Pages

Friday, 24 February 2017

آج کے پر فتن دور میں قرآن کریم کے بے شمار غلط تراجم ہیں کچھ کی نشاندہی(حصّہ دوم)

آج کے پر فتن دور میں قرآن کریم کے بے شمار غلط تراجم ہیں کچھ کی نشاندہی(حصّہ دوم)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
الرحمٰن ہ علم القرآن ہ خلق الانسان ہ علمہ البیان ہ
(پارہ 27 سورۃ الرحمٰن آیت 1 تا 4 )
ترجمہ :: رحمٰن نے سکھایا قرآن ، بنایا آدمی ، پھر سکھائی اس کو بات ( شاہ عبد القادر )
ترجمہ :: رحمٰن نے سکھایا قرآن ، پیدا کیا آدمی کو ، سکھایا اس کو بولنا۔ ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ :: خدا آموخت قرآن را ، آفرید آدمی راوآمو ختش سخن گفتن- ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ ::*خدائے رحمٰن ہی نے قرآن کی تعلیم دی ، اس نے انسان کو پیدا کیا ۔ اس کو گویائی سکھائی -( عبد الماجد دریا بادی دیوبندی )
ترجمہ : جنوں اور آدمیوں پر خدائے رحمان کے جہاں اور بےشمار احسانات ہیں ازاں جملہ یہ کہ اسی نے قرآن پڑھایا اسی نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کو بولنا سکھایا ۔( ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی)
ترجمہ :*رحمٰن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا ، انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا ، ماکان و مایکون کا بیان انہیں سکھایا۔( اعلٰی حضرت )
مندرجہ بالا تراجم کو غور سے پڑھئے، پھر اعلٰی حضرت کے ترجمہ کا بغور مطالعہ فرمائیں-
آیت نمبر 2 میں لفظ علم آیا- جو متعدی بدومفعول ہے- تمام تراجم میں رحمٰن نے سکھایا قرآن- سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس کو قرآن سکھایا- اس سے کس کو انکارہو سکتا ہے- خود قرآن شاہد ہے علمک مالم تکن تعلم اللہ نے آپ کو ہر چیز کا علم دیا جو آپ نے جانتے تھے-
آیت نمبر3 کا ترجمہ ہے آدمی کو پیدا کیا وہ کون انسان ہے؟ مترجمین نے لفظ بلفظ ترجمہ کر دیا- بعض تراجم میں اپنی طرف سے بھی الفاظ استعمال کئے گئے پھر بھی لفظ انسان کی ترجمانی نہیں ہو سکی- اب آپ اس ذات گرامی کا تصور کریں جو اصل الاصول ہیں جن کی حقیقت ام الحقائق ہے- جن پر تخلیق کی اساس رکھی گئی- جو مبد خلق ہیں، روح کائنات، جان انسانیت ہیں- اعلٰی حضرت فرماتے ہیں انسانیت کی جان محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو پیدا کیا- الانسان سے جب حضور سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شخصیت کا تعین ہو گیا تو ان کی شان کے لائق اللہ تعالٰی کی طرف سے تعلیم بھی ہونی چاہیئے- چنانچہ عام مترجمین کی روش سے ہٹ کر اعلٰی حضرت فرماتے ہیں، ماکان ومایکون کا بیان انہیں سکھایا-(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سوال—- اس جگہ گستاخ رسول ذہنوں میں ضرور سوال ابھرتا ہے کہ یہاں‘ ماکان و ما یکون کا بیان سکھانا‘ کہاں سے آ گیا- یہاں تو مراد ‘ بولنا سکھانا‘ ہے- یا یہ کہئے کہ قرآن کا علم دوسری آیت ظاہر کر رہی ہے تو اس چوتھی آیت مین اس کا ‘ بیان سکھابا ‘ مراد ہے-
جواب—- تو جواب اس کا یہ ہے کہ ماکان و مایکون ( جو کچھ ہوا اور جو کچھ قیامت تک ہو گا*) کا علم لوح محفوظ میں اور لوح محفوظ قرآن شریف کے ایک جز میں اور قرآن کا بیان ( جس میں ماکان وما یکون کا بیان بھی شامل ہے*) سکھایا- یہ تفسیری ترجمہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا کہ،
مگس کا باغ میں جانے نہ دینا—- کہ ناحق خون پروانوں کا ہو گا
مکھی کو باغ میں نہ جانے دو کہ یہ پھولوں کا رس چوس کر شہد و موم کا سبب بنے اور موم سے موم بتی اور موم بتی جب جلے گی تو پروانے جل کر قربان ہوں گے- اب بتائیے اعلٰی حضرت نے ترجمہ ( ماکان وما یکون کا بیان سکھایا) کیسا کیا*؟
میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ مذکورہ چار آیات کا ترجمہ متعدد بار پڑھیں- یقینًا آپ کے ایمان میں بے پناہ نکھار پیدا ہو گا اور عشق رسول میں آپ پر یقینًا ایک وجدانی کیفیت طاری ہو گی-
لا اقسم بھذا البلد ( پ30، سورۃ بلد، آیت 1)
ترجمہ) قسم کھاتا ہوں اس شہر کی اور تجھ کو قید نہ رہے اس شہر میں۔ ( شاہ عبدالقادر )
ترجمہ) قسم کھاتا ہوں میں اس شہر کی اور تو داخل ہونے والا ہے بیچ اس شہر کے۔ ( شاہ رفیع الدین)
ترجمہ) قسم می خورم بایں شہر ۔ ( اشرف علی تھانوی دیوبندی)
ترجمہ) میں قسم کھاتا ہوں اس شہر مکہ کی۔ ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی)
ترجمہ) میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔ ( محمود الحسن)
ترجمہ) ہم اس شہر مکہ کی قسم کھاتے ہیں۔ ( ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی)
ترجمہ) قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔ ( مودودی وہابی)
ترجمہ) مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔ (اعلٰی حضرت )
اللہ تعالٰی کھانے پینے سے پاک ہے
انسان قسم کھاتا ہے۔ اردو اور فارسی میں قسم کھائی جاتی ہے۔ اللہ تعالٰی کھانے پینے سے بے نیاز ہے مترجمین کرام نے اپنے محاورہ کا اللہ کو کیوں پابند کیا۔ کیا اس لئے کہ اس بےنیاز نے کچھ کھایا نہیں تو کم سے کم ہی کھائے۔ ایسی بھی کیا بے نیازی کہ کچھ نہیں کھایا، یا اس باریک مسئلہ کی طرف عام مترجمین کی توجہ نہیں۔ اعلٰی حضرت نے کس خوش اسلوبی سے ترجمہ فرما دیا۔ مجھے اس شہر کی قسم۔
ایاک نعبد و ایا ک نستعین (پ1، سورۃ فاتحہ، آیت4) ترجمہ) ترامی پر ستم واز تومدمی طلہم (شاہ ولی اللہ )
ترجمہ)ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ( فتح محمد جالندھری)
ترجمہ) تجھ ہی کو عبادت کرتے ہیں ہم اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ہم۔ ( شاہ رفیع الدین محمود الحسن دیوبندی)
ترجمہ) ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے درخواست اعانت کرتے ہیں۔ ( اشرف علی تھانوی دیوبندی)
ترجمہ) ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں۔ ( اعلٰی حضرت )
دعاء
سورہ فاتحہ، سورۃ الدعا ہے۔۔۔۔ دعا کے دوران دعائیہ کلمات کہے جاتے ہیں۔ خبر نہیں دی جاتی۔ جب کہ تمام تراجم میں خبر کا مفہوم ہے دعا کا نہیں اور ظاہر ہے عبادت کرتے ہیں۔ مدد چاہتے ہیں۔ دعائیہ کلمات نہیں ہیں یہ کلمات خبر کے ہیں جب کہ اعلٰی حضرت نے دعائیہ کلمات سے ترجمہ کیا ہے-

یا ایھا النبی (پارہ 10 سورہ انفال آیت 64 )
ترجمہ : اے نبی ( شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : اے نبی ( عبد الماجد دریا بادی دیوبندی )
ترجمہ : اے پیغامبر ( شاہ ولی اللہ)
ترجمہ : اے پیغمبر ( ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی )
ترجمہ : اے نبی ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : اے نبی ( اشرف علی تھانوی دیوبندی )
ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے ( اعلٰی حضرت )
قرآن کریم میں لفظ رسول اور نبی متعدد مقامات پر آیا ہے ، مترجم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا ترجمہ کرے ، رسول کا ترجمہ پیغمبر تو ظاہر ہے مگر نبی کا ترجمہ پیغمبر نامکمل ہے ، اعلٰی حضرت لفظ نبی کا ترجمہ اس اسلوب سے کیا ہے کہ لفظ کی معنویت اور حقیقت آشکار ہوکے سامنے آگئی ، مگر افسوس بعض لوگوں کو اس ترجمہ بہت صدمہ ہوا ہے کہ ان کی تنگ نظری اور بد عقیدگی کا جواب ترجمہ اعلٰی حضرت سے ظاہر ہوگیا۔
مفردات امام راغب میں ہے
والنبوۃ سفارۃ بین اللہ و بین ذوی العقول من عبادہ لا زاحۃ علتھم فی امر معادھم و معاشھم والنبی لکونہ منبا بما تسکن الیہ العقول الزکیۃ و ھو یصح ان یکون فعیلا، بمعنی فاعل لقو لہ بناء عبادی الخ۔
( نبوت اللہ تعالٰی اور اس کے ذوی العقول بندوں کے درمیان سفارت کو کہتے ہیں تاکہ ان کی تمام آخرت اور دنیا کی معاشی بیماریوں کو دور کیا جائے اور نبی خبر دیا ہوا ہوتا ہے ایسی باتوں کا جن پر صرف عقل سلیم اطمینان کرتی ہے اور یہ لفظ اسم فاعل بھی صحیح ہے اس لئے کہ بناء کا حکم آیا ہے۔)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ترجمہ : شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ( شاہ عبد القادر )
ترجمہ : شروع کرتا ہوں میں*ساتھ نام اللہ بخشش کرنے والے مہربان کے ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ :* شروع اللہ نہایت رحم کرنے والے کے نام سے ( عبد الماجد دریا بادی دیوبندی )
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان نہایت رحم والے ہیں ( اشرف علی تھانوی دیوبندی )
ترجمہ : اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا ( اعلٰی حضرت )
تمام اردو تراجم ملاحظہ کیجیے ۔۔۔۔۔ سب نے اسی طرح ترجمہ کیا ہے شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے یا شروع ساتھ نام اللہ کے ۔ چنانچہ مترجم کا قول خود اپنی زبان سے غلط ہوگیا ، کیونکہ شروع کرتا ہوں سے ترجمہ شروع کیا ہے اللہ کے نام سے شروع نہیں کیا ، اس پر طرّہ یہ کہ جناب اشرف تھانوی صاحب نے آخر میں ہیں بڑھادیا ان کے تلامذہ یا معتقدین بتائیں کہ ہیں کس لفظ کا ترجمہ ہے ۔ فافھم
وما اھل بہ لغیر اللہ (پ 2 سورہ بقرہ ‘ آیت 173)
ترجمہ : اور جس پر نام پکارا اللہ کے سوا کا- (شاہ عبد القادر )
ترجمہ : اور جس جانور پر نام پکارہ جائے اللہ کے سوا کسی اور کا- (محمود الحسن )
ترجمہ : اور جو کچھ پکارا جاوے اوپر اس کے واسطے غیر اللہ کے – ( شاہ رفیع الدین)
ترجمہ : وا آنچہ نام غیر خدا بوقت ذبح او یادکردہ شود-(شاہ ولی اللہ)
ترجمہ : اور جو جانور غیر اللہ کے لئے نا مزد کر دیا گیا ھو-(عبد الماجد دریا بادی دیو بندی )
ترجمہ : اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ھے – ( اشرف علی تھانوی دیو بندی )
ترجمہ : اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا ھو- (اعلٰی حضرت )
کسی پر غیر خدا کا نام حرام نھیں ورنہ ھر چیز حرام ھو گی –
جانور کبھی شادی کے لئے نا مزد ہوتا ھے کبھی عقیقہ،ولیمہ،قربانی، اور ایصال ثواب کے لئے مثلا گیارھویں شریف ، با رھویں شریف تو گویا ہر جانور جو ان مذکورہ ناموں پر نا مزد کیا گیا ہے وہ مترجمین کے نزدیک حرام ھے – اعلٰی حضرت نے حدیث و فقہ و تفسیر کے مطا بق ترجمہ کیا ‘‘جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا ھو‘‘ – اس ترجمہ سے وما اھل بہ لغیر اللہ کا مسئلہ واضح ھو گیا –
قران کریم کا تفسیری ترجمہ نہ کہ لفظی ترجمہ
اگر قران کریم کا لفظی ترجمہ کر دیا جائے تو اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوں گی – کھیں شان الوہیت میں بے ادبی ہو گی تو کہیں شان انبیاء میں اور کہیں اسلام کا بنیادی عقیدہ مجروح ہوگا ۔ چنانچہ آپ مندرجہ بالا تراجم پر غور کریں تو تمام مترجمین نے قرآنی لفظ کے اعتبار سے براہ راست اردو میں ترجمہ کیا ہے مگر اس کے با وجود تراجم کانوں پر گراں ہیں اور اسلامی عقیدے کی رو سے مذ ہبی عقیدت کو سخت صدمہ پہنچ رہا ہے ۔
کیا آپ پسند کریں گے ؟
کہ کوئی کہے ‘ اللہ ان سے ٹھٹھا کرتا ہے ، اللہ ان سے ہنسی کرتا ہے، اللہ ان سے دل لگی کرتا ہے ، اللہ انھیں بنا رہا ہے ، اللہ ان کی ہنسی اڑاتا ہے،-
آیت کر یمہ اللہ یستھزئ بھم ( پ 1 ، سورہ بقرہ، آیت ؛ 15 ) کا اکثر مترجمین نے یھی ترجمہ کیا ہے۔ ان میں مشھو ر ڈپٹی نذیر احمد صاحب دیو بندی ، شیخ محمود الحسن صاحب و فتح محمد جا لند ھری و عبد الماجد دیو بندی دریا بادی ، مرزا حیرت دہلوی ( غیر مقلّد) و نواب و حیدالزّمان، سر سیّد احمد صاحب علی گڑھی ( نیچری) ، حضرت شاہ رفیع الدین صاحب وغیرہ ھیں۔
اسی طرح ایک مشہور آیت ہے، ثم استوی علی العرش پ 8، سورہ الاعراف، آیت: 54- لفظ استوٰی قرآن کریم میں متعدد مقامات پرآیا ہے- اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ کیا ہے، پھر قائم ہوا تخت پر، (عاشق الٰہی) پھر قرار پکڑا اوپر عرش کے، (شاہ رفیع الدین ) پھر اللہ عرش بریں پر جا برا جا، ( ڈپٹی نذیر احمد )‘ پھر بیٹھا تخت پر‘ ( شاہ عبدالقادر ) ‘ پھر تخت پر چڑھا‘ ( نواب وحید الزّمان غیر مقلّد ) ‘ پھر عرش پر دراز ہو گیا‘ ( وجدی صاحب و محمد یوسف صاحب کا کوری )-
اسی طرح آیت فاینما تو لوا فثم وجہ اللہ پ1، سورہ بقرہ، آیت:115میں وجہ اللہ کا ترجمہ اکثر مترجمین نے کیا ہے۔ اللہ کا منہ، اللہ کا رخ- چنانچہ شاہ رفیع الدین صاحب نے ترجمہ فرمایا ہے، ‘ پس جدھر کو منہ کرو پس وہیں ہے منہ اللہ کا۔ اللہ کا چہرہ ہے۔ ( نواب و حید الزمان غیر مقلد و محمد یوسف صاحب ) ‘ ادھر اللہ ہی کا رخ ہے‘ ( شیخ محمود الحسن و عاشق الٰہی دیوبندی صاحبان، ومولانا اشرف علی صاحب تھانوی دیوبندی ) ‘ ادھر اللہ کا سامنا ہے ‘ ( ڈپٹی نذیر احمد و مرزا حیرت غیر مقلّد دہلوی و سیّد عرفان علی شیعہ ) مذکورہ بالا تمام تراجم پڑھنے کے بعد اعلٰی حضرت، عظیم البرکت کا ترجمہ دیکھئے کہ ہر سہ آیات میں سے کسی آیت کا انہوں نے اردو میں ترجمہ نہیں کیا۔ اس لئے کہ قرآنی الفاظ ‘ استوٰی ‘ – استھزا‘ – ‘ وجہ اللہ‘- کا ترجمہ کرنے کیلئے اردو میں ایسا کوئی لفظ نہیں کہ لفظی ترجمہ کر کے مترجم شرعی گرفت سے اپنے کو محفوظ کر سکے- لٰہذا اعلٰی حضرت نے بلفظہ ترجمہ فرمایا ہے-1: ‘ اللہ ان سے استہزا فرماتا ہے‘ ( جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے )- 2: پھر عرش پر استوار فرمایا‘ ( جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے ) 3: ‘ تو تم جدھر منہ کرو ادھر وجہ اللہ ہے‘ ( خدا کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہے )- اس سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا لفظی ترجمہ کرنا ہر موقع پر تقریباً نا ممکن ہے- ان مواقع پر ترجمہ کا حل یہ ہے کہ تفسیری ترجمہ کیا جائے تا کہ مطلب بھی ادا ہو جائے اور ترجمہ میں کسی قسم کا سقم باقی نہ رہے۔ اعلٰی حضرت کے ایمان افروز ترجمہ کہ خوبیوں کو دیکھ کر یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ تمام تراجم قرآن میں ایک معیاری ترجمہ ہے جو ترجمہ کی غلطیوں سے مبرّا ہے۔ ( دیگر مترجمین نے خالق کو مخلوق کے درجے میں لا کھڑا کیا )۔

دغا با زی ، فریب ،دھوکہ، اللہ کی شان کے لائق نہیں
انٌ للمنافقین یخا دعون اللہ وھو خا دعھم (پ 5، سورہ نسآء،آیت : 142 )
منافقیں دغا بازی کرتے ھیں اللہ سے اور اللہ بھی ان کو دغا دے گا ۔ ( ترجمہ عاشق الٰہی میر ٹھی ، شاہ عبد القادر صاحب، مولانا محمود الحسن صاحب)
اور اللہ فریب دینے والا ھے ان کو -(شاہ رفیع الدین صاحب)
خدا ان ھی کو دھوکہ دے رھا ھے۔ ( ڈپٹی نذیر احمد صاحب )
اللہ انھیں کو دھوکہ میں ڈالنے والا ھے۔ ( فتح محمد صا حب جا لندھری )
وہ ان کو فریب دے رہا ہے۔ ( نواب وحید الزّمان غیر مقلّد و مرزا حیرت غیر مقلّد دہلوی و سیٌد عرفان علی شیعہ )
دغا بازی، فریب، دھوکہ، کسی طرح اللہ کی شان نھیں ھے۔
lعلٰی حضرت نے تفسیری ترجمہ فرمایا،
بے شک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دیا چاھتے ھیں اور وھی ان کو غا فل کرکے مارے گا۔
تفا سیر قرآن کے مطالعے بعد اندازہ ھوتا ھے کہ اس ترجمہ میں آیت کا مکمل مفہوم نہایت محتاط طریقہ پر بیان کیا گیا ھے۔ یہ لفظی ترجمہ نہیں بلکہ تفسیری ترجمہ ہے۔
قل اللہ اسرع مکرًا (پارہ 11 سورہ یونس آیت 21)
کہہ دو اللہ سب سے جلد بناسکتا ہے حیلہ ( شاہ عبدالقادر ، فتح محمد جالندھری دیوبندی ، محمودالحسن صاحب دیوبندی ، عاشق الٰہی دیوبندی میرٹھی)
کہہ دو اللہ بہت جلد کرنے والا ہے مکر ۔ (شاہ رفیع الدین )
اللہ چالوں میں ان سے بھی بڑا ہوا ہے ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی )
کہہ دے اللہ کی چال بہت تیز ہے ( نواب وحید الزّمان غیرمقلّد )
صفت مکر (اردومیں ) اللہ تعالٰی کی شان کے لائق نہیں ۔
ان آیات کے ترجمہ میں اللہ تعالٰی کے لئے مکر کرنے والا، چال چلنے والا، حیلہ کرنے والا کہاگیا ہے ، حالانکہ یہ کلمات کسی طرح اللہ کے شان کے لائق نہیں ، اعلٰٰی حضرت نے لفظی ترجمہ فرمایا ہے۔ پھر بھی کس قدر پاکیزہ زبان استعمال کی ہے- فرماتے ہیں
تم فرمادو اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے جلد ہوتی ہے
نسوا اللہ فنسیھم (پ 10 ، سورہ توبہ،آیت 67،)
یہ لوگ اللہ کو بھول گئے اور اللہ نے ان کو بھلا دیا۔( فتح محمد دیو بندی جا لندھری ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی)
وہ اللہ کو بھول گئے اللہ ان کو بھول گیا۔ ( شاہ عبد القادر صا حب ، شاہ رفیع الدین صاحب ، شیخ محمود الحسن دیو بندی )
اللہ تعالٰٰی کے لئے بھلا دینا،بھول جانے کے لفظ کا استعمال اپنے مفہوم اور معنٰی کے اعتبار سے کسی طرح درست نہیں ہے ، کیونکہ بھول سے علم کی نفی ہوتی ہے اور اللہ تعالٰی ہمیشہ عالم الغیب و الشہادۃ ہے۔ مترجمین کرام نے اس آیت کا لفظی ترجمہ کیا ہے جس کا نتیجہ ہر پڑھنے والے پر ظاہر ہے ۔ اعلٰی حضرت نے تفسیری ترجمہ فرمایا ہے ۔ فرماتے ہیں،وہ اللہ کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ نے انہیں چھوڑ دیا‘-(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
یہ چند مثالیں تقابلی مطالعہ کی قارئین کے سامنے پیش کی گئیں۔ اس کے علاوہ بھی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ اس مختصر سے مطالعہ کے بعد آپ نے ترجمہ کی اہمیت کو محسوس کر لیا ہو گا۔ اعلٰی حضرت فاضل بریلی بسا اوقات کسی ایک آیت کے ترجمہ کے لئے تمام مشہور تفاسیر قرآن کا مطالعہ کر کے مناسب و موزوں ترین ترجمہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ لفظ استہزا، استوی اور وجہ اللہ کا کوئی موزوں ترجمہ اردو میں نہیں کرسکے، اس لئے مجبوراً وہی لفظ ترجمہ میں بھی برقرار رکھے۔ یہ تقابلی مطالعہ صرف اس لئے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے کہ آپ ترجمہ قرآن کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ ورنہ غیر مناسب لفظی ترجمہ کی وجہ سے آپ کا ایمان خطرہ میں پڑ سکتا ہے یا کم از کم نیکی برباد گناہ لازم کا امکان تو بہت زیادہ ہے۔
https://www.facebook.com/sunniaqaid12/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔