*گیارویں شریف اولیاء و علماء کی نظر میں*
------------------
پیش لفظ :
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمدللہ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لانبی بعدہ امابعد!
گیارہویں شریف ایک ایسا نیک عمل ہے کہ صدیوں سے مسلمانوں میں جاری ہے لیکن تحریک وھابیت کے بعد گوناگوں اعتراضات کی زد میں ہے۔ فقیر نے اس رسالہ میں ثابت کیا ہے کہ گیارہویں شریف ایصالِ ثواب کا دوسرا نام ہے اسی لئے اُصولی طور تو اس پر کوئی اعتراض نہیں، ہاں جاہلوں کا منہ کون بند کرے۔ فقیر اس رسالہ سے ایسے جاہلوں کو دندان شکن جواب دیا جا سکتا ہے۔ عرصہ سے اس کا مضمون تیار تھا مولٰی عزوجل بطفیل حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم و بصدقہ غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فقیر اور ناشر کی مساعی قبول فرما کر ہم سب کیلئےتوشہء راہ آخرت اور مستفیدین کیلئے مشعلِ راہ ہدایت بنائے۔ آمین
مفتی فیض احمد اویسی (رحمتہ اللہ علیہ)
-------------------------------------
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم امابعد! تحریک وہابیت سے بہت سے مسائل کھڑے ہوگئے ان میں سے ایک مسئلہ گیارہویں شریف پر اعتراض بھی ہے۔ یہ کوئی اختلافی مسئلہ نہ تھا کیونکہ یہ حضور غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی محبوب سبحانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایصال ثواب کا نام ہے اور ایصال ثواب کے نجدی وہابی، دیوبندی منکر نہیں صرف نام اور طریقہ بدلا ہے اور شرعی قانون ہے کہ طریقہ اور نام بدلنے سے شریعت اور کام نہیں بگڑتا ۔ جب کہ ایصالِ ثواب کے نام کو “گیارہویں“ کہا جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں فقیر اس رسالہ میں ان علماء کرام و اولیاء عظام کی عبارات دکھاتا ہے جو تحریک وہابیت سے پہلے اور بعد کو اس کے جواز کے نہ صرف قائل بلکہ عامل تھے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ اسے ناجائز کہنے والے وہابی، دیوبندی ہیں اور ان کی اسلاف صالحین کے سامنے کوئی وقعت نہیں اسی لئے اہل اسلام اپنے موقف پہ مضبوط رہیں۔ وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم وصلی اللہ علی حبیبہ الکریم وسلم علی آلہ واصحابہ اجمعین۔ 5 ذوالحجہ 1409ھ مقدمہ چونکہ دلائل گیارہویں فقیر نے ایک علیحدہ رسالہ میں لکھے ہیں یہاں صرف علماء کرام کی تصریحات و دیگر عجیب و غریب ابحاث لکھے۔ فضیلت علم و علماء:- علماء کا علم اسلام کا ایک بہترین جوہر ہے اور اس جوہرِ علمی سے ہی اسلام کی بہار ہے جب دنیا سے علم و علماء اٹھ گئے قیامت ہو جائیگی۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، عالم کی فضیلت عابد پر وہی ہے جیسی میری فضیلت امت پر۔ اور حضور نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے علماء کو انبیاء علیہم السلام کا وارث بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانہ میں علماء کی ہدایات پر اسلام کی نشوونما ہوتی رہتی ہے۔ مسئلہ گیارہویں کا حل بھی علماء و اولیاء عظام سے کرانا چاہئیے فقیر چند معتبر و مستند علماء کرام و اولیاء عظام رحمہم اللہ تعالٰی کی تصریحات پیش کرتا ہے تاکہ منکر کو انکار کی گنجائش نہ ہو اور گیارہویں شریف کے عامل کو تسکین و تسلی نصیب ہو۔
عبارات اکابر علماء و اولیاء رحمہم اللہ تعالٰی ذیل میں فقیر ان علماء و اولیاء عظام رحمہم اللہ تعالٰی کی تصریحات عرض کر رہا ہے جنکے سامنے وہابی، دیوبندی فضلاء خود کو انکا طفل مکتب کہلانے سے شرماتے ہیں یہ علماء کرام و اولیاء عظام ہیں جن پر اسلام کو ناز ہے۔
(1) شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ:- حضرت شیخ عبدالحق محقق برحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کا ارشاد پیش کیا جاتا ہے۔ وقد اشتھر فی دیار ناھذا الیوم الحادی عشر وھو المتعارف عند مشایئخنا من اھل الھند من اولادہ۔ بے شک ہمارے ملک میں آج کل گیارہویں تاریخ مشہور ہے اور یہی تاریخ آپ کی ہندی اولاد و مشائخ میں متعارف ہے۔ (ماثبت بالسنۃ عربی صفحہ68 ) تعارف شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ:- اشرف علی تھانوی آپ کو حضوری ولی اللہ مانتا ہے۔ (الافاضات الیومیہ) ان شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کے متعلق غیر مقلدین کے نواب صدیق حسن بھوپالی لکھتے ہیں کہ “شیخ کی مساعی جمیلہ سے ہندوستان میں حدیث کی بڑی اشاعت ہوئی۔ حدیث اور ترویجِ سنت میں شیخ موصوف کو جو شرف و فضیلت حاصل ہے اس میں ان کا کوئی سہیم و شریک نہیں۔“ نواب بھوپالی ہی لکھتے ہیں کہ “حق ایں است کہ شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ در ترجمہ بفارسی یکے از افراد ایں افت است عقل اوریں کاروبار خصوضا دریں روزگار احد سے معلوم نیست وللہ یختص برحمتہ من شاء بندئہ عاجز دردیں برقربت شریف اور سیدہ نمی تراند گفتن کہ کدام روح و ریحان برکاتش مشاھدہ نمود۔ (تقصار صفحہ112 عجالہ نافعہ صفحہ25) نواب صدیق حسن بھوپالی اپنی دوسری کتاب میں لکھتا ہے کہ “توالیف ایشادر بلادِ ہند قبول و شہرت تمام واردہم نافع و مفید افتادہ۔ کاتب حروف بزیارت مرقد شریف مکرر فیضیاب شدہ و کشتے عجیب و دبستگی غریب دراں مقام یافتہ۔ (اتحاف اضبلا صفحہ304 عجالہ نافعہ صفحہ35) (شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ معروف شخصیت ہیں جنکے علم و عمل کے فریقین نہ صرف معترف بلکہ مداغ ہیں) شیخ عبدالوہاب مکی علیہ الرحمۃ:- شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اپنے شیخ اور مُرشد شیخ عبدالوہاب قادری متقی مکی علیہ الرحمۃ کا طریقہما ثبت بالسنہ صفحہ 68 میں بیان فرماتے ہیں۔ قلت فبھذہ الروایہ یکون عرسہ تاسع الربیع الاخر وھذا ھوالذی ادرکنا علیہ سیدنا الشیخ الامام العارف الکامل الشیخ عبدالوھاب القادری المتقی المکی فانہ قدس سرہ کان یحافظ یوم عرسہ رضی اللہ عنہ ھذا التاریخ اما اعتماد اعلی ھذہ الرویۃ اوعلی مارای من شیخہ الشیخ الکبیر علی المتقی اومن غیرہ من المشائخ رحمھم اللہ تعالٰی۔ “ہم کہتے ہیں کہ اس روایت کے مطابق (حضرت غوث اعظم) کا عرس مبارک 9 ربیع الاخر کو ہونا چاہئیے۔ ہم نے اپنے پیرو مُرشد سیدنا امام عارف کامل شیخ عبدالوہاب قادری متقی مکی قدس سرہ کو پایا ہے کہ شیخ قدس سرہ العزیز آپ (غوث اعظم) کے عرس کے دن کیلئے یہی تاریخ یاد رکھتے تھے لیکن اس روایت پر اعتماد کرتے ہوئے یا اس سبب سے کہ اپنے پیرو مُرشد شیخ کبیر علی متقی قدس سرہ یا اور کسی بزرگ کو دیکھا ہو۔“
فائدہ: - نہ صرف ایک ولی اللہ کے متعلق ہے بلکہ مشائخ کاملین سے گیارہویں ثابت ہے۔
شیخ امان اللہ پانی پتی علیہ الرحمۃ:- شیخ امان اللہ پانی پتی علیہ الرحمۃ کے حالات میں شیخ المحدثین عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ:- یاز دہم ماہ ربیع الآخر عرس غوث الثقلین رضی اللہ تعالٰی علیہ کرد۔ اخبار الاخیار شریف صفحہ 242 مطبوعہ دیوبن
ماہ ربیع الاخر شریف کی گیارہ تاریخ کو حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عرس مبارک کیا کرتے تھے۔
فائدہ:- یہ شیخ امان اللہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ولی کامل پونے چھ سو سال پہلے پانی پت ہند میں مشہور بزرگ گزرے ہیں اس وقت سے گیارہویں شریف کے عامل تھے جبکہ ابھی وھابیت نجدیت کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ گیارہویں شریف تو بدعت نہ ہوئی یہ بعد کو پیدا ہوکر شور مچا رہے ہیں تو در حقیقت یہی خود ہیں۔ مرزا مظھر جانِ جاناں علیہ الرحمۃ:- ملفوظات مرزا مظہر جانِ جاناں علیہ الرحمۃ میں وہ اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں جو کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کی تصنیف لطیف “کلماتِ طیبات“ میں ہے کہ “در منامے دیدم کہ در صحرائے وسیع چبوترہ ایست کلاں و اولیاء بسیار در آنجا حلقہ مراقبہ دارند و دروسط حلقہ حضرت خواجہ نقشبند دوزانو حضرت جنید قدس اللہ اسرارھم مجتبے نشستہ اندو آثار استغنا از ما سواد کیفیات حالات فنابر سیدالطائقہ ظاہر ست ہمہ کس از انجابر خاستند گفتم کجا میروند کسی گفت باستقبال امیر المؤمنین علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ پس حضرت امیر تشریف فرما شد ند۔ شخصے گیم پوش سروپا برہنہ ژولیدہ موہمراہ حضرت امیر نمودار گشت آنحضرت دستش دردست خود بکمال تواضع و تعظیم گرفتہ اند گفتم ایں کیست کسے گفت خیرالتابعین اویس قرنی است آنجا حجرہ مصفادر کمال نورانیت ظاہر شدہمہ عزیز ان در آں حجرہ در آمدند گفتم کجار فتند کسے گفت امروز عرس حضرت غوث الثقلین ست بتقریب عرس تشریف بروند۔“ (ترجمہ) میں نے خواب میں ایک وسیع چبوترہ دیکھا جس میں بہت سے اولیاء کرام حلقہ باندھ کر مراقبہ میں ہیں۔ اور ان کے درمیان حضرت خواجہ نقشبند دوزانو اور حضرت جنید تکیہ لگاکر بیٹھے ہیں۔ استغنا ماسواءاللہ اور کیفیاتِ فنا آپ میں جلوہ نما ہیں۔ پھر یہ سب حضرات کھڑے ہوگئے اور چل دئیے میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے ؟ تو اُن میں سے کسی نے بتایا کہ امیر المؤمنین حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کے استقبال کیلئے جا رہے ہیں۔ پس حضرت علی المرتضٰی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ اک گلیم پوش ہیں جو سر اور پاؤں سے برہنہ ذولیدہ بال ہیں۔
حضرت علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ان کے ہاتھ کو نہایت عزت اور عظمت کے ساتھ اپنے مبارک ہاتھ میں لیا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں۔ تو جواب ملا کہ یہ خیرالتابعین حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں پھر ایک حجرہ شریف ظاہر ہوا جو نہایت ہی صاف تھا اور اس پر نور کی بارش ہو رہی تھی۔ یہ تمام باکمال بزرگ اس میں داخل ہوگئے، میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو ایک شخص نے کہا آج حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عُرس (گیارہویں شریف) ہے۔ عرس پاک کی تقریب پر تشریف لے گئے ہیں۔ (کلمات طیبات فارسی صفح 77، 78 مطبوعہ دہلوی ) تعارف مظھر جانِ جاناں:- مرزا مظہر جانِ جاناں علیہ الرحمۃ کے متعلق مولوی ابو یحیٰی امام خاں نوشہروی (جوکہ اہلحدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں) نے اپنی کتاب “ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات“ میں اُن کو “اہلحدیث“ لکھا ہے۔ تبصرہ اویسی غفرلہ:- غیر مقلدین نے صرف اپنے نمبر بڑھانے کے لئے انہیں اپنا ہمنوا لکھ دیا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مرزا جانجاناں سلسلہء نقشبندیہ کے سرتاج ہیں قاضی ثناءاللہ پانی پتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی تفسیر مظہری انہی کے نام سے موسوم ہے اور مرزا جانجاناں پایہ کے ولی اللہ ہیں انہوں نے گیارہویں شریف کی عظمت کس شان سے بتائی کہ اس میں سیدنا علی المرتضٰی اور سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہم کی شمولیت کا ذکر کیا اور گیارہویں شریف کی محفل پُرنور کی بارش کا مشاہدہ کیا۔ لیکن افسوس ہے کہ ان کو اپنا پیشوا مان کر پھر بھی محفل گیارہویں شریف کے خلاف بکواسات کرتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ:- شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا مظہر جانجاناں علیہ الرحمۃ کے ملفوظات اپنی تصنیف لطیف “کلماتِ طیبات“ میں جمع فرمائے ہیں۔ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کو بھی یہ غیر مقلدین اہلحدیث “اہلحدیث“ شمار کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں اگر واقعی ان کو اپنا آدمی سمجھتے ہو تو پھر اُن کے عقائد اور نظریات کو شرک و بدعت کہتے ہو۔ “نہ خوف خدا نہ شرم نبی“ اویسی غفرلہ کہتا ہے “یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں۔“ ابوالکلام آزاد کے والد گرامی رحمۃ اللہ علیہ نے سچ فرمایا ہے۔ وہابی بے حیاء ہیں یارو انکو تڑاتڑ جوتے مارو (تذکرہ ابوالکلام) تعارف شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ:- آپ ہمارے تو پیشوا ہیں ہی۔ آپ تیرہویں صدی کے مجدد ہیں اس کا دیوبندیوں کو بھی اقرار ہے اور غیر مقلدین وہابی بھی آپکو اپنا پیشوا قرار دیتے ہیں۔ اور “ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات“ صفحہ 16 پر ان کو بھی اہلحدیث قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:- “شاہ عبدالعزیز صاحب کی علمی و روحانی سرگرمیاں محفل قال و حال تک ہی محدود نہیں بلکہ مسلمانوں کی عام رفاہ کا خیال بھی ہر وقت دامنگیر ہے۔“ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کی تصانیف مثلاً فتاوٰی عزیزی، تحفہ اثناء عشریہ، تفسیر عزیزی کو بھی ابو یحیٰی امام خاں نوشہروی نے “اہلحدیث کی علمی خدمات“ قرار دے کر اپنے مسلک کی ہی کتابیں تسلیم کی ہیں۔ آپ ملفوظاتِ عزیزی میں گیارہویں شریف کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ “روضہ حضرت غوثِ اعظم راکہ کافی گویند تاریخ یازدہم بادشاہ وغیرہ اکابرانِ شہر جمع گشتہ بعد نمازِ عصر کلام اللہ و قصائد مدحیہ و آنچہ حضرت غوث در وقت غلبہ حالات فرمودہ اندو شوق انگیز بے مزا میر تا مغرب میخوانند بعد ازاں صاحب سجادہ درمیان وگرد اگرد مریدان نشستہ و صاحب حلقہ استادہ ذکر جہر میگو یند دریں اثناء بعضے رواجد و سوزش ہم میشودراز چیزے از قبیل ساطق خواندہ آنچہ تیارمی باشد از مثل طعام و شیرینی نیاز کردہ تقسیم کردہ نماز عشاء خواندہ رخصت میشوند۔“ (ترجمہ) حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے روضہ مبارکہ پر گیارہویں تاریخ کو بادشاہ غیر شہر کے اکابر جمع ہوتے۔ نمازِ عصر کے بعد مغرب تک کلام اللہ کی تلاوت کرتے اور حضرت غوث اعظم کی مدح اور تعریف میں منقبت پڑھتے، مغرب کے بعد سجادہ نشین درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور اُن کے ارد گرد مریدین اور حلقہ بگوش بیٹھ کر ذکر جہر کرتے۔ اسی حالت میں بعض پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔ اس کے بعد طعام شیرنی جو نیاز تیار کی ہوتی تقسیم کی جاتی اور نمازِ عشاء پڑھ کر لوگ رخصت ہو جاتے۔ (ملفوظاتِ عزیزی فارسی صفحہ22 مطبوعہ میرٹھ)
نوٹ:- الحمدللہ تاحال یہی طریقہ بغداد شریف میں آستانہ عالیہ پر مروج ہے گیارہ ربیع الثانی کو جاکر خود مشاہدہ کریں۔ الحمدللہ ہم نے یہ حال اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ مذید فتوے:- سوال: درمقدمہ مہندی ہاکہ شب یازدہم ربیع الثانی روشن میکنندو منسوب بجناب سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز مے نمایند و نذر و نیازمے آرند و فاتحہ مے خوانند۔ جواب: روشن کردن مہندی حضرت سید عبدالقادر اینہم بدعت سیئہ است زر کہ ہمچو مفسد و قباحت در تعزیہ ساختن است ہمیں قسم در مہندی متصور است و فاتحہ خواندان و ثواب آل بارواح طیبہ رسانیدن فی نفسہ جائز ودرست است۔ اب سوال اور جواب کا اُردر میں ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ سوال حاجی محمد ذکی دیوبندی نے کیا ہے۔ سوال:- اس مسئلہ میں کیا حکم ہے کہ مہندی شب یازدہم ربیع الآخر میں روشن کرتے ہیں۔ اور اُس کو منسوب ساتھ جناب عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کرتے ہیں اور نذر و نیاز و فاتحہ کرتے ہیں ؟ جواب:- روشن کرنا مہندی حضرت سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کا یہ بھی بدعت سیئہ ہے اس واسطے کہ جو قباحت تعزیہ داری میں ہے وہی قباحت مہندی میں بھی ہے اور فاتحہ پڑھنا ثواب اس کا ارواح طیبہ کو پہنچانا فی نفسہ جائز ہے۔ (فتاوٰی عزیزی فارسی ج1 صفحہ74، 75، مطبوعہ دہلی۔ فتاوٰی عزیزی اردو صفحہ166 مطبوعہ کراچی) فائدہ:- شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے واضح الفاظ میں گیارہ ربیع الثانی کو سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی روح مقدس کو فاتحہ کا ثواب پہنچانا جائز قرار دیا ہے سنت و جماعت حضرات بھی گیارہویں شریف میں ایصال ثواب ہی کرتے ہیں۔ مذید براں: ملفوظاتِ عزیزی میں تو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے رمضان شریف کے ماہ مقدس میں بڑے عرس بیان فرمائے ہیں۔ 3 رمضان کو سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کا عرس مبارک اور 16 رمضان کو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا عرس مقدس 21 رمضان کو علی المرتضٰی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کا عرس مبارک اور خواجہ نصیرالدین چراغ دہلوی کے عرس مبارک بھی بیان فرمائے ہیں۔ اصل فارسی کی عبارت ملاحظہ ہو۔ عرس کلاں دریں ماہ (رمضان) مبارک اند تاریخ سوم عرس حضرت فاطمہ و در شانزد ہم عرس حضرت عائشہ و حضرت علی بتاریخ نوزدہم زخمی شدند و درشب یکم رحلت فرمود و عرس نصیرالدین چراغ دہلی۔ (ملفوظات عزیزی فارسی صفحہ50 مطبوعہ میرٹھ) عرس ہی عرس:- عرس کا لفظ سنکر مخالفین کو شرک و بدعت کا ہیضہ ہو جاتا ہے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد اعراس کا ذکر کرکے ان کے مرض کو اور بڑھا دیا ہے اور گیارہویں شریف بھی حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا عرس ہے جسے بڑی گیارہویں کہا جاتا ہے۔
2 comments:
you can read an article on Gyarvi Sharif on Gyarvi Sharif thanks
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔