Pages

Wednesday, 7 December 2016

بدعت کی تعریف و اقسام حصّہ اوّل

بدعت کی تعریف و اقسام حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اَکابر اَئمہ اِسلام نے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ کے ذریعے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ ہر بدعت ناجائز اور حرام نہیں ہوتی۔ صرف وہ بدعت ناجائز اور ممنوع ہوتی ہے جس کی کوئی اصل، مثال، دلیل یا نظیر کتاب و سنت میں موجود نہ ہو۔ ایسی بدعت شریعت کے کسی نہ کسی حکم کے واضح طور پر مخالف اور متضاد ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو ’’نیا کام’’ احکامِ شریعت کے خلاف نہ ہو بلکہ ایسے اُمور میں داخل ہو جو اَصلًا حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتے ہیں تو ایسے جملہ نئے کام محض لغوی اِعتبار سے تو ’’بدعت’’ کہلائیں گے کیونکہ ’’بدعت’’ کا لغوی معنی ہی ’’نیا کام’’ ہے ورنہ وہ شرعًا نہ تو بدعت ہوں گے اور نہ ہی مذموم اور باعثِ ضلالت۔ یقینا ایسے اُمور مبنی بر خیر ’’اُمورِ حسنہ’’ متصور ہوں گے۔

تمام تر لفظی اور اِصطلاحی اِختلافات کے باوجود تمام مکاتبِ فکر اِس اَمر پر متفق ہیں کہ کسی بھی نئے عمل کی حلّت و حرمت یا جواز و عدمِ جواز کے تعیّن کے لیے بدعت کی تقسیم ناگزیر ہے۔ کیونکہ اگر بدعت کو بلا اِمتیاز و بلا تفریق صرف ایک ہی اکائی سمجھ کر، ہر نئے کام کو جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد اِیجاد ہوا حرام یا مردود قرار دے دیا جائے تو لامحالہ تعلیماتِ دین اور فقہ اِسلامی کا بیشتر حصہ ناجائز کے زمرے میں آ جائے گا۔ اِجتہاد کی ساری صورتیں، قیاس اور اِستنباط کی جملہ شکلیں ناجائز کہلائیں گی۔ اسی طرح دینی علوم و فنون اور ان کو سمجھنے کے لئے جملہ علومِ خادمہ جو فہمِ دین کے لئے ضروری اور عصری تقاضوں کے مطابق لابدی ہیں، اِن کا سیکھنا، سکھانا بھی حرام قرار پائے گا۔ کیونکہ یہ سب علوم و فنون اپنی موجودہ شکل میں نہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود تھے نہ ہی عہدِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں۔ اِنہیں تو بعد میں ضرورت کے پیشِ نظر وضع اور مرتب کیا گیا۔ یہ تمام علوم و فنون اپنی ہیئت، اُصول، اِصطلاحات، تعریفات اور قواعد و ضوابط کے اِعتبار سے نئے ہیں، لہٰذا اگر بدعت کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم نہ کی جائے تو یہ سب اُمور حرام قرار پائیں گے۔

بدعت کی پہلی تقسیم

1 ۔ بدعتِ لغوی

2 ۔ بدعتِ شرعی

1۔ بدعتِ لُغوی

بدعتِ لغوی سے مراد وہ نئے اُمور ہیں جو صراحتاً کتاب و سنت سے ثابت نہ ہوں لیکن ان کی اَصل، مثال یا نظیر شریعت میں موجود ہو اور یہ شریعت کے مستحسنات کے ذیل میں آتے ہوں جیسے نمازِ تراویح کی جماعت، قرآنی آیات پر اِعراب، دینی علوم کی تفہیم کے لئے صرف و نحو کی درس و تدریس، اُصولِ تفسیر، اُصولِ حدیث، فقہ و اُصولِ فقہ اور دیگر علومِ عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اِہتمام وغیرہ۔ یہ سب اُمور بدعاتِ لغویہ میں شامل ہیں۔

1 ۔ اِبن تیمیہ (728ھ) اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ’’ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان نعمت البدعة هذهِ(1) کے ذیل میں بدعتِ لغوی کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ھوئے لکھتا ہے : ۔
إنّما سمّاها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإنّ البدعة الشّرعية التی هی ضلالة ما فعل بغير دليل شرعی.(2)
(1) 1. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 250
2. بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906
3. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100
4. بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379
5. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269
(2) ابن تيميه، منهاج السنة، 4 : 224
’’اِسے(یعنی باجماعت نمازِ تراویح کو) بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لُغوی ہے، بدعتِ شرعی نہیں ہے۔ بدعتِ شرعی وہ گم راہی ہوتی ہے جو دلیلِ شرعی کے بغیر سر اَنجام دی جائے۔

2. حافظ عماد الدين اسماعيل ابن کثير ’’تفسير القرآن العظيم (1 : 161) ميں بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسيم بيان کرتے ہوئے لکھتا ہے :
والبدعة علی قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله صلی الله عليه وآله وسلم : (فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضی الله عنه عن جمعه إياهم علی صلاة التراويح واستمرارهم : (نعمت البدعة هذه).
’’بدعت کی دو قسمیں ہیں : بعض اوقات یہ بدعت شرعیہ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’فإنّ کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة’’ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعة هذه’’ ہے۔’’
مذکورہ بحث میں حافظ ابنِ کثیر نے بدعت کو بدعتِ شرعیہ اور بدعتِ لغویہ میں تقسیم کر دیا۔ اِس میں بدعتِ ضلالہ کو بدعتِ شرعیہ کا نام دیا ہے ان کے نزدیک ہر بدعت ضلالت و گمراہی نہیں بلکہ صرف ’’کل بدعة سيئة ضلالة’’ ہے۔ بصورتِ دیگر وہ اُسے بدعت لغویہ کہتے ہیں۔ وہ اِس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول نعمت البدعة هذه(1) میں بدعت سے مراد بدعتِ لغوی ہے نہ کہ بدعت ضلالہ۔
(1) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء فی قيام رمضان، 1 : 114، رقم : 2500
2. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269
3. سيوطی، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 : 105، رقم : 250
اَہم نکتہ
اِبن تیمیہ اور حافظ ابنِ کثیر نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان نعمت البدعة هذه میں بدعت کو بدعتِ لغوی شمار کیا ہے حالانکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہیں نہیں فرمایا کہ هذه بدعة لغوية بلکہ انہوں نے بدعت کے ساتھ لفظ ’’نعم’’ اِستعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اُنہوں نے اِسے نعم البدعۃ یا بدعتِ حسنہ کہا ہے۔ اِس مفہوم کی شہادت قرآن میں بھی موجود ہے۔ سورہ ص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ ۔ القرآن، ص، 38 : 30
’’(حضرت سلیمان علیہ السلام ) کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ بڑی کثرت سے توبہ کرنے والا تھاo’’
اس آیت میں لفظ نِعْمَ اِستعمال ہوا ہے اس کا معنی لغوی نہیں ہوتا بلکہ اِس کا معنی ’’اَچھا’’ یعنی ’’حسنہ’’ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جسے نعم البدعۃ ھذہ کہا ہے لغت ہی کی رُو سے اِس کا معنی بدعت حسنہ بنتا ہے۔ یعنی باعتبارِ لغت بدعتِ لغوی سے مراد بدعتِ حسنہ ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔