آیئے شرک کی حقیقت کو سمجھیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بد قسمتی سے آج کے دور میں جہاں کچھ لو گوں نے طرح طرح کے افکار و نظریات کی بیج بو کر لو گوں کے ذہنوں میں عجیب و غریب قسم کے شکوک و شبہات پیدا کر دئے ہیں ،اسی طرح بنیادی عقائد کی بھی غلط تعبیر و تشریح کر کے امت کی اکثریت پر شرک و بدعت کا الزام لگا رکھا ہے ۔جس کی وجہ سے امت میں شدید ٹکرائو اور الجھائو کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔اس لئے یہاں پر شرک کی حقیقت قرآن ا ور احادیث صحیحہ کی روشنی میں پیش کی جاتی ہے۔اللہ تعالی سب کو ہدایت نصیب فر مائے۔(آمین بجاہ سید المر سلین)
:شرک کا معنی : لفظِ شرک ،’شرکت ‘سے بنا ہے۔جس کا معنی ہو تا ہے دو شخصوں کا کسی ایک چیز میں شر یک ہو نا۔جیسے کہا جا تا ہے زید اور بکر ایک تجارت میں شریک ہو ئے۔خالد اور عابد ایک مکان کے خر ید نے میں شر یک ہو ئے وغیرہ۔
شریعت کی زبان میں شرک کسے کہتے ہیں : قرآن و احادیث اور ائمہ علم الکلام کی تمام تر تفصیلات کا نچوڑ یہ ہے کہ۔اللہ تعالی کی ذات و صفات میں کسی کو شر یک ٹھہرانے کو شر ک کہتے ہیں ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اللہ تعالی کی ذات میں کسی کو شر یک ٹھہرانے کا کیا مطلب ہو تا ہے : اللہ تعالی کی ذات میں کسی کو شر یک ٹھہرانے کا مطلب یہ ہے کہ اسی کی طر ح کسی دوسری ذات کو مانے۔یعنی دو یا دو سے زائد خدا مانے جیسے کہ عیسائی تین خدا مانتے ہیں اور ہندو کئی خدا کے قائل ہیں۔اسی کا رد کرتے ہو ئے اللہ تعالی نے ارشاد فر مایا: قُلْ ھُوَ اللّٰہ اَحَدُٗ ۔ ائے محبوب!آپ لو گوں سے کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہی ہے۔ (سورہ اخلاص،آیت:۱)
اللہ تعالی کی صفات میں شر یک ٹھہرانے کا کیا مطلب ہو تا ہے : اللہ تعالی کی صفات میں شر یک ٹھہرانے کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ جیسے اللہ تعالی کی صفتیں علم،قدرت،اختیار،ما لکیت وغیرہ وغیرہ بغیر کسی کے دئیے اسے خود ذاتی طور پر حاصل ہے اُسی طر ح کسی دوسرے کے لئے ثابت کر نا ۔اور یہ کہنا کہ جس طر ح اللہ تعالی کو یہ صفتیں بغیر کسی کے دئیے اُسے ذاتی طور پر حاصل ہے اُسی طر ح فلاں شخص کو بھی حاصل ہے۔تو یہ صفات میں شر یک ٹھہرانا ہے ۔اور اس کی وجہ سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جا تا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ہاں! اگر دوسرے کے لئے اس طور پر مانے کہ فلاں فلاں صفات اسے اللہ تعالی کی عطا سے حاصل ہے تو یہ شر ک نہیں ۔کیو نکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو بہت ساری صفا ت عطا کی ہے۔جو قرآن کے مطالعہ کر نے والوں سے مخفی نہیں ۔یہاں بطور نمونہ کے ایک مثال پیش کی جا تی ہے۔اللہ تعالی نے ایک جگہ اپنے بارے میں ارشاد فر مایا:اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعََا بَصِیْراََ۔(سورہ نسائ،آیت:۵۸)بے شک اللہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔اوردوسری جگہ عام لو گوں کے بارے میں فر مایا:فَجَعَلْنٰہٗ سَمِیْعاََ بَصِیْراََ۔(سورہ دھر،آیت:۲) تو ہم نے اسے (یعنی انسانوں کو )سننے اور دیکھنے والا بنایا۔
تو سننا اور دیکھنا اللہ تعالی کی صفت ہے اور بندوں کی بھی صفت ہے مگر فرق یہ ہے کہ اللہ تعالی کو یہ صفت بغیر کسی کے دئیے اسے خود حاصل ہے اور بندو ں کو اس کے دینے سے حاصل ہے۔لہذا اگر بندے کو’’سمیع و بصیر‘‘یعنی دیکھنے اور سننے والا مانا جائے اس طرح کہ یہ صفتیں اللہ تعالی نے اسے عطا کی ہے ۔لہذا وہ سمیع اور بصیر ہے ۔تو یہ شر ک نہیں۔اس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سارے لوگ غلط فہمی کے شکار ہو جاتے ہیں اور پھر کفر و شرک کے فتوے کا بازار گرم کر کے امت میں انتشار و افتراق پھیلا تے ہیں ۔اس لئے اس کو ذہن نشین کر لینا ضروری ہے۔
کیا شرک کر نے کا گناہ معاف ہو سکتا ہے : اگر توبہ کر کے صحیح عقا ئد کو اختیار کر لے تو معاف ہو سکتا ہے۔لیکن اگر اس سے تو بہ کئے بغیر مر گیا تو ہر گز معاف نہ ہو گا ۔چنا نچہ ارشاد ربانی ہے’’اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہ وَ یَغْفِرَ ماَ دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئَ۔(سورہ نسائ،آیت:۴۸)بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ جوبھی گناہ ہو جس کے لئے چا ہتا ہے بخش دیتا ہے۔ اور دوسری جگہ ارشاد فر مایا :اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِ کْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰہٗ النَّا رُ وَماَ لِلظَّلِمِیْنَ مِنْ اَنْصاَرِِ۔(سورہ مائدہ ، آیت :۷۲) بلا شبہ جو اللہ کے ساتھ شر ک کرتا ہے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دیا اور اس کا ٹھکانا جھنم ہے اور ظالموں کا کو ئی مدد گار نہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اعتراض : نفع و نقصان اور ہدایت و گمراہی بلکہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالی ہی ہے اورہر چیز اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے ۔چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فر ماتا ہے:بِیَدِہِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْ ئِِ ۔(سورہ مومنون،آیت:۸۸) اسی کے دست قدرت میں ہر چیز کی ملکیت ہے۔:قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرََّا وَّ لاَ نَفَعاََ۔وَاللّٰہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔(سورہ مائدہ،آیت:۷۶)اے محبوب!آپ فر ما دیجئے کیا تم اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے کسی نقصان کا مالک ہے اور نہ نفع کا اور اللہ ہی خوب سننے اور جاننے والا ہے۔قُلْ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرَّا وَّلَا رَشَداََ۔(سورہ جن، آیت : ۲۱ ) آپ فر مادیں میں تمہارے لئے نہ تو نقصان(یعنی کفر)کا مالک ہوں اور نہ بھلائی(یعنی ایمان) کا۔ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئِِ قَدِیْرُ ٗ۔(سورہ حج،آیت:۶)یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ اللہ ہی سچا (خالق اور رب ہے)اور بے شک وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور یقینا وہی ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔
اس کے علاوہ اور بے شمار آیات کر یمہ ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے علاوہ دوسرا کو ئی نفع و نقصان کا مالک نہیں اس کے علاوہ اور کو ئی مالک و مختار نہیں وغیرہ ۔ تو اب کو ئی کسی دوسرے کو نفع و نقصان کا مالک سمجھے۔ اسے مصیبت میں پکارے،اغثنی یا رسول اللہ کہے،یا علی مشکل کشا ‘‘کہے ، ’یا غوث المدد‘ کا نعرہ لگائے۔تو کیا یہ شر ک نہیں؟
جواب : ارشاد باری تعالی ہے۔وَ رَسُوْلاََ اِلٰی بَنِیْ اِسْراَ ئِلَ اِنِّیْ قَدْ جِئْتَکُمْ اَنَّیْ اَخْلَُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْراََ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُبْرِیئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتیٰ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ اُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَاْکُلُوْنَ وَمَا تَدََّخِرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ،اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰ یَۃََ لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّوئْ مِنِْیِْنَ۔ اور وہ(یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام) بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا (ان سے کہے گا)بے شک میں تمہارے پاس تمہارے رب کے پاس سے ایک نشانی لے کے آیا ہوں۔میں تمہارے لئے مٹی سے پر ندے کی شکل جیسا (ایک پتلا)بناتا ہوں ۔پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اللہ کے حکم سے فورا اڑنے والا پر ندہ بن جا تا ہے اور میں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفا یا ب کر تا ہوں۔ اور میں اللہ کے حکم سے مردے کو زندہ کر تا ہوں ۔اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کر تے ہو،میں تمہیں وہ سب کچھ بتا دیتا ہوں ۔بے شک اس میں نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔(سورہ آل عمران ، آیت : ۴۹) قَالَ اِنَّمَا اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَھْبَ لَکِ غُلٰماََ ذَکِیَّاَ۔حضرت جبر ئیل علیہ السلام نے حضرت مریم سے کہا :بے شک میں تمہارے رب کا فر ستادہ ہوں (اور اس لئے آیا ہوں )کہ میں تمہیں ایک صاف ستھرا بیٹا عطا کروں۔(سورہ مر یم، آیت: ۱۹ )۔وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْ اِلیٰ صِراَطِِ مُّسْتَقِیْمِِ۔ اور بے شک آپ سیدھے راستے کی طرف ہدایت عطا فر ماتے ہیں۔(سورہ الشوریٰ،آیت:۵۲)قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمُٗ مِّنِ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہِ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ۔اور جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا کہ میں اس کو(یعنی ملکہ بلقیس کے شاہی تخت کو) آپ کے پاس پلک جھپکنے سے پہلے لے آوں گا۔(سورہ نمل ، آیت:۴۰)
اعتراض و جواب میں جو آیات کر یمہ پیش کی گئیں ہیں اس کو دوبارہ پڑ ھ لیں ۔اعتراض میں مو جود آیات کر یمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا کو ئی خالق و مالک نہیں جو عا لم میں تصرف کر سکے۔ کسی کو زند گی اور موت دے سکے ،کسی کو اولاد دے سکے وغیر ہ وغیرہ۔مگر بعد والی آیات میں ہے کہ حضرت عیسیٰ نے کہا میں پر ندے میں پھو نک مار کر اسے زندگی دیتا ہوں ،مردوں کو زندہ کر تا ہوں اندھے اور سفید داغ والے کو شفا دیتا ہوں۔حضرت جبر ئیل علیہ السلام نے حضرت مر یم سے کہا :کہ میں آیا ہوں تا کہ میں تمہیں بیٹا عطا کروں۔حضور ﷺ کے بارے میں ارشاد ہوا کہ آپ سیدھے راستے کی طرف ہدایت عطا فر ماتے ہیں ،حضرت سلیمان علیہ السلام کے وزیر آصف بن بر خیا نے کہا :میں (تخت بلقیس جو یہاں سے سیکڑوں میل کی دوری پر ہے )پلک جھپکنے سے پہلے لا دوں گا۔وغیر ہ وغیرہ ۔ اب سو چئے !کسی میں جان ڈالنا ،کسی مردے کو زندہ کر دینا،کسی کو شفا دینا،پوشیدہ چیزوں کے بارے میں بتا دینا،بیٹا عطا کر نا ،کسی کو ہدایت دے دینا اور کسی دور پڑی ہو ئی چیز کو پلک جھپکنے سے پہلے لا دینا ،یہ سب تو اللہ ہی کی قدرت و اختیارمیں ہے ۔تو کیا اب یہ کہا جائے گا کہ حضرت عیسیٰ نے شر ک کیا؟حضرت جبر ئیل نے شرک کیا؟حضر ت آصف بن بر خیا نے شرک کیا؟بلکہ خود اللہ نے شرک کیاکہ اس نے اپنے محبوب کے بارے میں کہا :آپ ہدایت دیتے ہیں(نعوذ با للہ من ذالک بغیر حسا ب )۔یقینا ہر مسلمان کا جواب نفی میں ہو گا ۔مگر سو چنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ سب شر ک کیوں نہیں ؟کیا اس لئے کہ ان کے لئے شر ک کر نا جائز ہے؟یا اس لئے کہ یہ سب بلا شبہ اللہ ہی کے قدرت و اختیار میں ہے مگر جب اس نے اپنے فضل سے یہ قدرتیں اپنے بندوں کو عطا کی تو ان مقبولان بارگا ہ خداوند ی نے اس کا اظہارکیا ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اب ذرا ایک بات اور سوچئے۔ہر انسان اپنی روز مر ہ کی زندگی میں اس قسم کے الفا ظ بو لتا اور سنتا ہے۔یہ دوا بڑی فا ئدہ مند ہے،سانپ اور بچھو نقصاندہ جانور ہیں،فلاں اتنی زمین کا مالک ہے،فلاں کے پاس بڑی طاقت ہے وغیر ہ وغیرہ۔فائدہ پہونچانا،نقصان پہو نچانا،مالک ہو نا،طاقت والا ہونا یہ سب تو اللہ تعالی ہی کی صفت ہے۔تو کیا ایسا بو لنے سے انسان مشرک ہو جائے گا ؟اگر ہا ں کہا جائے تو پھر پوری دنیا میں کو ئی مسلمان ہی نہیں رہے گا۔لازماََ اس کا جواب نہیں ہو گا۔مگر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ سب جملے شر ک کیوں نہیں ؟صرف اس لئے کہ انسان کسی دوا ،جانور یا انسان کو نفع و نقصان کا مالک بالذات نہیں سمجھتا،بلکہ ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان خو بیوں کو ان کے اندر پیدا کیا ہے۔ تو یہ نقصان دینے والا ہے،وہ فائدہ پہونچانے والا ہے وغیرہ۔
للہ انصاف !کیا کو ئی مسلمان حضور ﷺ یا دنیا کے کسی بھی انسان کے بارے میں ایسا اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ بالذات نفع و نقصان کے مالک ہیں ،ہر دکھ اور غم کو دور کر نے پر مختار حقیقی ہیں،مشکلوں کو آسان کر نا بغیر اللہ کی عطا کے ان کی قدرت میں ہے۔نہیں ہر گز نہیں بلکہ مسلمان ایسا اعتقاد تو دور ،تصور بھی نہیں کر تا ہے۔اہل سنت و جماعت کا تو عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے محبوب بندوں کو اپنے فضل سے خاص طاقت و قدرت سے نوازا ہے جو عام لو گوں کو حاصل نہیں۔ اور وہ اپنی خدا داد طاقت کی بنیاد پر کسی کی مشکل کو آسا ن کر نے پر قادر ہیں ۔اس لئے ہم ،اغثنی یا رسول اللہ ﷺ،یا علی مشکل کشا ،یا غوث المدد کہتے ہیں ۔اور یہ ہر گز شرک نہیں۔بلکہ اسے ناجائز کہنا حقیقت میں انبیائے کرام اور اولیائے کرام کی فضیلت سے انکا ر کر نا ہے جس کا انجام جہنم ہے کیونکہ ان سب باتوںکا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بیان فر مایاہے۔
آخری بات:اس دنیا میں بس دو ہی حقیقتیں ہیں۔ایک جو نفع و نقصان کا سبب بنتی ہے اور دوسری جو نفع و نقصان کی مالک ہیں۔ مالک فقط اللہ تعالی ہے۔رہے اسباب تو وہ متعدد ہے ۔ڈاکٹر اور دوا فائدہ پہونچانے کا سبب ہے،اور زہر اور سانپ نقصان پہو نچانے کا سبب ہے۔اس اعتبار سے ڈاکٹر اور دوا کو مفید(فائدہ پہونچانے والا)کہنا ۔اور زہروسانپ کو نقصان پہو نچانے والا کہنا ہر گز شر ک نہیں ۔
اسی طر ح اللہ تعالی نے انبیائے کرام ،اولیا ئے کرام کو طاقت و قوت سے نوازا۔ لو گوں کے لئے فا ئدہ مند بنایا ،اپنے خاص فضل سے خاص قدرت عطا کی۔ تو اس لحاظ سے ان کو ’مشکل کشا ‘کہنا،دافع البلاء کہنا ہر گز شر ک نہیں ۔اور قرآن کر یم میں جہاں بھی دو سرے سے نفع و نقصان کی نفی کی گئی ہے وہاں بالذات نافع و مضر ہو نے کی نفی کی گئی ہے۔ کو ئی ایسی آیت نہیں جس میں انبیا ئے کرام اور اولیائے کرام کے نفع و نقصان کے سبب بننے سے نفی کی گئی ہے۔
اعتراض : اللہ تعالی ارشاد فر ماتا ہے:وَعِنْدَ ہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَا اِلَّا ھُوَ۔(سورہ انعام ،آیت:۵۹)اور غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ،انہیں اس کے سوا کو ئی نہیں جا نتا ۔اس آیت سے ظاہر ہوا کہ غیب اللہ کے سوا کو ئی نہیں جا نتا۔تو اب حضور ﷺ کے لئے غیب کا علم ماننا شر ک ہو گایا نہیں؟
جواب : شرک تو اس وقت ہو گا جبکہ ہم حضور ﷺکے لئے علم غیب کو اُسی طرح مانے جیسے اللہ کے لئے مانتے ہیں ۔اللہ تعالی کا علم ذاتی ،قدیم اور لا محدود ہے جبکہ حضور ﷺ کا علم عطائی ،حادث اور محدود ہے ۔پھر شر ک کیسا ؟رہی بات آیت کر یمہ کی تو یقینا اللہ کے سوا ذاتی طور پر کو ئی غیب نہیں جانتااور جو کسی کے لئے ذاتی طور پر غیب کا علم ثابت مانے وہ یقینا شرک کا مر تکب ہو گا ۔اور ہم ذاتی طور پر نہیں بلکہ اللہ کی عطا سے مانتے ہیں جس کا اظہار خود اللہ جل مجدہ نے یو ں کیا ہے۔’وَماَ ھُوَ عَلَے الْغَیْبِ بِضَنِیْنِ۔(سورہ تکویر،آیت:۲۴)اور یہ نبی غیب کی بات بتا نے پر بخیل نہیں۔
اعتراض : نذر، ایک عبادت ہے۔اور اللہ کے سوا کسی کی عبادت درست نہیں،تو مزاروں پر جا نااور اولیاء اللہ کے لئے نذر ماننا شرک ہے یا نہیں؟
جواب : بے شک نذر عبادت کے اقسام میں سے ایک قسم کی عبادت ہے جو غیر اللہ کے لئے جائز نہیں۔مگر مسلمان اولیا ء اللہ کی نذر نہیں مانتے وہ تو اللہ ہی کے لئے نذر مانتے ہیں مثلا وہ کہتے ہیں :اے اللہ !اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں تیرے فلاں ولی کی بارگاہ میں بیٹھے فقرا کو کھانا کھلا ئوں گا۔یہ مسلمانوں
کی اکثریت پر غلط الزام ہے جس کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں ۔ہاں اگر کو ئی اپنی جہالت و نادانی کے باعث اولیاء اللہ ہی کے لئے نذر مانے اور اپنے اس کام سے ان ہی کا تقرب چاہے تو اس کے غلط ہو نے میں کو ئی شبہ نہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اعتراض : عا بھی عبادت ہی ہے بلکہ عبادت کا مغز ہے پھر اولیاء اللہ سے دعا کر نا شرک ہے ۔
جواب : ہاں اگر کو ئی اولیا ء اللہ ہی کو حقیقتادعا قبول کر نے والا اور مراد کو پوری کرنے والا سمجھ کر ان ہی سے دعا مانگے تو بلا شبہ یہ شرک ہے۔مگر صرف ان کے وسیلے اور واسطے سے دعا اس اعتقاد کے ساتھ کرے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان کا عظیم مر تبہ ہے۔ تو پھر اس کا شرک سے کو ئی تعلق نہیں، بلکہ یہ انداز ہی شرک کو رد کر نے والا ہے۔کیو نکہ وسیلہ اور ذریعہ بننا یہ تو بندے ہی کی شان ہے ،اور اللہ کی ذات کسی کے یہاں وسیلہ اور ذریعہ نہیں، کیو نکہ اس سے بڑھ کر کسی کی ذات ہی نہیں جس کی بارگاہ تک پہو نچنے کے لئے اس کا وسیلہ پکڑا جائے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
انتباہ: آج کل کچھ لوگ ہر جائز ونا جائز کام کو شرک کہہ دیتے ہیں بلکہ حد یہ ہو گئی ہے کہ کچھ لوگ کہیں پر آنے اور جانے کو بھی شرک کہہ دیتے ہیں۔اور جب ان سے گفتگو ہونے لگتی ہے تو وہ طرح طرح کے بہانے اور تاویلیں کرنے لگتے ہیں۔مثلا وہ کہتے ہیں کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ہے۔پھر جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تو پھر آپ اپنے اداروں اور تنظیموں کے لئے صرف اللہ سے فنڈ کیوں نہیں مانگتے ؟لوگوں سے کیوں مدد لیتے ہیں ؟ تو اب وہ کہتے ہیں کہ زندوں سے مدد مانگنا شرک نہیں بلکہ مردوں سے مدد مانگنا شرک ہے۔
یاد رکھیں!جو چیز شر ک ہوتی ہے وہ ہر حال میں شرک ہوتی ہے جیسے اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا شرک ہے۔تو اب کوئی کسی زندہ کی عبادت کرے تب بھی شرک ہوگا اور کسی مردہ کی کرے تب بھی شرک ہوگا ،انسان کی کرے تب بھی شرک ،اور جانور کی کرے تب بھی شرک ہی ہوگا۔ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ زندہ کی عبادت کرے تو شرک نہیں اور مردہ کی کرے تو شرک۔جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ انتہائی درجے کے جاہل اور نادان ہیں اور ان کا اسلامی احکام و مسائل کی جانکاری سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے لوگوں کے فتنے سے محفوظ رکھے۔آمین۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔