Pages

Tuesday 13 December 2016

جشن عید میلاد النبی قرآن و حدیث کی روشنی میں

جشن عید میلاد النبی قرآن و حدیث کی روشنی میں
از قلم: توحید احمد خاں رضویؔ
ناظم اعلیٰ : تحسینی فاؤنڈیشن، بریلی شریف
مدرس: جامعہ تحسینیہ ضیاء العلوم، بریلی شریف
حضورﷺ کی ولادت مبارکہ پر خوشیاں منانے اور جشن عید میلاد النبی ﷺ کی بہاروں سے لطف اندوز ہونے کا سلسلہ عاشقان رسول کی پیاری سنت ، تاریخی عمل اور بزرگان دین کا طریقہ رہا ہے۔ اس کے باوجود چند لوگ اس بات کو پھیلانے میں لگے ہیں کہ عید میلادالنبی منانا بدعت ہے ، نہیں منانا چاہیے۔ اس طرح کی مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے والی اورعقیدت سوز باتوں کو پھیلانے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔ یہاں پر عید میلاد النبی ﷺ کا جشن منانے کے تعلق سے قرآن و حدیث کی روشنی میں کچھ باتیں تحریر کی جارہی ہیں جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ عید میلاد النبی ﷺ منانا نہ صرف جائز بلکہ باعث اجرو ثوا ب اور خوشنودی رب تبارک و تعالیٰ ہے۔
عید میلاد النبی ﷺ عیدوں کی عید ہے:
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی عنایتوں پر شکر کے اظہار کے لئے ایک طریقہ اور صورت یہ ہے کہ اس خوشی کا اظہار عید کے طور پر کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ، لیکن سب سے عمدہ اور بہترین نعمت جو اس نے عطا فرمائی ہے وہ حضور ﷺ کی ذات مبارک ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے درمیان بھیج کر بڑا احسان فرمایا ہے۔. جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے \'\' بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ۔\'\' ( سورۂ آل عمران ، آیت 164 )۔ پہلی امتوں میں بھی شکر کا یہ طریقہ تھا کہ جس دن اللہ تعالیٰ کی کوئی خاص نعمت میسر آتی تو اس دن کو گزری ہوئی امم عید کے طور پر مناتی تھیں اور یہ سنت انبیاء بھی ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں عرض کرتے ہیں ’’ ہمارے رب ہم پر آسمان سے خوان ( دسترخوان ) اتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو جائے ہمارے اگلے پچھلو ں کی ۔‘‘ ( سورۂ مائدہ ، آیت 114 )۔
غور کریں! کہ جس دن حضرت عیسٰی علیہ السلام پر آسمان سے دسترخوان اترے تو وہ عید ہو جائے اور جس دن آقائے دو جہاں ﷺ جن کے صدقے میں کروڑوں نعمتیں اللہ تعالیٰ مخلوق کو عطا فرماتا ہے ، تشریف لائیں ، وہ دن کیوں عید نہیں ہو سکتا ؟ یقیناًوہ عید کا دن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان اس دن حضور ﷺ کے میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں اور جلوس نکالتے ہیں۔
عید میلاد النبی ﷺ پر خوشی منانا اﷲتعالیٰ کی سنت ہے:
تمام سیرت کی کتابوں میں اس قسم کی روایتیں اکثر ملتی ہیں جن میں حضور ﷺ کی ولادت کے حالات کے ساتھ واضح طور پر یہ بیان بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی ولادت پر خوشی منائی ، پورے سال جشن کے طور پرحضور ﷺ کی آمد پر ساری زمین کو سر سبزو شاداب کر دیا ، ہر طرف رحمتوں اور برکتوں کی بھر مار کر دی اور قحط والے علاقوں میں رزق کی اتنی کشادگی فرما دی کہ وہ سال خوشی کا سال کہلایا۔خصائص الکبریٰ میں ہے ’’ جس سال نور محمدی حضرت آمنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو ودیعت ہوا وہ فتح و نصرت ، ترو تازگی اور خوشی کا سال کہلایا۔ قریش والے اس سے پہلے معاشی بدحالی ، تنگی اور قحط سالی میں مبتلا تھے،. ولادت کی برکت سے اس سال اللہ تعالیٰ نے بے آب و گیاہ زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی اور درختوں کی مردہ شاخوں کو ہرا بھرا کرکے انہیں پھلوں سے لاد دیا۔ قریش والے اس طرح ہر طرف سے کثیر خیر آنے سے خوشحال ہو گئے۔‘‘
خود حضور ﷺ کے عمل سے اس کا ثبوت ملتا ہے ، امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے\'\' الحاوی للفتاویٰ \'\' میں اس تعلق سے روشنی ڈالی ہے کہ حضور ﷺ نے خود بھی اپنا میلاد منایا۔ اس لحاظ سے یہ سنت رسول بھی ہے۔حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ’’ رسول اللہ ﷺ سے پیر کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آقا ﷺنے ارشاد فرمایا: میں اسی دن پیدا کیا گیا۔‘‘ ( مشکوٰۃ شریف ) اس حدیث پاک سے یہ بات بخوبی پتہ چلتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی ولادت کے دن روزہ رکھ کر اپنی ولادت کی خوشی منائی۔
حضور اقدس ﷺ اللہ کی نعمت ہیں:
قرآن کریم نے حضور ﷺ کا نام نعمۃ اﷲ ( اللہ کی نعمت ) رکھا ۔ آیت کریمہ ان الذین بدلوا نعمۃ اﷲ کفرا کی تفسیر میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ’’نعمۃ اﷲ( اللہ کی نعمت ) سے مراد محمد ﷺ ہیں۔‘‘ لہذا ان کے تشریف لانے کا تذکرہ حکم الہی اور ارشاد خداوندی پر عمل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ اپنے رب کی نعمت کا خوب خوب چرچا کرو۔ \'\' ( سورۂ والضحیٰ ) حضور ﷺکا تشریف لانا تمام نعمتوں سے اعلی نعمت ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’تم فرماو اللہ ہی کے فضل اور اس کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔‘‘ ( سورۂ یونس آیت 58 ) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں دو چیزوں کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے ( 1 ) فضل ( 2 ) رحمت ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں فضل اور رحمت سے کیا مراد ہے جس پر خوشی منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں فضل اور رحمت سے حضور ﷺ مراد ہیں جیسا کہ اکثر مفسرین کرام نے فرمایا ہے ۔ اور اس کی وضاحت میں کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے حضورﷺ مراد ہے ، دوسری قرآنی آیات سے بھی اس کی تائید ملتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ضرور تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے ۔‘‘ ( سورۂ نساء ، آیت 83 ) اور فرماتا ہے ’’ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم ٹوٹے والوں میں ہو جاتے ( یعنی تم خسارے والوں میں ہوتے ) ۔‘‘( سورۂ بقرۃ ، آیت 64 ) ان آیتوں کی تفسیر میں مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہاں پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے حضور ﷺ مراد ہیں۔ اور یہ حقیقت تو بالکل عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کوسارے جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ ( اے محبوب ) آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔‘‘ ( سورۂ انبیاء ، آیت 107 ) ان تفصیلات کو جاننے کے بعد یہ صاف ہو گیا کہ آیت کریمہ میں اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے حضور ﷺ مراد ہیں ۔ اور اﷲ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت پر خوشی منانے کا حکم دے رہا ہے تو عید میلاد النبی ﷺ منانا اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔
عید میلاد النبی منانا بدعت نہیں:
اوپر ذکر کی گئی تمام تفصیلات کے بعد یہ اعتراض بالکل ختم ہوگیا کہ عید میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ہے۔ ہم نے اوپر ثابت کر دیا کہ عید میلا دالنبی ﷺ منانا اﷲ تبارک و تعالیٰ اور خود حضور نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔
رہی یہ بات کہ ہر وہ چیز جو جسے حضور نبی اکرم ﷺ یا صحابۂ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین نے نہیں کیا، اس کو بری بدعت میں داخل کرکے گمراہی میں شامل کرنا مسلمانوں پر ظلم ہے۔ کسی چیز کو بری بدعت یا گمراہی کہنے کے لئے دو باتوں میں سے ایک کا ثبوت کہنے والے پر لازم ہے۔ یا تو یہ کہ اس کام میں کوئی برائی ہے یا یہ کہ شریعت نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اور جب نہ شریعت نے منع فرمایا اور نہ اس کام میں کوئی برائی ہو تو رسول کریم ﷺ کے فرمان بلکہ قرآن کے ارشاد سے جائز ہے۔ سنن ابو داؤد میں حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ ’’جسے اﷲ اور اس کے رسول نے حلال کہا وہ حلال اور جسے حرام کہا وہ حرام ہے اور جس کا کچھ ذکر نہ فرمایا وہ معاف ہے۔‘‘
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جو کچھ رسول تمہیں عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز رہو۔ ‘‘ (پارہ ۲۸؍سورۂ حشر آیت۸)۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ جس کا نہ حکم دیا ہو اور نہ منع فرمایاہو وہ نہ واجب اور نہ گناہ۔
حضور ﷺ کی پیدائش ۱۲؍ربیع الاول کو ہوئی:
معتبر مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ کی مبارک پیدائش ۱۲؍ربیع الاول بروز پیر کوہوئی۔ چنانچہ امام طبری لکھتے ہیں کہ ’’رسول کریم کی ولادت پیر کے دن ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔‘‘ (تاریخ طبری جلد دوم) ۔ مشہور مورخ ابن خلدون لکھتے ہیں’’رسول اﷲ ﷺ کی ولادت با سعادت عام الفیل کو ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔‘‘ (تاریخ ابن خلدون)۔ معروف سیرت نگار ابن ہشام لکھتے ہیں ’’رسول اﷲ ﷺ بروز پیر۱۲؍ربیع الاول کو عام الفیل میں پیدا ہوئے۔‘‘ (سیرت ابن ہشام)۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ مدارج النبوہ میں تحریر فرماتے ہیں ’’مشہور یہ ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ تھااور بارہ تاریخ تھی۔‘‘ (مدارج النبوہ جلد دوم) ان تمام اقوال کو جان لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت بارہ ربیع الاول کو ہی ہوئی۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:عالم النبوہ صفحہ ۱۹۲، الوفا لابن جوزی صفحہ۹۰، زرقانی جلد اول صفحہ۱۳۲، اشرف السیر صفحہ۱۴۶، فتاویٰ رضویہ جلد دوم صفحہ۲۶، سیرت خاتم الانبیاء صفحہ۱۸ وغیرہا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔