Pages

Sunday, 11 December 2016

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کا تحمل و بردباری اور عفو و درگزر

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کا تحمل و بردباری اور عفو و درگزر
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حلم، بردباری، تحمل، عفو و درگزر اور صبر و استقلال کی تعلیم دی۔ ان رویوں سے انفرادی و اجتماعی سطح پر سوسائٹی میں تحمل و برداشت جنم لیتا ہے۔ اسی تحمل و برداشت کے ذریعے سوسائٹی کے اندر Moderation اعتدال و توازن آتا ہے۔ یہ رویہ انسانوں اور معاشروں کو پرامن بناتا اور انتہا پسندی سے روکتا ہے۔ ایسا معاشرہ ہی عالم انسانیت کے لئے خیر اور فلاح کا باعث ہوتا ہے۔ وہی معاشرے مستحکم، پرامن، متوازن اور ترقی یافتہ ہوتے ہیں جو اخلاقی اقدار پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ میں سب سے اعلیٰ ترین پہلو ایک طرف حلم، تحمل، عفو و درگزر اختیار کرنا ہے اور دوسری طرف ناپسندیدہ اور شدید مصائب و آلام کے حالات میں صبرو استقامت اختیار کرنا ہے۔

اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کو آداب و اخلاق خود سکھائے۔ ارشاد فرمایا :

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ.

(الاعراف : 199)

’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں‘‘۔

یعنی اگر بداعمال، بداخلاق اور ناروا سلوک کرنے والے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادتی کریں تو آپ ان سے اعراض کریں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا کہ جبرائیل علیہ السلام ! اللہ رب العزت کے اس حکم کی کیا منشاء ہے؟ اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خود کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک میں پیغام بھیجنے والے مولا کے پاس جاکر اس کا معنی دریافت نہ کروں۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام واپس گئے۔ اللہ رب العزت سے اس آیت کریمہ کا معنی پوچھ کر واپس آئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

يامحمد! ان الله تعالیٰ يامرک ان تعفو عمن ظلمک وتعطی من حرمک وتصل من قطعک.

(قرطبی، تفسير قرطبی،7 : 345)

’’(یارسول اللہ!) اللہ تعالیٰ نے (اس آیت میں) آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اس شخص کوجو آپ پر زیادتی کرے، معاف فرمادیں اور جو شخص آپ کو محروم رکھے، آپ اس کو عطا فرمائیں۔ جو شخص آپ سے رشتہ منقطع کرے آپ اس سے صلہ رحمی فرمائیں‘‘۔

یعنی اگر کوئی خونی رشتہ دار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زیادتی کرے، رشتے کو کاٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کٹے ہوئے خونی رشتے کو حسن اخلاق سے جوڑ دیں، سوسائٹی کا کوئی شخص اگر کسی زیادتی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے حق سے محروم کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بھی اپنی سخاوت کے باعث اسے عطا کرنے سے گریز نہ کریں اور اگر کوئی شخص صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے ظلم و زیادتی کا مرتکب ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے درگزر کرتے ہوئے معاف کردیں، انتقام نہ لیں۔

قرآن مجید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انبیاء کرام کے صبر کی مثال دیتے ہوئے اخلاق حسنہ کے اس پہلو کی طرف متوجہ کیا جارہا ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا :

فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ.

’’(اے حبیب!) پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبر کیے جائیں جس طرح (دوسرے) عالی ہمّت پیغمبروں نے صبر کیا تھا‘‘۔ (الاحقاف : 35)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔