Pages

Thursday, 9 February 2017

قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ ایک اسلامی فلاحی مملکت چاہتے تھے

قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ ایک اسلامی فلاحی مملکت چاہتے تھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عالم اسلام ایک قوم ہے اور غیر مسلم ایک الگ قوم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، اس کے علاوہ کوئی تیسری قوم دین اسلام میں اور مسلمانوں کے نزدیک دنیا میں وجود نہیں رکھتی اور یہی نظریہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کا باعث بنا اور اس دو قومی نظریہ سے ہندوستان کے مسلمانوں کو روشناس کروانے والی شخصیت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ تھی اور یہی نظریہ قائد اعظم محمد علی جناح  کو پاکستان کے خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے مسلسل ثابت قدم رکھے ہوئے تھا۔ 11 جنوری، 1938 کو گیا ریلوے سٹیشن بہار پر ایک بہت بڑے مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرا کر فرمایا''آج اس عظیم الشان اجتماع میں آپ نے مجھے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے کا اعزاز بخشا ہے۔ یہ جھنڈا در حقیقت اسلام کا جھنڈا ہے، کیونکہ آپ مسلم لیگ کو اسلام سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ بہت سے لوگ بالخصوص ہمارے ہندو دوست ہمیں غلط سمجھے ہیں۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ یہ جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے تو وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں، حالانہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔ اسلام ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات دیتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ اس میں قوانین، فلسفہ اور سیاست سب کچھ ہے۔ درحقیقت اس میںوہ سب کچھ موجود ہے جس کی ایک آدمی کو صبح سے رات تک ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو ہم ایک اسے ایک کامل لفظ کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ ہمارا کوئی غلط مقصد نہیں، بلکہ ہماری اسلامی ضابطہ کی بنیاد آزادی، عدل و مساوات اور اخوت ہے''۔ اس کے بعد آپ 6 مارچ 1946ء کو فرماتے ہیں''ہمیں قرآن پاک، حدیث شریف اور اسلامی روایات کی طرف رجوع کرنا ہو گا جن میں ہمارے لیے مکمل رہنمائی ہے، اگر ہم ان کی صحیح تجرمانی کریں اور قرآن پاک پر عمل پیرا ہوں۔'' دانشوروں، روشن خیالی کے حامل افرادقائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی جس تقریر کا حوالہ بطور سیکولر ازم دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ''آپ آزاد ہیں، آپ کو اپنے معبودوں میں جانے کی اجازت ہے، پاکستان کی اس ریاست میں آپ کو اپنی مساجد یا کوئی بھی دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی اجازت ہے''۔ اور یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس کو غلط رنگ دیا گیا ہے، مذہبی آزادی سب کو ہوتی ہے لیکن حکم صرف اللہ تعالیٰ کا اور دین صرف اسلام ہی نافذ ہوتا ہے۔ یہ بات پاکستان میں اقلیتوں کے ان حقوق اور مذہبی آزادی کیلئے کہے تھے جو اسلام نے ایک مسلم ریاست میں لازمی قرار دیے ہیں۔ یہ حلقہ اس بات کی جو تعبیر کرتا ہے، قائد اعظم نے خود اس کی نفی کر دی تھی۔25 جنوری 1947ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم  نے دو ٹو ک انداز میں فرمایا تھا''اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لئے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابل عمل تھے''۔قائد اعظم نے وفات سے چند روز قبل فرمایا''تم جانتے ہو کہ جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے، تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے۔ یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کر سکتا تھا، میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے''۔ ''ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے، جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں۔ (اسلامیہ کالج پشاور جنوری 13، 1948)'' ماہ فروری 1948کو قائد اعظم نے ریڈیو پاکستان پر اپنے کے خطاب میں یہ ہی فرمایا تھا کہ ، ْپاکستان کا آئین ابھی پاکستان کی قومی اسمبلی کو بنانا ہے۔ مجھے نہیں معلوم اسکی شکل و شباہت کیا ہوگی۔ مجھے یہ یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جو اسلام کے اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ جو آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح آج سے تیرہ سوسال قبل قابل عمل تھے۔ اگر ہم قائد اعظم  کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالیں تو کئی واقعات ملتے ہیں جن سے ان کی اسلام دوستی اور مذہب سے محبت چھلکتی ہے۔ ہم نے قائداعظم کی ہر سوانح عمری میں یہ واقعہ پڑھا ہے کہ جب وہ لندن میں بیرسٹری کیلئے داخلہ لیناچاہتے تھے تو انہوں نے لنکزان کو اپنی درسگاہ کے طورپر اس لیے منتخب کیا کہ لنکز ان میں دنیا کے عظیم ترین آئین یا نظام قانون دینے والوں(Greatest Law Givers) کی فہرست میں ہمارے نبی آخر الزمان حضرت محمدۖ کا نام گرامی بھی شامل تھا۔چنانچہ قائداعظم  نے اس سے متاثر ہوکر لنکز ان میں داخلہ لیا اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ 1918ء میں انہوں نے بمبئی کی ممتاز شخصیت سرڈنشا کی بیٹی رتی سے شادی کی تو شادی سے قبل قبول اسلام کی شرط رکھی۔ محمد علی جناح رتی ڈنشا کو مولانا نورانی کے سگے تایا مولانا نذیراحمد صدیقی کے پاس لیکر گئے جنہوںنے انہیں مسلمان کیا اور ان کا نکاح قائداعظم سے پڑھوایا۔ ایک دفعہ کسی صاحب نے محض شرارت کرنے اورمسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کیلئے قائداعظم  سے یہ سوال پوچھا تھا کہ آپکا تعلق سنی فرقے سے ہے یا شیعہ فرقے سے؟ تو قائداعظم  کا جواب تھا کہ ہادی اسلام حضور نبی کریم کا مذہب کیا تھا؟ یہ جواب ان کی سوچ، شخصیت اور مذہبی ر جحان کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کو ایک آزاد مملکت دلانے والی عظیم شخصیت قائد اعظم محمد علی جناح آج سے135سال قبل پیدا ہوئی انہی کی جدوجہد کی بنا پر بر صغیر کے مسلمان" قوم" کہلائے۔64سال پہلے قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں ہندوؤں اور انگریزوں کے تسلط سے آزادی دلائی۔آج ہم ایک جوہری طاقت بھی ہیں لیکن یہ بات کس قدر تشویش ناک ہے کہ ہم اقوام عالم میں اب تک معزز اور محترم مقام حاصل نہ کر سکے۔کیا ہم ایک قوم ہیں یا گروبندی کا شکار ہجوم! ہمیں یہ بھی جائزہ لینا چاہیے کہ پاکستانی قوم کے راہنماؤں میں قائداعظم جیسی اصول پسندی اور کردار کی عظمت کس حد تک موجود ہے۔ مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں ہو چکا تھا لیکن وہ مسلمانوں کو متحد کرنے میں ناکام تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے جب مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی تو مسلمانان ہند ایک قوم کہلانے لگے۔ مایوس تھے تو علیحدہ ووٹ کا حق مانگتے تھے۔پر امید ہوئے تو علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنے لگے۔جو کل تک جنوبی ایشیاء میں محکوم اقلیت سمجھے جاتے تھے وہ اسکے چوتھائی حصہ کے حکمران بن گئے۔سات سال کے عرصے میں وہ تحریک جسے دیوانگی، خام خیالی اور محض شاعری کہا جاتا تھا۔ مردانگی، پختہ کاری اور نثر میں لکھی ہوئی تاریخ بن گئی۔محمد علی جناح کی پر عزم اور با تدبیر قیادت کی وجہ سے 14اگست1947ء کو اقوام عالم میں سب سے بڑی اسلامی مملکت دنیا پر ابھری۔ قائد اعظم عزم صمیم اور قوت ارادی کے ایسے پیکر تھے جس کے سامنے ہندوؤں اور انگریزوں کی ایک نہ چلی۔سر آغا خان کہتے ہیں کہ ان تمام سیاستدانوں میں جنہیں میں جانتا ہوں' کلینو، لائیڈجارج، چرچل، کرزن، مسولینی، مہاتما گاندھی،قائداعظم انکے مقابلے میں سب سے عظیم ہیں۔ ان میں سے کوئی شخص بھی کردار کی مضبوطی کے لحاظ سے ان سے بہتر نہیں ہے۔قائد اعظم کے کردار سے واقف ہر شخص کا کہنا ہے کہ قائد اعظم کے قول و فعل میں کہیں تضاد نہ تھا۔یہی میرے قائدکا کر دار تھا اس بات سے انکا بڑے سے بڑا مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔