Pages

Friday 24 February 2017

آج کے پر فتن دور میں قرآن کریم کے بے شمار غلط تراجم ہیں کچھ کی نشاندہی(حصّہ اوّل)

آج کے پر فتن دور میں قرآن کریم کے بے شمار غلط تراجم ہیں کچھ کی نشاندہی(حصّہ اوّل)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ھر طرح کی تعر یف ا س ذات کریم کی جس نے ایسا رؤف و رحیم رسول عطا فرما یا کہ جس کو سا ری ساری شب ھما ری مغفر ت کا سا ما ن کرنا مطلو ب اور ھمیں ھر آ ن آ رام و را حت میں دیکھنا محبو ب، پھر کروڑوں درود و سلام ھوں اُس رحمت للعا لمین پر کہ جس نے اپنے کرم سےہمیں قیا مت تک کےفتنوں سے بار بار آ گا ہ کیا – کبھی حضرت عثما ن بن طلحہ رضی اللہ تعا لی عنہ سے بیت اللہ کی چا بیا ں لینے دینے کے دوران فرما یا کے یہ چابیاں تیری اولاد میں تب تک رھیں گی کے جب تک ایک ظا لم جا بر حا کم اپنے ظلم کے سبب تیری ا ولا د سے نہ چھین لے تو کبھی یمن و شام کے لیے دعا فرما کر اور نجد کے لیے باوجود صحا بہ کے اصرار پر دعا نہ فرما کر ہمیں نجد یوں کے فتنو ں سے آ گاہ فرمایا اور فرمایا کہ نجد سے شیطا ن کے سینگ نکلیں گے اور فتنہ انگیز نجدیوں کی علا مت یہ بیان کی کہ وہ کفا ر کو چھو ڑ یں گے اور مسلما نو ں کو قتل کریں گے ( ہند کے نجدیوں کا بھی یہی حال رہا ، انگریز سے مخبری کرکے1857ء میں لاکھوں مسلمانوں کو پھانسی دلوائی 1947ء میں ہندؤں کا ساتھ دیا مسلمانوں سے غداری کی اور یہی حال ان نجدیوں کا افغانستان میں بھی ہے )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضو ر صل اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے عین مطا بق عرب پر نجدیوں کے قبضے کے بعد لا کھوں عوام و علماء اھل سنت کو قتل (شھید) کرنا اور نہرو کو دعوت دے کر بلا نا ‘ پھر امن کا پیغمبر و رسول ا لسلام کا لقب دینا ‘ یھودی بنکوں میں سنکھوں روپیہ جمع کر کے مسلمانوں کے دشمن یھودیوں کی مدد کرنا حضو ر انور صل اللہ ءلیہ وسلم کے ارشادات کی تصد یق کرتا ھے ۔

انتقام : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان خداد پیش گوئیوں کے انتقام میں نجدیوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادوں ، صاحبزادیوں ، ازواج مطہرات جن پر ہمارے ماں باپ قربان اور تمام جلیل القدر صحابہ کے مزارات کو مسمار کیا ( تمام دنیائے اسلام کے احتجاج پر کسی کسی قبر کا نشان بنادیا ، باقی قبور کو سڑکوں وغیرہ میں تبدیل کیا پاکستان میں دیوبندی بھی ایسا ہی چاہتے ہیں ) اور انہی نجدیوں نے تاج کمپنی سے حضور علیہ السلام کے نناوے اسماء قرآن شریف کے آخر میں شائع ہونے بند کرائے اور اب حال ہی میں گستاخ رسول وہابیوں نے امام اہلسنت کے ترجمہ القرآن پر پابندی لگاکر ( کہ جہاں ملے اُسے پھاڑ دو یا جلادو کا حکم صادر کرکے ) اپنی آتش حسد سرد کرنے اور مسلمانوں کے دلوں میں آگ بھڑکانے کی کوشش کی اور جو ان گستاخوں کے دلوں میں ہے وہ اس سے بھی کہیں زیادہ جن نجدیوں کو مسجد نبوی سے متصل حضور انور کا روضہ گوارا نہ ہو اور آئے دن اس کو منتقل کرنے کے منصوبے بناتے ہیں ۔ پھر اہلسنت کا ترجمہ ان کی آنکھوں میں کیوں نہ خار کی طرح کھٹکے ؟ اُن کو وہی علماء پسند ہیں جو بتوں کی آیات انبیاء اور اولیاء پر چسپاں کریں اور وہی تراجم ان کو پسند ہیں جن میں خیانت کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت مجروح کی گئی ہو ۔

قارین فیصلہ کریں : اس مضمون میں آپ اسی طرح کے تراجم قرآن اور اعلٰی حضرت مولا نا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے تراجم کی چند آیات کے ترجمہ کا مختصر تقابلی مطالعہ فرما کر فیصلہ کریں کہ کس کا ترجمہ ناقص اور کس کا درست ہے ۔

اعلٰی حضرت رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کے ترجمہ قرآن حکیم اور دیگراردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ : سیرت سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلّم سمجھنے کے لئے آپ کو قرآن مقدس کو سمجھنا ہو گا ۔

امام اہلسنت، مجدد ملت اعلٰی حضرت شاہ عبد المصطفٰے احمد رضا بریلوی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کا شجرہ نسب اس طرح ہے۔ عبد المصطفٰے احمد رضا خاں بن مولانا محمد نقی علی خاں ابن مولانا رضا علی خاں۔
آپ کی ولادت با سعادت بریلوی شریف کے محلہ جسولی میں 10شوال المکرم 1282 مطابق 14 جون 1856ء بروز ہفتہ بوقت ظہر ہوئی۔ آپ کا تاریخی نام المختار ہے۔ آپ نے اپنا سن ولادت اس آیت کریمہ سے نکالا۔
اولٰئک کتب فی قلوبھم الایمان ا ایدھم بروح منہ (پ 28، سورہ مجادلہ، آیت 22)
‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالٰی نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف کی روحانیت سے ان کی مدد فرمائی‘۔
آپ کے والد ماجد حضرت مولانا محمد نقی علی خاں رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ اپنے وقت کے ممتاز عالم اور مصنف تھے۔
اعلٰی حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے تقریباً درسیات اپنے والد ماجد سے پڑھیں اور چودہ سال کی عمر میں ایک معرکتہ الآراء فتوٰی کا جواب تحریر کیا چنانچہ آپ کی اس استعداد اور خدا داد قابلیت کی بناء پر اس کم عمری میں آپ کو مفتی کا منصب عطا کر دیا گیا۔ اعلٰی حضرت نے استفتاء کے جوابات کے ساتھ ہی ساتھ تصنیف و تالیف کا کام بھی شروع کر دیا جس مسئلہ پر آپ نے قلم اٹھایا اپنے تبحر علمی کی بدولت اس کے ہر ہر پہلو پر نہایت عمدہ طریقے سے روشنی ڈالی اور ایسی واضح حجتیں اور براہین قائم فرمائیں کہ ہم عصر علماء و محدثین نے امام اہلسنت، مجددین و ملت کا خطاب دیا۔
یوں تو آپ کے علمی کارناموں کی تفصیل بڑی طویل ہے لیکن ان سب سے بڑا علمی کارنامہ ترجمہ قرآن مجید ہے۔ ترجمہ کیا ہے قرآن حکیم کی اردو میں ترجمانی ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ آپ کا یہ ترجمہ الہامی ترجمہ ہے، توکچھ غلط نہ ہو گا۔
ترجمہ میں فصاحت، بلاغت، انداز خطاب اور سیاق و سباق کا خیال
ایک زبان سے دوسری زبان میں لفظی ترجمہ کچھ مشکل نہیں بلکہ بہت ہی معمولی اور آسان کام ہے کسی بھی درخواست کا لفظی ترجمہ تو عرائض نویس بھی فورًا کر دیتے ہیں۔ مگر کسی زبان کی فصاحت و بلاغت، سلاست و معنویت، اس کے محاورات اور انداز خطاب کو سمجھنا۔ سیاق و سباق کو دیکھ کر کلمہ اور جملہ کی تر جمانی کرنا انتہا ئی دقت طلب کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کی۔ اس کی تفسیر آپ کے صحابہ نے بیان کی۔
ترجمہ میں مناسب معنی کا انتخاب : قرآن کریم کے دوسری زبانوں میں تراجم کے مطالعہ سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ کسی لفظ کا ترجمہ عموماً اس کے مشہور معنی کے مطابق کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہر زبان میں کسی بھی لفظ کے بہت سے معنی ہوتے ہیں۔ ان مختلف معانی سے کسی ایک مناسب معنی کا انتخاب مترجم کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ لفظ کا ظاہری ترجمہ تو ایک مبتدی بھی کر سکتا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

بے احتیاطی کے نتائج : اعلٰی حضرت کا ترجمہ قرآن مجید دیکھنے کے بعد جب ہم دنیا بھر کے تراجم قرآن پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت منکشف ہو کر سامنے آتی ہے کہ اکثر مترجمین قرآن کی نظر الفاظ قرآنی کی روح تک نہیں پہنچ سکی اور ان کے ترجمہ سے قرآن کریم کا مفہوم ہی بدل گیا ہے بلکہ بعض مقامات پر تو سہواً یا قصداً ترجمے میں ان سے تحریف بھی ہو گئی ہے۔ یا لفظ بلفظ ترجمہ کرنے کے سبب حرمت قرآن، عصمت انبیاء اور وقار انسانیت کو بھی ٹھیس پہنچی ہے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اللہ تعالٰی نے جن چیزوں کو حلال ٹھرایا ہے ان تراجم کی بدولت وہ حرام قرار پا گئی ہیں اور انہیں تراجم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معاذ اللہ بعض امور کا علم اللہ رب العزت کو بھی نہیں ہوتا۔ اس قسم کا ترجمہ کر کے وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور مسلما نوں کیلئے بھی گمراہی کا راستہ کھول دیا اور یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کے ہاتھوں میں (اس طرح کا ترجمہ کر کے ) اسلام کے خلاف اسلحہ دے دیا گیا۔ چنانچہ ستیارتھ پرکاش نامی کتاب اسلام پر طنز سے بھری ہوئی ہے کہ جو خدا اپنے بندوں کے مکر، فریب، دغا میں آ جائے اور خود بھی مکر، فریب، دغا کرتا ہو، ایسے خدا کو دور سے سلام وغیرہ وغیرہ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اعلٰی حضرت نے جملہ مستند و مروج تفاسیر کی روشنی میں قرآن حکیم کی ترجمانی فرمائی۔ جس آیت کی وضاحت مفسرین کرام کئی کئی صفحات میں فرمائیں مگر اعلٰی حضرت کو اللہ تعالٰی نے یہ خوبی عنایت فرمائی کہ وہی مفہوم ترجمہ کے ایک جملہ یا ایک لفظ میں ادا فرمایا۔ قلیل جملہ کثیر مطالب اسی کو کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اعلٰی حضرت کے ترجمہ سے ہر پڑھنے والے کی نگاہ میں قرآن کریم کا احترام، انبیاء کی عظمت اور انسانیت کا وقار بلند ہوتا ہے۔

ذیل میں اعلٰی حضرت کے ترجمہ قرآن کریم اور دیگر تراجم قرآن کا ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے ۔
ولما یعلم اللہ الذین جاھدوامنکم ۔ (پارہ 4 سورۃ آل عمران آیت 142 )
ترجمہ : اور ابھی معلوم نہیں کئے اللہ نے جو لڑنے والے ہیں تم میں (شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو تو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ ( فتح محمد جالندھری دیوبندی )
ترجمہ : وہ ہنوز تمیز نساختہ است خُدا آں را کہ جہاد کردہ انداز شما ۔ ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ : حالانکہ ابھی اللہ نے ان لوگوں کو تم میں سے جانا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا۔(عبدالماجد دریابادی دیوبندی )
ترجمہ : اور ابھی تک اللہ نے نہ تو اُن لوگوں کو جانچا جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں ۔ (ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی )
ترجمہ : حالانکہ ہنوزاللہ تعالٰی نے اُن لوگوں کو تو دیکھا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا ہو ۔ ( تھانوی دیوبندی )
ترجمہ : اور ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ نے جو لڑنے والے ہیں تم میں ۔ ( دیوبندی محمود الحسن )
اور ابھی اللہ نے تمہارے غازیوں کا امتحان نہ لیا ۔ ( سیدی اعلٰی حضرت)
کیا اللہ تعالٰی علیم و خبیر نہیں ؟
اللہ تعالٰی جو علیم و خبیر ہے، عالم الغیب و الشہادۃ ہے، علیم بزات الصدور ہے۔ ان مترجمین کے نزدیک اردو میں بے علم و بے خبر ہے آپ خود فصلہ کریں ترجمہ پڑھنے کے بعد علم الٰہی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ ایک طرف تو اللہ تعالٰی کی صفات کمالیہ ، دوسری طرف اس قدر بے خبری کہ مومنین میں سے کون لوگ جذبہ جہاد سے سرشار ہیں؟ اللہ کو اس کا علم نہیں۔ ابھی اس نے جانا ہی نہیں۔ گویا شان رسول کی تنقیص سے فارغ ہوئے تو شان الو ہیّت پر حرف گیری شروع کر دی۔
‘ اللہ نے نہیں جانا، شاہ رفیع الدّ ین صاحب کا خیال ہے۔ ‘ابھی معلوم نہیں کیا اللہ نے‘ شاہ عبدالقادر صاحب کی ایجاد ہے، ‘ ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ نے‘ محود الحسن صاحب فرماتے ہیں۔
بروز حشر خدا و رسول کی گرفت سے نہ بچ سکیں گے
ترجمہ لکھتے وقت کس قدر غیر حاضر تھے یہ مترجمین، کہ تفسیر کے مطالعہ کی زحمت ہی نہیں کی اور کس سادگی سے قلم چلا دیا۔ آج بھی ان حضرات کے معتقدین، مریدین، متبعین موجود ہیں۔ اگر ان تراجم پر ان کے پیرو کار مطمئن و خوش عقیدہ ہیں تو بروز حشر خدا اور رسول کی گرفت کے لئے تیار رہیں۔ ورنہ تفاسیر قرآن و ترجمہ اعلٰی حضرت کے مطابق آئندہ تمام ایڈیشن قرآن کریم کے درست کرا دیں، ورنہ ترجمہ پڑھنے والی نسل کی گمراہی کی ذمہ دار آپ ہوں گے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ویمکرون ویمکراللہ واللہ خیرالمٰاکرین۔ (پارہ 9 سورۃ الانفال آیت 30)
ترجمہ ::*اور وہ بھی فریب کرتے تھے اور اللہ بھی فریب کرتا تھا اور اللہ کا فریب سب سے بہتر ہے ۔ ( شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : اور مکر کرتے تھے وہ اور مکر کرتا تھا اللہ تعالٰی اور اللہ تعالٰی نیک مکر کرنے والوں کا ہے ۔ ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : وایشاں بد سگالی می کردند و خدا بد سگالی می کرد ( یعنی بایشاں ) وخدا بہترین بد سگالی کنندگان است۔ ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ : اور وہ بھی داؤ کرتے تھے اور اللہ بھی داؤ کرتا تھا اور اللہ کا داؤ سب سے بہتر ہے ۔( محمود الحسن دیوبندی )
ترجمہ : اور حال یہ کہ کافر اپنا داؤ کر رہے تھے اور اللہ اپنا داؤ کررہا تھا اور اللہ سب داؤ کرنے والوں سے بہتر داؤ کرنے والا ہے ۔ ( ڈپٹی نذیر احمد )
ترجمہ : اور وہ تو اپنی تدبیر کر رہے تھے اور اللہ میاں اپنی تدبیر کر رہے تھے اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے۔( تھانوی دیوبندی)
ترجمہ : اور وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی خفتہ تدبیر فرماتا تھا اور اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر ۔ ( سیدی اعلٰی حضرت )
اردو ترجمہ میں جو الفاظ استعمال ہوئے وہ الُو ہیّت کے کسی طرح لائق نہیں ۔ اللہ تعالٰی کی طرف مکر ، فریب ، بدسگالی کی نسبت اس کی شان میں حرف گیری کے مترادف ہے ، یہ بنیادی غلطی صرف اس وجہ سے ہے کہ اللہ اور رسول کے افعال مقدسہ کو اپنے افعال پر قیاس کیا ، اسی وجہ سے مترجمین نے ہنسی ، مزاق ٹھٹھا ،مکر،فریب ، علم سے بےخبر ، بدسگالی کو اس کی صفت ٹھہرایا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اللہ تعالٰی ‘ میاں ‘ کی صفت سے پاک
اللہ پاک کی عزت افزائی کے لئے تھانوی صاحب نے میاں استعمال کیا ہے۔ ان تمام الفاظ کو سامنے رکھ کر الوہیت کا آپ تصور کریں تو رب تبارک و تعالٰی انسانوں سے عظیم تر انسان ابھر کر آپ کے سامنے ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی رسول کریم کی شان کے لائق کوئی تعریف کی جاتی ہے تو یہ چیخ اٹھتے ہیں کہ تم نے رسول کو اللہ سے ملا دیا اور خود موحّدوں کے امام نے میاں اللہ تعالٰی کو کہہ کر عام انسان کے برابر لا کھڑا کیا تو پھر بھی وہابی دیوبندی توحید میں بال برابر فرق نہیں آیا۔ مزکورہ آیت میں مکر کا ترجمہ اعلٰی حضرت نے تفاسیر کی روشنی میں کیا ہے ‘‘خفیہ تدبیر‘‘ اور لفظ مکر کو پہلے مقام پر ترجمہ میں کافروں کی طرف منسوب کر دیا۔ فافھم
ووجدک ضالا فھدیٰ ( پ 30، سورۃ والضحٰی، آیت7)
ترجمہ*: اور پایا تجھ کو بھٹکتا پھر راہ دی۔ (شاہ عبدالقادر)
۔۔۔۔۔: اور پایا تجھ کو راہ بھولا ہوا پس راہ دکھائی۔ (شاہ رفیع الدین*)
۔۔۔۔:دیافت تراراہ گم کردہ یعنی شریعت نمی دانستی پس راہ نمود۔( شاہ ولی اللہ*)
۔۔۔۔: اور آپ کو بے خبر پایا سو رستہ بتایا۔ ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی*)
۔۔۔: اور تم کو دیکھا کہ راہ حق کی تلاش میں بھٹکے بھٹکے پھر رہے ہو تو تم کو دین اسلام کا سیدھا راستہ دکھا دیا۔ ( دیوبندی ڈپٹی نزیر احمد)
۔۔۔۔: اور اللہ تعالٰی نے آپ کو ( شریعت سے) بے خبر پایا سو آپ کو شریعت کا راستہ بتلا دیا۔ ( اشرف علی دیوبندی تھانوی )
۔۔۔۔: اور تم کو بھٹکا ہوا پایا اور منزل مقصود تک پہنچایا۔ ( مقبول شیعہ )
۔۔۔۔: اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی۔ ( اعلٰی حضرت*)
آیت مزکورہ مٰن لفط ضا لاً استعمال ہوا ہے۔ اس کے مشہور معنی گمراہی اور بھٹکنا ہیں۔ چنانچہ بعض اہل قلم نے مخاطب پر نوک قلم کے بجائے خنجر پیوست کر دیا۔ یہ نہ دیکھا کہ ترجمہ میں کس کو راہ گرم کردہ، بھٹکتا، بےخبر، راہ بھولا کہا جا رہا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عصمت باقی رہتی ہے یا نہیں، اس کی کوئی پرواہ نہیں- کاش یہ مفسرین تفا سیر کا مطالعہ کرنے کے بعد ترجمہ کرتے یا کم از کم اس آیت کا سیاق و سباق ( اوّل و آخر*) بغور دیکھ لیتے۔ انداز خطاب باری تعالٰی پر نظر ڈال لیتے۔
ایک طرف ما ودعک ربک وما قلٰی وللاٰ خرۃ خیر لک من الا ولٰی تمہیں تمہارے ربّ نے نہ چھوڑا اور نہ مکروہ جانا اور بے شک پچھلی تمہارے لئے پہلی سے بہتر ہے۔ الخ اس کے بعد ہی رسول ذیشان کی گمراہی کا ذکر کیسے آگیا۔ آپ خود غور کریں حضور علیہ الصلٰو ۃ والسلام اگر کسی لحظہ گمراہ ہوتے تو راہ پر کون ہوتا یا یوں کہئے کہ جو خود گمراہ ہو، بھٹکتا پھرا پو، راہ بھولا ہو، وہ ہادی کیسے ہو سکتا ہے ؟
اور خود قرآن مجید میں نفی ضلالت کی صراحت موجود ہے۔ ماضل صاحبکم وما غوٰی ( پ28، سورۃ نجم ، آیت2) آپ کے صاحب (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ گمراہ ہوئے اور نہ بے راہ چلے۔ جب ایک مقام پر ربّ کریم گمراہ اور بے رہی کی نفی فرما رہا ہے تو دوسرے مقام پر خود ہی کیسے گمراہ ارشاد فرمائے گا؟

نا فتحنا لک فتحا مبینا لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر ( پ 26، سورہ فتح، آیت 1)
ترجمہ :::: ہم نے فیصلہ کر دیا تیرے واسطے صریح فیصلہ تاکہ معاف کرے تجھ کو اللہ جو آگے ہوئے تیرے گناہ اور جو پیچھے رہے۔ (شاہ عبد القادر)
—-: تحقیق فتح دی ہم نے تجھ کو فتح ظاہر تو کہ بخشے واسطے تیرے خدا جو کچھ ہوا تھا پہلے گناہوں سے تیرے اور جو کچھ پیچھے ہوا- ( شاہ رفیع الدین)
—-: ہر آئینہ ما حکم کر دیم برائے توبفتح ظاہر عاقبت فتح آنست کہ بیا مرز ترا خدا آنچہ کہ سابق گزشت از گناہ تو و آنچہ پس ماند -( شاہ ولی اللہ )
—-:بے شک ہم نے آپ کو ایک کھلا فتح دی تاکہ اللہ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دے- ( عبد الماجد دریا بادی دیوبندی)
—-: اے پیغمبر یہ حدیبیہ کی صلح کیا ہوئی در حقیقت ہم نے تمہاری کھلم کھلا فتح کرا دی تا کہ تم اس فتح کے شکریہ میں دین حق کی ترقی کےلئے اور زیادہ کوشش کرو اور خدا اس کے صلے میں تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے- ( ڈپٹی نزیر احمد دیوبندی)
—-: بے شک ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی تا کہ اللہ تعالٰی آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے- ( تھانوی دیوبندی )
—-:اے محمد ہم نے تم کو فتح دی- فتح بھی صریح و صاف تا کہ خدا تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے- ( فتح محمد جالندھری یہی ترجمہ محمود الحسن کا ہے*)
—-: بے شک ہم نے تمہارے لئے روشن فتح دی تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلے کے اور تمہارے پچھلوں کے- ( اعلٰی حضرت )
حضور معصوموں کے سردار ؟ یا گنہگار؟
عام تراجم سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی معصوم ماضی میں بھی گنہگار تھا- مستقبل میں بھی گناہ کرے گا- مگر فتح مبین کے صدقے میں اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہو گئے اور آئندہ گناہ رسول معاف ہوتے رہیں گے-
کاش یہ فتح مبین آپ کو نہ دی گئی ہوتی تا کہ آپ کے گناہوں پرسّتاری کا پردہ پڑا رہتا- اس معصوم رسول کے گنہگار ہونے کا صرف اللہ تعالٰی ہی جانتا- کھلم کھلا فتح کیا ملی کہ رسول معصوم کے تمام مخفی گناہ ترجمہ پڑھنے والوں کے سامنے آشکار ہو گئے اور معلوم ہوا کہ آئندہ بھی گناہ سرزد ہوتے رہیں گے- یہ دوسری بات ہے کہ ان گناہوں کی معافی کی پیشگی ضمانت ہو گئی ہے- ان مترجمین سے آپ دریافت کیجئے کہ اس آیت کی تفسیر میں جو تاویلات کی گئی ہے مفسرین نے جو معنی بیان کئے ہیں اس کے مطابق انہوں نے ترجمہ کیوں نہیں کیا- ترجمہ پڑھنے والوں کی گمراہی کا کون ذمہ دار ہے ؟ جب نبی معصوم گنہگار ہو تو لفظ عصمت کا اطلاق کس پر ہو گا ؟ عصمت انبیا ء کا تصّور اگر جزو ایمان ہے تو کیا گنہگار خطاکار نبی ہو سکتا ہے ؟ اقوال صحابہ مفسرین کی توجیہات سے ہٹ کر ترجمہ کرنے پر کس نے آپ کو مجبور کیا- ایک عربی یہودی یا نصرانی یا ہمارے یہاں جنہوں نے عربی زبان پڑھی ہے وہ بھی اس قسم کا ترجمہ کر سکتے ہیں تو آپ جو کہ عالم دین کہلاتے ہیں تفاسیر اور حدیث وفقہ کی تعلیم سے آراستہ ہیں- بغیر سوچے سمجھے لفظ بلفظ ترجمہ کردیں تو آپ میں اور ان میں کیا فرق ہو گا؟ افسوس کہ لفظ ذنب کی تفسیر میں امام ابوالّیث یا سلمٰی کی توجیہہ پڑھ لیتے تو اتنی فاش غلطی مترجمین سے نہ ہوتی- مگر یہ صاحبان جب تک رسول اللہ کی نقص جوئی نہ کر لیں ان کو اپنے علم پر اعتماد نہیں ہوتا- ڈپٹی نزیر احمد کا ترجمہ مطبوعہ تاج کمپنی نمبر پی 141 کے آخر میں مضامین قرآن مجید کی مکمل فہرست دی گئی ہے- اس فہرست کے حصہ دوم باب5 کا عنوان (سرخی) یہ ہے ،‘حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر جو خدا کی طرف سے عتاب ہوا یا آپ کی کسی بات پر گرفت ہوئی-‘ حوالے کے طور پر 9 آیات پیش کی گئی ہیں- اس سے آپ ان کی اللہ کے محبوب صلی اللہ ولیہ وسلم کی طرف سے دلی عداوت و بغض کا اندازہ کر سکتے ہیں-(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
لک میں ل سبب کے معنی ہیں
ظاہر ہے کہ اعلٰی حضرت کا جوش عقیدت جناب ختمی مرتبت کے لئے اپنے کمال پر ہے ، اُن کو بھی ترجمہ کے وقت یہ تشویش ہوئی ہوگی ، کہ عصمت رسول پر حرف نہ آئے ، اور قرآن کا ترجمہ بھی صحیح ہوجائے ، وہ عقیدت بھری نگاہ جو آستانہء رسول پر ہمہ وقت بچھی ہوئی ہے اس نے دیکھا کہ لک میں ل سبب کے معنٰی میں مستعمل ہوا ہے لہٰذا جب حضور کے سبب سے گناہ بخشے گئے تو وہ شخصیتیں اورہوئیں جن کے گناہ بخشے گئے ، اہل بصیرت کے لیے اشارہ کافی ہے معنویت سے بھرپور روشن فتح کے مطابق ترجمہ فرمادیا۔
فان یشاء اللہ تختم علٰی قلبک ( پ25، سورۃ شورٰی آیت24)
۔۔۔۔:: پس اگر خواہد خدا مہر نہد بر دل تو۔ ( شاہ ولی اللہ )
۔۔۔۔::اگر خدا چاہے تو اے محمد تمہارے دل پر مہر لگا دے۔ ( فتح مھًد جالندھری)
۔۔۔۔:: پس اگر چاہتا اللہ، مہر رکھ دیتا اوپر دل تیرے کے۔ ( شاہ رفیع الدین)
۔۔۔۔:: سو اگر اللہ چاہے مہر کر دے تیرے دل پر۔ ( شاہ عبدالقادر)
۔۔۔۔:: تو اگر اللہ چاہے تو آپ کے قلب پر مہر لگا دے۔ ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی )
۔۔۔۔::: سو خدا اگر چاہے تو آپ کے دل پر بند لگا دے۔ (سابقہ ترجمہ) ‘ دل پر مہر لگا دے‘۔ ( اشرف علی تھانوی دیوبندی)
۔۔۔۔:: اور اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر اپنی رحمت و حفاظت کی مہر لگا دے۔ ( اعلٰی حضرت)
تمام تراجم سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ختم اللہ علٰٰی قلوبھم کے بعد مہر لگانے کی کوئی جگہ تھی تو یہی تھی۔ صرف ڈرا دھمکا کر چھوڑ دیا کس قدر بھیانک تصور ہے وہ ذات اطہر کہ جس کے سر مبارک پر اسرٰی کا تاج رکھا گیا۔ آج اس سے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم چاہیں تو تمہارے دل پر مہر لگا دیں۔
مہر کی اقسام
مہر دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک تو وہ جو ختم اللہ علٰٰٰی قلوبھم میں استعمال ہوئی اور دوسری خاتم النبین کی۔ کاش تمام مترجمین تفاسیر کی روشنی میں ترجمہ کرتے تو ان کی نوک قلم سے رحمت عالم کا قلب مبارک محفوظ رہتا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا قلب مبارک کہ جس پر اللہ تعالٰی کی رحمت اور انوار کی بارش ہو رہی ہے جس دل کو ہر شے سے محفوظ کیا گیا ہے اس آیت مبارک میں اس کی مزید توثیق ( وضاحت ) کر دی گئ-
ولئن اتبعت اھوا ئھم من بعد ماجائک من العلم انک اذا لمن الظلمین (پ2، سورۃ بقرہ، آیت 145)
۔۔۔۔:: اور کبھی چلا تو ان کی پسند پر بعد اس علم کے جو تجھ کو پہنچا تو تیرا کوئی نہیں اللہ کے ہاتھ سے حمایت کرنے والا نہ مدد گار ۔( شاہ عبدالقادر*)
۔۔۔۔:: اور اگر پیروی کرے گا۔ تو خواہشوں ان کی پیچھے اس چیز سے کہ آتی تیرے پاس علم سے نہیں واسطے تیرے اللہ سے کوئی دوست اور نہ کوئی مددگار – ( شاہ رفیع الدین )
۔۔۔۔:: اگر پیروی کر دی آرزو ہائے باطل ایشاں راپس آنچہ آمدہ است بتواز دانش نہ باشد ترا برائے خلاص از عزاب خدا ہیچ دوستی ونہ یارے ہند – ( شاہ ولی اللہ )
۔۔۔۔:: اور اگر آپ بعد اس علم کے جو آپ کو پہینچ چکا ہے ان کی خواہشوں کی پیروی کرنے لگے تو آپ کیلئے اللہ کی گرفت کے مقابلے میں نہ کوئی یار ہو گا نہ مدد گار۔ ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی )
۔۔۔۔:: اور اے پیغمبر اگر تم اس کے بعد کہ تمہارے پاس علم یعنی قرآن آ چکا ہے ان کی خواہشوں پر چلے تو پھر تم کو خدا کے غضب سے بچانے والا نہ کوئی دوست اور نہ مدد گار۔ ( ڈپٹی نزیر دیوبندی و فتح محمد جالندھری*)
۔۔۔۔:: اور اگر آپ اتباع کرنے لگیں ان کے غلط خیالات کا علم قطعی ثابت بالوجی آچکنے کے بعد تو آپ کا کوئی خدا سے بچانے والا نہ یار نکلے نہ مددگار۔ (تھانوی دیوبندی )
۔۔۔۔:: اور ( اسے سننے والے کے باشد*) اگر تو ان کی خواہشوں پر چلا بعد اس کے کہ تجھ علم چکا تو اس وقت تو ضرور ستم گار ہو گا۔ ( اعلٰی حضرت )
ترجمہ تفسیر خازن کی روشنی میں
نبئ معصوم جن کی نسبت سے قرآنی صفحات بھرے ہیں۔ جن کو ٰطٰہ، ٰیس، مزمل، مدثر جیسے القاب وآداب دیئے گئے، اچانک اس قدر زجر و توبیح کے کلمات سے اللہ تعالٰی ان کو مخاطب کرے ؟ سیاق و سباق سے بھی کسی تہدید کا پتہ نہیں چلتا۔ لٰہذا مترجم کو چاہئے کہ کھوج لگائے نہ یہ کہ براہ راست کلمات کا ترجمہ کر دے جو بات ان کی عصمت کے خلاف ہے وہ کیسے امکانی طور پر ان کی طرف منسوب کی جا سکتی ہے۔
لٰہذا اعلٰی حضرت نےا س کی تحقیق فرمائی اور تفسیر خازن کی روشنی میں انہوں نے ترجمہ فرمایا کہ مخاطب ہر سامع ہے نہ کہ نبی ء معصوم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور اسی طرح کتب معانی و بیان میں بھی اس بات کی تصریح ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تراجم مزکورہ میں بعض مترجمین نے خاصی حاشیہ آرائی کی ہے مگر کسی مترجم کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ غور کرے کہ ڈانٹ ڈپٹ کے الفاظ حضور کی شان میں کہے جا رہے ہیں۔ جب کوئی وجہ نہیں تو مخا طبیت اللہ کے محبوب سے خاص نہیں بلکہ ہر سننے والے سے خطاب ہے۔

ما کنت تدری ما الکتب ولا الایمان ( پارہ 25 سورۃ شورٰی آیت 52 )
ترجمہ : تو نہ جانتا تھا کہ کیا ہے کتاب اور نہ ایمان۔ ( شاہ عبد القادر )
ترجمہ : تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے اور نہ ایمان ( فتح محمد جالندھری )
ترجمہ : نہ جانتا تھا تو کیا ہے کتاب اور نہ ایمان ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : نمی دانستی کہ چیست کتاب ونمی دانستی کہ چیست ایمان ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ : تمہیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ۔ ( مودودی )
ترجمہ : آپ کو نہ یہ خبر تھی کتاب کیا چیز ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا چیز ہے ۔( عبدالماجد دریابادی دیوبندی )
ترجمہ : تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب اللہ کی کیا چیز ہے اور نہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کس کو کہتے ہیں ۔ ( ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی )
ترجمہ : آپ کو یہ نہ خبر تھی کہ کتاب ( اللہ ) کیا چیز ہے اور نہ یہ خبر تھی کہ ایمان کا (انتہائی کمال ) کیا چیز ہے ۔ (اشرف علی تھانوی دیوبندی)
ترجمہ : اس سے پہلے نہ تم کتاب جانتے تھے نہ احکام شرع کی تفصیل ۔ (سیدی اعلٰیحضرت )
ظھور نبوت سے قبل حضور کے مومن ہونے کی نفی؟
لوح و قلم کو علم ہی نہیں بلکہ جن کو عالم ماکان و مایکون کا علم ہے، معاذ اللہ آیت مزکورہ کے نزول سے پہلے مومن بھی نہ تھے کیونکہ مترجمین کے تراجم کے مطابق ایمان سے بھی نا بلد (کورے) تھے۔ تو غیر مسلم ہوئے۔ موحد بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ بھی آپ کی بعث سے پہلے مومن ہوتا ہے ( بعد میں رسالت پر ایمان لانا شرط ہے ) تراجم مزکورہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی خبر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بعد میں ہوئی۔
اعلٰی حضرت کے ترجمے سے اس قسم کے تمام اعتراضات ختم ہو گئے کہ آپ احکام شرع کی تفصیل نہ جانتے تھے ایمان اور احکام شرع کی تفصیل میں جو فرق ہے وہی اعلٰی حضرت اور دیگر مترجمین کے ترجمہ میں فرق ہے۔
(حصّہ دوم اس لنک میں پڑھیں https://www.facebook.com/DrFaizChishti/posts/1294042470686508)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔