Pages

Saturday 18 August 2018

یارسول ﷲﷺ کہنا اورنیک بندوں کو پکارنا شرک نہیں ہےبلکہ شرک کہنے والوں نے بھی پکارا پڑھیئے

*یارسول ﷲﷺ کہنا اورنیک بندوں کو پکارنا شرک نہیں ہےبلکہ شرک کہنے والوں نے بھی پکارا پڑھیئے*

🌻👈 یا رسول اللہ ﷺ کہنا کیسا ہے ؟

قرآن و حدیث و افعال صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین و اجماع امت سے یا رسول اللہ ﷺ پکارنے کا ثبوت

🌸👈 یارسواللہ ﷺ پکارنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحب اور صحابہ کرام کی سنت بھی ہے اس کا ثبوت
آیات قرآنیہ احادیث نبویہ اور اقوال ائمہ میں کثرت سے موجود ہے

⭕👈 اگر کوئی بھی اس کے عدم جواز کا قول کرتا ہے اس کے ذمہ واجب ہے  وہ قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت پیش کرے اور وہ صبح قیامت تک اس کا ثبوت پیش نہیں کرسکتا۔

*فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النارالتی وقودھا الناس والحجارہ اعدت للکافرین۔*

🌻👈 یارسول اللہ کا ثبوت قرآن سے

قرآن پاک میں ہے

"یا ایھا النبی"ﷺ
"یا ایھا الرسول"ﷺ
"یا ایھا المزمل"ﷺ
"یا ایھا المدثر"ﷺ

🌸👈 یارسول اللہﷺ کا ثبوت احادیث سے

مسلم شریف میں ہے۔

*ینا د و ن یا محمد یا ر سو ل ا للہ*

(صحیح مسلم شریف ص ٤١٩، جلد ٢)

رسول پاک زندہ ہیں اور" یا" کے ذریعہ پکارنا صحابہ کرام کا طریقہ ہے

⭕👈 امیر المومنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد فرمایا

*'' دو موتیں نہ آئیں گی"*

یعنی آپ نے موت کا ذائقہ چکھا وہ ہو گیا اس کے بعد حیات ہے حیات کے بعد پھر موت نہیں آئے گی جیسا کہ خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

*"فنبی اللہ حی یرزق "*

اللہ کے نبی زندہ ہیں اور رزق پاتے ہیں ۔

(ابن ماجہ ص ١١٩)

🌻👈 ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انورپر حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول اپنی اُمت کیلئے بارش طلب فرمائیں ۔ تحقیق وہ ہلاک ہو گئے۔
اس کے بعد حضورنبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو خواب میں زیارت عطا فرمائی اور فرمایا کہ عمر کو میرا سلام کہنا اور خوشخبری دو بارش ہو گی مصنف ابن ابی شیبہ

(از: امام محدث ابوبکر عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ' اُستاذ امام بخاری ومسلم جلد نمبر١٢، ص ٣٢ کتاب الفضائل)

فتح الباری شرح بخاری جلد ٢ ، ص ٤٩٥

🌹👈 حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق آپ کا جنازہ روضہ مبارک پر لے جا کر رکھ دیا گیا اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی

*''السلام علیک یا رسول اللہﷺ ''*

یہ ابوبکر صدیق ہیں اجازت چاہتے ہیں ۔

(آپ کے پاس دفن ہونے کی)

پھر اس کے بعد دروازہ مبارک کھل گیا اور آواز آئی

*ا د خلو ا لحبیب ا لی حبیبہ*

(خصائص الکبریٰ محدث جلال الدین سیوطی ، تفسیر کبیر ص ٤٧٨، جلد ٥)

⭕👈 حضرت سیدنا خالد بن ولید نے مسیلمہ کذاب سے جنگ کے وقت فرمایا

*بشعار المسلمین یا محمداہ (صلی اللہ علیہ وسلم)*

فتوح الشام ص ١٦٠ ، ج ١ ، ابن کثیر نے البدایہ ص ٣٢٤ جلد ٦ میں لکھا ہے ۔

*کا ن شعا ر ھم یو مئذ یا محمد اہ صلی اللہ علیہ وسلم*

🌻👈 حضرت عبیدہ بن الجراح کی قیادت میں حلب میں لڑنے والے اسلامی لشکر نے کہا

*''یا محمد یا محمد یا نصر ا للہ انزل ''*

(تاریخ فتوح الشام ، ج١)

📿👈 حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ جب مسجد میں داخل ہوتے تو یہ پڑھتے

*ا لسلام علیک ا یھا ا لنبی و رحمۃ ا للہ و برکا تہ*

(الشفاء شریف جلد دوم ، ص ٥٣ )

⭕👈 احادیث اور اقوال ائمہ تو اس بابت بے شمار ہیں مگر آئیے میں آپ کو حیرت میں ڈال دینے والی عبارتوں سے ملاقات کراتا ہوں یعنی خود ان دیابنہ ووہابیہ ہی کی عباتوں سے ندائے یا رسول اللہ ﷺ کا ثبوت۔

*🌻👈اکابر وہابیہ کی عبارتوں سے یارسول اللہ ﷺ کا ثبوت*

حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں آیا ہے

*''یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی ''*

یعنی یا محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔

بیہقی اور جزری نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔

( ہدیۃ المہدی ص ٢٤ (عربی) ، نشر الطیب ص ٢٧٦ )

🌸👈 ایک روایت میں ہے یا رسول اللہ انی توجہت بک الی ربی یعنی یا رسول اللہ ! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ''۔

(ہدیۃ المہدی (عربی) ص ٢٤، مولوی وحید الزمان وہابی )

🌸👈 حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت آسمان سے میں نے یہ آواز سنی

*''یا محمداہ صلی اللہ علیہ وسلم"*

( الشمامۃ العنبریہ ص ١١٣ ، صدیق حسن بھوپالوی

🌻👈 امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مناسک میں لکھا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تو اتنا ہی کہتے تھے

*''السلام علیک یا رسول اللہ ﷺ السلام علیک یا ابابکر ، السلام علیک یا ابتاہ ''۔*

(فضائل حج ص ٩١٧ ، ذکریا سہارنپوری' دیوبندی)

🌹👈 حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے قبر شریف پر سلام اس طرح پڑھاہے

*''السلام علیک یا رسول اللہ، السلام علیک یا نبی اللہ، السلام علیک یا حبیب اللہ ، السلام علیک یا احمد ﷺ، السلام علیک یا محمد ؐ ۔*

(الصلوٰ ۃ والسلام ص ١٢٦ ، فردوس شاہ قصوری وہابی)

⭕👈 تفسیر ابن کثیر و مدارک میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کے بعد ایک اعرابی آیا اور اپنے کو روتے اور سر پر خاک ڈالتے ہوئے قبر شریف پر گرا دیا اور کہا

*''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لئے استغفار فرمائیں*

قبر مبارک سے آواز آئی

*''کہ تجھ کو بخش دیا گیا ہے''*

(نشر الطیب ص ٢٧٩ ، فضائل حج ص ٢٥٣)

⭕👈 (اشرف علی تھانوی صاحب نے کہا) اس بندہ نے آپ کو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مستغیث ہو کر اور اُمید کی چیزوں کا اُمید وار ہو کر پکارا ہے''۔

(نشر الطیب ص ٢٧٩ )

🌐👈 جب روم کے بادشاہ نے مجاہدین اسلام کو عیسائیت کی ترغیب دی تو انہوں نے بوقت شہادت

*''یا محمداہ''* صلی اللہ علیہ وسلم کا نعرہ لگایا جیسا کہ ہمارے اصحاب میں سے ابن جوزی نے روایت کیا ۔

(ہدیۃ المہدی ، نواب وحید الزمان حیدر آبادی)

🌻👈 غوث پاک رضی اللہ عنہ نے فرمایا

'' دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد ١٠٠ مرتبہ درود غوثیہ پڑھ کر ١١ بار یہ درود و سلام پڑھو
اغثنی یا ر سو ل ا للہ علیک الصلو ٰۃ و السلام

( کتاب غوث اعظم ص٣٢، احتشام الحسن کاندھلوی دیوبندی)

🌸👈حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ(علیہم السلام ) نے آپ کو بایں الفاظ سلام کیا

*''ا لسلام علیک یا ا وّل ، ا لسلام علیک یا آخر ، السلام علیک یا حا شر ''۔*

( کتاب معراج مصطفےٰ ص ١٢ ، مولوی محمد علی جانباز وہابی)

⭕👈 فضائل اعمال میں لکھا ہے :

زمہجوری برآمد جان عالم تراحم یا نبی اللہ تراحم

آپ کے فراق سے کائنات عالم کا ذرہ ذرہ جاں بلب ہے اور دم توڑ رہا ہے ۔ اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نگاہ کرم فرمائیے اے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم رحم فرمائیے''۔

(اسعد اللہ دیوبند)

🌸👈یہ ہے دیوبندی وہابیوں کی حقیقت کہیں تو صاف کہ دیتے ہیں کہ یارسول اللہ ﷺ یا نبی اللہ ﷺ پکارنا شرک ہے
اور کہیں خود پکارتے بھی ہیں اور اس کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں بلکہ پورے دن یا نبی اللہ کی رٹ لگائے رہتے ہیں دیکھئے پورے دن کی ہر نماز کے قعدہ میں

*" السلام علیک ایہا النبی" السلام علیک ایہاالنبی"* پکارتے رہتے ہیں۔

اگر یہ خود اپنا فتوی تسلیم کرلیں تو ذرا سوچئے کہ ان کی نمازوں میں کتنا شرک ہوتا ہے کہ ہرقعدہ میں ایھاالنبی پکارتے ہیں۔

⭕👈 اکثر حدیث کی کتابوں میں یہ روایت موجود ہے کہ جب تم قبرستان جاؤ تو یہ کہو

*"السلام علیک یا اھل القبور"*

یہاں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مردہ مسلمان کو *"یا"* کے ذریعہ پکارنے کی تعلیم دیتے ہیں تو اس نبی معظم ﷺ کو پکار نے میں کیا قباحت ہوگی جو کل بھی زندہ تھے اب بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

*تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ*
میری چشم عالم سے چھپ جانے والے۔

*🌻👈یا مشکل کشا کہنے  کے بارے میں تفصیل :*

ہر مسلمان کو مصیبت زدہ انسانوں کا مشکل کشاء اور حاجت روا ہونا چاھیئے بھوکے کو کھانا کھلانا، پیاسے کو پانی پلانا، بیمار کو دوا دینا، ننگے کو لباس دینا، بے گھر کو گھر مہیا کرنا، غریب کی ضرورت پوری کرنا، غریب، یتیم، مسکین، بچوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا،
ان کی خوراک، پوشاک، تعلیم کا بندوبست کرنا، زخمی کو ہسپتال پہنچانا، حادثات، سیلاب، وباؤں، زلزلوں اور طوفانوں کے متاثرین کی مدد کرنا حسب توفیق ہر ایک پر فرض ہے۔

🌹👈 جب ہر مسلمان کو مشکل کشاء اور حسب توفیق حاجت روا ہونا لازم ہے تو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مشکل کشا کہنا کیونکر غلط ہوگیا؟؟؟؟؟

*جبکہ قرآن و احدیث اسکے شاہد ہیں*

جب ہم کسی بھی دنیا دار سے کچھ طلب کرتے ہیں تو معترضین اسے غلط نہیں کہتے مگر جونہی کوئی شخص اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے مجازی طور پر مدد طلب کرتا ہے استعانت کرتا ہے تو اسے شرک قرار دیا جاتا ہے یہ سوچ جہالت پر مبنی ہے.....

*🌻 یا رسول اللہ مدد ، یا علی مدد و مشکل کشاء کہنا ، یا غوث مدد کہنا کی شرعی حیثیت🌻*

انبیا کرام علیہم السّلام خصوصاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپکی امت کے اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کے لیئے مجازاً یہ الفاظ استعمال کرنا جائز ہے۔

مُشکِل کُشا کے معنی ہیں :

*’’ مُشکِل حل کرنے والا، مشکل میں مدد کرنے والا۔‘‘*

بے شک حقیقی معنوں میں اَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہی مُشکِل کُشا ہے، مگر اُس کی عطا سے انبیا ء کرام علیہم السّلام ، صَحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ بلکہ عام بندے بھی مُشکلِ کُشا اور مدد گار ہو سکتے ہیں اِس کی عام فَہم مثال یہ ہے کہ پاکستان میں جا بجا یہ بَورڈ لگے ہوئے ہیں

*’’مدد گار پولیس فون نمبر15‘‘*

🌸👈 ہر ایک یہ جانتا ہے کہ پولیس چوروں ڈاکوؤں وغیرہ سے بچانے ، دشمنوں کے خطروں اور دیگر مشکل موقعوں پر مشکل کشائی یعنی مدد کرنے کی صلاحِیَّت رکھتی ہے۔ مکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے ہجرت کر کے جوصَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پہنچے ، وہاں اُن کی نُصرت (یعنی مدد) کرنے والے صَحابہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان *’’اَنصار‘‘* کہلائے اور انصار کے معنیٰ مدد گار ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں

🌹👈 تو جب پولیس مُشکلِ کشا ، سماجی کارکُن حاجت روا، چوکیدار مددگار اور قاضی فریاد رس ہو سکتا ہے ، تو اَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا سے حضرتِ مولیٰ علی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کیوں مُشکل کُشا نہیں ہو سکتے ۔

*اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا*

(پ ۶، المائدہ: ۵۵)

ترجَمہ : تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے۔

وہاں بھی ولی بمعنی مددگار ہے۔اس فرمان سے دو مسئلے معلوم ہوئے ، ایک یہ کہ مصیبت میں *’’ یا علی مدد‘‘* کہنا جائز ہے ، کیونکہ حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ہر مومن کے مددگار ہیں تا قیامت، دوسرے یہ کہ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو *’’مولیٰ علی‘‘* کہنا جائز ہے کہ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ہر مسلمان کے وَلی اور مولیٰ ہیں۔

*(مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۱۷)*

🌸👈 سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ اپنے چچا سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی عزوہ احد میں شہادت پر اس قدر روئے کہ انہیں ساری زندگی اتنی شدت سے روتے نہیں دیکھا گیا۔ پھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے :

*يا حمزة يا عم رسول الله اسد الله واسد رسوله يا حمزة يا فاعل الخيرات! يا حمزة ياکاشف الکربات يا ذاب عن وجه رسول الله.*

(المواهب اللدينه، 1 : 212)

🌻👈 آپ نے دیکھا کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام اپنے وفات شدہ چچا سے فرما رہے ہیں یا کاشف الکربات (اے تکالیف کو دور کرنے والے)۔ اگر اس میں ذرہ برابر بھی شبہ شرک ہوتا تو آپ اس طرح نہ کرتے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے پیارے اور مقرب بندے قابل توسل ہیں۔

*⭕👈 دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ : فتوی نمبر : 1925=1547/1430/ھ*

امیرالموٴمنین خلفیة الرابع سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ مشکل سے مشکل مقدمات اور پیچیدہ معاملات میں فیصلہ فرماکر بہت آسانی سے حل فرمادیا کرتے تھے، اسی لیے حضرت رضی اللہ عنہ کو حلّال المعضلات کے لقب سے ملقب کیا جاتا تھا، جس کا ترجمہ بزبان فارسی مشکل کشا ہے، اس معنی کے لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابر امت پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے، شرعاً یا عقلاً اس میں کچھ استبعاد یا مانع نہیں ہے.واللہ تعالیٰ اعلم

*دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند* (آن لائن فتویٰ سیکشن)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔