Pages

Thursday 9 February 2017

کیا قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ پاکستان کو اسلام سے جدا رکھنا چاہتے تھے؟

کیا قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ پاکستان کو اسلام سے جدا رکھنا چاہتے تھے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک منظم گروہ جو انتہائی ڈھٹائی، بے شرمی اور ہٹ دھرمی سے کئی سال سے مسلسل یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، میرا اس گروپ سے براہ راست یہ سوال ہے کہ قائد اعظمؒ کے خلاف یہ بے سروپا، لغو، جھوٹا اور بے بنیاد الزام عائد کرنے سے پہلے کہ قائد اعظمؒ پاکستان میں سیکولر نظام نافذ کرنا چاہتے تھے، کیا اس سیکولر طبقے نے خود قائد اعظمؒ کی تعلیمات اور افکار کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کر رکھا ہے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر سے سیکولر نظام کا مفہوم تلاش کرنے والے کم فہم اور نا سمجھ طبقے کو کیا قائد اعظمؒ کا وہ پیغام بھول گیا ہے جو انہوں نے فروری 1948ء میں اہل امریکہ کے نام براڈ کاسٹ کیا تھا۔ قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا: ’’میں نہیں جانتا کہ پاکستان کے دستور کی آخری شکل کیا ہو گی، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ دار اور جمہوری انداز کا ہوگا۔ اسلام کے اصول آج بھی ہماری زندگیوں میں اسی طرح قابل عمل ہیں، جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام نے ہمیں وحدتِ انسانیت اور عدل و دیانت کی تعلیم دی ہے‘‘۔
قائد اعظمؒ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا مسطمع نظر اور اصل مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں رہنے والے تمام شہریوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ بطور شہری ان سب کے حقوق برابر ہیں اور اس میں مسلمان، ہندو، سکھ یا کسی دوسرے مذہب کی تفریق نہیں رکھی جائے گی۔ قائد اعظمؒ کے خیالات اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق تھے۔ جمہوریت کی روح اور اسلام کی اخلاقیات کا تقاضا ہی یہ ہے کہ تمام اہل پاکستان کے ساتھ انصاف، مساوات اور غیر جانبداری کا برتاؤ کیا جائے۔ سیکولر نظام کے ڈھنڈورچی حضرات یہ سمجھ لیں کہ قائد اعظمؒ نے ہمیشہ قرآن کو اپنا راہنما کہا اور اللہ کی اس آخری کتاب ہی سے بصیرت حاصل کی، چنانچہ 1945ء میں قائد اعظمؒ نے اپنے پیغام عید میں فرمایا: ’’اس حقیقت سے سوائے جہلا کے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا بنیادی ضابطہ زندگی ہے۔ جو معاشرت، دین، تجارت، عدالت، عسکری امور، دیوانی اور فوجداری ضوابط کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ مذہبی رسومات سے لے کر روز مرہ زندگی کے معاملات تک، روح کی نجات کا سوال ہو یا صحتِ جسم کا، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک ،دنیاوی سزاؤں سے لے کر آخرت کے مواخذے تک تمام ضوابط قرآن میں موجود ہیں، اسی لئے نبی کریمؐ نے حکم دیا تھا کہ ہر مسلمان قرآن حکیم کا نسخہ اپنے پاس رکھے اور اس طرح خود اپنا مذہبی پیشوا بن جائے‘‘۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

یہ تو تھا قرآن سے پیغامِ عمل اور رہنمائی حاصل کرنے کے حوالے سے قائد اعظمؒ کا ارشاد۔ اب ملاحظہ ہو سیرت رسولؐ سے رہنمائی کی بابت قائد اعظمؒ کا فرمان۔ انہوں نے 14 فروری 1948ء کو سبی (بلوچستان) میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’میرا ایمان ہے ہماری نجات اخلاق کے ان سنہری اصولوں پر عمل کرنے میں ہے جو ہمارے عظیم قانون دینے والے رسولؐ اللہ نے وضع فرمائے تھے۔ آیئے ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد سچے اسلامی نظریات اور اصولوں پر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مملکت کے امور و مسائل باہمی مشوروں اور بحث و نظر سے طے کرو‘‘۔۔۔جب سرحد مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی طرف سے قائد اعظمؒ سے ایک پیغام دینے کی درخواست کی گئی تو قائد اعظمؒ کا جواب یہ تھا: ’’آپ نے مجھے پیغام بھیجنے کے لئے کہا ہے۔ مَیں آپ کو کیا پیغام دے سکتا ہوں۔ ہمارے پاس رہنمائی اور بصیرت کی روشنی حاصل کرنے کے لئے قرآن کی صورت میں عظیم پیغام موجود ہے‘‘۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

پاکستان میں سیکولر نظام کے نفاذ کے حامی حضرات یہ بتائیں کہ قائد اعظمؒ کے مذکورہ بالا افکار و نظریات کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی کوئی ہوش مند اور انصاف پسند شخص یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ قائد اعظمؒ سیکولر ذہن کے مالک تھے یا وہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، یعنی ایک ایسی ریاست جس میں مذہب کا کاروبار مملکت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ کیا جب قائد اعظمؒ اپنی تقاریر میں قرآن حکیم، اسوۂ رسولؐ اور اسلام تعلیمات یا اسلامی اصولوں کو حوالہ دیتے تھے تو وہ پاکستان میں سیکولر نظام کے نفاذ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے یہ حوالے دیتے تھے۔ جب بات قرآن یا سیرت رسولؐ سے رہنمائی لینے کے لئے کی جائے گی تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ قائد اعظمؒ اسلام کو مکمل ضابطہ حیات سمجھتے تھے اور وہ پاکستان کے ریاستی نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھنا چاہتے تھے۔ اب مَیں قائد اعظمؒ کی 25 جنوری 1948ء کو کی گئی ایک ایسی تقریر کا حوالہ پیش کرنا چاہتا ہوں، جس میں انہوں نے براہ راست ان لوگوں کو مخاطب کیا ہے جو یہ جھوٹا اور شرانگیز پروپیگنڈا کر رہے تھے کہ پاکستان کو ایک سیکولر مملکت بنانے کے لئے حاصل کیا گیا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

قائد اعظمؒ نے یہ تقریر کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں فرمائی تھی اور ان کا ارشاد تھا کہ ’’مَیں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ پایا جو جان بوجھ کر یہ پروپیگنڈا کر کے ایک نیا جھگڑا کھڑا کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا‘‘ ۔۔۔قائد اعظمؒ نے اپنی اسی تقریر میں آگے چل کر فرمایا تھا: ’’اسلام محض عبادات، روایات اور روحانی اعتقادات کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس سے ہر مسلمان کی دنیاوی زندگی میں نظم و ضبط اور طرز عمل میں اعتدال و توازن پیدا ہوتا ہے، حتیٰ کہ سیاسیات اور اقتصادیات میں بھی اسلام کی اساس بلند ترین اصولوں، یعنی عزت و وقار، اجتماعیت اور سب کے لئے انصاف مساوات پر استوار ہے۔ اسلام میں کسی بھی انسان کا کسی بھی دوسرے انسان سے کوئی فرق نہیں‘‘۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اسلام کی اعلیٰ و ارفع تعلیمات کے حوالے سے ایسے خوبصورت خیالات کا اظہار قائد اعظمؒ کی مومنانہ فراست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر قائد اعظمؒ کی اس تقریر کو پڑھ لینے کے بعد بھی کچھ لوگوں کا یہی اصرار ہے کہ قائد اعظمؒ ایک سیکولر ریاست کے علمبردار تھے تو پھر ایسے لوگوں کے لئے یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں عقل سلیم عطاء کرے تاکہ کہ وہ قائد اعظمؒ کے تصور پاکستان کو صحیح تناظر میں سمجھ سکیں۔جو لوگ اپنے کسی مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لئے قائد اعظمؒ کے نام کو غلط طور پر استعمال کرتے ہیں، وہ قائد اعظمؒ کی 11 اکتوبر 1947ء کی تقریر کا ایک اقتباس بھی پڑھ لیں: ’’پاکستان کا قیام، جس کے لئے ہم گزشتہ دس سال سے کوشاں تھے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس مملکت کا قیام بذات خود مقصد نہیں تھا بلکہ جس اصل مقصد کے حصول کا ذریعہ پاکستان تھا، وہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسی مملکت کا قیام چاہتے تھے، جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح زندہ رہ سکیں اور جس میں ہم اپنی صوابدید اور ثقافت کے مطابق نشوونما پا سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصولوں پر ہم عمل کر سکیں‘‘۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

قائد اعظمؒ تو پاکستان میں معاشرتی انصاف پر مبنی اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے کی بات کرتے تھے۔ ہ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات قرار دیتے تھے۔ وہ قرآن کو اپنا قطعی اور آخری رہنما سمجھتے تھے۔ قائد اعظمؒ نے یہ بھی فرمایا: ’’اگر کوئی چیز ہے اچھی ہے تو عین اسلام ہے، اگر کوئی چیز اچھی نہیں ہے تو وہ اسلام نہیں ہے، کیونکہ اسلام کا مطلب عین اسلام ہے‘‘۔۔۔اور پھر قائد اعظمؒ کا وہ فرمان تو ہر کسی کو یاد ہے کہ ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے، جہاں ہم اسلامی اصولوں پر عمل کر سکیں‘‘۔۔۔اب جو طبقہ پاکستان میں سیکولر ازم کا جھنڈا بردار ہے۔ میرا اس سے یہ سوال ہے کہ کیا اسلامی اصولوں کی تجربہ گاہ کا مطلب سیکولر ازم ہے یا ایک اسلامی ریاست؟

سیکولر ازم کے حامیوں کو ایک اہم حقیقت یہ بھی سمجھ لینی چاہئے کہ جس طرح جمہور مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے مطالبے، جدوجہد اور 1946ء کے انتخابات میں ووٹ کے ذریعے پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا، اسی طرح پاکستان کے لئے کون سا نظام لانا چاہئے، یہ فیصلہ بھی عوام نے کرنا تھا، جس ملک کی عظیم اکثریت ہی مسلمانوں پر مشتمل ہو اور جو ملک قائم ہی مسلم قومیت کی بنیاد پر کیا گیا ہو، جن مسلمانوں کو 14 سو سال سے اپنی عظیم اور مقدس کتاب قرآن کریم کے مکمل ضابطہ حیات ہونے پر فخر ہو۔ کیا وہاں کوئی حکومت قرآن حکیم کی تعلیمات اور شریعت اسلامی کو نظر انداز کر سکتی ہے۔ کیا پاکستان میں قرآن و سنت سے متصادم قانون سازی کی اجازت دی جا سکتی ہے۔مَیں یہاں تحریک پاکستان میں قائد اعظمؒ کے سب سے بڑھ کر معتمد ساتھی اور رفیق پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی دو تقاریر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ 15 جنوری 1948ء کے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں قائد ملت لیاقت علی خاں کی ایک تقریر کی خبر درج ذیل صورت میں شائع ہوئی: ’’پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ تیرہ سو برس پہلے کے اسلامی اصول آج بھی پوری طرح قابل عمل ہیں‘‘۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

17اپریل 1948ء کے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں لیاقت علی خاں کے خیالات کچھ اس طرح شائع ہوئے: ’’پاکستان کا آئندہ دستور قرآن مجید کے احکامات پر مبنی ہوگا۔ قائد اعظمؒ اور ان کے رفقاء کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشوونما ایک ایسی مثالی اسلامی ریاست کے طور پر ہو جو اپنے تمام باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے‘‘۔۔۔لیاقت علی خاں کی یہ دونوں تقاریر قائد اعظمؒ کی زندگی میں اخبار میں شائع ہوئیں، اگر قائد اعظمؒ کو ان تقاریر سے اختلاف ہوتا تو وہ فوراً تردید کر سکتے تھے کہ وزیر اعظم پاکستان کی تقاریر اُن کے خیالات اور نظریات کے مطابق نہیں ہیں۔ قائد اعظمؒ نے تو خود صاف اور صریح الفاظ میں خود یہ اعلان فرمایا تھا: ’’خان عبدالغفار خاں اور ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کا یہ زہر آلود پروپیگنڈا بالکل غلط ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین سے انحراف کرے گی‘‘۔۔۔ قائد اعظمؒ کی دلیل یہ تھی کہ جس دستور ساز اسمبلی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے، وہ شریعت کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیسے کر سکتی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

آج کے کالم میں قائد اعظمؒ کے تصور پاکستان کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی ہے کہ کراچی سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار کے اداریہ میں یہ غلط فہمی پھیلانے کی جسارت کی گئی ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظمؒ پاکستان کو ایسا ملک بنانے کے حق میں تھے،جہاں مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ میرے خیال میں قائد اعظمؒ کے خلاف اس سے بڑا جھوٹا الزام اور کوئی عائد ہی نہیں کیا جا سکتا کہ قائد اعظمؒ ایک ایسا پاکستان تشکیل دینے کا نظریہ رکھتے تھے جہاں ریاست اور مذہب ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوں گے۔ پاکستان کے سیکولر طبقے کے مقابلے میں ایک مشہور مسیحی لیڈر مسٹر جوشوا فضل الدین کی لیاقت و قابلیت اور سوجھ بوجھ کہیں زیادہ تھی، جنہوں نے قائد اعظمؒ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ قائد اعظمؒ کی اس تقریر میں دو ٹوک انداز میں یہ بات کہی گئی تھی کہ پاکستان میں مذہب و قوم کا امتیاز کئے بغیر تمام شہریوں کے حقوق برابر ہوں، مگر اس تقریر کا ہرگز مطلب یہ نہیں پاکستان کی بنیاد مذہب پر نہیں ہو گی۔

مسیحی لیڈر نے کہا تھا کہ یہ نقطۂ نظر بالکل پاگل پن پر مبنی ہے کہ قائد اعظمؒ نے ایک مذہب (مسلم قومیت) کی بنیاد پر پاکستان حاصل کرنے کے بعد اپنی ایک تقریر میں وہ بنیاد ہی ختم کر دی ہو، جس پر پاکستان قائم ہوا تھا۔ قیام پاکستان کی اساس کیا تھی؟ اس سوال کا مختصر ترین جواب قائد اعظمؒ نے یہ دیا تھا کہ ’’مسلمان ایک قوم ہیں‘‘۔۔۔ مسلمان اسلام پر ایمان لانے کے بعد ہی ایک الگ قوم قرار پاتے ہیں اور قائد اعظمؒ کے نزدیک اسلام محض ایک مذہب نہیں تھا، بلکہ آپ نے اپنی متعدد تقاریر میں اسلام کو مکمل ضابطہ حیات قرار دیا۔ قائد اعظمؒ کے الفاظ میں ایک اللہ، ایک رسولؐ ایک کتاب (قرآن کریم) اور ایک قبلہ کی بنیاد پر ہم ایک قوم ہیں اور اسی نظریئے کو لے کر جب ہم آگے بڑھتے چلے گئے تو تحریک پاکستان کا قافلہ قیام پاکستان کی صورت میں اپنی منزل کے حصول میں کامیاب ہو گیا۔ اسلام کے ساتھ رشتے کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمان جسد واحد کی طرح متحد نہ ہوتے تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہیں آ سکتا تھا۔ جس اسلام نے ہمیں پاکستان کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ اس اسلام کے احکامات سے پاکستان میں بے وفائی کیسے کی جا سکتی ہے؟(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

قرآن میں اسلام کے حوالے سے حکم دیا گیا ہے کہ تم اس نظامِ خداوندی میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنی انفرادی زندگی تو اسلام کے مطابق بسر کریں اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات سے منہ موڑ لیں۔ کیا ہم قرآن کے کچھ اصول و احکام پر عمل کریں گے اور باقی اصول و احکام کو چھوڑ دیں گے؟ اگر ہم اسلامی تعلیمات پر اُسوۂ رسول کریمؐ کی روشنی میں عمل کریں گے تو ریاست پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں سے نا انصافی کی ہی نہیں جا سکتی۔۔۔یہ مثال صرف ایک اسلامی ریاست میں ہی پیش کی جا سکتی ہے کہ جب حضرت علیؓ خود خلیفہ تھے تو انہوں نے ایک عیسائی سے اپنی چوری شدہ زرہ واپس لینے کے لئے قاضی کی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا، مگر گواہ نہ ہونے کی وجہ سے قاضی نے فیصلہ حضرت علیؓ کے خلاف اور عیسائی کے حق میں کر دیا۔ اگر ایک اسلامی ریاست میں عدالت اسلامی ریاست کے سربراہ اور وہ بھی حضرت علیؓ جیسے جلیل القدر صحابی کے خلاف فیصلہ صادر کر سکتی ہے تو پھر وہاں کسی غیر مسلم شہری کو اس کے حقوق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے،

قائد اعظمؒ نہ صرف اسلامی تعلیمات کا پوری طرح ادراک رکھتے تھے، بلکہ وہ تاریخ اسلام سے بھی پوری طرح آگاہی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پیش نظر قیام پاکستان کا مقصد صرف ایک ملک یا زمین کے ٹکڑے کا حصول نہیں تھا، بلکہ قائد اعظمؒ کے اپنے الفاظ یہ ہیں کہ: ’’ہم غیر ملکی غلامی سے نجات اس لئے حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ہم مسلم آئیڈیالوجی کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نہ صرف اپنی آزادی کا تحفظ نہایت ضروری خیال کرتے ہیں،بلکہ ہم اپنی آزاد ریاست میں اسلامی تصورات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ قائد اعظمؒ اگر پاکستان میں غیر مسلم شہریوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق دینے کی تمنا رکھتے تھے تو وہ اسلامی تعلیمات کی روح کے مطابق ایسا کرنا چاہتے تھے۔ اس کا مفہوم سیکولر ریاست ہرگز نہیں تھا۔ کیونکہ نام نہاد سیکولر ریاستیں اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت ویسے نہیں کر سکتیں جو ایک اسلامی ریاست کا طرۂ امتیاز ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔