Pages

Sunday 4 December 2016

【【【 عقائد متعلّقہ نبوت 】】】

【【【【 عقائد متعلّقہ نبوت 】】】】

مسلمان کے لیے جس طرح ذات و صفات کا جاننا ضروری ہے، کہ کسی ضروری کا انکار یا محال کا اثبات اسے کافر نہ کر دے، اسی طرح یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ نبی کے لیے کیاجاءز ہے اور کیا واجب اور کیا محال، کہ واجب کا انکار اور محال کا اقرار موجب کُفر ہے اور بہت ممکن ہے کہ آدمی نادانی سے خلاف عقیدہ رکھے یا خلاف بات زبان سے نکالے اور ھلاک ہو جائے۔
عقیدہ (۱): نبی اُس بشر کو کہتے ہیں جسے ﷲ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے وحی بھیجی ہو اور رسول بشر ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ملائکہ میں بھی رسول ہیں۔
عقیدہ (۲): انبیا سب بشر تھے اور مرد، نہ کوئی جن نبی ہوا نہ عورت۔
عقیدہ (۳): ﷲ عزوجل پر نبی کا بھیجنا واجب نہیں، اُس نے اپنے فضل وکرم سے لوگوں کی ہدایت کے لیے انبیا بھیجے۔
عقیدہ (۴): نبی ہونے کے لیے اُس پر وحی ہونا ضروری ہے، خواہ فرشتہ کی معرفت ہو یا بلا واسطہ۔
عقیدہ (۵): بہت سے نبیوں پر ﷲ تعالیٰ نے صحیفے اور آسمانی کتابیں اُتاریں، اُن میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں: ''تورات'' حضرت موسیٰ علیہ السلام پر، ''زبور'' حضرت داؤد علیہ السلام پر، ''اِنجیل'' حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر، ''قرآنِ عظیم'' کہ سب سے افضل کتاب ہے، سب سے افضل رسول حضور پُر نور احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفےٰ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر۔ کلامِ الٰہی میں بعض کا بعض سے افضل ہونا اس کے یہ معنی ہیں کہ ھمارے لیے اس میں ثواب زائد ہے، ورنہ ﷲ (عزوجل) ایک، اُس کا کلام ایک، اُس میں افضل ومفضول کی گنجاءش نہیں۔
عقیدہ (۶): سب آسمانی کتابیں اور صحیفے حق ہیں اور سب کلام ﷲ ہیں، اُن میں جو کچھ ارشاد ہوا سب پر ایمان ضروری ہے ، مگر یہ بات البتہ ہوئی کہ اگلی کتابوں کی حفاظت ﷲ تعالیٰ نے اُمّت کے سپرد کی تھی، اُن سے اُس کا حفظ نہ ہوسکا، کلامِ الٰہی جیسا اُترا تھا اُن کے ہاتھوں میں ویسا باقی نہ رہا، بلکہ اُن کے شریروں نے تو یہ کیا کہ اُن میں تحریفیں کر دیں، یعنی اپنی خواہش کے مطابق گھٹا بڑھا دیا۔ لہٰذا جب کوئی بات اُن کتابوں کی ھمارے سامنے پیش ہو تو اگر وہ ھماری کتاب کے مطابق ہے، ہم اُس کی تصدیق کریں گے اور اگر مخالف ہے تو یقین جانیں گے کہ یہ اُن کی تحر یفات سے ہے اور اگر موافقت، مخالفت کچھ معلوم نہیں تو حکم ہے کہ ہم اس بات کی نہ تصدیق کریں نہ تکذیب، بلکہ یوں کہیں کہ:
اٰمَنْتُ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ.
ﷲ (عزوجل) اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ھمارا ایمان ہے۔''
عقیدہ (۷): چونکہ یہ دین ہمیشہ رہنے والا ہے، لہٰذا قرآنِ عظیم کی حفاظت ﷲ عزوجل نے اپنے ذِمّہ رکھی، فرماتا ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ )
''بے شک ہم نے قرآن اُتارا اور بے شک ہم اُـس کے ضرور نگہبان ہیں۔'' لہٰذا اس میں کسی حرف یا نقطہ کی کمی بیشی محال ہے، اگرچہ تمام دنیا اس کے بدلنے پر جمع ہو جائے تو جو یہ کہے کہ اس میں کے کچھ پارے یا سورتیں یا آیتیں بلکہ ایک حرف بھی کسی نے کم کر دیا، یا بڑھا دیا، یا بدل دیا، قطعاً کافر ہے، کہ اس نے اُس آیت کا انکار کیا جو ہم نے ابھی لکھی۔
عقیدہ (۸): قرآنِ مجید، کتابُ ﷲ ہونے پر اپنے آپ دلیل ہے کہ خود اعلان کے ساتھ کہہ رہا ہے:
( وَ اِنۡ کُنۡتُمْ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثْلِہٖ ۪ وَادْعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳﴾فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا وَلَنۡ تَفْعَلُوۡا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ۚۖ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۴﴾ )ـ
''اگر تم کو اس کتاب میں جو ہم نے اپنے سب سے خاص بندے ( محمد صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر اُتاری کوئی شک ہو تو اُس کی مثل کوئی چھوٹی سی سُورت کہہ لاؤ اور ﷲ کے سوا اپنے سب حمایتیوں کوبلالو اگر تم سچے ہو تو اگر ایسا نہ کرسکو اور ہم کہے دیتے ہیں ہرگز ایسا نہ کر سکو گے تو اُس آگ سے ڈرو! جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔'' لہٰذا کافروں نے اس کے مقابلہ میں جی توڑ کوششیں کیں، مگر اس کی مثل ایک سطر نہ بنا سکے نہ بناسکیں۔
مسئلہ : اگلی کتابیں انبیا ہی کو زبانی یاد ہوتیں، قرآنِ عظیم کا معجزہ ہے کہ مسلمانوں کا بچہّ بچہّ یاد کر لیتا ہے۔
عقیدہ (۹): قرآنِ عظیم کی سات قرائتیں سب سے زیادہ مشہور اور متواتر ہیں، ان میں معاذ ﷲ کہیں اختلافِ معنی نہیں، وہ سب حق ہیں، اس میں اُمّت کے لیے آسانی یہ ہے کہ جس کے لیے جو قراءت آسان ہو وہ پڑھے اور حکم یہ ہے کہ جس ملک میں جو قراء ت رائج ہے عوام کے سامنے وہی پڑھی جائے، جیسے ھمارے ملک میں قرا ء تِ عاصم بروایتِ حفص، کہ لوگ ناواقفی سے انکار کریں گے اور وہ معاذﷲ کلمہ کفر ہوگا۔
عقیدہ (۱۰): قرآنِ مجید نے اگلی کتابوں کے بہت سے احکام منسو خ کر دیے۔ یو ہیں قرآنِ مجید کی بعض آیتوں نے بعض آیت کو منسوخ کر دیا۔
عقیدہ (۱۱): نَسخْ کا مطلب یہ ہے کہ بعض احکام کسی خاص وقت تک کے لیے ہوتے ہیں، مگر یہ ظاہر نہیں کیا جاتا کہ یہ حکم فلاں وقت تک کے لیے ہے، جب میعاد پوری ہوجاتی ہے تو دوسرا حکم نازل ہوتا ہے، جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ پھلا حکم اُٹھا دیا گیا اور حقیقۃً دیکھا جائے تو اُس کے وقت کا ختم ہو جانا بتایا گیا۔ منسوخ کے معنی بعض لوگ باطل ہونا کہتے ہیں، یہ بہت سخت بات ہے، احکامِ الٰہیہ سب حق ہیں، وہاں باطل کی رسائی کہاں..
عقیدہ (۱۲): قرآن کی بعض باتیں مُحکَم ہیں کہ ھماری سمجھ میں آتی ہیں اور بعض متشابہ کہ اُن کا پورا مطلب ﷲ اور ﷲ کے حبیب (عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم) سوا کوئی نہیں جانتا۔ متشابہ کی تلاش اور اُس کے معنی کی کِنْکاش وہی کرتا ہے جس کے دل میں کجی ہو۔
عقیدہ (۱۳): وحیئ نبوت، انبیا کے لیے خاص ہے  ، جو اسے کسی غیرِ نبی کے لیے مانے کافر ہے۔ نبی کو خواب میں جو چیز بتائی جائے وہ بھی وحی ہے، اُس کے جھوٹے ہونے کا احتمال نہیں۔ ولی کے دل میں بعض وقت سوتے یا جاگتے میں کوئی بات اِلقا ہوتی ہے، اُس کو اِلہام کہتے ہیں اور وحی شیطانی کہ اِلقا من جانبِ شیطان ہو، یہ کاہن، ساحر اور دیگر کفّار وفسّاق کے لیے ہوتی ہے۔
عقیدہ (۱۴): نبوّت کسبی نہیں کہ آدمی عبادت و رِیاضت کے ذریعہ سے حاصل کرسکے، بلکہ محض عطائے الٰہی ہے، کہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے دیتا ہے، ہاں! دیتا اُسی کو ہے جسے اس منصبِ عظیم کے قابل بناتا ہے، جو قبلِ حصولِ نبوّت تمام اخلاق رذیلہ سے پاک، اور تمام اخلاق فاضلہ سے مزین ہو کر جملہ مدارجِ ولایت طے کر چکتا ہے اور اپنے نسب و جسم و قول وفعل وحرکات و سکنات میں ہرایسی بات سے منزّہ ہوتا ہے جو باعثِ نفرت ہو، اُسے عقلِ کامل عطا کی جاتی ہے، جو اوروں کی عقل سے بدرجہا زائد ہے، کسی حکیم اور کسی فلسفی کی عقل اُس کے لاکھویں حصّہ تک نہیں پہنچ سکتی۔
(اَللہُ اَعْلَمُ حَیۡثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ؕ )( ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیۡمِ ﴿۲۱﴾ )
اور جو اِسے کسبی مانے کہ آدمی اپنے کسب و ریاضت سے منصبِ نبوّت تک پہنچ سکتا ہے، کافر ہے۔
عقیدہ (۱۵): جو شخص نبی سے نبوّت کا زوال جاءز جانے کافر ہے۔
عقیدہ (۱۶): نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور مَلَک کا خاصہ ہے، کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ اماموں کو انبیا کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے۔ عصمتِ انبیا کے یہ معنی ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہو لیا، جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً محال ہے خلاف ائمہ و اکابر اولیا، کہ ﷲ عزوجل اُنھیں محفوظ رکھتا ہے، اُن سے گناہ ہوتا نہیں، مگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں۔
عقیدہ (۱۷): انبیا علیہم السلام شرک و کفر اور ہرایسے امر سے جو خلق کے لیے باعثِ نفرت ہو، جیسے کذب و خیانت و جھل وغیرہا صفاتِ ذمیمہ سے، نیز ایسے افعال سے جو وجاہت اور مُروّت کے خلاف ہیں قبلِ نبوت اور بعد ِنبوت بالاجماع معصوم ہیں اور کبائر سے بھی مطلقاً معصوم ہیں اور حق یہ ہے کہ تعمّدِ صغائر سے بھی قبلِ نبوّت اور بعدِ نبوّت معصوم ہیں۔
عقیدہ (۱۸): ﷲ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام پر بندوں کے لیے جتنے احکام نازل فرمائے اُنھوں نے وہ سب پہنچا دیے، جو یہ کہے کہ کسی حکم کو کسی نبی نے چھپا رکھا، تقیہ یعنی خوف کی وجہ سے یا اور کسی وجہ سے نہ پہنچایا، کافر ہے۔
عقیدہ (۱۹): احکامِ تبلیغیہ میں انبیا سے سہو و نسیان محال ہے۔
عقیدہ (۲۰): اُن کے جسم کا برص و جذام وغیرہ ایسے امراض سے جن سے تنفّر ہوتا ہے، پاک ہونا ضروری ہے۔
عقیدہ(۲۱): ﷲ عزوجل نے انبیا علیہم السلام کو اپنے غیوب پر اطلاع دی، ۔ زمین و آسمان کا ہر ذرّہ ہر نبی کے پیشِ نظر ہے، مگر یہ علمِ غیب کہ ان کو ہے ﷲ (عزوجل) کے دیے سے ہے، لہٰذا ان کا علم عطائی ہوا اور علمِ عطائی ﷲ عزوجل کے لیے محال ہے، کہ اُس کی کوئی صفت، کوئی کمال کسی کا دیا ہوا نہیں ہوسکتا، بلکہ ذاتی ہے۔ جو لوگ انبیا بلکہ سیّد الانبیا صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وعلیہم وسلم سے مطلق علمِ غیب کی نفی کرتے ہیں، وہ قرآنِ عظیم کی اس آیت کے مصداق ہیں:
( اَفَتُؤْمِنُوۡنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوۡنَ بِبَعْضٍ ۚ )
یعنی: ''قرآنِ عظیم کی بعض باتیں مانتے ہیں اور بعض کے ساتھ کُفر کرتے ہیں۔'' کہ آیتِ نفی دیکھتے ہیں اور اُن آیتوں سے جن میں انبیا علیہم السلام کو علومِ غیب عطا کیا جانا بیان کیا گیا ہے، انکار کرتے ہیں، حالانکہ نفی واِثبات دونوں حق ہیں، کہ نفی علمِ ذاتی کی ہے کہ یہ خاصہ اُلوہیت ہے، اِثبات عطائی کا ہے، کہ یہ انبیا ہی کی شایانِ شان ہے اور مُنافی اُلوہیت ہے اور یہ کہنا کہ ہر ذرّہ کا علم نبی کے لیے مانا جائے تو خالق و مخلوق کی مساوات لازم آئے گی، باطل محض ہے، کہ مساوات تو جب لازم آئے کہ ﷲ عزوجل کیلئے بھی اتنا ہی علم ثابت کیا جائے اور یہ نہ کہے گا مگر کافر، ذرّاتِ عالَم متناہی ہیں اور اُس کا علم غیرِ متناہی، ورنہ جھل لازم آئے گا اور یہ محال، کہ خدا جھل سے پاک، نیز ذاتی و عطائی کا فرق بیان کرنے پر بھی مساوات کا الزام دینا صراحۃً ایمان و اسلام کے خلاف ہے، کہ اس فرق کے ہوتے ہوئے مساوات ہو جایا کرے تو لازم کہ ممکن و واجب وجود میں معاذﷲ مساوی ہو جائیں، کہ ممکن بھی موجود ہے اور واجب بھی موجود اور وجود میں مساوی کہنا صریح کُفر، کھلا شرک ہے۔ انبیا علیہم السلام غیب کی خبر دینے کے لیے ہی آتے ہیں کہ جنّت و نار و حشر و نشر و عذاب و ثواب غیب نہیں تو اور کیا ہیں...؟ اُن کا منصب ہی یہ ہے کہ وہ باتیں ارشاد فرمائیں جن تک عقل و حواس کی رسائی نہیں اور اسی کا نام غیب ہے۔ اولیا کو بھی علمِ غیب عطائی ہوتا ہے، مگر بواسطہ انبیا کے۔
عقیدہ (۲۲): انبیائے کرام، تمام مخلوق یہاں تک کہ رُسُلِ ملائکہ سے افضل ہیں۔ ولی کتنا ہی بڑے مرتبہ والا ہو، کسی نبی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ جو کسی غیرِ نبی کو کسی نبی سے افضل یا برابر بتائے، کافر ہے۔
عقیدہ (۲۳): نبی کی تعظیم فرضِ عین بلکہ اصلِ تمام فرائض ہے۔ کسی نبی کی ادنیٰ توہین یا تکذیب، کفر ہے۔
عقیدہ (۲۴): حضرت آدم علیہ السلام سے ھمارے حضور سیّد عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تک ﷲ تعالیٰ نے بہت سے نبی بھیجے، بعض کا صریح ذکر قرآنِ مجید میں ہے اور بعض کا نہیں، جن کے اسمائے طیّبہ بالتصریح قرآنِ مجید میں ہیں، وہ یہ ہیں: حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت لُوط علیہ السلام، حضرت ہُود علیہ السلام، حضرت داود علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت ایّوب علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت یحیٰی علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت الیاس علیہ السلام، حضرت الیسع علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام، حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت ذوالکفل علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، [حضرت عزیر علیہ السلام]، حضور سیّد المرسلین محمد رسول ﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم۔
عقیدہ (۲۵): حضرت آدم علیہ السلام کو ﷲ تعالیٰ نے بے ماں باپ کے مٹی سے پیدا کیا اور اپنا خلیفہ کیا اور تمام اسما ومسمّیات کا علم دیا ، ملائکہ کو حکم دیا کہ ان کو سجدہ کریں، سب نے سجدہ کیا، شیطان (کہ از قسمِ جِن تھا، مگر بہت بڑا عابد زاہد تھا، یہاں تک کہ گروہِ ملائکہ میں اُس کا شمار تھا ) بانکار پیش آیا، ہمیشہ کے لیے مردود ہوا۔
عقیدہ (۲۶): حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے انسان کا وجود نہ تھا، بلکہ سب انسان اُن ہی کی اولاد ہیں، اسی وجہ سے انسان کو آدمی کہتے ہیں، یعنی اولادِ آدم اور حضرت آدم علیہ السلام کو ابو البشر کہتے ہیں، یعنی سب انسانوں کے باپ۔
عقیدہ (۲۷): سب میں پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہوئے اور سب میں پہلے رسول جو کُفّار پر بھیجے گئے حضرت نوح علیہ السلام ہیں اُنھوں نے ساڑھے نو سو برس ہدایت فرمائی ، اُن کے زمانہ کے کفّار بہت سخت تھے، ہر قسم کی تکلیفیں پہنچاتے، استہزا کرتے، اتنے عرصہ میں گنتی کے لوگ مسلمان ہوئے، باقیوں کو جب ملاحظہ فرمایا کہ ہرگز اصلاح پذیر نہیں، ہٹ دھرمی اور کُفر سے باز نہ آئیں گے، مجبور ہو کر اپنے رب کے حضور اُن کے ھلاک کی دُعا کی، طوفان آیا اور ساری زمین ڈوب گئی، صرف وہ گنتی کے مسلمان اور ہر جانور کا ایک ایک جوڑا جو کشتی میں لے لیا گیا تھا، بچ گئے۔
عقیدہ (۲۸): انبیا کی کوئی تعداد معیّن کرنا جاءز نہیں، کہ خبریں اِس باب میں مختلف ہیں اور تعداد معیّن پر ایمان رکھنے میں نبی کو نبوّت سے خارج ماننے، یا غیرِ نبی کو نبی جاننے کا احتمال ہے اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں، لہٰذا یہ اعتقاد چاہیے کہ ﷲ (عزوجل) کے ہر نبی پر ھمارا ایمان ہے۔
عقیدہ (۲۹): نبیوں کے مختلف درجے ہیں، بعض کو بعض پر فضیلت ہے اور سب میں افضل ھمارے آقا و مولیٰ سیّدالمرسلین صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں، حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کا ہے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کا، اِن حضرات کو مرسلین اُولو العزم کہتے ہیں اور یہ پانچوں حضرات باقی تمام انبیا و مرسلینِ انس و مَلَک و جن و جمیع مخلوقاتِ الٰہی سے افضل ہیں۔ جس طرح حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) تمام رسولوں کے سردار اور سب سے افضل ہیں، بلا تشبیہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے صدقہ میں حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی اُمت تمام اُمتوں سے افضل۔
عقیدہ (۳۰): تمام انبیا، ﷲ عزوجل کے حضور عظیم وجاہت و عزت والے ہیں ۔۔۔۔۔۔ان کو ﷲ تعالیٰ کے نزدیک معاذﷲ چوہڑے چمار کی مثل کہنا کُھلی گستاخی اور کلمہ کفر ہے۔
عقیدہ (۳۱): نبی کے دعوی نبوّت میں سچے ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ نبی اپنے صدق کا علانیہ دعویٰ فرماکر محالاتِ عادیہ کے ظاہر کرنے کا ذمّہ لیتا اور منکروں کو اُس کے مثل کی طرف بلاتا ہے، ﷲ عزوجل اُس کے دعویٰ کے مطابق امرِ محالِ عادی ظاہر فرما دیتا ہے اور منکرین سب عاجز رہتے ہیں اسی کو معجزہ کہتے ہیں جیسے حضرت صالح علیہ السلام کا ناقہ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا سانپ ہو جانا اور یدِ بیضا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مُردوں کو جِلا دینا اور مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دینا اور ھمارے حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے معجزے تو بہت ہیں۔
عقیدہ (۳۲): جو شخص نبی نہ ہو اور نبوّت کا دعویٰ کرے، وہ دعویٰ کرکے کوئی محالِ عادی اپنے دعوے کے مطابق ظاہر نہیں کرسکتا، ورنہ سچے جھوٹے میں فرق نہ رہے گا۔
فائدہ: نبی سے جو بات خلافِ عادت قبلِ نبوّت ظاہر ہو، اُس کو اِرہاص کہتے ہیں اور ولی سے جو ایسی بات صادر ہو، اس کو کرامت کہتے ہیں اور عام مومنین سے جو صادر ہو، اُسے معونت کہتے ہیں اور بیباک فجّار یا کفّار سے جو اُن کے موافق ظاہر ہو، اُس کو اِستِدراج کہتے ہیں اور اُن کے خلاف ظاہر ہو تو اِہانت ہے۔
عقیدہ (۳۳): انبیا علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں اُسی طرح بحیاتِ حقیقی زندہ ہیں ، جیسے دنیا میں تھے، کھاتے پیتے ہیں، جہاں چاہیں آتے جاتے ہیں، تصدیقِ وعدہ الٰہیہ کے لیے ایک آن کو اُن پر موت طاری ہوئی، پھر بدستور زندہ ہوگئے ، اُن کی حیات، حیاتِ شہدا سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے،
لھذا شہید کا ترکہ تقسیم ہوگا، اُس کی بی بی بعدِ عدت نکاح کرسکتی ہے،۔۔۔۔خلاف انبیا کے، کہ وہاں یہ جائز نہیں۔ یہاں تک جو عقائد بیان ہوئے، اُن میں تمام انبیا علیہم السلام شریک ہیں، اب بعض وہ اُمور جو نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خصائص میں ہیں، بیان کیے جاتے ہیں۔
عقیدہ (۳۴): اور انبیا کی بعثت خاص کسی ایک قوم کی طرف ہوئی، حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام مخلوق انسان وجن، بلکہ ملائکہ، حیوانات، جمادات، سب کی طرف مبعوث ہوئے۔جس طرح انسان کے ذمّہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی اِطاعت فرض ہے۔ یوہیں ہر مخلوق پر حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی فرمانبرداری ضروری۔
عقیدہ (۳۵): حضورِ ا قدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ملائکہ و انس و جن و حُور و غلمان و حیوانات و جمادات، غرض تمام عالَم کے لیے رحمت ہیں اور مسلمانوں پر تو نہایت ہی مہربان۔
عقیدہ (۳۶): حضور، خاتم النبییّن ہیں، یعنی ﷲ عزوجل نے سلسلہ نبوّت حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ختم کر دیا ، کہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے زمانہ میں یا بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا، جو حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے زمانہ میں یا حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے بعد کسی کو نبوّت ملنا مانے یا جائز جانے، کافر ہے۔
عقیدہ (۳۷): حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) افضل جمیع مخلوقِ الٰہی ہیں، کہ اوروں کو فرداً فرداًجو کمالات عطا ہوئے حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں وہ سب جمع کر دیے گئے اور اِن کے علاوہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو وہ کمالات ملے جن میں کسی کا حصہ نہیں۔ بلکہ اوروں کو جو کچھ مِلا حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے طفیل میں، بلکہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے دستِ اقدس سے ملا، بلکہ کمال اس لیے کمال ہوا کہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی صفت ہے اور حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اپنے رب کے کرم سے اپنے نفسِ ذات میں کامل و اکمل ہیں، حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا کمال کسی وصف سے نہیں، بلکہ اس وصف کا کمال ہے کہ کامل کی صفت بن کر خود کمال و کامل و مکمّل ہو گیا، کہ جس میں پایا جائے اس کو کامل بنا دے۔
عقیدہ (۳۸): مُحال ہے کہ کوئی حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا مثل ہو، جو کسی صفت ِخاصّہ میں کسی کو حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا مثل بتائے،گمراہ ہے یا کافر۔
عقیدہ (۳۹): حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو ﷲ عزوجل نے مرتبہ محبوبیتِ کبریٰ سے سرفراز فرمایا ، کہ تمام خَلق جُویائے رضائے مولا ہے اور ﷲ عزوجل طالبِ رضائے مصطفےٰ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم۔
عقیدہ (۴۰): حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے خصائص سے معراج ہے، کہ مسجد ِحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک اور وہاں سے ساتوں آسمان اور کُرسی و عرش تک، بلکہ بالائے عرش رات کے ایک خفیف حصّہ میں مع جسم تشریف لے گئے۔ اور وہ قربِ خاص حاصل ہوا کہ کسی بشر و مَلَک کو کبھی نہ حاصل ہوا نہ ہو، اور جمالِ الٰہی بچشمِ سر دیکھا اور کلامِ الٰہی بلاواسطہ سنا اور تمام ملکوت السمٰوات والارض کو بالتفصیل ذرّہ ذرّہ ملاحظہ فرمایا ۔
عقیدہ (۴۱): تمام مخلوق اوّلین وآخرین حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیاز مند ہے، یہاں تک کہ حضرت ابراہیم خلیل ﷲ علیہ السلام۔
عقیدہ (۴۲): قیامت کے دن مرتبہ شفاعتِ کبریٰ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے خصائص سے ہے کہ جب تک حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فتحِ بابِ شفاعت نہ فرمائیں گے کسی کو مجالِ شفاعت نہ ہو گی، بلکہ حقیقۃً جتنے شفاعت کرنے والے ہیں حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے دربار میں شفاعت لائیں گے اور ﷲ عزوجل کے حضور مخلوقات میں صرف حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) شفیع ہیں اور یہ شفاعتِ کُبریٰ مومن، کافر، مطیع، عاصی سب کے لیے ہے، کہ وہ انتظارِ حساب جو سخت جانگزا ہوگا، جس کے لیے لوگ تمنّائیں کریں گے کہ کاش جہنم میں پھینک دیے جاتے اور اس انتظار سے نجات پاتے، اِس بلا سے چھٹکارا کفّار کو بھی حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی بدولت ملے گا، جس پر اوّلین و آخرین، موافقین و مخالفین، مؤمنین و کافرین سب حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی حمد کریں گے، اِسی کا نام مقامِ محمود ہے اور شفاعت کے اور اقسام بھی ہیں، مثلاً بہتوں کو بلاحساب جنت میں داخل فرمائیں گے، جن میں چار اَرَب نوے کروڑ کی تعداد معلوم ہے، اِس سے بہت زائد اور ہیں، جو ﷲ و رسول (عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے علم میں ہیں، بہُتیرے وہ ہوں گے جن کا حساب ہوچکا ہے اور مستحقِ جہنم ہوچکے، اُن کو جہنم سے بچائیں گے اور بعضوں کی شفاعت فرما کر جہنم سے نکالیں گے اور بعضوں کے درجات بلند فرمائیں گے اور بعضوں سے تخفیفِ عذاب فرمائیں گے۔
عقیدہ (۴۳): ہر قسم کی شفاعت حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے لیے ثابت ہے۔ شفاعت بالو جاہۃ، شفاعت بالمحبۃ، شفاعت بالاذن، اِن میں سے کسی کا انکار وہی کریگا جو گمراہ ہے۔
عقیدہ (۴۴): منصبِ شفاعت حضور کو دیا جاچکا، حضور فرماتے ہیں صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم :
((أُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ))
، اور ان کا رب فرماتا ہے:
( وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنۡۢبِکَ وَ لِلْمُؤْمِنِیۡنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ؕ )ـ''مغفرت چاہو اپنے خاصوں کے گناہوں اور عام مؤمنین و مؤمنات کے گناہوں کی۔'' شفاعت اور کس کا نام ہے...؟

''اَللّٰھُمَّ ارْزُقْـنَا شَفَاعَۃَ حَبِیبِکَ الْکَرِیْمِ.''
(یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ o لا اِلَّا مَنْ اَ تَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ o ط )

شفاعت کے بعض احوال، نیز دیگر خصائص جو قیامت کے دن ظاہر ہوں گے، احوالِ آخرت میں اِن شاء ﷲ تعالیٰ بیان ہوں گے۔
عقیدہ (۴۵): حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی محبت مدار ِایمان،بلکہ ایمان اِسی محبت ہی کا نام ہے، جب تک حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی محبت ماں باپ اولاد اور تمام جہان سے زیادہ نہ ہو آدمی مسلمان نہیں ہوسکتا۔
عقیدہ (۴۶): حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی اِطاعت عین طاعتِ الٰہی ہے، طاعتِ الٰہی بے طاعتِ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ناممکن ہے، یہاں تک کہ آدمی اگر فرض نماز میں ہو اور حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اُسے یاد فرمائیں، فوراً جواب دے اور حاضرِ خدمت ہو اوریہ شخص کتنی ہی دیر تک حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) سے کلام کرے، بدستور نماز میں ہے، اِس سے نماز میں کوئی خلل نہیں۔
عقیدہ (۴۷): حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم یعنی اعتقادِ عظمت جزو ِایمان و رکنِ ایمان ہے اور فعلِ تعظیم بعد ایمان ہر فرض سے مقدّم ہے، اِس کی اہمیت کاپتا اس حدیث سے چلتا ہے کہ غزوہ خیبر سے واپسی میں منزل صہبا پر نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نمازِ عصر پڑھ کر مولیٰ علی کرّم ﷲ تعالیٰ وجہہ کے زانو پر سرِ مبارک رکھ کر آرام فرمایا، مولیٰ علی نے نمازِ عصر نہ پڑھی تھی، آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے، مگر اِس خیال سے کہ زانو سرکاؤں تو شاید خوابِ مبارک میں خلل آئے، زانو نہ ہٹایا، یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا، جب چشمِ اقدس کھلی مولیٰ علی نے اپنی نماز کا حال عرض کیا، حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے حکم دیا، ڈوبا ہوا آفتاب پلٹ آیا، مولیٰ علی نے نماز ادا کی پھر ڈوب گیا، اس سے ثابت ہوا کہ افضل العبادات نماز اور وہ بھی صلوٰۃِ وُسطیٰ نمازِ عصر مولیٰ علی نے حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیند پر قربان کر دی، کہ عبادتیں بھی ہمیں حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہی کے صدقہ میں ملیں۔ دوسری حدیث اسکی تائید میں یہ ہے کہ غارِ ثور میں پہلے صدیقِ اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ گئے، اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اُس کے سوراخ بند کر دیے، ایک سوراخ باقی رہ گیا، اُس میں پاؤں کا انگوٹھا رکھ دیا، پھر حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بلایا، تشریف لے گئے اور اُن کے زانو پر سرِاقدس رکھ کر آرام فرمایا، اُس غارمیں ایک سانپ مشتاقِ زیارت رہتا تھا، اُس نے اپنا سَر صدیقِ اکبر کے پاؤں پر مَلا، انھوں نے اِس خیال سے کہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیند میں فرق نہ آئے پاؤں نہ ہٹایا، آخر اُس نے پاؤں میں کاٹ لیا، جب صدیقِ اکبر کے آنسو چہرہ انور پر گرے، چشمِ مبارک کھلی، عرضِ حال کیا، حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے لعابِ دہن لگا دیا فوراً آرام ہوگیا ، ہر سال وہ زہر عَود کرتا، بارہ۲ ۱ برس بعد اُسی سے شہادت پائی۔ ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اَصلُ الاصول بندگی اُس تاجور کی ہے
عقیدہ (۴۸): حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی تعظیم و توقیر جس طرح اُس وقت تھی کہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اِس عالم میں ظاہری نگاہوں کے سامنے تشریف فرماتھے، اب بھی اُسی طرح فرضِ اعظم ہے ، جب حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا ذکر آئے توبکمالِ خشوع و خضوع و انکسار بادب سُنے ، اور نامِ پاک سُنتے ہی درود شریف پڑھنا واجب ہے۔
''اَللَّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَ مَوْلٰـنَا مُحَمَّدٍ مَعْدِنِ الْجُوْدِ وَالْکَرَمِ وَاٰلہِ الْکِرَامِ وَصَحْبِہِ الْعظَامِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ .''
اور حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) سے محبت کی علامت یہ ہے، کہ بکثرت ذکر کرے اور درود شریف کی کثرت کرے اور نامِ پاک لکھے تو اُس کے بعد صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم لکھے، بعض لوگ براہِ اختصار صلعم یا لکھتے ہیں، یہ محض ناجائز وحرام ہے  اور محبت کی یہ بھی علامت ہے کہ آل و اَصحاب ، مہاجرین و انصار و جمیع متعلقین و متوسلین سے محبت رکھے اور حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے دشمنوں سے عداوت رکھے، اگرچہ وہ اپنا باپ یا بیٹا یا بھائی یا کُنبہ کے کیوں نہ ہوں اور جو ایسا نہ کرے وہ اِس دعویٰ میں جھوٹا ہے، کیا تم کو نہیں معلوم کہ صحابہ کرام نے حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی محبت میں اپنے سب عزیزوں، قریبوں، باپ، بھائیوں اور وطن کو چھوڑا اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ﷲ و رسول (عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) سے بھی محبت ہو اور اُن کے دشمنوں سے بھی اُلفت...! ایک کو اختیار کر کہ ضِدَّین جمع نہیں ہو سکتیں، چاہے جنت کی راہ چل یا جہنم کو جا۔ نیز علامتِ محبت یہ ہے کہ شانِ اقدس میں جو الفاظ استعمال کیے جائیں ادب میں ڈوبے ہوئے ہوں، کوئی ایسا لفظ جس میں کم تعظیمی کی بُو بھی ہو، کبھی زبان پر نہ لائے، اگر حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو پکارے تو نامِ پاک کے ساتھ ندا نہ کرے، کہ یہ جائز نہیں، بلکہ یوں کہے:
'' یَا نَبِيَّ اللہِ! یَا رَسُوْلَ اللہ! یَا حَبِیبَ اللہِ! ''
اگر مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہو تو روضہ شریف کے سامنے چار ہاتھ کے فاصلہ سے دست بستہ جیسے نماز میں کھڑا ہوتا ہے، کھڑا ہو کر سر جھکا ئے ہوئے صلاۃ و سلام عرض کرے، بہُت قریب نہ جائے، نہ اِدھر اُدھر دیکھے اور خبردار...! خبردار...!
آواز کبھی بلند نہ کرنا ، کہ عمر بھر کا سارا کِیا دھرا اَکارت جائے  اور محبت کی یہ نشانی بھی ہے کہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے اقوال و افعال و احوال لوگوں سے دریافت کرے اور اُن کی پیروی کرے۔
عقیدہ (۴۹): حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے کسی قول و فعل و عمل و حالت کو جو بہ نظرِ حقارت دیکھے کافر ہے،۔۔ جو چاہیں کریں، جسے جو چاہیں دیں، جس سے جو چاہیں واپس لیں، تمام جہان میں اُن کے حکم کا پھیرنے والا کوئی نہیں، تمام جہان اُن کا محکوم ہے اور وہ اپنے رب کے سوا کسی کے محکوم نہیں، تمام آدمیوں کے مالک ہیں،
جو اُنھیں اپنا مالک نہ جانے حلاوتِ سنّت سے محروم رہے، تمام زمین اُن کی مِلک ہے، تمام جنت اُن کی جاگیر ہے،
و السمٰواتِ والارض حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے زیرِ فرمان، جنت و نار کی کنجیاں دستِ اقدس میں دیدی گئیں، رزق وخیر اور ہر قسم کی عطائیں حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں، دنیا و آخرت حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی عطا کا ایک حصہ ہے، احکامِ تشریعیہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے قبضہ میں کر دیے گئے، کہ جس پر جو چاہیں حرام فرما دیں اور جس کے لیے جو چاہیں حلال کر دیں اور جو فرض چاہیں معاف فرما دیں۔
عقیدہ (۵۱): سب سے پہلے مرتبہ نبوّت حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو ملا۔ روزِ میثاق تمام انبیا سے حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لانے اور حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نصرت کرنے کا عہد لیا گیا
اور اِسی شرط پر یہ منصبِ اعظم اُن کو دیا گیا۔حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نبی الانبیا ہیں اور تمام انبیا حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے اُمّتی، سب نے اپنے اپنے عہدِ کریم میں حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیابت میں کام کیا، اﷲ عزوجل نے حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو اپنی ذات کا مظہر بنایا اور حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے نُور سے تمام عالَم کو منوّر فرمایا،
بایں معنی ہر جگہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) تشریف فرما ہیں۔ ؎
کالشمس في وسط السماءِ ونُورُھایغشي البلاد مشارقاً ومغارباً
گر کورِ باطن کا کیا علاج ؎ گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمہ آفتاب را چہ گناہ
مسئلہ ضروریہ: انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام سے جو لغزشیں{اجتہادی} واقع ہوئیں، انکا ذکر تلاوتِ قرآن و روایتِ حدیث کے سوا حرام اور سخت حرام ہے، اوروں کو اُن سرکاروں میں لب کشائی کی کیا مجال...! مولیٰ عزوجل اُن کا مالک ہے، جس محل پر جس طرح چاہے تعبیر فرمائے، وہ اُس کے پیارے بندے ہیں، اپنے رب کے لیے جس قدرچاہیں تواضع فرمائیں، دوسرا اُن کلمات کو سند نہیں بناسکتا اور خود اُن کا اطلاق کرے تو مردودِ بارگاہ ہو، پھر اُنکے یہ افعال جن کو زَلَّت و لغزش سے تعبیر کیا جائے
ہزارہا حِکَم و مَصالح پر مبنی، ہزارہا فوائد و برکات کی مُثمِر ہوتی ہیں، ایک لغزشِ اَبِیْنَا آدم علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیے، اگر وہ نہ ہوتی، جنت سے نہ اترتے، دنیا آباد نہ ہوتی، نہ کتابیں اُترتیں، نہ رسول آتے، نہ جہاد ہوتے، لاکھوں کروڑوں مثُوبات کے دروازے بند رہتے، اُن سب کا فتحِ باب ایک لغزشِ آدم کا نتیجہ بارکہ و ثمرہ طیّبہ ہے۔ بالجملہ انبیا علیہم الصلاۃ والسلام کی لغزش، مَن و تُو کس شمار میں ہیں، صدیقین کی حَسَنَات سے افضل و اعلیٰ ہے۔
''حَسَنَاتُ الأبْرَارِ سَیّاٰتُ الْمُقَرَّبِیْنَ.'۔۔۔۔۔بہارشریعت حصہ ١

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔