قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ۔
ترجمہء کنزالایمان:تم فرماؤ میں کوئی انوکھا رسول نہیں (ف۲۲) اور میں نہیں جانتا میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا (ف۲۳) میں تو اسی کا تابع ہوں جو مجھے وحی ہوتی ہے (ف۲۴) اور میں نہیں مگر صاف ڈر سنانے والا
اس آیت سے بعض لوگ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم کی نفی کرتےہیں۔یہ ان کی خام خیالی ہے۔
قرآن پڑھ کر لوگوں کا گمراہ ہونا۔قرآن سے ثابت ہے۔سورہ بقرہ،آیت نمبر26
يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴿٢٦) اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے (ف۴۷) اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں-(ف ۴۸) (٢٦)
کسی نے بخاری شریف کے بارے میں کہا ہے۔
بغیر عشق کے جو پڑھتے ہیں بخاری
آتا ہے بخار ان کو آتی نہیں بخاری
اعظم چشتی علیہ الرحمہ نے کہا تھا۔
محبوبان اتے نقطی چینی کرنا کم نہیں عاشقاں دا
جتھے دل لگ جاوے اعظم اوتھےعیب نظر نہیںآؤندا
تفسیر خزائن العرفان:22-مجھ سے پہلے بھی رسول آچکے ہیں تو تم کیوں نبوّت کا انکار کرتے ہو۔23-اس کے معنی میں مفسّرین کی چند قول ہیں ، ایک تو یہ کہ قیامت میں جو میرے اور تمہارے ساتھ کیا جائے گا ؟ وہ مجھے معلوم نہیں ، یہ معنی ہوں تو یہ آیت منسوخ ہے ، مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرک خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ لات و عزّٰی کی قَسم اﷲ تعالٰی کے نزدیک ہمارا اور محمّد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا یکساں حال ہے ، انہیں ہم پر کچھ بھی فضیلت نہیں ، اگر یہ قرآن انکا اپنا بنایا ہوا نہ ہوتا تو ان کا بھیجنے والا انہیں ضرور خبر دیتا کہ ان کے ساتھ کیا کرے گا تو اللہ تعالٰی نے آیت '' لِیَغْفِرَلَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ ''نازل فرمائی ، صحابہ نے عرض کیا یا نبی اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضور کو مبارک ہو آپ کو تو معلوم ہوگیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا ، یہ انتظار ہے کہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا ، اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی '' لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ''اور یہ آیت نازل ہوئی '' بَشِّرِالْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَھُمْ مِّنَ اﷲِ فَضْلاً کَبِیْراً '' تو اللہ تعالٰی نے بیان فرما دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ کیا کرے گا اور مومنین کے ساتھ کیا ، دوسرا قول آیت کی تفسیر میں یہ ہے کہ آخرت کا حال تو حضور کو اپنا بھی معلوم ہے ، مومنین کا بھی ، مکذّبین کا بھی ، معنٰی یہ ہیں کہ دنیا میں کیا کیا جائے گا ؟ یہ معلوم نہیں ، اگر یہ معنٰی لئے جائیں تو بھی آیت منسوخ ہے ، اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ بھی بتادیا '' لِیُظْہِرَہ عَلیَ الدِّیْنِ کُلِّہٖ '' اور '' مَاکَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ''بہرحال اﷲ تعالٰی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حضور کے ساتھ اور حضور کی امّت کے ساتھ پیش آنے والے امور پر مطلع فرمادیا خواہ وہ دنیا کے ہوں یا آخرت کے اور اگر درایت بمعنٰی ادراک بالقیاس یعنی عقل سے جاننے کے معنٰی میں لیا جائے تو مضمون اور بھی زیادہ صاف ہے اور آیت کا اس کے بعد والا جملہ اس کا مؤیِّد ہے ، علامہ نیشا پوری نے اس آیت کے تحت میں فرمایا کہ اس میں نفی اپنی ذات سے جاننے کی ہے ، من جہت الوحی جاننے کی نفی نہیں۔24-یعنی میں جو کچھ جانتا ہوں اﷲ تعالٰی کی تعلیم سے جانتا ہوں ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔