Pages

Sunday, 4 December 2016

【【【 دوزخ اور جنت کا بیان 】】】

【【【【 دوزخ اور جنت کا بیان 】】】】

دوزخ۔یہ ایک مکان ہے کہ اُس قہار و جبار کے جلال و قہر کا مظہر ہے۔ جس طرح اُس کی رحمت و نعمت کی انتہا نہیں کہ انسانی خیالات و تصورات جہاں تک پہنچیں وہ ایک شَمّہ ہے اُس کی بے شمار نعمتوں سے، اسی طرح اس کے غضب و قہر کی کوئی حد نہیں کہ ہر وہ تکلیف و اذیت کہ اِدراک کی جائے،
ایک ادنیٰ حصہ ہے اس کے بے انتہا عذاب کا۔ قرآنِ مجید و احادیث میں جو اُس کی سختیاں مذکور ہیں، ان میں سے کچھ اِجمالاً بیان کرتا ہوں، کہ مسلمان دیکھیں اور اس سے پناہ مانگیں اور اُن اعمال سے بچیں جن کی جزا جہنم ہے۔ حدیث میں ہے کہ جو بندہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے، جہنم کہتا ہے: اے رب! یہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے، تُو اس کو پناہ دے۔ قرآن مجید میں بکثرت ارشاد ہوا کہ جہنم سے بچو! دوزخ سے ڈرو!
ھمارے آقا و مولیٰ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم کو سکھانے کے لیے کثرت کے ساتھ اُس سے پناہ مانگتے۔ جہنم کے شرارے (پھول) اُونچے اُونچے محلوں کی برابر اُڑیں گے، گویا زَرد اُونٹوں کی قطار کہ پیہم آتے رہیں گے۔
آدمی اور پتھر اُس کا ایندھن ہے،
یہ جو دنیا کی آگ ہے اُس آگ کے ستّر جُزوں میں سے ایک جُز ہے۔ جس کو سب سے کم درجہ کا عذاب ہوگا، اسے آگ کی جوتیاں پہنا دی جائیں گی، جس سے اُس کا دماغ ایسا کَھولے گا جیسے تانبے کی پتیلی کَھولتی ہے، وہ سمجھے گا کہ سب سے زیادہ عذاب اس پر ہو رہا ہے، حالانکہ اس پر سب سے ھلکا ہے، سب سے ھلکے درجہ کا جس پر عذاب ہوگا، اس سے ﷲ عزوجل پوچھے گا: کہ اگرساری زمین تیری ہو جائے تو کیا اس عذاب سے بچنے کے لیے تو سب فدیہ میں دیدے گا؟ عرض کریگا: ہاں! فرمائے گا: کہ جب تُو پُشتِ آدم میں تھا تو ہم نے اِس سے بہت آسان چیز کا حکم دیا تھا کہ کفر نہ کرنا مگر تُو نے نہ مانا۔ جہنم کی آگ ہزار برس تک دھونکائی گئی، یہاں تک کہ سُرخ ہوگئی، پھر ہزار برس اور، یہاں تک کہ سفید ہو گئی، پھر ہزار برس اور، یہاں تک کہ سیاہ ہو گئی، تو اب وہ نِری سیاہ ہے،
جس میں روشنی کا نام نہیں۔جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے قسم کھا کر عرض کی: کہ اگر جہنم سے سوئی کے ناکے کی برابر کھول دیا جائے تو تمام زمین والے سب کے سب اس کی گرمی سے مر جائیں اور قسم کھا کر کہا : کہ اگر جہنم کا کوئی داروغہ اھلِ دنیا پر ظاہر ہو تو زمین کے رہنے والے کُل کے کُل اس کی ہَیبت سے مر جائیں اور بقسم بیان کیا:
کہ اگر جہنمیوں کی زنجیر کی ایک کڑی دنیا کے پہاڑوں پررکھ دی جائے تو کانپنے لگیں اور انہیں قرار نہ ہو، یہاں تک کہ نیچے کی زمین تک دھنس جائیں۔ یہ دنیا کی آگ (جس کی گرمی اور تیزی سے کون واقف نہیں کہ بعض موسم میں تو اس کے قریب جانا شاق ہوتا ہے، پھر بھی یہ آگ) خدا سے دعا کرتی ہے کہ اسے جہنم میں پھر نہ لے جائے، مگر تعجب ہے انسان سے کہ جہنم میں جانے کا کام کرتا ہے اور اُس آگ سے نہیں ڈرتا جس سے آگ بھی ڈرتی اور پناہ مانگتی ہے۔
دوزخ کی گہرائی کو خدا ہی جانے کہ کتنی گہری ہے، حدیث میں ہے کہ اگر پتھر کی چٹان جہنم کے کنارے سے اُس میں پھینکی جائے تو ستّر برس میں بھی تہ تک نہ پہنچے گی اور اگر انسان کے سر برابر سیسہ کا گولا آسمان سے زمین کو پھینکا جائے تو رات آنے سے پہلے زمین تک پہنچ جائے گا، حالانکہ یہ پانسو برس کی راہ ہے۔
پھر اُس میں مختلف طبقات و وَادی اور کوئیں ہیں، بعض وادی ایسی ہیں کہ جہنم بھی ہر روز ستّر مرتبہ یا زیادہ اُن سے پناہ مانگتا ہے، یہ خود اس مکان کی حالت ہے، اگر اس میں اور کچھ عذاب نہ ہوتا تو یہی کیا کم تھا! مگر کفّار کی سَرْزَنِش کے لیے اور طرح طرح کے عذاب مہیّا کیے، لوہے کے ایسے بھاری گُرزوں سے فرشتے ماریں گے کہ اگر کوئی گُرز زمین پر رکھ دیا جائے تو تمام جن و انس جمع ہو کر اُس کو اُٹھا نہیں سکتے۔( بُختی اونٹ ک گردن برابر بچھو اور ﷲ (عزوجل) جانے کس قدر بڑے سانپ کہ اگر ایک مرتبہ کاٹ لیں تو اس کی سوزش، درد، بے چینی ہزار برس تک رہے، تیل کی جلی ہوئی تلچھٹ کی مثل سخت کَھولتا پانی پینے کو دیا جائے گا، کہ مونھ کے قریب ہوتے ہی اس کی تیزی سے چہرے کی کھال گر جائے گی۔ سر پر گرم پانی بہایا جائے گا۔ جہنمیوں کے بدن سے جو پیپ بہے گی وہ پلائی جائے گی، خاردار تُھوہڑ کھانے کو دیا جائے گا، وہ ایسا ہو گا کہ اگر اس کا ایک قطرہ دنیا میں آئے تو اس کی سوزش و بدبُو تمام اھلِ دنیا کی معیشت برباد کردے اور وہ گلے میں جا کر پھندا ڈالے گا، اس کے اتارنے کے لیے پانی مانگیں گے، اُن کو وہ کُھولتا پانی دیا جائے گا کہ مونھ کے قریب آتے ہی مونھ کی ساری کھال گل کر اس میں گِر پڑے گی، اور پیٹ میں جاتے ہی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور وہ شوربے کی طرح بہہ کر قدموں کی طرف نکلیں گی، پیاس اس بلا کی ہوگی کہ اس پانی پر ایسے گریں گے جیسے تونس کے مارے ہوئے اونٹ، پھر کفّار جان سے عاجز آکرباہم مشورہ کر کے مالک علیہ الصلاۃ والسلام داروغہ جہنم کو پکاریں گے: کہ اے مالک (علیہ الصلاۃ والسلام)! تیرا رب ھمارا قصہ تمام کر دے، مالک علیہ الصلاۃ والسلام ہزار برس تک جواب نہ دیں گے، ہزار برس کے بعد فرمائیں گے: مجھ سے کیا کہتے ہو، اُس سے کہو جس کی نافرمانی کی ہے!، ہزار برس تک رب العزت کو اُس کی رحمت کے ناموں سے پکاریں گے، وہ ہزار برس تک جواب نہ دے گا، اس کے بعد فرمائے گا تویہ فرمائے گا:
''دُور ہوجاؤ! جہنم میں پڑے رہو! مجھ سے بات نہ کرو!'' اُس وقت کفّار ہر قسم کی خیر سے نا اُمید ہو جائیں گے اور گدھے کی آواز کی طرح چلّا کر روئیں گے، ابتداء آنسو نکلے گا، جب آنسو ختم ہو جائیں گے تو خون روئیں گے، روتے روتے گالوں میں خندقوں کی مثل گڑھے پڑ جائیں گے، رونے کا خون اور پیپ اس قدر ہو گا کہ اگر اس میں کشتیاں ڈالی جائیں تو چلنے لگیں۔  جہنمیوں کی شکلیں ایسی کرِیہ ہوں گی کہ اگر دنیا میں کوئی جہنمی اُسی صورت پر لایا جائے تو تمام لوگ اس کی بدصورتی اور بدبُو کی وجہ سے مر جائیں۔ اور جسم ان کا ایسا بڑا کر دیا جائے گا کہ ایک شانہ سے دوسرے تک تیز سوار کے لیے تین ۳دن کی راہ ہے۔ ایک ایک داڑھ اُحد کے پہاڑ برابر ہوگی، کھال کی موٹائی بیالیس ذراع کی ہوگی، زبان ایک کوس دو کوس تک مونھ سے باہر گھسٹتی ہوگی کہ لوگ اس کو روندیں گے، بیٹھنے کی جگہ اتنی ہوگی جیسے مکہ سے مدینہ تک اور وہ جہنم میں مونھ سکوڑے ہوں گے کہ اوپر کا ہونٹ سمٹ کر بیچ سر کو پہنچ جائے گا اور نیچے کا لٹک کر ناف کو آلگے گا۔ ان مضامین سے یہ معلو م ہوتا ہے کہ کفّار کی شکل جہنم میں انسانی شکل نہ ہوگی کہ یہ شکل اَحسنِ تقویم ہے اور یہ ﷲ عزوجل کو محبوب ہے، کہ اُس کے محبوب کی شکل سے مشابہ ہے،
بلکہ جہنمیوں کا وہ حُلیہ ہے جو اوپر مذکور ہوا، پھر آخر میں کفّار کے لیے یہ ہوگا کہ اس کے قد برابر آگ کے صندوق میں اُسے بند کریں گے، پھر اس میں آگ بھڑ کائیں گے اور آگ کا قُفل لگایا جائے گا، پھر یہ صندوق آگ کے دوسرے صندوق میں رکھا جائے گا اور ان دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی اور اس میں بھی آگ کا قفل لگایا جائے گا، پھر اِسی طرح اُس کو ایک اور صندوق میں رکھ کر اور آگ کا قفل لگا کر آگ میں ڈال دیا جائے گا، تو اب ہر کافر یہ سمجھے گا کہ اس کے سوا اب کوئی آگ میں نہ رہا، اور یہ عذاب بالائے عذاب ہے اور اب ہمیشہ اس کے لیے عذاب ہے۔ جب سب جنتی جنت میں داخل ہولیں گے اور جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جن کو ہمیشہ کے لیے اس میں رہنا ہے، اس وقت جنت و دوزخ کے درمیان موت کو مینڈھے کی طرح لا کر کھڑا کریں گے، پھر مُنادی جنت والوں کو پکارے گا، وہ ڈرتے ہوئے جھانکیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں سے نکلنے کا حکم ہو، پھر جہنمیوں کو پکارے گا،وہ خوش ہوتے ہوئے جھانکیں گے کہ شاید اس مصیبت سے رہائی ہو جائے، پھر ان سب سے پوچھے گا کہ اسے پہچانتے ہو؟ سب کہیں گے: ہاں! یہ موت ہے، وہ ذبح کر دی جائے گی اور کہے گا: اے اھلِ جنت! ہمیشگی ہے، اب مرنا نہیں اور اے اھلِ نار! ہمیشگی ہے، اب موت نہیں، اس وقت اُن کے لیے خوشی پر خوشی ہے اور اِن کے لیے غم بالائے غم۔

جنت ایک مکان ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے بنایا ہے، اس میں وہ نعمتیں مہیا کی ہیں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا، نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا۔ جو کوئی مثال اس کی تعریف میں دی جائے سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ شے کو جنت کی کسی چیز کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں۔ وہاں کی کوئی عورت اگر زمین کی طرف جھانکے تو زمین سے آسمان تک روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے اور چاند سورج کی روشنی جاتی رہے اور اُس کا دوپٹا دنیا ومافیہا سے بہتر۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اگر حُور اپنی ہتھیلی زمین و آسمان کے درمیان نکالے تو اس کے حسن کی وجہ سے خلائق فتنہ میں پڑ جائیں اور اگر اپنا دوپٹا ظاہر کرے تو اسکی خوبصورتی کے آگے آفتاب ایسا ہو جائے جیسے آفتاب کے سامنے چراغ اور اگر جنت کی کوئی ناخن بھَر چیز دنیا میں ظاہر ہو تو تمام آسمان و زمین اُس سے آراستہ ہو جائیں اور اگرجنتی کا کنگن ظاہر ہو تو آفتاب کی روشنی مٹادے، جیسے آفتاب ستاروں کی روشنی مٹا دیتا ہے۔ جنت کی اتنی جگہ جس میں کوڑا رکھ سکیں دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ جنت کتنی وسیع ہے، اس کو ﷲ و رسول (عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہی جانیں، اِجمالی بیان یہ ہے کہ اس میں ۱۰۰سو درجے ہیں۔ ہر دو درجوں میں وہ مسافت ہے، جو آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ رہا یہ کہ خود اُس درجہ کی کیا مسافت ہے، اس کے متعلق کوئی روایت خیال میں نہیں، البتہ ایک حدیث ''ترمذی'' کی یہ ہے: ''کہ اگر تمام عالم ایک درجہ میں جمع ہو تو سب کے لیے وسیع ہے۔
جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں ۱۰۰سو برس تک تیز گھوڑے پر سوار چلتا رہے اورختم نہ ہو۔ جنت کے دروازے اتنے وسیع ہوں گے کہ ایک بازو سے دوسرے تک تیز گھوڑے کی ستّر برس کی راہ ہوگی پھر بھی جانے والوں کی وہ کثرت ہوگی کہ مونڈھے سے مونڈھا چِھلتا ہوگا، بلکہ بھیڑ کی وجہ سے دروازہ چَرچَرانے لگے گا۔ اس میں قسم قسم کے جواہر کے محل ہیں، ایسے صاف و شفاف کہ اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا اندر سے دکھائی دے۔ جنت کی دیواریں سونے اور چاندی کی اینٹوں اور مُشک کے گارے سے بنی ہیں، ایک اینٹ سونے کی، ایک چاندی کی، زمین زعفران کی، کنکریوں کی جگہ موتی اور یاقوت۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جنتِ عدن کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے، ایک یاقوتِ سرخ کی، ایک زَبَرْجَد سبز کی، اور مشک کا گارا ہے اورگھاس کی جگہ زعفران ہے،
موتی کی کنکریاں، عنبر کی مٹی، جنت میں ایک ایک موتی کا خیمہ ہوگا جس کی بلندی ساٹھ میل۔ جنت میں چار دریا ہیں، ایک پانی کا، دوسرا دودھ کا، تیسرا شہد کا، چوتھا شراب کا، پھر اِن سے نہریں نکل کر ہر ایک کے مکان میں جاری ہیں۔ وہاں کی نہریں زمین کھود کر نہیں بہتیں، بلکہ زمین کے اوپر اوپر رواں ہیں، نہروں کا ایک کنارہ موتی کا، دوسرا یاقوت کا اور نہروں کی زمین خالص مشک کی، وہاں کی شراب دنیا کی سی نہیں جس میں بدبُو اور کڑواہٹ اور نشہ ہوتا ہے اور پینے والے بے عقل ہو جاتے ہیں، آپے سے باہر ہوکر بیہودہ بکتے ہیں، وہ پاک شراب اِن سب باتوں سے پاک و منزَّہ ہے۔
جنتیوں کو جنت میں ہر قسم کے لذیذ سے لذیذ کھانے ملیں گے، جو چاہیں گے فوراً ان کے سامنے موجود ہو گا، اگر کسی پرند کو دیکھ کر اس کے گوشت کھانے کو جی ہو تو اُسی وقت بُھنا ہوا اُن کے پاس آجائے گا، اگر پانی وغیرہ کی خواہش ہو تو کوزے خود ہاتھ میں آجائیں گے، ان میں ٹھیک اندازے کے موافق پانی، دودھ، شراب، شہد ہوگا کہ ان کی خواہش سے ایک قطرہ کم نہ زیادہ، بعد پینے کے خودبخود جہاں سے آئے تھے چلے جائیں گے۔ وہاں نجاست، گندگی، پاخانہ، پیشاب، تھوک، رینٹھ، کان کا میل، بدن کا میل اصلاً نہ ہوں گے، ایک خوشبو دار فرحت بخش ڈکار آئے گی، خوشبو دار فرحت بخش پسینہ نکلے گا، سب کھانا ہضم ہوجائے گا اور ڈکار اور پسینے سے مشک کی خوشبو نکلے گی۔ ہر شخص کو ۱۰۰سو آدمیوں کے کھانے، پینے، جماع کی طاقت دی جائے گی۔ ہر وقت زبان سے تسبیح و تکبیر بہ قصد اور بلا قصد مثل سانس کے جاری ہوگی۔ کم سے کم ہر شخص کے سرہانے د۱۰س ہزار خادم کھڑے ہونگے، خادموں میں ہر ایک کے ایک ہاتھ میں چاندی کا پیالہ ہوگا اور دوسرے ہاتھ میں سونے کا اور ہر پیالے میں نئے نئے رنگ کی نعمت ہو گی، جتنا کھاتا جائے گا لذت میں کمی نہ ہوگی بلکہ زیادتی ہوگی ، ہر نوالے میں ۷۰ ستّرمزے ہوں گے، ہر مزہ دوسرے سے ممتاز، وہ معاً محسوس ہوں گے، ایک کا احساس دوسرے سے مانع نہ ہوگا، جنتیوں کے نہ لباس پرانے پڑیں گے، نہ ان کی جوانی فنا ہوگی۔ پھلا گروہ جو جنت میں جائے گا، اُن کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں رات کا چاند اور دوسرا گروہ جیسے کوئی نہایت روشن ستارہ، جنتی سب ایک دل ہوں گے، ان کے آپس میں کوئی اختلاف و بغض نہ ہوگا، ان میں ہر ایک کو حورِ عِین میں کم سے کم دو بیبیاں ایسی ملیں گی کہ ستّر ستّر جوڑے پہنے ہوں گی، پھر بھی ان لباسوں اور گوشت کے باہر سے ان کی پنڈلیوں کا مغز دکھائی دے گا، جیسے سفید شیشے میں شرابِ سُرخ دکھائی دیتی ہے اور یہ اس وجہ سے کہ ﷲ عزوجل نے انہیں یاقوت سے تشبیہ دی اور یاقوت میں سوراخ کرکے اگر ڈورا ڈالا جائے تو ضرور باہر سے دکھائی دے گا۔ آدمی اپنے چہرے کو اس کے رُخسار میں آئینہ سے بھی زیادہ صاف دیکھے گا اور اس پر ادنیٰ درجہ کا جو موتی ہوگا، وہ ایسا ہو گا کہ مشرق سے مغرب تک روشن کر دے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ مرد اپنا ہاتھ اس کے شانوں کے درمیان رکھے گا تو سینہ کی طرف سے کپڑے اور جلد اور گوشت کے باہر سے دکھائی دے گا۔ اگر جنت کا کپڑا دنیا میں پہنا جائے تو جو دیکھے بے ہوش ہو جائے، اور لوگوں کی نگا ہیں اس کا تحمل نہ کرسکیں، مرد جب اس کے پاس جائے گا اسے ہر بار کوآری پائے گا، مگر اس کی وجہ سے مرد و عورت کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی، اگر کوئی حور سمندر میں تھوک دے تو اُس کے تھوک کی شیرینی کی وجہ سے سمندر شیریں ہوجائے۔
اور ایک روایت ہے کہ اگر جنت کی عورت سات سمندروں میں تھوکے تو وہ شہد سے زیادہ شیریں ہو جائیں۔ جب کوئی بندہ جنت میں جائے گا تو اس کے سرہانے اور پائنتی دو حوریں نہایت اچھی آواز سے گائیں گی، مگر اُن کا گانا یہ شیطانی مزامیر نہیں بلکہ ﷲ عزوجل کی حمد و پاکی ہوگا، وہ ایسی خوش گُلو ہوں گی کہ مخلوق نے ویسی آواز کبھی نہ سنی ہوگی اور یہ بھی گائیں گی: کہ ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں، کبھی نہ مریں گے، ہم چَین والیاں ہیں، کبھی تکلیف میں نہ پڑیں گے، ہم راضی ہیں ناراض نہ ہوں گے، مبارک باد اس کے لیے جو ھمارا اور ہم اس کے ہوں۔ سر کے بال اور پلکوں اور بھَووں کے سوا جنتی کے بدن پر کہیں بال نہ ہوں گے، سب بے ریش ہوں گے، سُرمگیں آنکھیں، تیس برس کی عمر کے معلوم ہوں گے  کبھی اس سے زیادہ معلوم نہ ہوں گے۔
ادنیٰ جنتی کے لیے اَ۸۰سّی ہزار خادم اور ۷۲بہتّربیبیاں ہوں گی اور اُن کو ایسے تاج ملیں گے کہ اس میں کا ادنیٰ موتی مشرق و مغرب کے درمیان روشن کر دے اور اگر مسلمان اولاد کی خواہش کرے تو اس کا حمل اور وضع اور پوری عمر (یعنی تیس سال کی)، خواہش کرتے ہی ایک ساعت میں ہو جائے گی۔ جنت میں نیند نہیں، کہ نیند ایک قسم کی موت ہے اور جنت میں موت نہیں۔ جنتی جب جنت میں جائیں گے ہر ایک اپنے اعمال کی مقدار سے مرتبہ پائے گا اور اس کے فضل کی حد نہیں۔ پھر اُنھیں دنیا کی ایک ہفتہ کی مقدار کے بعد اجازت دی جائے گی کہ اپنے پروردگار عزوجل کی زیارت کریں
اور عرشِ الٰہی ظاہر ہوگا اور رب عزوجل جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں تجلّی فرمائے گا اور ان جنتیوں کے لیے منبر بچھائے جائیں گے، نورکے منبر، موتی کے منبر، یاقوت کے منبر، زَبرجَد کے منبر، سونے کے منبر، چاندی کے منبر اور اُن میں کا ادنیٰ مشک و کافور کے ٹیلے پر بیٹھے گا اور اُن میں ادنیٰ کوئی نہیں، اپنے گمان میں کرسی والوں کو کچھ اپنے سے بڑھ کر نہ سمجھیں گے اور خدا کا دیدار ایسا صاف ہوگا جیسے آفتاب اور چودھویں رات کے چاند کو ہر ایک اپنی اپنی جگہ سے دیکھتا ہے، کہ ایک کا دیکھنا دوسرے کے لیے مانع نہیں اور ﷲ عزوجل ہر ایک پر تجلّی فرمائے گا، ان میں سے کسی کو فرمائے گا: اے فلاں بن فلاں! تجھے یاد ہے، جس دن تُو نے ایسا ایسا کیا تھا...؟! دنیا کے بعض مَعاصی یاد دلائے گا، بندہ عرض کریگا: تو اے رب! کیا تُو نے مجھے بخش نہ دیا؟ فرمائے گا: ہاں! میری مغفرت کی وسعت ہی کی وجہ سے تُو اِس مرتبہ کو پہنچا، وہ سب اسی حالت میں ہونگے کہ اَبر چھائے گا اور اُن پر خوشبو برسائے گا، کہ اُس کی سی خوشبو ان لوگوں نے کبھی نہ پائی تھی
اور اﷲ عزوجل فرمائے گا: کہ جاؤ اُس کی طرف جو میں نے تمہارے لیے عزت تیار کر رکھی ہے، جو چاہو لو، پھر لوگ ایک بازار میں جائیں گے جسے ملائکہ گھیرے ہوئے ہیں، اس میں وہ چیزیں ہوں گی کہ ان کی مثل نہ آنکھوں نے دیکھی، نہ کانوں نے سنی، نہ قلوب پر ان کا خطرہ گزرا، اس میں سے جو چاہیں گے، اُن کے ساتھ کر دی جائے گی اور خرید و فروخت نہ ہوگی اور جنتی اس بازار میں باہم ملیں گے، چھوٹے مرتبہ والا بڑے مرتبہ والے کو دیکھے گا، اس کا لباس پسند کریگا، ہنوز گفتگو ختم بھی نہ ہوگی کہ خیال کریگا، میرا لباس اُس سے اچھا ہے اور یہ اس وجہ سے کہ جنت میں کسی کے لیے غم نہیں، پھر وہاں سے اپنے اپنے مکانوں کو واپس آئیں گے۔ اُن کی بیبیاں استقبال کریں گی اور مبارکباد دے کر کہیں گی کہ آپ واپس ہوئے اور آپ کا جمال اس سے بہت زائد ہے کہ ھمارے پاس سے آپ گئے تھے، جواب دیں گے کہ پروردگار جبّار کے حضور بیٹھنا ہمیں نصیب ہوا تو ہمیں ایسا ہی ہوجانا سزاوار تھا۔ جنتی باہم ملنا چاہیں گے تو ایک کا تخت دوسرے کے پاس چلا جائے گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ان کے پاس نہایت اعلیٰ درجہ کی سواریاں اور گھوڑے لائے جائیں گے اور ان پر سوار ہو کر جہاں چاہیں گے جائیں گے۔
سب سے کم درجہ کا جو جنتی ہے اس کے باغات اور بیبیاں اور نعیم و خدّام اور تخت ہزار برس کی مسافت تک ہوں گے اور اُن میں ﷲ عزوجل کے نزدیک سب میں معزز وہ ہے جو ﷲ تعالیٰ کے وجہِ کریم کے دیدار سے ہر صبح و شام مشرّف ہوگا۔ جب جنتی جنت میں جا لیں گے ﷲ عزوجل اُن سے فرمائے گا: کچھ اور چاہتے ہو جو تم کو دوں؟ عرض کریں گے: تُو نے ھمارے مونھ روشن کیے، جنت میں داخل کیا، جہنم سے نجات دی، اس وقت پردہ کہ مخلوق پر تھا اُٹھ جائے گا تو دیدارِ الٰہی سے بڑھ کر انھیں کوئی چیز نہ ملی ہوگی۔
اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا زِیَارَۃَ وَجْھِکَ الْکَرِیْمِ بِجَاہِ حَبِیْبِکَ الرَّؤُوفِ الرَّحِیْمِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالتسلیمُ، اٰمین!۔بہار شریعت١

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔