بزرگوں کے ہاتھ اور پاؤں چومنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امام بخاری کی کتاب ’’الادب المفرد‘‘، باب نمبر 444 ’’باب تقبیل الید‘‘ میں حدیث نمبر 972 تا 974، امام بخاری نے ’’ہاتھ چومنے‘‘ کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کرام، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارکہ کو چوما کرتے تھے۔ ان احادیث کو ذکر کر کے امام بخاری آدابِ زندگی بتا رہے ہیں کہ بزرگوں کی سنت یہ تھی کہ شیوخ اور اکابر کا ہاتھ چوما کرتے تھے۔ یہاں تک کہ امام بخاری نے دین میں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا الگ باب قائم کیا۔ اس باب کے تحت آپ نے 3 احادیث کا ذکر کیا۔
ان میں سے پہلی حدیث (972) میں ہے کہ : ’’حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ سے دشمن کی تعداد کے زیادہ ہونے اور اپنی کم تعداد کو دیکھتے ہوئے اپنی موجودہ قوت کے خاتمہ کے ڈر سے میدان جنگ سے الٹے قدم واپس پلٹے اور یہ خیال کیا کہ ہم سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے راہ فرار نہیں اختیار کی بلکہ کامیابی کی طرف لوٹے ہو۔ پس ہم آگے بڑھے اور ’’فقبلنا يده‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ ‘‘
امام بخاری کے علاوہ یہ حدیث سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، مسند اور امام احمد بن حنبل میں بھی روایت کی گئی ہے۔ اس کے بعد اگلی حدیث (973) میں ہے کہ : عبدالرحمن بن رزین سے روایت ہے کہ ہمیں بتایا گیا کہ یہ حضرت سلمہ بن الاکوع ہیں، ہم ان کے پاس آئے اور سلام کہا، انھوں نے اپنے ہاتھ نکالے اور کہا کہ ان ہاتھوں سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ’’فقمنا اليها فقبلناها ‘‘ ’’ہم نے کی طرف بڑھے اور ان کے ہاتھوں کو چوما۔‘‘
اس سے اگلی حدیث 974 میں ہے کہ : قال ثابت لانس امسست النبی صلی الله عليه وآله وسلم بيدک قال نعم فقبلها
’’حضرت ثابت البنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نے اپنے ہاتھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوا تھا۔ انہوں نے جواب دیا : ہاں، یہ سنتے ہی حضرت ثابت، حضرت انس کے ہاتھ چومنے لگے۔ ‘‘
پہلی حدیث میں ہے کہ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومے۔۔۔ کئی لوگ اس کو نہیں مانتے اور اگر مان لیں تو کہتے ہیں کہ وہ تو صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومے تھے۔۔۔ اس کا آگے اطلاق نہیں ہوتا۔ اگلی حدیث امام بخاری اسی لئے لے آئے کہ جس طرح صحابہ کرام، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتے تو اسی طرح تابعین، صحابہ کرام کے ہاتھ چومتے۔ پس اس سے اکابر کے ہاتھ چومنا سنت ثابت ہوا۔
یہ احادیث لانے کے بعد امام بخاری نے اگلا باب 445 ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل‘‘ ’’پاؤں چومنے کا باب‘‘ قائم کیا۔ ان تراجم الابواب سے امام بخاری کا عقیدہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ اکابر کے ہاتھ اور پاؤں چومنا سنت ہے۔ یہی امام مسلم کا عقیدہ ہے۔ امام بخاری جب نیشا پور میں تشریف لائے اور امام مسلم ان کے پاس حاضر ہوئے تو ائمہ کے احوال پر مبنی تمام کتب میں درج ہے کہ امام مسلم نے امام بخاری سے اجازت مانگی کہ
يَا سَيّدُ الْمُحَدِّثِيْنَ يَا اُسْتَاذَ الاسْتَاذِيْن.
’’اے محدثین کے سردار اور اساتذہ کے استاد مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے قدم چوموں۔‘‘
اسی طرح امام بخاری نے بھی ایک موقع پر اپنے استاد کے قدم چومنے کی اجازت مانگی۔ پس اب یہ واضح ہے کہ آج ان عقائد کے حوالے سے کون امام بخاری و امام مسلم کے عقیدہ کے مطابق ہے اور کون ان کے عقیدہ کے خلاف ہے۔ ہاتھ اور پاؤں چومنا کس کے عقیدہ اور مسلک میں جائز اور کہاں ناجائز ہے یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے۔
’’پاؤں چومنے کے باب‘‘ میں امام بخاری حدیث لائے ہیں کہ
قال قدمنا فقيل ذاک رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فاخذنا بيديه و رجليه نقبلها
حضرت وازع بن عامر بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، ہمیں بتایا گیا کہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو ہم گر پڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک پکڑ لئے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین پکڑ لئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں چومنے لگے‘‘۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک چومے کیا یہ سنت آگے امت میں بھی چل سکتی ہے؟ امام بخاری کی نظر دیکھ رہی تھی کہ یہ سوال بھی کبھی ہوگا لہذا آپ اگلی حدیث اسی سوال کے جواب میں لائے۔
الادب المفرد ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل‘‘ حدیث نمبر 976 میں فرمایا :
عن صهيب قال رَاَيْتُ عَلِيًا يُقَبِّلُ يَدَالْعَبَّاس وَرِجْلَيْهِ.
’’حضرت صھیب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور قدم چومتے دیکھا‘‘۔
اس کے بعد امام بخاری باب نمبر 446 ’’قِيَامُ الرَّجُلِ لِلرَّجُّلِ تَعْظِيْمًا.‘‘ ’’ایک آدمی کا دوسرے آدمی کے لئے تعظیماً قیام کرنا‘‘۔
امام بخاری تعظیماً قیام کا باقاعدہ باب قائم کر رہے ہیں جبکہ صحیح بخاری پر اصرار کرنے والے آج تعظیماً قیام پر بحث کرتے پھرتے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔