بے علم کو نہیں ملتی، خواہ علم بطورِ ظاہر حاصل کیا ہو، یا اس مرتبہ پر پہنچنے سے پیشتر ﷲ عزوجل نے اس پر علوم منکشف کر دیے ہوں۔
عقیدہ (۱): تمام اولیائے اوّلین و آخرین سے اولیائے محمدیّین یعنی اِس اُمّت کے اولیاء افضل ہیں ۔۔۔
اور تمام اولیائے محمدیّین میں سب سے زیادہ معرفت وقربِ الٰہی میں خلفائے اَربعہ رضی ﷲ تعالیٰ عنھم ہیں اور اُن میں ترتیب وہی ترتیب افضلیت ہے، سب سے زیادہ معرفت و قرب صدیقِ اکبر کو ہے،پھر فاروقِ اعظم، پھر ذو النورَین، پھر مولیٰ مرتضیٰ کو رضی ﷲ تعالیٰ عنھم اجمعین۔ ہاں مرتبہ تکمیل پر حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جانبِ کمالاتِ نبوت حضراتِ شیخین کو قائم فرمایا اور جانبِ کمالاتِ ولایت حضرت مولیٰ مشکل کشا کو تو جملہ اولیائے مابعد نے مولیٰ علی ہی کے گھر سے نعمت پائی اور انھیں کے دست نگر تھے، اور ہیں، اور رہیں گے۔
عقیدہ (۲): طریقت منافی شریعت نہیں۔ وہ شریعت ہی کا باطِنی حصہ ہے، بعض جاھل مُتصوِّف جو یہ کہہ دیا کرتے ہیں: کہ طریقت اور ہے شریعت اور، محض گمراہی ہے اور اس زُعمِ باطل کے باعث اپنے آپ کو شریعت سے آزاد سمجھنا صریح کفر واِلحاد۔
مسئلہ (۳): اَحکامِ شرعیّہ کی پابندی سے کوئی ولی کیسا ہی عظیم ہو، سُبکدوش نہیں ہوسکتا۔ بعض جہال جو یہ بک دیتے ہیں کہ شریعت راستہ ہے، راستہ کی حاجت اُن کو ہے جو مقصود تک نہ پہنچے ہوں، ہم تو پہنچ گئے۔ سیّد الطائفہ حضرت جُنید بغدادی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انھیں فرمایا:
''صَدَقُوا لَقَدْ وَصَلُوا وَلکِنْ إِلٰی أَیْنَ؟ إِلَی النّارِ.'
''وہ سچ کہتے ہیں، بیشک پہنچے، مگر کہاں؟ جہنم کو۔'' البتہ! اگر مجذوبیت سے عقلِ تکلیفی زائل ہو گئی ہو، جیسے غشی والا تو اس سے قلمِ شریعت اُٹھ جائے گا،۔۔۔ مگر یہ بھی سمجھ لو! جو اس قسم کا ہوگا، اُس کی ایسی باتیں کبھی نہ ہوں گی، شریعت کا مقابلہ کبھی نہ کریگا۔
مسئلہ (۴): اولیائے کرام کو ﷲ عزوجل نے بہت بڑی طاقت دی ہے، ان میں جو اصحابِ خدمت ہیں، اُن کو تصرّف کا اختیار دیا جاتا ہے، سیاہ، سفید کے مختار بنا دیے جاتے ہیں، یہ حضرات نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سچے نائب ہیں، ان کو اختیارات وتصرفات حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیابت میں ملتے ہیں، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علومِ غیبیہ ان پر منکشف ہوتے ہیں ، ان میں بہت کومَا کَانَ وَمَا یَکُوْن اور تمام لوحِ محفوظ پر اطلاع دیتے ہیں، مگر یہ سب حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے واسطہ و عطا سے، بے وِساطَت ِرسول کوئی غیرِنبی کسی غیب پر مُطّلع نہیں ہوسکتا۔
عقیدہ (۳): کرامتِ اولیا حق ہے ، اِس کا منکر گمراہ ہے۔ مسئلہ(۵): مُردہ زندہ کرنا، مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شِفا دینا، مشرق سے مغرب تک ساری زمین ایک قدم میں طے کرجانا، غرض تمام خَوارقِ عادات، اولیاء سے ممکن ہیں، سوا اس معجزہ کے جس کی بابت دوسروں کے لیے ممانعت ثابت ہوچکی ہے۔ جیسے قرآنِ مجید کے مثل کوئی سورت لے آنا، ۔۔یا دنیا میں بیداری میں ﷲ عزوجل کے دیدار یا کلامِ حقیقی سے مشرف ہونا، اِس کا جو اپنے یا کسی ولی کے لیے دعویٰ کرے، کافر ہے۔
مسئلہ (۶): اِن سے اِستِمداد و اِستِعانت محبوب ہے، یہ مدد مانگنے والے کی مدد فرماتے ہیں، چاہے وہ کسی جائز لفظ کے ساتھ ہو۔ رہا ان کو فاعلِ مستقل جاننا، یہ وہابیہ کا فریب ہے، مسلمان کبھی ایسا خیال نہیں کرتا، مسلمان کے فعل کو خواہ مخواہ قبیح صورت پر ڈھالنا وہابیت کا خاصہ ہے۔ مسئلہ (۷): اِن کے مزارات پر حاضری مسلمان کے لیے سعادت وباعثِ برکت ہے۔
مسئلہ (۸): اِن کو دُور و نزدیک سے پکارنا سلفِ صالح کا طریقہ ہے۔
مسئلہ (۹): اولیائے کرام اپنی قبروں میں حیاتِ اَبدی کے ساتھ زندہ ہیں ، اِن کے عِلم واِدراک وسَمع وبَصر پہلے کی بہ نسبت بہت زیادہ قوی ہیں۔
مسئلہ (۱۰): اِنھیں ایصالِ ثواب، نہایت مُوجبِ برکات و امرِ مستحب ہے، اِسے عُرفاً براہِ ادب نذر و نیاز کہتے ہیں، یہ نذرِ شرعی نہیں جیسے بادشاہ کو نذر دینا، اِن میں خصوصاً گیارھویں شریف کی فاتحہ نہایت عظیم برکت کی چیز ہے۔
مسئلہ (۱۱): عُرسِ اولیائے کرام یعنی قرآن خوانی، و فاتحہ خوانی، و نعت خوانی، و وعظ، و ایصالِ ثواب اچھی چیز ہے۔ رہے مَنہیاتِ شرعیہ وہ تو ہر حالت میں مذموم ہیں اور مزاراتِ طیبہ کے پاس اور زیادہ مذموم۔
تنبیہ: چونکہ عموماً مسلمانوں کو بحمدہٖ تعالیٰ اولیائے کرام سے نیاز مندی اور مشائخ کے ساتھ اِنھیں ایک خاص عقیدت ہوتی ہے، اِن کے سلسلہ میں منسلک ہونے کو اپنے لیے فلاحِ دارَین تصوّر کرتے ہیں، اس وجہ سے زمانہ حال کے وہابیہ نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے یہ جال پھیلا رکھا ہے کہ پیری، مریدی بھی شروع کر دی، حالانکہ اولیا کے یہ منکر ہیں، لہٰذا جب مرید ہونا ہو تو اچھی طرح تفتیش کر لیں، ورنہ اگر بد مذہب ہوا تو ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے
بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہر دستے نباید داد دست
پیری کے لیے چار شرطیں ہیں، قبل از بیعت اُن کا لحاظ فرض ہے: او ۱ل : سنّی صحیح العقیدہ ہو۔ دو۲م: اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔ سِو۳م: فاسق مُعلِن نہ ہو۔ چہا۴رم: اُس کا سلسلہ نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تک متصل ہو۔
نَسْأَلُ اللہَ الْعَفْوَ وَالعَافِیَۃَ فِي الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَالْاِسْتِقَامَۃَ عَلی الشَّرِیْعَۃِ الطَّاھِرَۃِ وَمَا تَوْفِیْقيْ إِلاَّ بِاللہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیْبُ، وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی حَبِیْبِہٖ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَابْنِہٖ وَحِزْبِہٖ أَبَدَ الْآبِدِیْن، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن.oط بہارشریعت حصہ١
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔