مزارات پر گنبد اور پکی قبر بنانے پر اعتراض کا مدلّل جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اعتراض کرنے والے امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ بیان کرتے ہیں: وَعَنْ اَبِیْ حَنِیْفَۃ یَکْرَہُ اَنْ یُّبْنٰی عَلَیْہِ بِنَا٫مِنْ بَیْتٍ اَوْقُبَّۃٍ وَّنَحْوَ ذَالِکَ لِمَا رَوَی جَابِرٌ نَھِیِ رَسُوْلِ ﷲِ عَنْ تَجْصِیْصِ الْقُبُوْرِ وَاَنْ یُّکْتَبَ عَلَیْھَا وَاَنْ یُّبْنٰی عَلَیْھَا(شامی:جلد1،صفحہ839 مطبوعہ استنبول)
’’امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر پر کوئی عمارت مثلاًگھر، قبہ وغیرہ بنانے سے منع کیا ہے کیونکہ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں نبی صلّی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت آئی ہے کہ قبر کو پختہ بنایا جائے، اس پر کتبہ لگایا جائے یا اس پر عمارت تعمیر کی جائے۔‘‘،
یہ درالمحتار کی عبارت ہے جو کتاب الجنائز سے لی گئی ہے۔
قبر کو ایک ہاتھ سے اونچا کرنا منع ہے کیونکہ مسلم میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے قبر کو پختہ کرنے اور اس پر کچھ بنانے سے منع فرمایا۔
درمختار کے اسی باب میں ہے وتکرہ الزیادۃ علیہ من التراب لانہ بمنزلۃ البنآء قبر پر مٹی زیادہ ڈالنا منع ہے کیونکہ یہ عمارت بنانے کے درجہ میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قبر پر یہ بنایا یہ ہے کہ قبر دیوار میں آجائے اور گنبد بنانا یہ حول القبر یعنی قبر کے اردگرد بنانا ہے یہ ممنوع نہیں ہے۔ دوسرے یہ حکم عامۃ المسلمین کی قبروں کے لیئے ہے۔ تیسرا جواب یہ کہ اس بنانے کی تفسیر خود دوسری حدیث نے کردی جو کہ مشکوٰۃ باب المساجد میں ہے۔
اللھم لاتجعل قبری ۔ ترجمہ ؛ اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی پوجا کی جائے اس قوم پر خدا کا سخت غضب ہے جس نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔
مشکوٰۃ المصابیح فصل اول ص 72 نورمحمد کتبخانہ کراچی
اس سے معلوم ہوا کہ کسی قبر کو مسجد بنانا اس پر عمارت بنا کر اس کی طرف نماز پڑھنا حرام ہے یہ ہی اس حدیث سے مراد ہے قبروں پر کیا نہ بناؤ مسجد۔ قبر کو مسجد بنانے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عبادت کی جائے۔ یا کم از کم اس کو قبلہ بنا کر اس کی طرف سجدہ کیا جائے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں؛۔
بیضاوی نے فرمایا کہ جبکہ یہود و نصاریٰ پیغمبروں کی قبروں کو تعظیماً سجدہ کرتے تھے اور اسکو قبلہ بنا کر اس کی طرف نماز پڑھتے تھے اور ان کقبور کو انہوں نے بت بنا رکھا تھا لہٰذا اس پر حضور علیہ السلام نے لعنت فرمائی اور مسلمانوں کو اس سے منع فرمایا گیا۔
یہ حدیث اعتراض کرنے والوں کی پیش کردہ حدیث کی تفسیر ہوگئی۔
معلوم ہوا کہ قبہ بنانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا چوتھے یہ کہ یہ ممانعت حکم شرعی نہیں ہے۔ بلکہ زہد و تقویٰ کی تعلیم ہے جیسے کہ رہنے کے پختہ مکانات سے بھی روکا گیا ہے بلکہ گرادیئے گئے۔ پانچواں جواب یہ ہے کہ جب بنانے والے کا یہ اعتقاد ہو کہ اس عمارت سے میت کو راحت یا فائدہ پہنچتا ہے تو منع ہے کہ غلط خیال ہے اور اگر زائرین کی آسائش کی وجہ سے عمارت بنائی جائے تو جائز ہے۔
صحابہ کرام نے خاص خاص قبروں پر عمارت بنائی ہیں یہ فعل سنت صحابہ ہے چنانچہ حضرت حسن مثنی کی بیوی نے اپنے شوہر کی قبر پر قبہ ڈالہ جو کہ مشکوٰۃ باب البکاء میں موجود ہے۔ زوجہ حسن مثنی کے اس فعل کے ماتحت امام ملا علی قاری الحنفی مرقاۃ شرح مشکوۃ باب البکاء میں فرماتے ہیں؛۔
الظاھر انہ لاجتماع الاحباب للذکر والقراءۃ و حضور الاصاحب للدعا بالمغفرۃ والرحمۃ اما حمل فعلھا علی العبث المکروہ فغیر لائق لصنیع اھل البیت
ترجمہ؛۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ قبور دوستوں اور صحابہ کے جمع ہونے کے لیئے تھا تاکہ ذکر اللہ اور تلاوت قرآن کریں اور دعائے مغفرت کریں لیکن ان بی بی کے اس کام کو محض بے فائدہ بنانا جو کہ مکروہ ہے یہ اہلبیت کی شان کے خلاف ہے
مرقاۃ المفاتیح کتاب الجنائز البکاء علی المیت الفصل الثانی تحت رقم الحدیث 1749 ص 237 مطبوعہ رشیدیہ کوئٹہ(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
صاف معلوم ہوا کہ بلافائدہ عمارت بنانا منع اور زائرین کے آرام کے لیئے جائز ہے۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت زینت بن حجش رضی اللہ عنہا کی قبر پر قبہ یعنی گنبد بنوایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن کی قبر پر اور حضرت محمد ابن حنیفہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی قبر پر قبہ بنایا۔ متقے شرح موطا امام
مالک مین ابوعبد سلیمان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں۔
وضربہ عمر علی قبر زینب بن جحش و ضربتہ عائشۃ علی قبر اخیھا عبدالرحمٰن وضربہ محمد ابن الحنفیۃ علی قبر ابن عباس وانما کرھہ لمن ضربہ علی وجہ السمعۃ والمباھات
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب بنت حجش کی قبر پر قبہ بنایا۔ حضرت عائشہ نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن کی قبر پر قبہ بنایا محمد ابن حنیفہ (ابن علی رضی اللہ عنہما) نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قبر پر قبہ بنایا ۔ اور جس نے قبہ بنانا مکروہ کہا ہے تو اس کے لیئے کہا جو کہ اس کو فخر دریا کے لیئے بنائے۔
ایسے ہی بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ۔ جلد ۲ ص ۳۵۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت از امام ابی بکر کاسانی الحنفی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ میں بھی روایات موجود ہیں۔
خوارجی طبقات یعنی (وہابی دیوبندی) کے بطلان کا مکمل رد
خوارج یہ حدیث اپنے حق میں بطور دلیل اور جواز کے پیش کرتے ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر انبیائے کرام اور صالحین کی قبور مزارات کو شہید کرتے ہیں آج اس کا بھی جواب ان کو دیا جارہا ہے وہ بھی انکی چھاپی کتاب سے اور سلف صالح سے!
وہابی دلیل:۔ مشکوٰۃ باب الدفن میں لکھا ہے و عن ابی ھیاج ن الاسدی قال قال لی علی الا ابعثک علی ما بعثنی رسول اللہ علیہ السلام ان لا تدع تمثالا ال طمستہ ولا قبراً مشرفاً الا سویتہ
ترجمہ؛۔ ابوہیاج اسدی سے مروی ہے کہ مجھ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھ کو حضور علیہ السلام نے بھیجا تھا وہ یہ کہ تم کوئی تصویر نہ چھوڑو مگر مٹادو اور نہ کوئی اونچی قبر مگر اس کو برابر کردو۔
مشکوۃ المصابیح باب الدفن فصل اول ص 148 نورمحمد کتبخانہ کراچی
بخاری جلد اول کتاب الجنائز الجرید علی القبر میں ہے
روای ابن عمر قسطاطا علی قبر عبدالرحمٰن فقال انزعہ یا غلام قائما یظلہ عملہ
ترجمہ؛ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن کی قبر پر قبہ خیمہ دیکھا پس آپ نے فرمایا کہ اے لڑکے اس کو علیحدہ کردو کیونکہ ان پر ان کے عمل سایہ کررہے ہیں۔
ج 1 ص 181 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ اگر کسی قبر پر عمارت بنی ہو یا قبر اونچی ہو تو اس کو گرا دینا چاہیئے۔
جواب ؛۔ اس حدیث کو آڑ بنا کر خوارج نے صحابہ کرام اور اہلبیت کے مزارات کو گرا کر شہید کرکے زمین کے ہموار کردیا۔ دیکھئے جنت البقیع کا موجودہ منظر
اب یہ رہا اس کا مفصل جواب؛ ۔ جن قبروں کو گرادینے کا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حکم دیا ہے وہ کفار کی قبریں تھیں نہ کہ مسلمین کی۔ اسکی چند وجوہات ہیں
اولاً تو یہ کہ حضرت علی نے فرمایا کہ میں تم کو اس کام کے لیے بھیجتا ہوں۔ جس کے لیئے مجھے حضور علیہ السلام نے بھیجا۔ حضور علیہ السلام کے زمانہ میں جن قبروں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گرایا وہ مسلمانوں کی قبریں نہیں ہوسکتیں۔
دوئم کیونکہ ہر صحابی کے دفن میں حضور علیہ السلام شرکت فرماتے تھے۔ نیز صحابہ کرام کوئی کام بھی نبی کریم علیہ السلام کے بغیر مشورہ کے نہ کرتے تھے لہٰذا اسوقت جس قدر قبور مسلمین بنیں ۔ وہ یا تو نبی کریم علیہ السلام کی موجودگی یا آپ کی اجازت سے بنی تو وہ کون سے مسلمانوں کی قبریں تھیں جو کہ ناجائز بن گئیں؟۔ اور ان کو مٹانا پڑا؟
عیسائیوں کی قبور اونچی ہوتی تھیں ۔ جیسا کہ آجکل بھی کوئی گوگل کو سرچ کرکے دیکھ سکتا ہے کہ ان کی قبروں پر تصاویر، بت اور یا پھر صلیب کے ایک ہاتھ سے اونچے نشانات ہوتےہیں اور جن کو مسمار کرنے کا حکم دیا ہے وہ آپ سرچ کرکے دیکھ لیں کہ کیسی قبور تھیں سمجھ آجائے گی بات آسانی سے۔
بخاری شریف صفحہ 61 مسجد نبوی کی تعمیر کے بیان مین ہے؛۔
امر النبی علیہ السلام بقبور المشرکین فبثبت
صح'بخاری باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ ج 1 ص 61 قدیمی کتب خانہ
ترجمہ؛ حضور علیہ السلام نے مشرکین کی قبروں کا حکم دیا پس اکھیڑ دی گئیں۔
بخاری شریف میں باقائدہ ایک باب باندھا گیا ۔ کہ مشرکین کی زمانہ جاہلیت کی قبریں اکھیڑ دی جائیں اسی کی شرح میں حافظ ابن حجر فتح الباری شرح صحیح البخاری شریف جلد دوم میں فرماتے ہیں شرح کرتے ہوئے کہ:۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ای دون غیرھا من قبور الانبیاء واتباعھم لما فی ذلک اھانۃ لھم
ترجمہ؛ یعنی ماسوا انبیاء کرام اور ان کے متبعین کے کیونکہ ان کی قبریں ڈھانے میں ان کی اہانت (یعنی توہین) ہے۔
حوالہ۔ فتح الباری امام ابن حجر عسقلانی ۔ ج ۲ کتاب الصلاۃ باب ھل تنبش ص ۶۲۴ حدیث ۴۲۲ (۳۲۸)۔ طبع سلطان بن عبدالعزیز آل سعود
دوسری جگہ فرماتے ہیں؛۔وفی الحدیث جواز تصرف فی المقبرۃ المملوکۃ وجواز تنبش قبور الدارسۃ اذا لم یکن محرمۃ۔
ترجمہ: اس حدیث میں اس پر دلیل ہے کہ جو قبرستان ملک میں آگیا اس میں تصرف کرنا جائز ہے اور پرانی قبریں اکھاڑ دی جائیں بشرطیکہ محترمہ نہ ہوں۔
فتح الباری شریف ۔ ج ۲ ص ۶۳۷ (۴۲۸)۔
لہٰذا اس حدیث اور اسکی شرح نے مخالف کی پیش کردہ حدیثِ علی کی تفسیر کردی۔ کہ مشرک کی قبریں گرائی جائیں۔ دوسرے اسلیئے کہ اس میں قبر کے ساتھ فوٹو کا ذکرکیوں ہے۔ مسلمان کی قبر پر فوٹو کہاں ہوتا ہے؟ تصویر کہاں ہوتی ہے؟ معلوم ہوا کہ کفار کی قبریں ہی مراد ہیں ۔ کیونکہ ان کی قبروں پر میت کا فوٹو بھی ہوتا ہے
تیسرے ۔ اسلیئے کہ فرماتے ہیں کہ اونچی قبروں کو زمین کے برابر کردو اور مسلمان کی قبر کے لیئے سنت ہے کہ زمین سے ایک ہاتھ اونچی رہے۔ اس کو بالکل پیوند زمین کرنا خلافِ سنت ہے۔ ماننا پڑے گا کہ یہ قبور کفار کی تھیں ورنہ تعجب ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو اونچی قبریں اکھروائیں اور ان کے فرزند محمد ابن حنفیہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قبر پر گنبد بنائیں۔ اگر کسی مسلمان کی قبر اونچی بن بھی گئی تب بھی اس کو نہیں اکھیڑ سکتے کیونکہ اس میں مسلمان کی توہین ہے۔ اولاً اونچی نہ بناو۔ مگر جب بن جائے تو نہ مٹاؤ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قرآن پاک چھوٹا سائز کا بھی چھپانا منع ہے دیکھو شامی کتاب الکراہیت ۔ مگر جب چھپ گیا تو اس کو پھینکو نہیں اور نہ ہی جلاؤ۔ کیونکہ اس میں قرآن کی بے ادبی ہے احادیث میں وارد ہے کہ مسلمان کی قبر پر بیٹھنا وہاں پاخانہ کرنا۔ وہاں جوتے سے چلنا ویسے بھی اس پر چلنا پھرنا منع ہے مگر افسوس کہ نجدیت نے صحابہ کرام کے مزارات شہید کیئے اور معلوم ہوا ہے کہ اب جدہ میں انگریز عیسائیوں کی اونچی اونچی قبریں برابر بن رہی ہیں۔
صد ق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اھل الاسلام ویترکون اھل الاصنام ۔ ہر ایک کو اپنی جنس سے محبت ہوتی ہے۔ یعنی اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں اور اہل اصنام کو تحفظ دیتے ہیں۔
لہٰذا خوارج کا اس جہالت بھرے استدلال پر عمل کرکے مزارات و صالحین کی قبور کو شہید کرنا بھی ان کی صیہونیت کی ایک عمدہ دلیل سے زیادہ کچھ نہیں نا اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ قرآن و سنت سے اور نہ ہی سلف الصالحین کے عمل سے۔ یہ ان کی ذاتی خواہشات ہیں اور ان ہی غلط گمراہی بھرے جواز بنا کر انہوں نے اپنے دھرم کی اسلام کے نام پر اشاعت کی ہے اور ہمارے ہاں کے جہلاء بھی اس حرامکاری میں شریک رہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔