Pages

Saturday 10 December 2016

یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں ( کیا یہ یہودیوں کی پیروی ہے نجدیو )

یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں ( کیا یہ یہودیوں کی پیروی ہے نجدیو )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یوم عاشورہ وہ ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح عطا کی اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کر دیا۔ یوں بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ چناں چہ یہ دن حضرت موسی علیہ السلام کی فتح کا دن بھی تھا اور قوم بنی اسرائیل کی آزادی کاد ن بھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا۔جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرما ئی تو انہوں نے مذکورہ بالا وجہ بیان کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ یوم عاشورہ کے روزہ کے حوالے سے چند روایات درج ذیل ہیں :

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں :حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس دن روزہ رکھنے کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا : یہ دن (ہمارے لیے) متبرک ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی (یہ ہمارا یوم آزادی اور یوم نجات ہے)۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 291، رقم : 2644
ابو يعليٰ، المسند، 4 : 441، رقم : 2567
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 92

ایک اور طرُق سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی اسی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں :حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ان سے اس کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا : اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ ونصرت عطا فرمائی تو ہم اس عظیم کامیابی کی تعظیم و تکریم بجا لانے کے لیے اس دن روزہ رکھتے ہیں، (یہ ہمارا یومِ فتح ہے)۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب إتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، رقم : 1130
ابوداؤد، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444

ایک روایت میں یہودیوں کا جواب اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اِس طرح منقول ہے : انہوں نے کہا : یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اُسی دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 796، رقم : 1130
بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216
ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734
أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 336، رقم : 3112

مذکورہ بالاروایات سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل فرعون کے جبر و اِستبداد کا شکار تھے جس کی وجہ سے اﷲ کے دین کی پیروی ان کے لیے مشکل تھی۔ لیکن سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی جہدِ مسلسل کے نتیجے میں وہ حسین دن بھی طلوع ہوا جب بنی اسرائیل دریائے نیل پار کر گئے اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اپنے لشکر سمیت اِسی دریا میں غرق ہوگیا۔ اس طرح بنی اسرائیل کو ظلم و استبداد سے نجات اور آزادی ملی۔ فتح و آزادی کی یہ نعمت اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت تھی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور بنی اسرائیل نے بھی روزہ رکھا۔ وہ اس دن کو یوم نجات اور یوم آزادی کے طور پر آج تک منا رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اس دن کو روزہ رکھ کر منایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا۔ اِمام طحاوی (229. 321ھ) فرماتے ہیں کہ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے موسی علیہ السلام کے فرعون پر غلبہ پا لینے پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کے لیے روزہ رکھا۔

طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 132، رقم : 3209

یہاں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی و نجات کا دن قابلِ تعظیم سمجھ کر اسے منانے کا حق رکھتے ہیں تو مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ میلاد قابلِ تعظیم سمجھ کر اُسے منانے کا بہ درجہ اَتم حق رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء اور سید المرسلین و الانبیاء ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا فضل اور رحمت بن کر پوری انسانیت کو آزادی عطا کرنے اور ہر ظلم و نااِنصافی سے نجات دلانے کے لیے تشریف لائے۔ ارشادِ ربانی ہے :

وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ.

ترجمہ : اور (یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود) جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے، ساقط فرماتے ( اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔‘‘ سورۃ الأعراف، 7 : 157

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری مظلوم انسانیت کے لیے نجات اور آزادی کی نوید تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت وہ حسین ترین لمحہ تھا جس کی خوشی پوری کائنات میں منائی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ایک مومن کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے۔ اﷲ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو امت کے لیے بہت بڑے احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ وہ دن جس میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے عالم انسانیت کو نواز گیا سب کے لیے تعظیم و تکریم کامستحق ہے۔ ظہورِ قدسی کا وہ عظیم ترین دن اس قابل ہے کہ ہم اس دن عطائے نعمتِ عظمی پر سراپا تشکر بن جائیں، اس کی تعظیم کے لیے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کر دیں اور اِسے ہر ممکن جائز طریقے سے والہانہ احترام اور عقیدت و محبت کے جذبات میں ڈوب کرجشن کی صورت میں خوب دھوم دھام سے منائیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود نسبتِ موسیٰ علیہ السلام کے سبب سے دن منانا

مذکورہ بالا اَحادیث سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے کی ایک اور دلیل بھی اَخذ ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اِس دن کو منایا اور روزہ رکھا۔ اس سے کسی عظیم دن کو منانے کا جواز خود سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل رہا ہے۔ اور اہلِ ایمان کے لیے یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر اور کون سا دن عظیم ہوسکتا ہے! لہٰذا یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بھی اِتباعِ سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمرے میں آتا ہے۔

یہود یومِ عاشورہ یومِ عید کے طور پر مناتے تھے

بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہود اپنا یومِ آزادی یعنی عاشورہ کا دن روزہ رکھ کر مناتے تھے، جب کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن یومِ عید کے طور پر منایا جاتا ہے، لیکن اس دن روزہ نہیں رکھا جاتا؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی مبارک دن کو یومِ مسرت کے طور پر منانا سنت ہے اور اس کو دائرۂ شریعت میں رہتے ہوئے کسی بھی شکل میں منایا جا سکتا ہے۔ اگر یہود یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یوم شکرانہ منانے کو صرف روزہ رکھنے کے عمل تک محدود کرلیا جائے اور اس دن کو روزہ رکھنے کے سوا کسی اور طریقے سے نہ منایا جائے۔ احادیثِ مذکورہ میں اس امر کی طرف کوئی اشارہ موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اس خوشی کے موقع پر روزہ ایک اضافی نیک عمل کے طور پر رکھتے تھے اور وہ یہ دن بہ طور عید مناتے تھے۔

قبل اَز اِسلام عرب معاشرہ میں یومِ عاشورہ کے موقع پر عید منائی جاتی تھی۔ اگرچہ عربوں کا اس دن عید منانا مختلف وجوہات کی بنا پر تھا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کے بعدمدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی بھی اس دن صرف روزہ نہیں رکھتے بلکہ عید بھی مناتے تھے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے :

اِمام بخاری (194۔ 256ھ) الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : یوم عاشورہ کو یہود یومِ عید شمار کرتے تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا : تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو۔

بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، 705، رقم : 1901

اِمام مسلم (206۔ 261ھ) نے بھی الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کرتے تھے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو) حکم دیا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھو۔‘‘

مسلم، الصحيح، 2، 796، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، رقم : 1131
نسائي، السنن الکبري، 2 : 159، رقم : 2848
طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصوم، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 133، رقم : 3217
بيهقي، السنن الکبري، 4 : 289، رقم : 8197

اِمام طحاوی (229۔ 321ھ) اِس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم صرف اِس لیے دیا تھا کہ یہود اس دن روزہ رکھتے تھے۔

اِمام مسلم (206. 261ھ) نے الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے درج ذیل الفاظ کے ساتھ ایک اور حدیث بھی روایت کی ہے : اہلِ خیبر یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ اس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور ان کا بناؤ سنگھار کرتے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں سے) فرمایا : تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 796، رقم : 1131
ابو نعيم، المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 : 212، رقم : 2575
إسماعيلي، معجم شيوخ أبي بکر الإسماعيلي، 3 : 722، رقم : 337
عسقلاني، فتح الباري، 4 : 248

اِمام بخاری (194۔ 256ھ) اور اِمام مسلم (206۔ 261ھ) کی مذکورہ بالا روایات سے مستنبط ہوتا ہے کہ :

یومِ عاشورہ یہودیوں کے لیے یومِ نجات اور یومِ کامیابی تھا۔ وہ عرصہ قدیم سے من حیث القوم اِسے یومِ عید کے طور پر شایانِ شان طریقے سے مناتے چلے آرہے تھے۔

عید کا دن اُن کے لیے یومِ تعظیم تھا، وہ اس کا احترام کرتے اور بطور شکر و اِمتنان ایک اِضافی عمل کے طور پر اس دن روزہ بھی رکھتے تھے۔

یہ دن صرف روزہ رکھنے پر ہی موقوف نہ تھا بلکہ روزہ رکھنا محض ایک اِضافی عمل تھا جو اس دن انجام دیا جاتا تھا۔

اِس حوالے سے اگر آج کوئی عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اِعتراض کرے اور کہے کہ روزہ کے بغیر عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن منانا جائز نہیں، تو یہ درست نہیں اور نہ ہی ایسا اِستدلال احادیث کی روشنی میں ممکن ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بخوبی جانتے تھے کہ یومِ عاشورہ یہودیوں کے نزدیک یومِ عید ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے عید منانے پر کوئی سوال نہیں کیا بلکہ ان کے روزہ رکھنے کے بارے میں اِستفسار فرمایا تو انہوں نے۔ ’’تعظیماً لہ‘‘ اور ’’شکراً لہ‘‘ کہہ کر بہ طور تعظیم و تشکر روزہ رکھنے کی توجیہ بیان کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔