Pages

Saturday 3 December 2016

مفتی اعظم مصر شیخ علی جمعہ مصری کا اہم فتویٰ بابت*

💫 *مفتی اعظم مصر شیخ علی جمعہ مصری کا اہم فتویٰ بابت*

🔸 *محافل میلاد کا انعقاد*

☄ *سوال: ملت اسلامیہ ہر سال میلا دالنبی ﷺکی محفل منعقد کرتی ہے۔ اور ہم کچھ لوگوں کو دیکھتے ہیں جو اس پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟*

جواب : میلاد النبی شریف مکمل تاریخِ انسان کی طرف نسبت کرتے ہوئے رحمت الٰہی کو سامنے لانے والی ہے۔ قرآن کریم نے وجود نبی ﷺ کو ’’رحمۃ للعالمین‘‘ سے تعبیر کیا۔ یہ رحمت محدود نہیںہے۔ بلکہ یہ تربیت انسانی ، ان کے تزکیہ نفس، ان کی تعلیم، اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت اور ان کی ظا ہری و باطنی زندگی کی بلندی کی طرف رہنمائی پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ یہ رحمت صرف آپ ﷺ کے ظاہری زمانے والوں پر ہی محدود نہیں بلکہ مکمل تاریخ پریہ چھائی ہوئی ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے وآخرین منھم لمّا یلحقوا بہم (۱)

    حضور ﷺ کے میلاد پاک کے ذکر کی محفل سجانا سب سے افضل عمل اور عظیم قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ یہ حضورﷺ سے محبت اور ان کے لیے خوشی کو بیان کرنا ہے، اور حضور ﷺسے محبت ایمان کی اصل ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ حضورﷺنے فرمایا :وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لاَ یُؤ مِنُ اَحْدُ کُمْ حَتَّی اَکُوْنَ اَحَبُّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین اور اولادسے زیادہ محبوب نہ ہو جاو ٔں(۲)اور دوسری حدیث میں مروی ہے، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لاَ یُؤمِنُ اَحْدُکُمْ حَتَّی اَکُوْنَ اَحَبُّ اِلَیْہِ مِنْ وَلَدِہِ وَوَالِدِہِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ۔تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (۳)

    ابن رجب نے کہا: محبت نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اصول ایمان میں سے ہے۔ اور یہ اللہ عزوجل کی محبت سے متصل ہے۔ اللہ عز وجل نے اسے اپنے ساتھ مقترن کیا ہے۔ اور ان لوگوں کو وعید سنائی ہے جو ان دونوں محبتوں پر کسی دوسری محبت کو مقدم کرے، جنہیں طبیعتیں محبوب رکھتی ہیں جیسے قرابت دار، مال، وطن، وغیرہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:قُلْ اِنْ کَانَ آَبَاؤُکُمْ وَ اَبْنَا ؤُ کُمْ وَ اِخْوَانُکُم…الخ (۴) ترجمہ :تم فرما ؤ اگر تمہا رے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہا رے بھائی اور تمہاری عو رتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کما ئی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اورتمہارے پسند کا مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیا ری ہوںتو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لاے ٔاوراللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ۔جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور ﷺسے عرض کیا آپ میرے نزدیک سوائے میری جان کے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیںتوحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر نہیں ، جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ تو حضرت عمر نے عرض کیاوَاللّٰہِ اَنْت الْاَنَ اَحُبُّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ ،قَالَ،اَلْاَنَ یَا عُمَر۔ بخدا! اب آپ میرے نزدیک میری جان سے زیادہ محبوب ہیں۔ تو حضور ﷺ فرمایا اب اے عمر (تم مومن کامل ہو)(۵) میلاد النبی ﷺکی مجلس منعقد کرنا، یہ اس کی عزت کرنا ہے۔اور اس میں سبقت کرنا ایسا امر ہے جس کی مشروعیت قطعی ہے۔ اس لیے کہ وہ اصول دین کی اصل ہے اور اس کا بنیادی ستون ہے، بے شک اپنے نبی کی قدرومنزلت خدا ہی جانتا ہے۔ تو اللہ رب العزت نے تمام ،موجودات کو اپنے محبوب کے نام اور ان کی دنیا میں تشریف لانے اور ان کے مقام و مرتبے کی معر فت دی تو تمام عالم ہمیشگی کی مسرت میں مشغول ہے۔ اور مکمل طور پر خوش ہے اللہ کے نور سے اور اسکی عطا سے اور اس کی نعمت سے جو اس نے تمام عالم پر فرمائی اور اس کی حجت ودلیل سے۔ حقیقت میں ہمارے اسلاف صالحین نے میلاد النبی ﷺ کی مجالس چوتھی اور پانچوی صدی سے ہی منعقد کی ہے۔ حضور ﷺکی پیدائش کی شب کو مختلف قسم کی تقریبات کے ذریعہ زندہ رکھا۔مثلاً: کھانا کھلانا، اور تلاوت قرآن، ذکرواذکار قصائد و نعتیہ اشعار رسول اکرم ﷺ کی شان میں پڑھنا وغیرہ۔ جیسا کہ اس بات کی متعدد مورخین مثلاً: حافظ ابن حجر ابن جوزی،ابن کثیر، حافظ ابن دحیہ اندلسی اور خاتمۃ الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہم اللہ تعالیٰ نے صراحت کی ہے۔

    علمااور فقہا کی ایک جماعت نے میلاد النبی ﷺکے اذکار کی محفل کے مستحب ہونے کے سلسلے میں کتابیں تالیف کی ہیں۔ اور اس عمل کے مستحب ہونے پر دلائل صحیحہ کو بیان فرمایا ہے۔ اس طور پرکہ جسے ذرا بھی عقل و سمجھ اور صحیح فکر ہوااسے جس راہ پر ہمارے سلف صالحین چلے یعنی میلادالنبی ﷺ کے ذکر کی مجلس سجاناوغیرہ کے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ ا بن الحاج نے ــمدخل کتاب میں اس مجلس پاک کے متعلقہ فضائل کے ذکر میں طویل کلام کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں ایسا مفید کلام فرمایا جو مومنین کے لیے شرح صدور کرتا ہے۔ یہ بھی جان لیجیے کہ ابن الحاج نے اپنی کتاب مدخل کو ان نو پید بدعتوں کی مذمت میں لکھا ہے جن پر کوئی دلیل شرعی نہیں پائی جاتی۔

    خاتمۃ الحفاظ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ’’حسن المقصد فی عمل المولد‘‘ میں اس سوال کے سلسلے میںجو انھیں پیش کیا گیا کہ ربیع الاول کے مہینے میں میلاد النبی کے عمل کا شریعت کے اعتبار سے حکم کیا ہے؟ اورکیا وہ قابل تعریف ہے، یا مذمت کے لائق ؟ اور کیا اس کے کرنے والے کو ثواب ملے گا؟ فرمایا میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ میلاد النبی کے عمل کی اصل لوگوں کا جمع ہونا ہے۔ اور جتنا ہو سکے اتنی قرآن کی تلاوت کرنا،ابتدا ئی احکام ِ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سلسلے میں وارد خبروں کو بیان کرنا، اور جو میلادالنبیﷺ کے وقت میں نشانیاں (آیات)پیش آئیںانھیں بیان کرنا، پھر ان کے لیے دستر خوان بچھانا کہ وہ اس پر کھائیں ۔ اوران افعال پر زیادتی کیے بغیر لوٹ جائیں یہ وہ بدعت حسنہ ہے جسے کرنے والے کو اس پر ثواب دیا جائے گا۔ اس وجہ سے کہ اس میں نبی ﷺ کی قدر ومنزلت کی تعظیم کرنا ہے۔ خوشی کا اظہار کرنا ہے۔ میلاد شریف پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینا ہے۔ امام جلال الدین سیوطی نے اس کارد فرمایا ہے جس نے کہا :’’میں میلاد کے لیے قرآن و حدیث میں کوئی اصل نہیں جانتا ۔‘‘ اپنے اس قول سے ’’ علم کے نہ ہونے سے وجود کی نفی نہیں لازم آتی۔‘‘ یہ بیان کرتے ہوئے کہ امام الحفاظ ابوالفضل ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حدیث پاک سے اس کی اصل کی تخریج فرمائی ہے۔ اور اس کے لیے امام سیوطی نے ایک دوسری واضح اصل کا استخراج فرمایا کہ بدعت مذمومہ وہ ہے کہ جس کی مدح میں کوئی دلیل شرعی نہ ہو لیکن جس کی مدح میں دلیل شرعی ہو تو مذموم نہیں ہے۔ بیہقی نے امام شافعی سے روایت کیا فرمایاـ نو پیدا امور کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم ایسا نو پید امر جو کتاب و سنت اور اثر و اجماع کے مخالف ہو تو یہی بدعت ضلالت ہے۔ اور دوسری قسم جو خیر والا نو پیدا امر ہو جس میں ان میں سے کسی کی مخالفت نہ پائی جائے اور یہ بدعت مذموم نہیں۔ اسی لیے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رمضان المبارک میں تراویح کے سلسلے میں فرمایا:’’ نِعْمَ الْبِدْ عَۃُ ھٰذِہِ۔کیا ہی اچھی بد عت ہے‘‘یعنی یہ نو پید ہے، پہلے نہیں تھی، جب ایسی با ت ہے تو اس میں ہماری گذشتہ بات کا رد نہیں۔(۶)امام سیوطی نے فرمایا: ’’میلادالنبی کے معمول میں قرآن و حدیث اثر و اجماع میں سے کسی کی مخالفت نہیں ہے۔ تو یہ مذموم نہیں جیسا کہ امام شافعی کی عبارت میں ہے۔ یہ وہ پسندیدہ چیز ہے۔ جو عصر اول میں نہیں پائی گئی کیوں کہ کھانا کھلانا جو گنا ہو ں کے ارتکا ب سے خالی ہو :احسان ہے تو یہ بدعت مستحبہ کی اجازت ہے۔ اس کو بدعت مستحبہ سے سلطان العلما العز بن عبدالسلام نے تعبیر فرمایاہے۔

    میلاد النبی کی علامت کے اظہار کے لیے اجتماع کی اصل مستحب اور قربت الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ میلاد مصطفی ہم پر عظیم نعمت ہے۔ اور شریعت نعمت کے شکریہ کے اظہار پر ابھارتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے ابن الحاج نے اپنی کتاب مدخل میں ترجیح دی ہے جیسا کہ فرمایا ’’اس لیے کہ اس مہینے میں اللہ عز وجل نے سید الاولین والآخرین کے ذریعے ہم پر احسان فرمایا تو واجب و ضروری ہے کہ اس مہینے میں عبادات و نیک کاموں اور شکر الٰہی میں زیادتی کرنا چاہیے اس بات پر کہ اس مہینے میں عظیم نعمت کے ذریعے ہم پر مہربانی کی۔ میلادالنبی کے عمل کے سلسلے میں وہ اصل جس کی تخریج حافظ ابن حجر نے کی ہے۔ وہ صحیحین میں ثابت ہے: ـ’’کہ حضور ﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ تو ان سے دریافت فرمایا۔ تو انہوں نے کہا: یہ وہ دن ہے جس میں اللہ نے فرعون کو غرق فرمایا تھا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات عطا کی تو ہم شکرِ الٰہی کے لیے اس دن روزہ رکھتے ہیں۔‘‘ حافظ ابن حجر نے فرمایا:’’اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ شکر الٰہی بجا لایا جا ے ٔ اس بات پر کہ کسی خاص دن میں اللہ تعالیٰ نے کسی نعمت کااحسان فرمایا یاکسی تکلیف کو دور فرمایا اور ہر سال اس دن کی مثل کو دہرایا جائے گا۔ اور شکر مختلف عبادات جیسے کہ سجود،روزے، صدقہ، تلاوت کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے۔ اور اس دن میں نبی رحمت سے بڑھ کراور کون سی نعمت ہو سکتی ہے؟

    حافظ ابن حجر نے اس مجلس پاک کے اظہار کی تاکید فرماتے ہوئے کہا:’’تو مناسب ہے کہ اس مجلس پاک میںاسی پر اکتفا کیا جاے شکر الٰہی جن چیزوں سے مفہوم ہوتی ہے جس کو ہم نے ذکر کیا تلاوت، کھانا کھلانا، نعت نبی اور مذہبی اشعار گنگنانا جو دلوں کو عمل خیر کی تحریک دیں اور آخرت کے افعال کی اور جو مباح چیزیں ہوںاس طور پر کہ خوشی اس دن میں اس کا تقاضہ کرے تو اس کے شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

    امام جلال الدین سیوطی نے امام القراء حافظ شمس الدین ابن الجزر کی کتاب’’ عرف التعریف بالمولدالشریف‘‘ سے ان کا قول نقل کیا ہے۔ مروی ہے کہ ابو لہب سے ہر پیر کی رات جہنم کے عذاب کی تخفیف کی جاتی ہے اس کے اپنی باندی ثویبہ کے آزاد کر دینے کی وجہ سے جب اس نے نبی ﷺ کی ولادت کی خبر سنی تھی۔ تو جب ابو لہب جیسے کافر جس کی مذمت میں سورۃ نازل ہوئی اس کا یہ حال ہے کہ میلاد النبی ﷺ کی رات کی مسرت میں جہنم کے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے۔ تو اس موحد مسلمان کا کیا حال ہوگا جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا امتی ہے۔آپ ﷺ کی میلاد پر خوش ہوتا ہے اور حضور ﷺ کی محبت میں اپنی قدرت کے مطابق اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ میری زندگی کی قسم ضرور اللہ رب العزت کی جانب سے اس کا بدلہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے فضل سے اسے جنت نعیم میں داخل فرمائے گا۔

    حافظ شمس الدین دمشقی نے اپنی کتاب موسوم بنام’’موردالصاوی فی مولد الہادی‘‘ میں ان اشعار کو تحریر فرمایا ؎

    اذا کان ھذاکا فرا جأ ذمہ        وتبت یداہ فی الجہیم مخلدا

    ترجمہ:جب یہ ایسا کافر تھا کہ اس کی مذمّت میںسورۂ تبّت یداہ اٗتری۔ وہ برباد ہوا اور ہمیشہ جہنم میں رہے گا ؎

    اتی انہ فی یوم الاثنین دائما         یخفف عنہ للسرور باحمدا

    ترجمہ:با وجود اس کے حضو ر کی خو شی منا نے کے سبب ہر پیر کو اس پر عذا ب کی تخفیف ہو تی ہے۔

    فما الظن بالعبد الذی کان عمرہ      باحمد مسرورا ومات موحدا

    ترجمہ:تو ا س غلام کے تعلق سے کیا گمان ہو گا جس کی عمر حضو ر کی خو شی میں گزری اور وہ مو حد مرا۔ (ص۵۔۱۵)

    جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پاک وذکرھم با یام اللّٰہ (۷)کے عموم کی وجہ سے آیت سے بھی استدلال ممکن ہے۔ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ میلاد النبی ﷺ ایام اللہ میں سے ہے۔ تو اس میلاد پاک کی مجلس سجانا حکمِ الٰہی کے مطابق ہی ہوگا۔ اور جو اس طرح کا کام ہو وہ بدعت نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ سنت حسنہ ہو گااگر چہ حضور ﷺکے زمانے میں نہ ہو۔

    ہم میلاد النبی کی مجلس سجاتے ہیں اس لیے کہ ہم ان سے محبت کرتے ہیں کیوں کر محبت نہ کریں جب کہ ساری کائنات آپ کو جانتی اور آپ سے محبت کرتی ہے۔ وہ درخت کا تنہ جو جماد ہوتے ہوئے بھی نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے محبت اور تعلق خاطر رکھتا تھا۔ اور آپ کی قربت پاک کا مشتاق تھا بلکہ حضور ﷺ کی محبت میں بہت زیادہ رویا تھا۔ یہ متواتر حدیث سے ثابت ہے۔ اور اس سے حتمی طور پر علم حاصل ہوتاہے۔ اکثر صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ جس وقت حضور ﷺ خطبہ دیتے تھے تو ایک کھجور کے گاڑے ہوئے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے۔ جب آپ کا قیا م طو یل ہو جاتا تو آپ دستِ اقدس کو اس تنے پر رکھ دیا کرتے تھے۔ جب نماز یوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو صحابۂ کرام نے حضور ﷺ کے لیے منبر بنایا۔ تو جب حضور ﷺ جمعہ کے دن منبر پر چڑھنے کے ارادے سے حجرۂ شریفہ کے دروازے سے نکلے اور اس تنے کے پاس سے گزرے جس پر آپ خطبہ دیا کرتے تھے۔ اچانک وہ تنہ تیز آواز سے چیخنے لگا۔ اور دردناک آواز نکالنے لگا۔ حتی کہ مسجد میں لرزہ طاری ہوگیا۔ اور تنہ پھٹنے لگا۔ اور خاموش نہ ہوا، یہاں تک کہ حضورﷺ منبر سے اترے اور تنے کے پاس آئے اور اپنے دستِ اقدس کو اس پر رکھا اور اس پر پھیرا پھر اسے سینے سے چمٹا لیا تب وہ پر سکون ہوا۔ پھر اسے اختیار دیا کہ وہ یا تو جنت کا ایک درخت ہو جائے کہ اس کی جڑیں جنتی نہروں سے پانی پیئں یا پھر دنیا میں ایک پھل دار درخت بن کر لوٹے تو اس تنے نے جنت کا درخت ہونے کو چنا تو حضورﷺ نے فرمایا ان شاء اللہ میں کروں گا۔ ان شاء اللہ میں کروں گا۔ تو وہ تنہ پر سکو ن ہو گیا۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ اگر میں اسے نہ چمٹا لیتا تو قیامت تک رسول اللہ ﷺ کی محبت میں چیختا رہتا۔(۸)

    ماسبق میں مذکور ابن حجر، ابن جوزی، سیوطی وغیرہ ائمہ کے ا قوال سے ظاہر ہو گیا کہ پانچویں صدی حجری میں امت ِ مسلمہ کا یہی طریقہ تھا ۔ اور ہم بھی علمااور امت مسلمہ کی موافقت میں میلاد النبی ﷺ کی مجلس کو مستحب مانتے ہیں اور یہ کہ مجلس مذکورہ طریقوں تلاوت قرآن، ذکرو اذکار، کھانا کھلانا وغیرہ اعمال کے ذریعے ہو، اور اس میں قابلِ مذمت طریقوں جیسے کہ ناچ گانا وغیرہ نہ اختیار کیا جائے اور ان لوگوں کا کو ئی اعتبار نہیں جنہوں نے امتِ مسلمہ کے اجماع عملی اور ان علما کے اقوال سے ہٹ کر الگ راہ اختیار کی اور یہ مجالس نبی رحمت ہادی برحق حبیب رب العالمین پر زیادتی نہیں ہے۔ آخر میں صاحب قصیدہ بردہ کے ان اشعار کو ذکر کرتا ہوں۔ ؎

    فہو الذی تم معناہ وصورتہ          ثم اصطفاہ حبیبا باریٔ النسم

    ترجمہ:آپ کی ذات پاک ظاہری اور باطنی اعتبا ر سے مکمل ہے پھر باری تعا لی نے آپ کو اپنا حبیب چنا ہے،

    منزہ عن شریک فی محا سنہ     فجوھر الحسن فیہ غیر منقسم

    ترجمہ:آپ محا سن و اخلاق میں کسی بھی شر کت سے پا ک ہیںآپ کا جو ہرحسن غیر منقسم ہے۔

    دع ما ادعتہُ النصاری فی نبیھم     واحکم بما شئت مدحا فیہ واحتکم

    ترجمہ:نصا ری اپنے انبیا کے با رے میں جو دعویٰ کرتے ہیں ۔ اسے چھو ڑ کر آپ کی تعریف میں جو چا ہے کہو اور اس پر جمے رہو۔

    وانسب الی ذاتہ ما شٔت من شرف وانسب الی قد رہ ما شتٔ من عظم

    ترجمہ:آپ کی ذات پاک کے بارے میں جو چا ہے شرف و منز لت منسو ب کرو۔ اور آپ کی قدر ومنزلت کے بارے میں جو چا ہے عظمتیں منسوب کرو۔

     فان فضل رسول اللّٰہ لیس لہ     حد فیعرب عنہ ناطق بفم

    ترجمہ:کیو نکہ اللہ کے رسول کی فضیلت کی کوئی حد نہیں۔ تو عرب آپ ہی کی وجہ سے بو لنے کے قابل ہوئے،واللہ تعالیٰ اعلیٰ و اعلم۔

حوالہ جات: (۱) سورۃ جمعہ۔۳(۲) صحیح البخاری، ج۱،ص ۱۴،مسلم ج۱ص۷۶ (۳) صحیح البخاری ،ج۱،ص۱۴۔ (۴) سورۃ التوبۃ،۲۴۔ (۵) صحیح البخاری،ج۶،ص۲۴۴۵)۔ (۶)المد خل الی السنن الکبر ی للبیھقی ص۲۰۶ حسن المقصد فی عمل المولد،ص ۱۵۵، تحفۃ المحتاج ابن حجر ھیثمی،ج۷،ص ۷۲۴۔ (۷) سورۃ ابراہیم،۵۔ (۸) اصل حدیث کو ایک جمع غفیر نے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے۔ اسمیں مسند احمد، صحیح البخاری،ج۳،ص ۱۳۱۳، سنن ترمذی ،ابن ماجہ وغیرہ

٭٭٭

[ماخوذ: ’’البیان القویم‘‘ مطبوعہ قاہرہ،از مفتی اعظم مصر شیخ علی جمعہ مصری دامت برکاتہم العالیہ، ترجمہ: مفتی محمد عرفان رضا مصباحی،مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں]

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔