Pages

Thursday, 16 February 2017

آج کے دور میں ہمارا طرز عمل اور ائمہ کرام علیہم الرّحمہ پر الزامات کی تاریخ

آج کے دور میں ہمارا طرز عمل اور ائمہ کرام علیہم الرّحمہ پر الزامات کی تاریخ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج کے دور میں جہالت کا عالم یہ ہے کہ اگر کسی راوی کی نسبت یہ پڑھ لیں کہ اس پر شیعہ یا خارجی ہونے کا الزام ہے تو اس کو قبول ہی نہیں کرتے۔ عامۃ الناس کو چونکہ خبر نہیں ہوتی اس لئے فوراً کہا جاتا ہے کہ یہ شیعہ راوی کی روایات کو بیان کر رہا ہے، لہذا قبول نہ کیا جائے۔ خارجی راوی پر اعتراض کم ہی دیکھنے میں آیا ہے اس لئے کہ کہنے والے خود نئے دور کے خارجی ہیں۔ ایسی باتیں کرنے والے خوارج کا ایک نیا روپ ہیں۔ اگر یہ احباب زیادہ اعتراض کریں گے تو مرجئہ اور شیعہ پر کریں گے۔

تشیع کا الزام کس کس پر نہیں لگا۔۔۔ امام بخاری پر خلقِ قرآن کا الزام لگا اور ان کے استاد امام یحییٰ ذھلی نے ان سے قطع تعلق کر لیا اور فتویٰ دے دیا کہ جو بخاری کی مجلس میں بیٹھے وہ ہماری مجلس میں نہ آئے حتی کہ امام بخاری کو نیشا پور چھوڑ کر واپس جانا پڑا۔ اسی طرح بہت سے اور لوگوں نے امام بخاری سے قطع تعلق کر لیا۔ ایک غلط فہمی امام بخاری کی نسبت پیدا ہوگئی اور وہ لوگ امام بخاری کے کلام کو سمجھ نہ سکے، معنی غلط پہنچا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

الزامات کی حقیقت کیا ہوتی ہے، ہم سے بڑھ کر کون جانتا ہے اس لئے کہ ہماری پوری زندگی الزامات سننے اور برداشت کرنے میں گزری ہے۔ سنے سنائے بغیر الزامات لگا دیئے جاتے ہیں۔ اگر الزامات لگانے والوں سے پوچھا جائے کہ آپ پوری زندگی میں کبھی اس شخص سے ملے ہیں۔۔۔ یا یہ بات ان کے منہ سے سنی ہے جس پر آپ الزام لگا رہے ہیں کہ ان کا عقیدہ یہ ہے۔۔۔ یا انہوں نے یہ کہا ہے۔۔۔ ان کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہوگا۔۔۔ صرف یہ کہیں گے کہ ہم نے سنا ہے۔۔۔ شریعت میں اوروں سے کسی اور کے متعلق سن کر بات کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ کس قدر افسوسناک رجحان ہے کہ صاحبانِ شریعت علمائے کرام خود اس سلسلے میں سب سے آگے ہیں۔ عام آدمی تو ایک دو کے سامنے سنی سنائی بات کرتا ہے مگر یہ حضرات ہزاروں کے اجتماع میں جوش و خروش کے ساتھ ایک دوسرے پر بے بنیاد الزامات بھی لگاتے ہیں اور زبانِ طعن دراز کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے بلکہ اسے اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واضح فرامین کی حکم عدولی کر رہے ہوتے ہیں۔ علماء اور واعظین کی ایسی روش نے ان سے عزت احترام اور وقار چھین لیا ہے اور وہ معاشرے میں غیر معتبر ترین طبقہ سمجھا جانے لگا ہے۔

بعض اولیاء اللہ نے کہا ہے کہ ’’عالم کی گواہی اگر عالم کے خلاف ہو تو کبھی قبول نہ کی جائے اور اگر عالم کسی دوسرے عالم کے حق میں گواہی دے تو یہ شاید سب سے اونچی شہادت ہے‘‘۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

خلاف گواہی اس لئے قابل قبول نہیں کہ اس میں حسد کا عنصر غالب ہو سکتا ہے اور تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ امام اعظم کے زمانے سے حسد کا عنصر چلا آ رہا ہے۔ ہزاروں علماء امام اعظم کے خلاف گواہی دیتے تھے، آپ پر شیعہ، مرجئہ ہونے کا الزام لگا۔۔۔ امام شافعی پر مرجئہ کا الزام لگا۔۔۔ امام مالک پر الزامات لگے اور انتہا درجہ کی بدسلوکی کی گئی۔۔۔ وہ امام مالک جنہیں ہر رات تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوتی اور جو اپنی 86 سالہ زندگی میں ایک مرتبہ صرف فرض حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ گئے، اس لئے کہ مدینے سے نکلنا گوارہ نہ تھا اور خواہش تھی کہ یہیں موت آئے، یہ نہ ہو کہ مدینہ سے نکلوں اور موت آپہنچے اور مدینہ میں دفن ہونے کی سعادت سے محروم رہ جاؤں۔۔۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کے لحاظ سے امام مالک کا یہ مقام تھا کہ اگر کوئی سائل آپ کے پاس آتا تو خادمہ بھیج کر اسے پوچھتے کہ اس نے فقہ کا مسئلہ پوچھنا ہے یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا، اگر اس نے فقہ کا مسئلہ پوچھنا ہوتا تو وضو تازہ کر کے آتے اور اگر اس نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوچھنی ہوتی تو اس کو مسجد میں انتظار کرواتے اور خود غسل کر کے، نئے کپڑے پہن کر، خوشبو لگا کر جاتے کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتانی ہے۔۔۔ تنقیدیں کرنے والے نجانے خود وضو میں بھی رہتے ہیں یا نہیں مگر ائمہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ علم کا تقدس کیا ہے۔۔۔؟ علم کا مرتبہ کیا ہے۔۔۔؟

امام اعظم، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل اور امام بخاری رحمہم اللہ اور دیگر ائمہ کی مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ تاکہ لوگ سمجھیں کہ ہمارے ہاں کسی امام کے لئے تعصب نہیں ہے۔ ہم سب اکابر ائمہ کے جوتوں کے جوڑے اپنے سر پر تاج بنا کر رکھتے ہیں۔ میں امام اعظم کا مقلد ہوں، حنفی ہوں مگر سارے امام ہمارے سر کا تاج ہیں، سب حق پر ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

دنیا میں جتنے حاسدین، معاندین، الزام لگانے والے امام اعظم ابوحنیفہ کے ہیں، تاریخ اسلام میں اتنے کسی کے خلاف نہیں ہوئے۔ اگر صرف الزامات لگنے پر ہی چیزوں کو رد کر دیا جائے اور ہر الزام کو درست سمجھا جانے لگے تو 14 سو سال گزرنے کے باوجود امت کا اتنا بڑا حصہ امام اعظم کا مقلد نہ ہوتا۔۔۔ امام احمد بن حنبل پر الزامات لگے، آپ کو کوڑے لگائے گئے۔

بتانے کا مقصد یہ ہے جس کو جو بات پہنچی، اس نے اس پر رائے قائم کر دی، رائے قائم کرنے میں بھی احتیاط کی ضرورت تھی، اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کو غیر معمولی احتیاط کے ساتھ محفوظ کرنا تھا۔ اہل علم کا شیوہ یہ ہے کہ وہ مکمل تحقیق کے بغیر بات نہیں کرتے۔

پس امام بخاری و مسلم اہل بدعت راوی کی روایت کو بھی صادق و عادل ہونے کی بناء پر قبول کر لیتے۔۔۔ ضعیف کی آخری دو اقسام / اسباب درج ذیل ہیں :

1۔کذب کی تہمت کا لگنا 2۔جھوٹا ہونا

پس یہ ضعیف کی دس اقسام عدالت و ضبط کے حوالے سے ہیں۔ اگر پوری سند میں ایک راوی کذاب ہوا تو وہ سند موضوع کہلائے گی۔ ممکن ہے وہ مضمون / متن دوسری کتب میں دیگر اسانید کے ساتھ بھی آیا ہو۔ اس لئے حدیث کا مضمون موضوع نہیں ہوا بلکہ سند موضوع ہوئی ہے۔ اسی طرح اگر اتہام کذب ہوا، کذب کی تہمت لگی تو وہ حدیث متروک کہلائی۔ پس 15 اقسام ضعف میں سے 2 اسباب صرف ایسے ہیں جو حدیث کو بالکل مردود کر دیتے ہیں باقی 13 اسباب ایسے ہیں جن کو علاج کے ذریعے مقبول کر کے اوپر لے جایا جاتا ہے اور وہ ضعیف ہو کر بھی بذریعہ علاج شواہد و توابع مقبول ہو جاتی ہے۔

اس بحث سے ضعیف کی حقیقت واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے۔۔۔ ائمہ نے ضعیف کی 49 اور 72 اقسام بھی بیان کی ہیں، تھوڑے تھوڑے فرق سے قسمیں بنتی چلی گئیں۔ کسی نے بہت زیادہ احتیاط کی تو منکر کو بھی مردود میں شامل کیا، جس طرح علامہ ذہبی نے ’’مطروح‘‘ کی ایک قسم متعارف کروائی۔ پس کسی نے 2 اسباب کی وجہ سے مردود کر دی اور کسی نے بہت زیادہ وسعت سے کام لیا تو تیسری قسم منکر کو بھی شامل کر لیا۔ وگرنہ اکثر تیسری قسم کو بھی شمار نہیں کرتے۔

موضوع فقط سند کے ذریعے نہیں بلکہ اگر اس حدیث کا متن احکام شریعت و اصول شریعت کے خلاف نہیں ہے تب بھی ائمہ موضوع کا حکم لگانے میں توقف کرتے ہیں اور دوسری اسانید کو دیکھنے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں کہ شاید دوسری اسانید کے ذریعے اس کو تقویت مل جائے اور یہ ضعیف یا موضوع سے نکل جائے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔