ایسی مسجدوں کو جلا دو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مسجد ضرار : اور وہ جنہوں نے مسجد بنائی (ف۲۴۲) نقصان پہنچانے کو (ف۲۴۳) اور کفر کے سبب (ف۲۴۴) اور
مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو (ف۲۴۵) اور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اﷲ اور اس کے رسول کا مخالف ہے(ف۲۴۶) اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو بھلائی چاہی اور اﷲ گواہ ہے کہ وہ بیشک جھوٹے ہیں ( سورۃ التوبہ آیت نمبر 107 )
تفسیر خزائن العرفان : (ف242) شانِ نُزول : یہ آیت ایک جماعتِ منافقین کے حق میں نازِل ہوئی جنہوں نے مسجدِ قُبا کو نقصان پہنچانے اور اس کی جماعت متفرق کرنے کے لئے اس کے قریب ایک مسجد بنائی تھی ۔ اس میں ایک بڑی چال تھی وہ یہ کہ ابو عامر جو زمانِ جاہلیت میں نصرانی راہب ہو گیا تھا، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینۂ طیّبہ تشریف لانے پر حضور سے کہنے لگا یہ کون سا دین ہے جو آپ لائے ہیں، حضور نے فرمایا میں ملّتِ حنیفیہ ، دینِ ابراہیم لایا ہوں، کہنے لگا میں اسی دین پر ہوں، حضور نے فرمایا نہیں، اس نے کہا کہ آپ نے اس میں کچھ اور ملا دیا ہے، حضور نے فرمایا نہیں، میں خالص، صاف ملّت لایا ہوں۔ ابو عامر نے کہا ہم میں سے جو جھوٹا ہو اللہ اس کو مسافرت میں تنہا اور بیکس کرکے ہلاک کرے، حضور نے آمین فرمایا ۔ لوگوں نے اس کا نام ابو عامر فاسق رکھ دیا، روزِ اُحد ابو عامر فاسق نے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ جہاں کہیں کوئی قوم آپ سے جنگ کرنے والی ملے گی میں اس کے ساتھ ہو کر آپ سے جنگ کروں گا چنانچہ جنگِ حنین تک اس کا یہی معمول رہا اور وہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مصروفِ جنگ رہا، جب ہوازن کو شکست ہوئی اور وہ مایوس ہو کر مُلکِ شام کی طرف بھاگا تو اس نے منافقین کو خبر بھیجی کہ تم سے جو سامانِ جنگ ہو سکے قوت وسلاح سب جمع کرو اور میرے لئے ایک مسجد بناؤ، میں شاہِ روم کے پاس جاتا ہوں وہاں سے رومی لشکر لے کر آؤں گا اور (سیدِ عالَم ) محمّد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب کو نکالوں گا۔ یہ خبر پا کر ان لوگوں نے مسجدِ ضرار بنائی تھی اور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا تھا یہ مسجد ہم نے آسانی کے لئے بنا دی ہے کہ جو لوگ بوڑھے، ضعیف، کمزور ہیں وہ اس میں بہ فراغت نماز پڑھ لیا کریں، آپ اس میں ایک نماز پڑھ دیجئے اور برکت کی دعا فرما دیجئے۔ حضورنے فرمایا کہ اب تو میں سفرِ تبوک کے لئے پا برکاب ہوں، واپسی پر اللہ کی مرضی ہوگی تو وہاں نماز پڑھ لوں گا جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوۂ تبوک سے واپس ہو کر مدینہ شریف کے قریب ایک موضع میں ٹھہرے تو منافقین نے آپ سے درخواست کی کہ ان کی مسجد میں تشریف لے چلیں۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور ان کے فاسد ارادوں کا اظہار فرمایا گیا تب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض اصحاب کو حکم دیا کہ اس مسجد کو جا کر ڈھا دیں اور جلا دیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور ابو عامر راہب مُلکِ شام میں بحالتِ سفر بے کسی و تنہائی میں ہلاک ہوا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(ف243)مسجدِ قُبا والوں کے ۔
(ف244) کہ وہاں خدا اور رسول کے ساتھ کُفر کریں اور نِفاق کو قوت دیں۔
(ف245) جو مسجدِ قُبا میں نماز کےلئے مجتمع ہوتے ہیں۔
(ف246) یعنی ابو عامر راہب ۔
سورت التوبہ آیت نمبر 107 کنزالایمان بمعہ تفسیر خزائن العرفان
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔