ایمان بچانے کے لئے ایمان کے مسائل سیکھنا ضروری ھے۔
ﷲعزوجل ارشاد فرماتا ہے۔( وَمَنۡ یَّرْتَدِدْ مِنۡکُمْ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتْ وَہُوَکَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمْ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۱۷﴾
تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہو جائے اور کفر کی حالت میں مرے اسکے تمام اعمال دنیا اور آخرت میں رائیگاں ہیں اور وہ لوگ جہنمی ہیں، اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔: سورتہ البقرہ
اور فرماتا ہے:
( قُلْ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمْ تَسْتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۶۵﴾لَاتَعْتَذِرُوۡا قَدْکَفَرْتُمۡ بَعْدَ اِیۡمَانِکُمْ ؕ
تم فرما دو! کیا اﷲ (عزوجل) اور اس کی آیتوں اور اُس کے رسول (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم)کے ساتھ تم مسخرہ پن کرتے تھے، بہانے نہ بناؤ، تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے''سورتہ التوبہ
حدیث : امام بخاری نے ابوہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہ حضور اقدس صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بندہ کبھی اﷲتعالیٰ کی خوشنودی کی بات کہتا ہے اور اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتا (یعنی اپنے نزدیک ایک معمولی بات کہتا ہے) اﷲتعالیٰ اس کی وجہ سے اسکے بہت درجے بلند کرتا ہے اور کبھی اﷲ (عزوجل) کی ناراضی کی بات کرتا ہے اور اس کا خیال بھی نہیں کرتا اس کی وجہ سے جہنم میں گرتا ہے۔'' اور ایک روایت میں ہے، کہ ''مشرق ومغرب کے درمیان میں جو فاصلہ ہے، اس سے بھی فاصلہ پر جہنم میں گرتا ہے۔''
مسئلہ : کفر و شرک سے بدتر کوئی گناہ نہیں اور وہ بھی ارتداد کہ یہ کفر اصلی سے بھی باعتبار احکام سخت ترہے جیسا کہ اس کے احکام سے معلوم ہوگا۔ مسلمان کو چاہیے کہ اس سے پناہ مانگتا رہے کہ شیطان ہر وقت ایمان کی گھات میں ہے اور حدیث میں فرمایا کہ شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح تیرتا ہے۔ آدمی کو کبھی اپنے اوپر یا اپنی طاعت واعمال پر بھروسا نہ چاہیے ہر وقت خدا پر اعتماد کرے اور اسی سے بقائے ایمان کی دعا چاہے کہ اسی کے ہاتھ(دست قدرت) میں قلب ہے اور قلب کو قلب اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ لَوٹ پَوٹ ہوتا رہتا ہے ایمان پر ثابت رہنا اسی کی توفیق سے ہے جس کے دستِ قدرت میں قلب ہے اور حدیث میں فرمایا کہ شرک سے بچو کہ وہ چیونٹی کی چال سے زیادہ مخفی ہے اور اس سے بچنے کی حدیث میں ایک دعا ارشاد فرمائی اسے ہر روز تین مرتبہ پڑھ لیا کرو، حضورِ اقدس صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ شرک سے محفوظ رہوگے، وہ دعا یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَئًا وَّاَنَا اَعْلَمُ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیوبِ.
مرتد وہ شخص ہے کہ اسلام کے بعد کسی ایسے امرکا انکار کرے جو ضروریات دین سے ہو یعنی زبان سے کلمہ کفر بکے جس میں تاویل صحیح کی گنجائش نہ ہو۔ یوہیں بعض افعال بھی ایسے ہیں جن سے کافر ہو جاتا ہے مثلاً بت کو سجدہ کرنا۔ مصحف شریف کو نجاست کی جگہ پھینک دینا۔
مسئلہ : جو بطور تمسخراورٹھٹے کے کفر کریگا وہ بھی مرتد ہے اگرچہ کہتا ہے کہ ایسا اعتقاد نہیں رکھتا۔(درمختار)
مسئلہ : کسی کلام میں چند معنے بنتے ہیں بعض کفر کی طرف جاتے ہیں بعض اسلام کی طرف تو اس شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ہاں اگر معلوم ہو کہ قائل نے معنی کفر کا ارادہ کیا مثلاً وہ خود کہتا ہے کہ میری مراد یہی ہے تو کلام کا محتمل ہونا نفع نہ دیگا۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ کلمہ کے کفر ہونے سے قائل کا کافر ہونا ضرور نہیں۔(ردالمحتار وغیرہ) آج کل بعض لوگوں نے یہ خیال کرلیا ہے کہ کسی شخص میں ایک بات بھی اسلام کی ہو تو اسے کافر نہ کہیں گے یہ بالکل غلط ہے کیا یہود ونصاریٰ میں اسلام کی کوئی بات نہیں پائی جاتی حالانکہ قرآن عظیم میں انھیں کافر فرمایا گیا بلکہ بات یہ ہے کہ علماء نے فرمایا یہ تھا کہ اگر کسی مسلمان نے ایسی بات کہی جس کے بعض معنی اسلام کے مطابق ہیں تو کافر نہ کہیں گے اس کو ان لوگوں نے یہ بنا لیا۔ ایک یہ وبا بھی پھیلی ہوئی ہے کہتے ہیں کہ ''ہم تو کافر کو بھی کافر نہ کہیں گے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہو گا '' یہ بھی غلط ہے قرآنِ عظیم نے کافر کو کافر کہا اور کافر کہنے کا حکم دیا۔'' قُلْ یٰۤاَیُّہَا الْکٰفِرُوۡنَ ''اور اگر ایسا ہے تو مسلمان کو بھی مسلمان نہ کہو تمھیں کیا معلوم کہ اسلام پر مرے گا خاتمہ کا حال تو خدا جانے مگر شریعت نے کافر و مسلم میں امتیاز رکھا ہے اگر کافر کو کافر نہ جانا جائے تو کیا اس کے ساتھ وہی معاملات کروگے جو مسلم کے ساتھ ہوتے ہیں حالانکہ بہت سے امور ایسے ہیں جن میں کفار کے احکام مسلمانوں سے بالکل جدا ہیں مثلاً ان کے جنازہ کی نماز نہ پڑھنا، ان کے لیے استغفار نہ کرنا، ان کو مسلمانوں کی طرح دفن نہ کرنا، ان کو اپنی لڑکیاں نہ دینا، ان پر جہاد کرنا، ان سے جزیہ لینا اس سے انکار کریں تو قتل کرنا وغیرہ وغیرہ۔ بعض جاہل یہ کہتے ہیں کہ ''ہم کسی کو کافر نہیں کہتے، عالم لوگ جانیں وہ کافر کہیں'' مگر کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ عوام کے تو وہی عقائد ہونگے جو قرآن و حدیث وغیرہما سے علماء نے انھیں بتائے یا عوام کے لیے کوئی شریعت جدا گا نہ ہے جب ایسا نہیں تو پھر عالمِ دین کے بتائے پر کیوں نہیں چلتے نیزیہ کہ ضروریات کا انکار کوئی ایسا امر نہیں جو علما ہی جانیں عوام جو علماء کی صحبت سے مشرف ہوتے رہتے ہیں وہ بھی ان سے بے خبر نہیں ہوتے پھر ایسے معاملہ میں پہلو تہی اور اعراض کے کیا معنی۔
مسئلہ : کہنا کچھ چاہتا تھا اور زبان سے کفر کی بات نکل گئی تو کافر نہ ہوا یعنی جبکہ اس امر سے اظہار نفرت کرے کہ سننے والوں کو بھی معلوم ہو جائے کہ غلطی سے یہ لفظ نکلا ہے اور اگر بات کی پچ کی تو اب کافر ہو گیا کہ کفر کی تائید کرتا ہے۔
مسئلہ : کفری بات کا دل میں خیال پیدا ہوا اور زبان سے بولنا برا جانتا ہے تو یہ کفر نہیں بلکہ خاص ایمان کی علامت ہے کہ دل میں ایمان نہ ہوتا تو اسے برا کیوں جانتا۔
مسئلہ : جو شخص معاذ ﷲ مرتد ہو گیا تو مستحب ہے کہ حاکم اسلام اس پر اسلام پیش کرے اور اگر وہ کچھ شبہہ بیان کرے تو اس کا جواب دے اور اگر مہلت مانگے تو تین دن قید میں رکھے اور ہر روز اسلام کی تلقین کرے۔ یوہیں اگر اس نے مہلت نہ مانگی مگر امید ہے کہ اسلام قبول کرلے گا جب بھی تین دن قید میں رکھا جائے پھر اگر مسلمان ہوجائے فبہا ورنہ قتل کر دیا جائے بغیر اسلام پیش کیے اسے قتل کر ڈالنا مکر وہ ہے۔(درمختار) مرتد کو قید کرنا اور اسلام نہ قبول کرنے پر قتل کر ڈالنا بادشاہ اسلام کا کام ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ ایساشخص اگر زندہ رہا اور اس سے تعرض نہ کیا گیا تو ملک میں طرح طرح کے فساد پیدا ہونگے اور فتنہ کا سلسلہ روز بروز ترقی پذیر ہوگا جس کی وجہ سے امن عامہ میں خلل پڑیگا لہٰذا ایسے شخص کو ختم کر دینا ہی مقتضائے حکمت تھا۔ اب چونکہ حکومت اسلام ہندوستان میں باقی نہیں کوئی روک تھام کرنے والا باقی نہ رہا ہر شخص جو چاہتا ہے بکتا ہے اور آئے دن مسلمانوں میں فساد پیدا ہوتا ہے نئے نئے مذہب پیدا ہوتے رہتے ہیں ایک خاندان بلکہ بعض جگہ ایک گھر میں کئی مذہب ہیں اور بات بات پر جھگڑے لڑائی ہیں ان تمام خرابیوں کا باعث یہی نیا مذہب ہے ایسی صورت میں سب سے بہتر ترکیب وہ ہے جو ایسے وقت کے لیے قرآن وحدیث میں ارشاد ہوئی اگر مسلمان اس پر عمل کریں تمام قصوں سے نجات پائیں دنیا وآخرت کی بھلائی ہاتھ آئے۔ وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے بالکل میل جول چھوڑ دیں، سلام کلام ترک کر دیں، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا، ان کے ساتھ کھانا پینا، ان کے یہاں شادی بیاہ کرنا، غرض ہر قسم کے تعلقات ان سے قطع کر دیں گو یا سمجھیں کہ وہ اب رہا ہی نہیں، واﷲ الموفق۔
مسئلہ : کسی دین باطل کو اختیار کیا مثلاً یہودی یا نصرانی ہو گیا ایسا شخص مسلمان اس وقت ہو گا کہ اس دین باطل سے بیزاری و نفرت ظاہر کرے اور دین اسلام قبول کرے۔ اور اگر ضروریات دین میں سے کسی بات کا انکار کیا ہو تو جب تک اُس کا اقرار نہ کرے جس سے انکار کیا ہے محض کلمہ شہادت پڑھنے پر اس کے اسلام کا حکم نہ دیا جائے گا کہ کلمہ شہادت کا اس نے بظاہر انکار نہ کیا تھا مثلاً نماز یا روزہ کی فرضیت سے انکار کرے یا شراب اور سوئر کی حرمت نہ مانے تو اس کے اسلام کے لیے یہ شرط ہے کہ جب تک خاص اس امر کا اقرار نہ کرے اس کا اسلام قبول نہیں یا ﷲتعالیٰ اور رسول ﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کی جناب میں گستاخی کرنے سے کافر ہوا تو جب تک اس سے توبہ نہ کرے مسلمان نہیں ہو سکتا۔(درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ : مرتد اگر اپنے ارتداد سے انکار کرے تو یہ انکار بمنزلہ توبہ ہے اگرچہ گو اہان عادل سے اسکا ارتداد ثابت ہو یعنی اس صورت میں یہ قرار دیاجائے گا کہ ارتداد تو کیا مگر اب توبہ کرلی لہٰذا قتل نہ کیا جائیگا اور ارتداد کے باقی احکام جاری ہونگے مثلاً اس کی عورت نکاح سے نکل جائے گی، جو کچھ اعمال کیے تھے سب اکارت ہو جائیں گے، حج کی استطاعت رکھتا ہے تو اب پھر حج فرض ہے کہ پہلا حج جو کر چکا تھا بیکار ہوگیا۔(درمختار، بحرالرائق) اگر اس قول سے انکار نہیں کرتا مگر لایعنی تقریروں سے اس امر کو صحیح بتاتا ہے جیسا زمانہ حال کے مرتدین کا شیوہ ہے تو یہ نہ انکار ہے نہ توبہ مثلاً قادیانی کہ نبوّت کا دعویٰ کرتا ہے اور خاتم النبیین کے غلط معنے بیان کر کے اپنی نبوّت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے یا حضرتِ سیدنا مسیح عیسیٰ علیہ افضل الصلوۃ والثنا کی شانِ پاک میں سخت سخت حملے کرتا ہے پھر حیلے گڑھتا ہے یا بعض عمائد وہابیہ کہ حضور اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ رفیع میں کلماتِ دشنام استعمال کرتے اور تاویل غیرمقبول کرکے اپنے اوپر سے کفر اٹھانا چاہتے ہیں ایسی باتوں سے کفر نہیں ہٹ سکتا کفر اٹھانے کا جو نہایت آسان طریقہ ہے کاش! اسے برتتے تو ان زحمتوں میں نہ پڑتے اور عذاب آخرت سے بھی انشاء ﷲ رہائی کی صورت نکلتی وہ صرف توبہ ہے کہ کفر و شرک سب کو مٹا دیتی ہے، مگر اس میں وہ اپنی ذلت سمجھتے ہیں حالانکہ یہ خدا کو محبوب، اُس کے محبوبوں کو پسند، تمام عقلا کے نزدیک اس میں عزت۔
مسئلہ : اگر کفر قطعی ہو تو عورت نکاح سے نکل جائے گی پھر اسلام لانے کے بعد اگر عورت راضی ہو تو دوبارہ اس سے نکاح ہو سکتا ہے ورنہ جہاں پسند کرے نکاح کر سکتی ہے اس کا کوئی حق نہیں کہ عورت کو دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے سے روک دے اور اگر اسلام لانے کے بعد عورت کو بدستور رکھ لیا دوبارہ نکاح نہ کیا تو قربت زنا ہوگی اور بچے ولدالزنا اور اگر کفر قطعی نہ ہو یعنی بعض علما کافر بتاتے ہوں اور بعض نہیں یعنی فقہاکے نزدیک کافر ہو اور متکلمین کے نزدیک نہیں تو اس صورت میں بھی تجدید ِاسلام و تجدید ِنکاح کا حکم دیا جائیگا۔(درمختار)
مسئلہ : عورت کو خبر ملی کہ اس کا شوہر مرتد ہو گیا تو عدت گزار کر نکاح کر سکتی ہے خبر دینے والے دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دوعورتیں بلکہ ایک عادل کی خبر کافی ہے۔(درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ : عورت مرتد ہوگئی پھر اسلام لائی تو شوہرِ اول سے نکاح کرنے پر مجبور کی جائے گی یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ دوسرے سے نکاح کرے اسی پر فتوی ہے۔(درمختار)
مسئلہ : مرتد کا نکاح بالاتفاق باطل ہے وہ کسی عورت سے نکاح نہیں کر سکتا نہ مسلمہ سے نہ کافرہ سے نہ مرتدہ سے نہ حرہ سے نہ کنیز سے۔(عالمگیری)
مسئلہ : مرتد کا ذبیحہ مردار ہے اگرچہ بِسْمِ اللہ کرکے ذبح کرے۔ یوہیں کتے یا باز یا تیر سے جو شکار کیا ہے وہ بھی مردار ہے، اگرچہ چھوڑنے کے وقت بِسْمِ اللہ کہہ لی ہو۔(عالمگیری)
مسئلہ : مرتد کسی معاملہ میں گواہی نہیں دے سکتا اور کسی کا وارث نہیں ہو سکتا اور زمانہ ارتدار میں جو کچھ کمایا ہے اس میں مرتد کا کوئی وارث نہیں۔(درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ : جس شخص کو اپنے ایمان میں شک ہو یعنی کہتاہے کہ مجھے اپنے مومن ہونے کا یقین نہیں یا کہتا ہے معلوم نہیں میں مومن ہوں یا کافر وہ کافر ہے ۔ہاں اگر اُس (کے کہنے)کا مطلب یہ ہو کہ معلوم نہیں میرا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا نہیں تو کافر نہیں۔ جو شخص ایمان و کفر کو ایک سمجھے یعنی کہتا ہے کہ سب ٹھیک ہے خدا کو سب پسند ہے وہ کافر ہے۔ یوہیں جو شخص ایمان پر راضی نہیں یا کفر پر راضی ہے وہ بھی کافر ہے۔(عالمگیری)
مسئلہ : ایک شخص گناہ کرتا ہے لوگوں نے اسے منع کیا تو کہنے لگا اسلام کا کام اسی طرح کرنا چاہیے یعنی جو گناہ و معصیت کو اسلام کہتا ہے وہ کافر ہے۔ یوہیں کسی نے دوسرے سے کہا میں مسلمان ہوں اس نے جواب میں کہا تجھ پر بھی لعنت اور تیرے اسلام پر بھی لعنت، ایسا کہنے والا کافر ہے۔(عالمگیری)
مسئلہ : اگر یہ کہا خدا مجھے اس کام کے لیے حکم دیتا جب بھی نہ کرتا تو کافر ہے۔ یوہیں ایک نے دوسرے سے کہا میں اور تم خدا کے حکم کے موافق کام کریں دوسرے نے کہا میں خدا کا حکم نہیں جانتا یا کہا یہاں کسی کا حکم نہیں چلتا۔(عالمگیری)
مسئلہ : کوئی شخص بیمار نہیں ہوتا یا بہت بوڑھا ہے مرتا نہیں اس کے لیے یہ کہنا کہ اسے ﷲ میاں بھول گئے ہیں یا کسی زبان دراز آدمی سے یہ کہنا کہ خدا تمھاری زبان کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا میں کس طرح کروں یہ کفر ہے۔(خلاصۃ الفتاویٰ) ۔ یوہیں ایک نے دوسرے سے کہا اپنی عورت کو قابو میں نہیں رکھتا، اس نے کہا عورتوں پر خدا کو تو قدرت ہے نہیں، مجھ کو کہاں سے ہوگی۔
مسئلہ : خدا کے لیے مکان ثابت کرنا کفر ہے کہ وہ مکان سے پاک ہے یہ کہنا کہ اوپر خدا ہے نیچے تم یہ کلمہ کفرہے۔(خانیہ)
مسئلہ : کسی سے کہا گناہ نہ کر، ورنہ خدا تجھے جہنم میں ڈالے گا اس نے کہا میں جہنم سے نہیں ڈرتا یا کہا خدا کے عذاب کی کچھ پروا نہیں۔ یا ایک نے دوسرے سے کہا تو خدا سے نہیں ڈرتا اُس نے غصہ میں کہا نہیں یا کہا خدا کیا کر سکتا ہے اس کے سوا کیا کر سکتا ہے کہ دوزخ میں ڈا لدے۔ یا کہا خدا سے ڈر اس نے کہا خدا کہاں ہے یہ سب کفر کے کلمات ہیں۔
مسئلہ : کسی سے کہا انشاء اﷲ تم اس کام کو کرو گے اس نے کہا میں بغیر انشاء ﷲ کرونگا یا ایک نے دوسرے پر ظلم کیا مظلوم نے کہا خدا نے یہی مقدر کیا تھا ظالم نے کہا میں بغیر ﷲ (عزوجل) کے مقدر کیے کرتا ہوں، یہ کفر ہے۔(عالمگیری)
مسئلہ : کسی مسکین نے اپنی محتاجی کو دیکھ کر یہ کہا اے خدا ! فلاں بھی تیرا بندہ ہے اس کو تو نے کتنی نعمتیں دے رکھی ہیں اور میں بھی تیرا بندہ ہوں مجھے کس قدر رنج وتکلیف دیتا ہے آخر یہ کیا انصاف ہے ایسا کہنا کفر ہے۔(عالمگیری) حدیث میں ایسے ہی کے لیے فرمایا:''کاَدَ الفَقْرُاَنْ یکونَ کُفْرًا۔
محتاجی کفر کے قریب ہے کہ جب محتاجی کے سبب ایسے نا ملائم کلمات صادر ہوں جو کفر ہیں تو گویا خود محتاجی قریب بکفر ہے۔
مسئلہ : ﷲ عزوجل کے نام کی تصغیر کرنا کفر ہے، جیسے کسی کا نام عبد ﷲ یا عبدالخالق یا عبدالرحمن ہو اسے پکارنے میں آخر میں الف وغیرہ ایسے حروف ملا دیں جس سے تصغیر سمجھی جاتی ہے۔(بحرالرائق)
مسئلہ : ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے اسکا لڑکا باپ کو تلاش کر رہا تھا اور روتا تھا کسی نے کہا چپ رہ تیرا باپ اﷲ اﷲ کرتا ہے یہ کہنا کفر نہیں کیونکہ اسکے معنی یہ ہیں کہ خدا کی یاد کرتا ہے۔(عالمگیری)
اور بعض جاہل یہ کہتے ہیں ،کہ لآاِلٰہَ
پڑھتا ہے یہ بہت قبیح ہے کہ یہ نفی محض ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی خدا نہیں اور یہ معنی کفر ہیں۔
مسئلہ : انبیا علیہم الصلاۃ والسلام کی توہین کرنا، ان کی جناب میں گستاخی کرنا یا ان کو فواحش و بے حیائی کی طرف منسوب کرنا کفر ہے، مثلاً معاذ ﷲ یوسف علیہ السلام کو زنا کی طرف نسبت کرنا۔
مسئلہ : جو شخص حضور اقدس صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کو تمام انبیا میں آخر نبی نہ جانے یا حضور (صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم) کی کسی چیز کی توہین کرے یا عیب لگائے، آپ کے موئے مبارک کو تحقیر سے یاد کرے، آپ کے لباس مبارک کو گندہ اور میلا بتائے، حضور (صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم) کے ناخن بڑے بڑے کہے یہ سب کفر ہے، بلکہ اگر کسی کے اس کہنے پر کہ حضور (صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم) کو کدو پسند تھا کوئی یہ کہے مجھے پسند نہیں تو بعض علماء کے نزدیک کافر ہے اور حقیقت یہ کہ اگر اس حیثیت سے اُسے ناپسند ہے کہ حضور (صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم) کو پسند تھا تو کافر ہے۔ یوہیں کسی نے یہ کہا کہ حضور اقدس صلی ﷲتعالیٰ علیہ وسلم کھانا تناول فرمانے کے بعد تین بار انگشت ہائے مبارک چاٹ لیا کرتے تھے، اس پر کسی نے کہا یہ ادب کے خلاف ہے یا کسی سنت کی تحقیرکرے، مثلاً داڑھی بڑھانا، مونچھیں کم کرنا، عمامہ باندھنا یا شملہ لٹکانا، ان کی اہانت کفر ہے جبکہ سنت کی توہین مقصود ہو۔
مسئلہ : اب جو اپنے کو کہے میں پیغمبر ہوں اور اسکا مطلب یہ بتائے کہ میں پیغام پہنچاتا ہوں وہ کافر ہے یعنی یہ تاویل مسموع نہیں کہ عرف میں یہ لفظ رسول و نبی کے معنے میں ہے۔(عالمگیری)
مسئلہ : حضراتِ شیخین رضی اﷲتعالیٰ عنہما کی شان پاک میں سب و شتم کرنا، تبرا کہنا یا حضرت صدیق اکبر رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی صحبت یا امامت و خلافت سے انکار کرنا کفر ہے۔(عالمگیری وغیرہ) حضرت امّ المومنین صدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا کی شان پاک میں قذف جیسی نا پاک تہمت لگانا یقینا قطعاً کفر ہے۔
مسئلہ : دشمن ومبغوض کو دیکھ کر یہ کہنا ملک الموت آگئے یا کہا اسے ویسا ہی دشمن جانتا ہوں جیسا ملک الموت کو، اس میں اگر ملک الموت کو برا کہنا ہے تو کفر ہے اور موت کی نا پسندیدگی کی بنا پر ہے تو کفر نہیں۔ یوہیں جبرئیل یا میکائیل یا کسی فرشتہ کو جو شخص عیب لگائے یا توہین کرے کافر ہے۔
مسئلہ : قرآن کی کسی آیت کو عیب لگانا یا اس کی توہین کرنا یا اس کے ساتھ مسخرہ پن کرنا کفر ہے مثلاً داڑھی مونڈانے سے منع کرنے پر اکثر داڑھی منڈے کہہ دیتے ہیں(کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوۡنَ ۙ﴿۳﴾)جس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ کلّا صاف کرو یہ قرآن مجید کی تحریف وتبدیل بھی ہے اور اس کے ساتھ مذاق اور دل لگی بھی اور یہ دونوں باتیں کفر ، اسی طرح اکثر باتوں میں قرآن مجید کی آیتیں بے موقع پڑھ دیا کرتے ہیں اور مقصود ہنسی کرنا ہوتا ہے جیسے کسی کو نماز جماعت کے لیے بلایا، وہ کہنے لگا میں جماعت سے نہیں بلکہ تنہا پڑھونگا، کیونکہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے:( اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی )
مسئلہ : مزامیر کے ساتھ قرآن پڑھنا کفر ہے۔
مسئلہ : کسی سے نماز پڑھنے کو کہا اس نے جواب دیا نماز پڑھتا تو ہوں مگر اس کا کچھ نتیجہ نہیں یا کہا تم نے نماز پڑھی کیا فائدہ ہوا یا کہا نماز پڑھ کے کیا کروں کس کے لیے پڑھوں ماں باپ تو مر گئے یا کہا بہت پڑھ لی اب دل گھبرا گیا یا کہا پڑھنا نہ پڑھنا دونوں برابر ہے غرض اسی قسم کی بات کرنا جس سے فرضیت کا انکارسمجھا جاتا ہو یا نماز کی تحقیر ہوتی ہو یہ سب کفر ہے۔
مسئلہ : کوئی شخص صرف رمضان میں نماز پڑھتا ہے بعد میں نہیں پڑھتا اور کہتا یہ ہے کہ یہی بہت ہے یا جتنی پڑھی یہی زیادہ ہے کیونکہ رمضان میں ایک نماز ستر نماز کے برابر ہے ایسا کہنا کفر ہے اس لیے کہ اس سے نماز کی فرضیت کا انکارمعلوم ہوتا ہے۔
مسئلہ : اذان کی آواز سن کر یہ کہنا کیا شور مچا رکھا ہے اگر یہ قول بروجہ انکار ہو کفر ہے۔(عالمگیری)
مسئلہ : روزہ رمضان نہیں رکھتا اور کہتا یہ ہے کہ روزہ وہ رکھے جسے کھانا نہ ملے یا کہتا ہے جب خدانے کھانے کودیا ہے تو بھوکے کیوں مریں یا اسی قسم کی اور باتیں جن سے روزہ کی ہتک وتحقیر ہو کہنا کفر ہے۔ مسئلہ : علم دین اور علما کی توہین بے سبب یعنی محض اس وجہ سے کہ عالمِ علمِ دِین ہے کفر ہے۔ یوہیں عالمِ دین کی نقل کرنا مثلاً کسی کو منبر وغیرہ کسی اونچی جگہ پر بٹھائیں اور اس سے مسائل بطور استہزأ دریافت کریں پھر اسے تکیہ وغیرہ سے ماریں اور مذاق بنائیں یہ کفر ہے۔ (عالمگیری) یوہیں شرع کی توہین کرنا مثلاً کہے میں شرع ورع نہیں جانتا یا عالِمِ دِین محتاط کا فتویٰ پیش کیا گیا اس نے کہا میں فتوی ٰنہیں مانتا یا فتویٰ کو زمین پر پٹک دیا۔ مسئلہ : کسی شخص کو شریعت کا حکم بتایا کہ اس معاملہ میں یہ حکم ہے اس نے کہا ہم شریعت پر عمل نہیں کرینگے ہم تو رسم کی پابندی کرینگے ایسا کہنا بعض مشایخ کے نزدیک کفر ہے۔(عالمگیری)
مسئلہ : شراب پیتے وقت یا زنا کرتے وقت یا جوا کھیلتے وقت یا چوری کرتے وقت''بِسْمِ اللہ'' کہنا کفر ہے۔ دوشخص جھگڑ رہے تھے ایک نے کہا''لاحَوْلَ وَلا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ''دوسرے نے کہالاحَوْل کا کیا کام ہے یالاحَوْل کو میں کیا کروں یالاحَوْل روٹی کی جگہ کام نہ دیگا۔ یوہیں سُبْحَانَ اللہ اور لااِلٰہ اِلاَّ اللہ کے متعلق اسی قسم کے الفاظ کہنا کفر ہے۔(عالمگیری)
مسئلہ : بیماری میں گھبرا کر کہنے لگا تجھے اختیار ہے چاہے کافر مار یا مسلمان مار ،یہ کفر ہے۔ یوہیں مصائب میں مبتلا ہو کر کہنے لگا تو نے میرا مال لیا اور اولاد لے لی اور یہ لیا وہ لیا اب کیا کریگا اور کیا باقی ہے جو تونے نہ کیا اسطرح بکنا کفر ہے۔
مسئلہ : مسلمان کو کلماتِ کفر کی تعلیم وتلقین کرنا کفر ہے اگرچہ کھیل اور مذاق میں ایسا کرے۔ یوہیں کسی کی عورت کو کفر کی تعلیم کی اور یہ کہا تو کافر ہوجا، تاکہ شوہر سے پیچھا چھوٹے تو عورت کفر کرے یا نہ کرے، یہ کہنے والا کافر ہوگیا۔(خانیہ)
مسئلہ : ہولی اور دیوالی پوجنا کفر ہے کہ یہ عبادت غیرﷲ ہے۔ کفار کے میلوں تہواروں میں شریک ہوکر ان کے میلے اور جلوس مذہبی کی شان و شوکت بڑھانا کفر ہے جیسے رام لیلا اور جنم اسٹمی اور رام نومی وغیرہ کے میلوں میں شریک ہونا۔ یوہیں ان کے تہواروں کے دن محض اس وجہ سے چیزیں خریدنا کہ کفار کا تہوار ہے یہ بھی کفر ہے جیسے دیوالی میں کھلونے اور مٹھائیاں خریدی جاتی ہیں کہ آج خریدنا دیوالی منانے کے سوا کچھ نہیں۔ یوہیں کوئی چیز خرید کر اس روز مشرکین کے پاس ہدیہ کرنا جبکہ مقصود اُس دن کی تعظیم ہو تو کفر ہے۔(بحرالرائق) مسلمانوں پر اپنے دین و مذہب کا تحفظ لازم ہے، دینی حمیت اور دینی غیرت سے کام لینا چاہیے، کافروں کے کفری کاموں سے الگ رہیں، مگر افسوس کہ مشرکین تو مسلمانوں سے اجتناب کریں اور مسلمان ہیں کہ ان سے اختلاط رکھتے ہیں، اس میں سراسر مسلمانوں کا نقصان ہے۔ اسلام خدا کی بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو اور جس بات میں ایمان کا نقصان ہے، اس سے دور بھاگو! ورنہ شیطان گمراہ کردیگا اور یہ دولت تمھارے ہاتھ سے جاتی رہے گی پھر کف افسوس ملنے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئیگا۔ اے ﷲ! (عزوجل) تُو ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھ اور اپنی ناراضی کے کاموں سے بچا اور جس بات میں تُو راضی ہے، اس کی توفیق دے، تُو ہر دشواری کو دور کرنے والا ہے اور ہر سختی کو آسان کرنے والا۔
وَصَلَّے اللہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیر خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِین وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین۔۔۔بحوالہ بہارشریعت ٩
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔