【【【【 وہابی۔غیرمقلد 】】】】
وہابی یہ ایک نیا فرقہ ہے جو ۱۲۰۹ھ میں پیدا ہوا، اِس مذہب کا بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی تھا، جس نے تمام عرب، خصوصاً حرمین شریفین میں بہت شدید فتنے پھیلائے، علما کو قتل کیا، صحابہ کرام و ائمہ و علماء و شہداء کی قبریں کھود ڈالیں، روضہ انور کا نام معاذﷲ ''صنمِ اکبر'' رکھا تھا، یعنی بڑا بت اور طرح طرح کے ظلم کیے۔
جیسا کہ صحیح حدیث میں حضور اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ نجد سے فتنے اٹھیں گے اور شیطان کا گروہ نکلے گا۔ وہ گروہ بارہ سو برس بعدیہ ظاہر ہوا۔ علامہ شامی رحمہ ﷲ تعالیٰ نے اِسے خارجی بتایا۔ اِس عبدالوہاب کے بیٹے نے ایک کتاب لکھی جس کا نام
''کتاب التوحید'' رکھا ، اُس کا ترجمہ ہندوستان میں ''اسماعیل دھلوی'' نے کیا، جس کا نام''تقویۃ الایمان'' رکھا
اور ہندوستان میں اسی نے وہابیت پھیلائی۔ اِن وہابیہ کا ایک بہت بڑا عقیدہ یہ ہے کہ جو اِن کے مذہب پر نہ ہو، وہ کافر مشرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بات بات پر محض بلاوجہ مسلمانوں پر حکمِ شرک و کفرلگایا کرتے اور تمام دنیا کو مشرک بتاتے ہیں۔
چنانچہ ''تقویۃ الایمان'' صفحہ ۴۵ میں وہ حدیث لکھ کر کہ ''آخر زمانہ میں ﷲ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا جو ساری دنیا سے مسلمانوں کو اٹھا لے گی۔'' اِس کے بعد صاف لکھ دیا: ''سو پیغمبرِ خدا کے فرمانے کے موافق ہوا'، یعنی وہ ہوا چل گئی اور کوئی مسلمان روئے زمین پر نہ رہا ، مگر یہ نہ سمجھا کہ اس صورت میں خود بھی تو کافر ہوگیا۔ اِس مذہب کا رکنِ اعظم، ﷲ (عزوجل) کی توہین اور محبوبانِ خدا کی تذلیل ہے، ہر امر میں وہی پھلو اختیار کریں گے جس سے منقصت نکلتی ہو۔
اس مذہب کے سرگروہوں کے بعض اقوال نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، کہ ھمارے عوام بھائی ان کی قلبی خباثتوں پر مطلع ہوں اور ان کے دامِ تزویر سے بچیں اور ان کے جبّہ و دستار پر نہ جائیں۔ برادرانِ اسلام بغور سُنیں اور میزانِ ایمان میں تولیں کہ ایمان سے زیادہ عزیز مسلمان کے نزدیک کوئی چیز نہیں اور ایمان، ﷲ و رسول (عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی محبت و تعظیم ہی کا نام ہے۔ ایمان کے ساتھ جس میں جتنے فضائل پائے جائیں وہ اُسی قدر زیادہ فضیلت رکھتا ہے،
اور ایمان نہیں تو مسلمانوں کے نزدیک وہ کچھ وقعت نہیں رکھتا، اگرچہ کتنا ہی بڑا عالم و زاہد و تارک الدنیا وغیرہ بنتا ہو، مقصود یہ ہے کہ اُن کے مولوی اور عالم فاضل ہونے کی وجہ سے اُنھیں تم اپنا پیشوا نہ سمجھو، جب کہ وہ ﷲ و رسول (عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے دشمن ہیں،
کیا یہود ونصاریٰ بلکہ ہنود میں بھی اُن کے مذاہب کے عالم یا تارک الدنیا نہیں ہوتے...؟! کیا تم اُن کو اپنا پیشوا تسلیم کرسکتے ہو...؟! ہرگز نہیں! اِسی طرح یہ لامذہب و بد مذہب تمھارے کسی طرح مقتدا نہیں ہوسکتے۔ ''
اِیضاح الحق'' صفحہ ۳۵ و صفحہ ۳۶ مطبع فاروقی میں ہے: (''تنزیہ اُو تعالیٰ از زمان و مکان و جہت و اثباتِ رویت بلاجہت و محاذاتِ ہمہ از قبیل بدعاتِ حقیقیہ است، اگر صاحبِ آں اعتقاداتِ مذکورہ را از جنسِ عقائدِ دینیہ مے شمارد'') اس میں صاف تصریح ہے کہ ﷲ تعالیٰ کو زمان و مکان و جہت سے پاک جاننا اور اس کا دیدار بلا کیف ماننا، بدعت و گمراہی ہے، حالانکہ یہ تمام اھلِ سنت کا عقیدہ ہے۔ تو اِس قائل نے تمام پیشوایانِ اھلسنت کو گمراہ و بدعتی بتایا، ''بحر الرائق'' و ''درِ مختار'' و''عالمگیری'' میں ہے :کہ ﷲ تعالیٰ کے لیے جو مکان ثابت کرے، کافر ہے۔
تقویۃ الایمان'' صفحہ ۶۰ میں یہ حدیث:
((أَرأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِيْ أَ کُنْتَ تَسْجُدُ لَہٗ.))
نقل کر کے ترجمہ کیا کہ ''بھلا خیال تو کر جو تُو گزرے میری قبر پر، کیا سجدہ کرے تو اُس کو''، اُس کے بعد لکھ کر فائدہ یہ جَڑ دیا: ( یعنی میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنے والا ہوں۔) حالانکہ نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
((إِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أنْ تَأْکُلَ أجْسَادَ الأَنْبِیَاءِ.))
''ﷲ تعالیٰ نے اپنے انبیا علیہم السلام کے اَجسام کھانا، زمین پر حرام کر دیا ہے۔''
((فَنَبِيُّ اللہِ حَيٌّ یُّرْزَقُ.))
''تو ﷲ (عزوجل) کے نبی زندہ ہیں، روزی دیے جاتے ہیں۔'' اِسی ''تقویۃ الایمان'' صفحہ ۱۹ میں ہے: ''ھمارا جب خالق ﷲ ہے اور اس نے ہم کو پیدا کیا توہم کو بھی چاہیے کہ اپنے ہر کاموں پر اُسی کو پکاریں اور کسی سے ہم کو کیا کام؟ جیسے جو کوئی ایک بادشاہ کا غلام ہوچکا تو وہ اپنے ہر کام کا علاقہ اُسی سے رکھتا ہے،
دوسرے بادشاہ سے بھی نہیں رکھتا اور کسی چوہڑے چمار کا تو کیا ذکر۔'' انبیائے کرام و اولیائے عِظام کی شان میں ایسے ملعون الفاظ استعمال کرنا، کیا مسلمان کی شان ہو سکتی ہے...؟!
''صراطِ مستقیم'' صفحہ ۹۵: ''بمقتضائے(ظُلُمٰتٌم بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍط)
از وسوسہ زنا، خیالِ مجامعتِ زوجہ خود بہتراست، و صرفِ ہمت بسوئے شیخ و اَمثالِ آں از معظمین گو جنابِ رسالت مآب باشند بچندیں مرتبہ بد تر از استغراق درصورتِ گاؤ و خرِ خود ست۔'' مسلمانو ! یہ ہیں اِمام الو ہابیہ کے کلماتِ خبیثات! اور کس کی شان میں؟ حضور اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں! جس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہے، وہ ضروریہ کہے گا کہ اِس قول میں گستاخی ضرور ہے۔
''تقویۃ الایمان'' صفحہ ۱۰: ''روزی کی کشائش اور تنگی کرنی اور تندرست و بیمار کر دینا، اِقبال و اِدبار دینا، حاجتیں بر لانی، بلائیں ٹالنی، مشکل میں دستگیری کرنی، یہ سب ﷲ ہی کی شان ہے اور کسی انبیا، اولیا، بھوت، پری کی یہ شان نہیں، جو کسی کو ایسا تصرّف ثابت کرے اور اس سے مرادیں مانگے اور مصیبت کے وقت اُس کو پکارے، سو وہ مشرک ہو جاتا ہے، پھر خواہ یوں سمجھے کہ اِن کاموں کی طاقت اُن کو خود بخود ہے، خواہ یوں سمجھے کہ ﷲ نے اُن کو قدرت بخشی ہے، ہر طرح شرک ہے۔
''قرآن مجید'' میں ہے:
(اَغْنٰہُمُ اللہُ وَرَسُوۡلُہٗ مِنۡ فَضْلِہٖ ۚ )
''اُن کو ﷲ و رسول ﷲ نے غنی کر دیا اپنے فضل سے۔'' قرآن تو کہتا ہے کہ نبی صلی ﷲ تعالیٰ عللیہ وسلم نے دولت مند کر دیا اور یہ کہتا ہے: ''جو کسی کو ایسا تصرّف ثابت کرے مشرک ہے۔'' تو اِس کے طور پر قرآنِ مجید شرک کی تعلیم دیتا ہے...! قرآن عظیم میں ارشاد ہے:
(وَتُبْرِیُٔ الۡاَکْمَہَ وَالۡاَبْرَصَ بِاِذْنِیۡ ۚ )
''اے عیسیٰ! تُو میرے حکم سے مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو اچھا کر دیتا ہے۔'' اور دوسری جگہ ہے:
( وَاُبْرِیُٔ الۡاَکْمَہَ وَالۡاَبْرَصَ وَاُحۡیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللہِ ۚ )
''عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں: میں اچھا کرتا ہوں، مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو اورمُردوں کو جِلا دیتا ہوں، ﷲ کے حکم سے۔'' اب قرآن کا تو یہ حکم ہے اور وہابیہ یہ کہتے ہیں کہ تندرست کرنا ﷲ (عزوجل) ہی کی شان ہے، جو کسی کو ایسا تصرّف ثابت کرے مشرک ہے۔ اب وہابی بتائیں کہ ﷲ تعالیٰ نے ایسا تصرّف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ثابت کیا تو اُس پر کیا حکم لگاتے ہیں...؟! اور لُطف یہ ہے کہ ﷲ عزوجل نے اگر اُن کو قدرت بخشی ہے، جب بھی شرک ہے تو معلوم نہیں کہ اِن کے یہاں اِسلام کس چیز کا نام ہے؟
''تقویۃ الایمان'' صفحہ ۱۱: ''گِرد و پیش کے جنگل کا ادب کرنا، یعنی وہاں شکار نہ کرنا، درخت نہ کاٹنا، یہ کام ﷲ نے اپنی عبادت کے لیے بتائے ہیں، پھر جو کوئی کسی پیغمبر یا بھوت کے مکانوں کے گِرد و پیش کے جنگل کا ادب کرے، اُس پر شرک ثابت ہے، خواہ یوں سمجھے کہ یہ آپ ہی اِس تعظیم کے لائق ہے، یا یوں کہ اُن کی اِس تعظیم سے ﷲ خوش ہوتا ہے، ہر طرح شرک ہے۔'' متعدد صحیح حدیثوں میں ارشاد فرمایا: کہ ''ابراہیم نے مکہ کو حرم بنایا اور میں نے مدینے کو حرم کیا، اِس کے ببول کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اِس کا شکار نہ کیا جائے۔''
مسلمانو! ایمان سے دیکھنا کہ اس شرک فروش کا شرک کہاں تک پہنچتا ہے! تم نے دیکھا اِس گستاخ نے نبی صلی ﷲ تعالیٰ عللیہ وسلم پر کیا حکم جَڑا...؟!
''تقویۃ الایمان'' صفحہ ۸: ''پیغمبرِ خدا کے وقت میں کافر بھی اپنے بتوں کو ﷲ کے برابر نہیں جانتے تھے، بلکہ اُسی کا مخلوق اور اس کا بندہ سمجھتے تھے اور اُن کو اُس کے مقابل کی طاقت ثابت نہیں کرتے تھے، مگر یہی پکارنا اور منتیں ماننی اور نذر و نیاز کرنی اور ان کو اپنا وکیل و سفارشی سمجھنا، یہی اُن کا کفر و شرک تھا، سو جو کوئی کسی سے یہ معاملہ کرے، گو کہ اُس کو ﷲ کا بندہ ومخلوق ہی سمجھے، سو ابوجھل اور وہ شرک میں برابر ہے۔'' یعنی جو نبی صلی ﷲ تعالیٰ عللیہ وسلم کی شفاعت مانے، کہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ عللیہ وسلم) ﷲ عزوجل کے دربار میں ھماری سفارش فرمائیں گے تو معاذ ﷲ اس کے نزدیک وہ ابو جھل کے برابر مشرک ہے،
مسئلہ شفاعت کا صرف انکار ہی نہیں بلکہ اس کو شرک ثابت کیا اور تمام مسلمانوں صحابہ و تابعین و ائمہ دین و اولیا و صالحین سب کو مشرک و ابو جھل بنا دیا۔
''تقویۃ الایمان'' صفحہ ۵۸: ''کوئی شخص کہے: فُلانے درخت میں کتنے پتے ہیں؟ یا آسمان میں کتنے تارے ہیں؟ تو اس کے جواب میں یہ نہ کہے، کہ ﷲو رسول ہی جانے، کیونکہ غیب کی بات ﷲ ہی جانتا ہے، رسول کو کیا خبر۔'' سبحان ﷲ...! خدائی اسی کا نام رہ گیا کہ کسی پیڑ کے پتے کی تعداد جان لی جائے۔
''تقویۃ الایمان'' صفحہ۷: ''ﷲ صاحب نے کسی کو عالم میں تصرّف کرنے کی قدرت نہیں دی۔'' اِس میں انبیائے کِرام کے معجزات اور اولیا عظام کی کرامت کا صاف انکار ہے۔ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
(فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا ۘ﴿۵﴾ )
''قسم فرشتوں کی جو کاموں کی تدبیر کرتے ہیں۔'' تو یہ قرآن کریم کو صاف رد کر رہا ہے۔
صفحہ ۲۲: ''جس کا نام محمد یا علی ہے، وہ کسی چیز کا مختار نہیں۔'' تعجب ہے کہ وہابی صاحب تو اپنے گھر کی تمام چیزوں کا اختیار رکھیں اور مالکِ ہر دو سَرا صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کسی چیز کے مختار نہیں...!
اِس گروہ کا ایک مشہور عقیدہ یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے۔ بلکہ اُن کے ایک سرغَنہ نے تو اپنے ایک فتوے میں لکھ دیا کہ: ''وقوعِ کذب کے معنی درست ہوگئے، جو یہ کہے کہ ﷲ تعالیٰ جھوٹ بول چکا، ایسے کو تضلیل و تفسیق سے مامون کرنا چاہیے'' ۔ سبحان ﷲ...! خدا کو جھوٹا مانا، پھر بھی اسلام و سنّیت و صلاح کسی بات میں فرق نہ آیا، معلوم نہیں ان لوگوں نے کس چیز کو خدا ٹھہرا لیا ہے!
ایک عقیدہ ان کا یہ ہے کہ نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بمعنی آخر الانبیاء نہیں مانتے۔ اور یہ صریح کفر ہے۔ چنانچہ ''تحذیر الناس'' ص ۲ میں ہے: ''عوام کے خیال میں تورسول ﷲ ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں، مگر اھلِ فہم پر روشن ہو گا کہ تقدّم یا تاخّر میں بالذات کچھ فضیلت نہیں، پھر مقامِ مدح میں(وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ)
فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟ ہاں! اگر اِس وصف کو اَوصافِ مدح میں سے نہ کہیے اور اِس مقام کو مقامِ مدح نہ قرار دیجیے تو البتہ خاتمیت باعتبارِ تاخّرِ زمانی صحیح ہوسکتی ہے۔''
پہلے تو اس قائل نے خاتم النبیین کے معنی تمام انبیا سے زماناً متاخّر ہونے کو خیالِ عوام کہا اور یہ کہا کہ اھلِ فہم پر روشن ہے کہ اس میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ حالانکہ حضور اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خاتم النبیین کے یہی معنی بکثرت احادیث میں ارشاد فرمائے تو معاذ ﷲ اس قائل نے حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو عوام میں داخل کیا اور اھلِ فہم سے خارج کیا، پھر اس نے ختمِ زمانی کو مطلقاً فضیلت سے خارج کیا، حالانکہ اسی تاخّرِ زمانی کو حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے مقامِ مدح میں ذکر فرمایا۔ پھر صفحہ ۴ پر لکھا: ''آپ موصوف بوصفِ نبوت بالذات ہیں اور سِوا آپ کے اور نبی موصوف بوصفِ نبوت بالعرض۔''
صفحہ ۱۶: ''بلکہ بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو، جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔'' صفحہ ۳۳: ''بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا، چہ جائیکہ آپ کے مُعاصِر کسی اور زمین میں، یا فرض کیجیے اسی زمین میں کوئی اور نبی تجویز کیا جائے۔'' لطف یہ کہ اِس قائل نے اِن تمام خرافات کا ایجادِ بندہ ہونا خود تسلیم کرلیا۔ صفحہ ۳۴ پر ہے: ''اگر بوجہِ کم اِلتفاتی بڑوں کا فہم کسی مضمون تک نہ پہنچا تو اُن کی شان میں کیا نقصان آگیا اور کسی طفلِ نادان نے کوئی ٹھکانے کی بات کہہ دی توکیا اتنی بات سے وہ عظیم الشان ہو گیا...؟!
گاہِ باشد کہ کو دکِ ناداں بغلط برہدف زنَد تِیرے
ہاں! بعد وضوحِ حق اگر فقط اس وجہ سے کہ یہ بات میں نے کہی اور وہ اَگلے کہہ گئے تھے، میری نہ مانیں اور وہ پرانی بات گائے جائیں تو قطع نظر اِس کے کہ قانونِ محبتِ نبوی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ بات بہت بعید ہے، ویسے بھی اپنی عقل و فہم کی خوبی پر گواہی دینی ہے۔'' یہیں سے ظاہر ہو گیا جو معنی اس نے تراشے، سلف میں کہیں اُس کاپتا نہیں اور نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک جو سب سمجھے ہوئے تھے اُس کو خیالِ عوام بتا کر رد کر دیا کہ اِس میں کچھ فضیلت نہیں، اِس قائل پر علمائے حرمین طیبین نے جو فتویٰ دیا وہ ''حُسّامُ الحرمَین'' کے مطالعہ سے ظاہر اور اُس نے خود بھی اسی کتاب کے صفحہ ۴۶ میں اپنا اسلام برائے نام تسلیم کیا۔ مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری اِن نام کے مسلمانوں سے ﷲ (عزوجل) بچائے۔
اسی کتاب کے صفحہ ۵ پر ہے: ''کہ انبیا اپنی امّت سے ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں، باقی رہا عمل، اس میں بسا اوقات بظاہر امّتی مساوی ہو جاتے ہیں، بلکہ بڑھ جاتے ہیں۔'' اور سنیے! اِن قائل صاحب نے حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نبوت کو قدیم اور دیگر انبیا کی نبوت کو حادث بتایا۔ صفحہ ۷ میں ہے: ''کیونکہ فرق قِدمِ نبوت اور حُدوثِ نبوت باوجود اتحادِ نوعی خوب جب ہی چسپاں ہوسکتا ہے۔'' کیا ذات و صفات کے سوا مسلمانوں کے نزدیک کوئی اور چیز بھی قدیم ہے...؟! نبوت صفت ہے اور صفت کا وجود بے موصوف محال، جب حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نبوت قدیم غیر حادث ہوئی تو ضرور نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بھی حادث نہ ہوئے، بلکہ ازلی ٹھہرے اور جو ﷲ (عزوجل) و صفاتِ الۤہیہ کے سوا کسی کو قدیم مانے باجماعِ مسلمین کافر ہے۔
اِس گروہ کا یہ عام شیوہ ہے کہ جس امر میں محبوبانِ خدا کی فضیلت ظاہر ہو، طرح طرح کی جھوٹی تاویلات سے اسے باطل کرنا چاہیں گے اور وہ امر ثابت کریں گے جس میں تنقیص ہو،
مثلاً ''بَراہینِ قاطعہ'' صفحہ ۵۱ میں لکھ دیاکہ: ''نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیوار پیچھے کا بھی علم نہیں۔'' اور اُس کو شیخ محدّثِ دھلوی رحمۃ ﷲ علیہ کی طرف غلط منسوب کر دیا، بلکہ اُسی صفحہ پر وسعتِ علمِ نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بابت یہاں تک لکھ دیا کہ: ''الحاصل غور کرنا چاہیے کہ شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علمِ محیطِ زمین کا فخرِ عالَم کو خلافِ نصوصِ قطعیہ کے بِلادلیل محض قیاسِ فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے...؟! کہ شیطان وملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخرِ عالم کی وسعتِ علم کی کونسی نصِ قطعی ہے کہ جس سے تمام نُصوص کو رد کر کے ایک شرک ثابت کرتا ہے۔
جس وسعتِ علم کو شیطان کے لیے ثابت کرتا اور اُس پر نص ہونا بیان کرتا ہے، اُسی کو نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے شرک بتاتا ہے تو شیطان کو خدا کا شریک مانا اور اُسے آیت وحدیث سے ثابت جانا۔ بے شک شیطان کے بندے شیطان کو مستقل خدا نہیں تو خدا کا شریک کہنے سے بھی گئے گزرے، ہر مسلمان اپنے ایمان کی آنکھوں سے دیکھے کہ اِس قائل نے ابلیسِ لعین کے علم کو نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے علم سے زائد بتایا یا نہیں؟ ضرور زائد بتایا! اور شیطان کو خدا کا شریک مانا یا نہیں؟ ضرور مانا! اور پھر اس شرک کو نص سے ثابت کیا۔ یہ تینوں امر صریح کفر اور قائل یقینی کافر ہے۔ کون مسلمان اس کے کافر ہونے میں شک کریگا...؟!
حفظ الایمان'' صفحہ ۷ میں حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے علم کی نسبت یہ تقریر کی: ''آپ کی ذاتِ مقدّسہ پر علمِ غیب کا حکم کیا جانا، اگر بقولِ زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کُل غیب؟ اگر بعض علومِ غیبیہ مراد ہیں تو اِس میں حضور کی کیا تخصیص ہے؟ ایسا علمِ غیب تو زید وعَمرو، بلکہ ہر صبی ومجنون، بلکہ جمیع حیوانات و بَہائم کے لیے بھی حاصل ہے۔''
مسلمانو! غور کرو کہ اِس شخص نے نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں کیسی صریح گستاخی کی، کہ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) جیسا علم زید و عَمرو تو زید و عَمرو، ہر بچے اور پاگل، بلکہ تمام جانوروں اور چوپایوں کے لیے حاصل ہونا کہا۔ کیا ایمانی قلب ایسے شخص کے کافر ہونے میں شک کرسکتے ہیں...؟ ہر گز نہیں! اس قوم کا یہ عام طریقہ ہے کہ جس چیز کو ﷲ و رسول (عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے منع نہیں کیا، بلکہ قرآن و حدیث سے اس کا جواز ثابت، اُس کو ممنوع کہنا تو درکنار، اُس پر شرک و بدعت کا حکم لگا دیتے ہیں،
مثلاً مجلسِ میلاد شریف اور قیام و ایصالِ ثواب و زیارتِ قبور و حاضریئ بارگاہِ بیکس پناہ سرکارِ مدینہ طیبہ، و عُرسِ بزرگانِ دین و فاتحہ سوم و چھلم، و استمداد باَرواحِ انبیا و اولیا اور مصیبت کے وقت انبیا و اولیا کو پکارنا وغیرہا، بلکہ میلاد شریف کی نسبت تو ''براہینِ قاطعہ'' صفحہ ۴۸ ۱ میں یہ ناپاک لفظ لکھے: ''پس یہ ہر روز اِعادہ ولادت کا تو مثلِ ہنود کے، کہ سانگ کَنہیا کی ولادت کا ہر سال کرتے ہیں، یا مثلِ روافض کے، کہ نقلِ شہادتِ اھلبیت ہر سال بناتے ہیں۔
معاذ اﷲ سانگ آپ کی ولادت کا ٹھہرا اور خود حرکتِ قبیحہ، قابلِ لَوم وحرام و فسق ہے، بلکہ یہ لوگ اُس قوم سے بڑھ کر ہوئے، وہ تو تاریخِ معیّن پر کرتے ہیں، اِن کے یہاں کوئی قید ہی نہیں، جب چاہیں یہ خرافاتِ فرضی بتاتے ہیں۔''
رافضی: اِن کے مذہب کی کچھ تفصیل اگر کوئی دیکھنا چاہے تو ''تحفہ اِثنا عشریہ'' دیکھے، چند مختصرباتیں یہاں گزارش کرتا ہوں۔ صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنھم کی شان میں یہ فرقہ نہایت گستاخ ہے، یہاں تک کہ اُن پر سبّ و شتم ان کا عام شیوہ ہے، کہ باستثنا ئے چند سب کو معاذ ﷲ کافر و منافق قرار دیتا ہے۔ حضرات خلفائے ثلٰثہ رضی ﷲ تعالیٰ عنھم کی ''خلافتِ راشدہ'' کو خلافت ِغاصبہ کہتا ہے اور مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے جو اُن حضرات کی خلافتیں تسلیم کیں اور اُن کے مَدائح و فضائل بیان کیے، اُس کو تقیّہ وبُزدلی پر محمول کرتا ہے۔ کیا معاذﷲ! منافقین و کافرین کے ہاتھ پر بیعت کرنا اور عمر بھر اُن کی مدح و ستائش سے رطب اللسان رہنا شیرِ خدا کی شان ہو سکتی ہے...؟! سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآنِ مجید اُن کو ایسے جلیل و مقدّس خطابات سے یاد فرماتا ہے، وہ تو وہ، اُن کے اتباع کرنے والوں کی نسبت فرماتا ہے: کہ ﷲ اُن سے راضی، وہ ﷲ سے راضی۔ کیا کافروں، منافقوں کے لیے ﷲ عزوجل کے ایسے ارشادات ہوسکتے ہیں...؟!
پھر نہایت شرم کی بات ہے کہ مولیٰ علی کرّم ﷲ تعالی وجہہ الکریم تو اپنی صاحبزادی فاروقِ اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں دیں اور یہ فرقہ کہے: تقیۃً ایسا کیا۔ کیا جان بوجھ کر کوئی مسلمان اپنی بیٹی کافر کو دے سکتا ہے...؟! نہ کہ وہ مقدس حضرات جنھوں نے اسلام کے لیے اپنی جانیں وقف کر دیں اور حق گوئی اور اتباع حق میں
(لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ط)
کے سچے مصداق تھے۔ پھر خود حضور سید المرسلین صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وعلیہم وسلم کی دو شاہزادیاں یکے بعد دیگرے حضرت عثمان ذی النورین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں آئیں اور صدیق و فاروق رضی ﷲ تعالیٰ عنھما کی صاحبزادیاں شرفِ زوجیت سے مشرف ہوئیں۔ کیا حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے ایسے تعلقات جن سے ہوں، اُن کی نسبت وہ ملعون الفاظ کوئی ادنیٰ عقل والا ایک لمحہ کے لیے جائز رکھ سکتا ہے...؟! ہرگز نہیں!، ہرگز نہیں!۔
اِس فرقہ کا ایک عقیدہ یہ ہے کہ ''ﷲ عزوجل پر اَصلح واجب ہے یعنی جو کام بندے کے حق میں نافع ہو، ﷲ عزوجل پر واجب ہے کہ وہی کرے، اُسے کرنا پڑے گا۔'' ایک عقیدہ یہ ہے کہ ''ائمہ اَطہار رضی ﷲ تعالیٰ عنھم، انبیا علیہم السلام سے افضل ہیں۔''اور یہ بالاجماع کفر ہے، کہ غیرِ نبی کو نبی سے افضل کہنا ہے۔ ایک عقیدہ یہ ہے کہ ''قرآن مجید محفوظ نہیں، بلکہ اُس میں سے کچھ پارے یا سورتیں یا آیتیں یا الفاظ امیر المؤمنین عثمان غنی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ یا دیگر صحابہ رضوان ﷲ تعالیٰ علیہم نے نکال دیے۔'' مگر تعجب ہے کہ مولیٰ علی کرّم ﷲ تعالیٰ وجہہ نے بھی اُسے ناقص ہی چھوڑا...؟! اور یہ عقیدہ بھی بالاِجماع کفر ہے، کہ قرآن مجید کا اِنکار ہے۔
ایک عقیدہ یہ ہے کہ ''ﷲ عزوجل کوئی حکم دیتا ہے پھر یہ معلوم کر کے کہ مصلحت اس کے غیر میں ہے، پچتاتا ہے۔'' اور یہ بھی یقینی کفر ہے، کہ خدا کو جاھل بتانا ہے۔ایک عقیدہ یہ ہے کہ ''نیکیوں کا خالق ﷲ ہے اور برائیوں کے خالق یہ خود ہیں۔'' مجوس نے دو ہی خالق مانے تھے: یَزدان خالقِ خیر، اَہرمَن خالقِ شر۔ اِن کے خالقوں کی گنتی ہی نہ رہی، اربوں، سنکھوں خالق ہیں۔
غیر مقلدین: یہ بھی وہابیت ہی کی ایک شاخ ہے، وہ چند باتیں جو حال میں وہابیہ نے ﷲ عزوجل اور نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں بکی ہیں، غیر مقلدین سے ثابت نہیں، باقی تمام عقائد میں دونوں شریک ہیں اور اِن حال کے اشد دیو بندی کفروں میں بھی وہ یوں شریک ہیں کہ ان پر اُن قائلوں کو کافر نہیں جانتے اور اُن کی نسبت حکم ہے کہ جو اُن کے کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔ ایک نمبر اِن کا زائد یہ ہے کہ چاروں مذہبوں سے جدا، تمام مسلمانوں سے الگ انھوں نے ایک راہ نکالی، کہ تقلید کو حرام و بدعت کہتے اور ائمہ دین کو سبّ و شتم سے یاد کرتے ہیں۔
مگر حقیقۃً تقلید سے خالی نہیں، ائمہ دین کی تقلید تو نہیں کرتے، مگر شیطانِ لعین کے ضرور مقلّد ہیں۔ یہ لوگ قیاس کے منکِر ہیں اور قیاس کا مطلقاً اِنکار کفر تقلید کے منکر ہیں اور تقلید کا مطلقاً انکار کفر۔ مسئلہ: مطلق تقلید فرض ہے اور تقلیدِ شخصی واجب۔
ضروری تنبیہ: وہابیوں کے یہاں بدعت کا بہت خرچ ہے، جس چیز کو دیکھیے بدعت ہے، لہٰذا بدعت کسے کہتے ہیں اِسے بیان کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بدعتِ مذمومہ و قبیحہ وہ ہے، جو کسی سنّت کے مخالف ومزاحم ہو اور یہ مکروہ یا حرام ہے۔ اور مطلق بدعت تو مستحب، بلکہ سنّت، بلکہ واجب تک ہوتی ہے۔
حضرت امیر المؤمنین عمر فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تراویح کی نسبت فرماتے ہیں:
((نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ.))
''یہ اچھی بدعت ہے۔'' حالانکہ تراویح سنّتِ مؤکدہ ہے، جس امر کی اصل شرع شریف سے ثابت ہو وہ ہرگز بدعتِ قبیحہ نہیں ہوسکتا، ورنہ خود وہابیہ کے مدارس اور اُن کے وعظ کے جلسے، اس ہیأتِ خاصہ کے ساتھ ضرور بدعت ہوں گے۔ پھر انھیں کیوں نہیں موقوف کرتے...؟ مگر ان کے یہاں تو یہ ٹھہری ہے کہ محبوبانِ خدا کی عظمت کے جتنے اُمور ہیں، سب بدعت اور جس میں اِن کا مطلب ہو، وہ حلال و سنت۔
وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ.۔۔۔بہار شریعت حصہ ١
اللہ پاک ہم سب کو ہدایت پر ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ آمین
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔