Pages

Sunday 11 December 2016

جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا دست کرم ہے پھر 12 ربیع الاول کو غم کیوں منائے

جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا دست کرم ہے پھر 12 ربیع الاول کو غم کیوں منائے

آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر وقت امت کے سر پر سایہ فگن ہیں، غم تب منایا جائے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ رحمت اُمت کے سر سے اٹھ گیا ہو یا رابطہ اور تعلق منقطع ہوچکا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آج بھی اُمت کے اَحوال سے با خبرہیں اور قدم قدم پر دست گیری فرماتے ہیں۔ چودہ سو سال گزرنے کے باوُجود نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عنایات میں کمی آئی، نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقتوں اور مہربانیوں میں کوئی فرق آیا، نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ملنے والی ہدایات اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصرف و کمال میں کمی واقع ہوئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال، مرتبہ نبوت و رسالت، ختم نبوت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیوضات و توجہات سب کچھ اسی طرح موجود ہیں تو غم کس بات کا؟ بے شک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی بہ تقاضائے حکم اِلٰہی۔ كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ (ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے)(1)۔ اَجل کا ذائقہ چکھا لیکن وہ موت تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ اَبدی کا پیش خیمہ تھی۔ جب ایک عام مومن اور کافر کی موت میں زمین و آسمان کا فرق ہے تو چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک کے مصداق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات اور عام انسانوں کی موت میں کیا نسبت ہو سکتی ہے؟

1. القرآن، الأنبياء، 21 : 35
2. القرآن، العنکبوت، 29 : 57

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہری دنیا سے پردہ فرما کر عام انسانوں کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ خواص و صالحین تو آج بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم بے داری میں دیکھتے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) جیسے اہل اللہ بھی تھے جنہوں نے زندگی میں کم و بیش پچھتر (75) بار عالمِ بے داری میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔

شعراني، الميزان الکبريٰ، 1 : 44

قارئین کرام! آپ جب روضہ اقدس پر حاضری کے لیے جاتے ہیں تو کیا اسی طرح جاتے ہیں جس طرح ایک عام آدمی کی قبر پر جایا جاتا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضۂ اَقدس تو زیرِ فلک ایسی ادب گاہ ہے جہاں جنید و بایزید جیسی ہستیاں بھی دم بخود حاضری دیتی تھیں بلکہ وہاں وہی آداب ملحوظ رکھنا فرض ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں تھے۔ یہ ہماری کوتاہ اندیشی ہے کہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں حقیقتِ حال کا علم نہیں، سچ تو یہ ہے کہ ہم چلتی پھرتی لاشیں ہیں جب کہ مردانِ حق وفات پاکر بھی زندہ ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ہمارا سلام سن کر اس کا جواب بھی مرحمت فرماتے ہیں(1) مگر ہم یہ جواب سننے سے قاصرہیں کیوں کہ ہر کان سزاوارِ سماعت ہے نہ ہر آنکھ قابلِ دیدار۔ لہٰذا اُمتِ مسلمہ پر خوشی و مسرت کا اِظہار لازم ہے، اِظہارِ غم و اَفسوس کا کوئی محل نہیں۔

1. ابوداؤد، السنن، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، 2 : 175، رقم : 2041
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 527
3. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 84، رقم : 3116
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 245
5. بيهقي، شعب الإيمان، 2 : 217، رقم : 1581
6. ابو نعيم، حلية الأولياء و طبقات الأصفياء، 6 : 349
7. منذري، الترغيب و الترهيب من الحديث الشريف، 2 : 362، رقم : 2573
8. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 10 : 162
9. مقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي صلي الله عليه وآله وسلم من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، 11 : 59
10. ابن قيم، جلاء الأفهام في الصلاة والسلام علي خير الأنام صلي الله عليه وآله وسلم : 19، رقم : 20
11. سخاوي، القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع صلي الله عليه وآله وسلم : 156

9۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت تاقیامت جاری ہے

اللہ تعالیٰ نے جو کلمہ مسلمانوں کو عطا فرمایا اس کے الفاظ۔ لَآ إِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں)۔ ہی اس حقیقت پر پختہ شہادت ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت قیامت تک اُسی طرح جاری و ساری رہے گی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں تھی۔

اب کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول تھے،‘‘ وہ یہی کہے گا کہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ اگر کوئی ایسا نہ کہے تو وہ بالاتفاق کافر کی موت مرے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو ابد الآباد تک کے لیے مانا جائے۔ یہ بنیادی تقاضائے ایمان ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماضی میں رسول سمجھے جانے کے تصور کو سرے سے ختم کر دیا اور ماضی کا صیغہ استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں دی۔ ختمِ نبوت کی حقیقت سے یہ واضح کر دیا کہ نبی آئے اور چلے گئے، چوں کہ ان کی رسالت عارضی تھی اس لیے نئے نبی بھی آتے رہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین و خاتم الرسل ہیں لہٰذا اب قیامت تک کوئی نیا نبی و رسول نہیں آئے گا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت ہر زمانے میں جاری ہے اور قیامت تک رہے گی۔ اس لیے یہ عقیدہ رکھنا فرض ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب بھی اسی طرح اللہ کے رسول ہیں جس طرح صحابہ کے لیے تھے اور جس طرح ہمارے لیے ہیں اسی طرح تاقیامِ قیامت بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے بھی ہوں گے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تریسٹھ (63) برس تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر کوئی سر کی آنکھوں سے دیکھ سکتا تھا مگر وصالِ مبارک کے بعد خال خال کسی خوش نصیب ہی کو آپ کی زیارت بہ حالتِ خواب نصیب ہوتی ہے۔ جس کا بخت یاوری کرے وہ نہ صرف خواب میں بلکہ بے داری میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کر لیتا ہے۔ الغرض حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مخلص غلاموں پر آج بھی شفیق ہیں، ان کی رہنمائی بھی کرتے ہیں، انہیں دل اور سر کی آنکھوں سے شرفِ دیدار بھی بخشتے ہیں اور جب وہ دنیا سے رخصت ہونے لگیں تو اُن کی روحوں کے استقبال کے لیے بھی تشریف لاتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔