Pages

Monday 25 July 2016

قرآن میں قیامت کے دن کی مددت کے متعلق تضاد ہے کا علاّمہ ایاز نظامی ملحد کو جواب

allamaayaznizami@gmail.com ایاز نظامی علامہ مت کہلاؤ کھل کر سامنے آؤ کہ تم ایک ملحد بے دین ہو جیسا کہ تم نے لکھا کہ تم اسلام کو خیر باد کہہ چکے ہو تو یہ علامہ اور نظامی کا لیبل کیسا اس منافقت کو چھوڑو سیدھے سیدھے نظامی ملحد لکھو اپنے نام کے ساتھ اور پڑھو اپنی گمراہی کا جواب
---------------------------------------------------------------------------
" قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے، ایک دوسری آیت قرآنی کہتی ہے کہ ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہے، تو کیا قرآن اپنی ہی بات کی نفی نہیں کررہا؟ "

قرآن کریم کی سورۃ السجدہ اور سورۃ الحج میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی نظر میں جو دن ہے، وہ ہماری دانست کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ۔ :

يُدَبِّرُ الأمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (٥)

" کام کی تدبیر فرماتا ہے آسمان سے زمین تک پھر اسی کی طرف رجوع کرے گا اس دن کہ جس کی مقدار ہزار برس ہے تمہاری گنتی میں۔" ( سورۃ السجدہ 32 ایت 5)

ایک اور آیت میں ارشاد ہوا کہ اللہ کے نزدیک ایک دن تمہارے پچاس ہزار سال کے برابر ہے، ارشاد باری تعالی ہے ۔ :

تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ (٤)

" ملائکہ اور جبریل اس کی بارگاہ کی طرف عروج کرتے ہیں وہ عذاب اس دن ہو گا جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے " ( سورۃ المعارج 70 آیت 4 )

ان آیات کا عمومی مطلب یہ ہے کہ اللہ کے وقت کا موازنہ زمینی وقت سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی مثالیں زمین کے ایک ہزار سال اور پچاس ہزار سال سے دی گئی ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ کے نزدیک جو ایک دن ہے وہ زمین کے ہزاروں سال یا اس سے بھی بہت زیادہ عرصے کے برابر ہے۔

" یوم " کے معنی :

ان تینوں آیات میں عربی لفظ " یوم " استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب " ایک دن " کے علاوہ " طویل عرصہ " یا " ایک دور " بھی ہے، اگر آپ یوم کا ترجمہ عرصہ (Period) کریں تو کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا۔

سورۃ حج میں فرمایا گیا ہے:

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (٤٧)

" اور یہ تم سے عذاب مانگنے میں جلدی کرتے ہیں اور اللہ ہرگز اپنا وعدہ جھوٹا نہ کرے گا اور بیشک تمہارے رب کے یہاں ایک دن ایسا ہے جیسے تم لوگوں کی گنتی میں ہزار برس (48) اور کتنی بستیاں کہ ہم نے ان کو ڈھیل دی اس حال پر کہ وہ ستمگار تھیں پھر میں نے انہیں پکڑا اور میری ہی طرف پلٹ کر آتا ہے۔ " ( سورۃ الحج 22 آیت 47)

جب کافروں نے یہ کہا کہ سزا میں دیر کیوں ہے اور اس کا مرحلہ جلد کیوں نہیں آتا تو قرآن میں ارشاد ہوا کہ اللہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام نہیں رہے گا، تمہاری نظر میں جو عرصہ ایک ہزار سال کو محیط ہے، وہ اللہ کے نزدیک ایک دن ہے۔

50 ہزار اور ایک ہزار سال کی حقیقت : سورۃ سجدی کی مذکورہ بالا آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تک تمام امور کو پہنچنے میں ہمارے حساب کے مطابق ایک ہزار سال کا عرصہ لگتا ہے، جبکہ سورۃ المعارج کی آیت: 4 کا مفہوم یہ ہے کہ فرشتوں اور رُوح القدس یا ارواح کو اللہ تعالی تک پہنچنے میں پچاس ہزار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

قرآن کے بیان کیئے گئے وقت کا پیمانہ عام انسانوں کے لحاظ سے ہے، فرشتون خاص طور پر حضرت جبریل ( علیہ السلام ) اور ان کے ساتھ والے فرشتوں کے لیئے یہ وقت ایک دن یا اس سے بھی کم ہے جبکہ انسانوں کو اتنا فاصلہ طے کرنے میں ایک ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

باقی رہا پچاس ہزار سال کا دن تو فرشتے خصوصاً جبریل ( علیہ السلام ) زمین سے سدرہ المنتہٰی تک کا فاصلہ ایک دن یا اس سے بھی کم مدت میں طے کر لیتے جبکہ عام انسانی پیمانے سے یہ فاصلہ پچاس ہزار سال میں طے کیا جاسکتا ہے۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ زمین سے عرش تک جو امور پہنچائے جاتے ہیں وہ ایسے وقت میں پہنچتے ہیں کہ عام لوگوں کو اس میں پچاس ہزار سال لگ جائیں، مفسرین کے ایک قول کے مطابق قیامت کا دن کفار اور نافرمانوں پر ایک ہزار سال یا پچاس ہزار سال جتنا بھاری ہوگا۔ البتہ مومنوں کے لیئے وہ ایک دن یا اس سے کم تکلیف کا باعث ہوگا -

جیسے حدیث میں ہے کہ وقت ظہر سے عصر تک کا ہوگا صرف اس قدر ہوگا جس قدر کوئی نماز میں وقت لگاتا ہے۔

( مسند أحمد: 3/75 و ابن حبان: 7334) تفصیل کے لیے دیکھیئے تفسیر تبیان القرآن ، تفسیر الخازن اور تفسیر روح المعانی وغیرہ۔ )

ضروری نہیں کہ دو مختلف افعال کے انجام پانے کے لیے یکساں مدت درکار ہو، مثال کے طور پر مجھے ایک مقام تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے جبکہ دوسرے مقام تک سفر کے لیے 50 گھنٹے درکار ہیں تو اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ میں دو متضاد باتیں کر رہا ہوں ۔ یوں قرآن کی آیات نہ صرف ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ وہ مسلمہ جدید سائنسی حقائق سے بھی ہم آہنگ ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔