Pages

Saturday, 4 February 2017

باطل فرقوں کا بیان

🌷🌷(فیضان فرض علوم)🌷🌷
(علماء کرام کے علاوہ عام عوام میں اگر کسی کو ان عقائد کے حوالے سے کوئی بات نہیں سمجھ آتی تو وہ فورا پرسنل میں پوچھ لے الحمداللہ علماء و مفتیان کرام ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں)
عقائد کا بیان (بہارِ شریعت سے)
*************************************
نوٹ: بلا تعصب ہو کر پڑھیں جسے اعتراض ہو تو رد میں علمی بحث کرے فضول گوئی اور جاہلانہ انداز گفتگو سے پرہیز کریں۔    

(باطل فرقوں کا بیان)

صفحہ:1
(۴) غیر مقلدین:
یہ بھی وہابیت ہی کی ایک شاخ ہے، وہ چند باتیں جو حال میں وہابیہ نے ﷲ عزوجل اور نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں بکی ہیں، غیر مقلدین سے ثابت نہیں، باقی تمام عقائد میں دونوں شریک ہیں اور اِن حال کے اشد دیو بندی کفروں میں بھی وہ یوں شریک ہیں کہ ان پر اُن قائلوں کو کافر نہیں جانتے اور اُن کی نسبت حکم ہے کہ جو اُن کے کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔ ایک نمبر اِن کا زائد یہ ہے کہ چاروں مذہبوں سے جدا، تمام مسلمانوں سے الگ انھوں نے ایک راہ نکالی، کہ تقلید کو حرام و بدعت کہتے اور ائمہ دین کو سبّ و شتم سے یاد کرتے ہیں۔ مگر حقیقۃً تقلید سے خالی نہیں، ائمہ دین کی تقلید تو نہیں کرتے، مگر شیطانِ لعین کے ضرور مقلّد ہیں۔ یہ لوگ قیاس کے منکِر ہیں اور قیاس کا مطلقاً اِنکار کفر(1) تقلید کے منکر ہیں اور تقلید کا مطلقاً انکار کفر۔(2) مسئلہ: مطلق تقلید فرض ہے (3) اور تقلیدِ شخصی واجب۔(4) ضروری تنبیہ: وہابیوں کے یہاں بدعت کا بہت خرچ ہے، جس چیز کو دیکھیے بدعت ہے، لہٰذا بدعت کسے کہتے ہیں اِسے بیان کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بدعتِ مذمومہ و قبیحہ وہ ہے، جو کسی سنّت کے مخالف ومزاحم ہو(5) اور یہ مکروہ یا حرام ہے۔ اور مطلق بدعت تو مستحب، بلکہ سنّت، بلکہ واجب تک ہوتی ہے۔(6) ۔۔۔۔۔۔۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ في''الفتاوی الہندیۃ''، الباب التاسع، أحکام المرتدین، ج۲، ص۲۷۱: (رجل قال: قیاس أبيحنیفۃ رحمہ اللہ تعالٰی حق نیست یکفرکذا في ''التتارخانیۃ''). ''الفتاوی الرضویۃ''، کتاب السیر، ج۱۴، ص۲۹۲
2۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، کتاب السیر، ج۱۴، ص۲۹۰.
3۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۱، ص۴۰۴، ج۲۹، ص۳۹۲.
4۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۶، ص۷۰۳ ۔ ۷۰۴.
5۔۔۔۔۔۔ في''المرقاۃ''، کتاب الإیمان، ج ۱، ص۳۶۸: (قال الشافعی رحمہ اللہ: (ما أحدث مما یخالف الکتاب أو السنۃ أو الأثر أو الإجماع فہو ضلالۃ، وما أحدث من الخیر مما لا یخالف شیأاً من ذلک فلیس بمذموم).
6۔۔۔۔۔۔ في ''المرقاۃ''، کتاب الإیمان، ج ۱،ص۳۶۸: (قال الشیخ عز الدین بن عبد السلام في آخر کتاب القواعد: البدعۃ إمّا واجبۃ کتعلم النحو لفہم کلام اللہ ورسولہ، وکتدوین أصول الفقہ والکلام في الجرح والتعدیل، وإمّا محرمۃ کمذہب الجبریۃ والقدریۃ والمرجئۃ والمجسمۃ، والرد علی ہؤلاء من البدع الواجبۃ؛ لأنّ حفظ الشریعۃ من ہذہ البدع فرض کفایۃ، وإمّا مندوبۃ کإحداث الربط والمدارس، وکل إحسان لم یعہد في الصدر الأول وکالتراویح أي: بالجماعۃ العامۃ والکلام في دقائق الصوفیۃ، وإمّا مکروہۃ کزخرفۃ المساجد وتزویق المصاحف یعني عند الشافعیۃ، وأمّا عند الحنفیۃ فمباح، والتوسع في لذائذ المآکل والمشارب والمساکن وتوسیع الأکمام، وقد اختلف في کراہۃ بعض ذلک أي: کما قدمنا،۔۔۔۔۔۔ وقال عمر رضي اللہ عنہ في قیام رمضان: نعمت البدعۃ۔ وروي عن ابن مسعود: ((ما رآہ المسلمون حسناً فہو عند اللہ حسن))، وفي حدیث مرفوع: ((لا یجتمع أمتي علی الضلالۃ)) رواہ مسلم)، ملخصاً
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صفحہ: 2

حضرت امیر المؤمنین عمر فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تراویح کی نسبت فرماتے ہیں:

((نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ.))(1)

''یہ اچھی بدعت ہے۔'' حالانکہ تراویح سنّتِ مؤکدہ ہے(2)، جس امر کی اصل شرع شریف سے ثابت ہو وہ ہرگز بدعتِ قبیحہ نہیں ہوسکتا، ورنہ خود وہابیہ کے مدارس اور اُن کے وعظ کے جلسے، اس ہیأتِ خاصہ کے ساتھ ضرور بدعت ہوں گے۔ پھر انھیں کیوں نہیں موقوف کرتے...؟ مگر ان کے یہاں تو یہ ٹھہری ہے کہ محبوبانِ خدا کی عظمت کے جتنے اُمور ہیں، سب بدعت اور جس میں اِن کا مطلب ہو، وہ حلال و سنت۔

وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ً.1۔۔۔۔۔۔ عن عبد الرحمن بن عبد القاري أنّہ قال: خرجت مع عمر بن الخطاب في رمضان إلی المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون یصلي الرجل لنفسہ، ویصلي الرجل فیصلي بصلاتہ الرہط، فقال عمر: (واللہ إني لأراني لو جمعت ہؤلاء علی قاریئ واحد لکان أمثل، فجمعہم علی أبي بن کعب، قال ثم خرجت معہ لیلۃ أخری والناس یصلون بصلاۃ قارئہم فقال عمر: نعمت البدعۃ ہذہ، والتي تنامون عنہا أفضل من التی تقومون یعنی آخر اللیل وکان الناس یقومون أولہ). ''الموطأ'' للإمام مالک، کتاب الصلاۃ في رمضان، باب ما جاء في قیام رمضان، الحدیث: ۲۵۵، ج۱، ص۱۲۰. و''صحیح البخاري''، کتاب صلاۃ التروایح، باب فضل من قام رمضان، الحدیث: ۲۰۱۰، ج۲، ص۱۵۷.   
2۔۔۔۔۔۔ في ''الدر المختار''، کتاب الصلاۃ، مبحث صلاۃ التراویح، (التروایح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال والنساء إجماعاً). ج۲، ص۵۹۶۔۵۹۷.

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔