Pages

Monday 13 February 2017

ندائے یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا ثبوت قرآن و سنت کی روشنی میں

ندائے یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا ثبوت قرآن و سنت کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یارسول اﷲ‘‘کے معنی ہیں’’اے اللہ کے رسول‘‘ان الفاظ کے ذریعے رسول خدا، محبوب کبریا باعث تخلیق کا ئنات فخر دوعلم حضور رحمت عالم ﷺکو پکارا جاتا ہے۔ انہیں پکارنا خواہ کے کسی لقب و خصوصیت کے ساتھ جائز و مستحسن ہی نہیں بلکہ کا ر ثواب اور موجب سعادت دارین ہے کوئی بے دین یا گمر اہ ہی ہوگا جو یا رسول اﷲ کہنے کا منکر ہو گا۔ حرف’’یا‘‘ کے معنی ہیں ’’اے‘‘ جو پکارنے کے لئے آتا ہے اور اﷲ رب العزت نے بھی اپنے محبوب حضورﷺکو متعد د بار قرآن پاک میں اس حرف کے ذریعے پکار اہے۔
٭ یا ایھا الرسول(سورہ مائدہ، آیت ۴۱) (آیت۶۷)
٭ یا ایھا المزمل(پارہ۲۹ ، سورہ مزمل)
٭ یاایھا المدثر (پارہ۲۹، سورہ مدثر)
٭ یا ایھا النبی حسبک اﷲ(سورہ انفال، آیت۶۴)
٭ یا ایھا النبی حرض المؤمینن (سورہ انفال، آیت۵ ۶)
٭ یا ایھا النبی قل لمن فی اید یکم (سورہ انفال، آیت۷۰)
٭ یا ایھا النبی جاھد الکفار (سورہ توبہ، آیت ۷۳ وسورہ تحریم آیت ۹)
٭ یا ایھا النبی التق اﷲ(سورہ احزاب، آیت۱)
٭ یا ایھا النبی قل لا زواجک (سورہ احزاب، آیت ۲۷)
٭ یا ایھا النبی اذاجاء ک المؤمنات (سورہ ممتحنہ، آیت۱۲)
٭ ایھا النبی اذا طلقتم النسا ء (سورہ طلاق ، آیت ۱)
٭ یا النبی لم تحرم ما احل اﷲ لک (سورہ تحریم، آیت۱)
نیز دیگر انبیائے کرام کو حرف ’یا‘‘ کے ذریعے پکارے جا نے کی متعد د شایس کلام الٰہی میں ملتی ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
٭ یا برھیم اعرض عن ھذا (سورہ ھود، آیت۷۶)
٭ ونا دینہ ان یا برھیم (سورہ صافات، آیت۱۱)
٭ یموسی انی اصطفیتک (سورہ اعراف، آیت۱۴۴)
٭ یموسیٰ انی اناربک (سورہ طٰہٰ، آیت ۱۱)
٭ یموسی  (سورہ طٰہٰ، آیت… )
٭ القھایموسی (سورہ طٰہٰ،آیت ۱۹)
٭ یموسی لا تخف (سورہ نحل،آیت ۱۰)
٭ یموسی انی انا اﷲ (سورہ قصص، آیت۳۰)
٭ یموسی اقبل ولا تخف (سورہ قصص آیت۳۱)
٭ یعیسی انی متو فیک (سورہ آل عمران، آیت ۵۵)
٭ یعیسی ابن مریم اذکر نعمتی (سورہ مائدہ، آیت۱۱)
٭ یعیسی ابن مریم أانت قلت للناس (سورہ مائدہ، آیت۱۱۶)
٭ ینوح انہ لیس من اھلک(سورہ ھود، آیت۴۶)
٭ ینوح اھبط بسلم منا (سورہ ھود ، آیت۴۸)
٭ یآدم انبئھم باسمائھم (سورہ بقرہ، آیت۳۳)
٭ یآدم اسکن انت وزوجک (سورہ بقرہ، آیت ۳۵، سورہ اعراف آیت ۱۹)
٭ یآدم ان ھذا عدو لک (سورہ طٰہٰ، آیت۱۱۷)
٭ یزکریا انا بنشرک (سورہ مریم آیت ۷۰)
٭ یمریم اقنتی لربک(سورہ آل عمران، آیت۴۳)۔
  ان آیتوں میں رب تعا لیٰ نے اپنے محبوبین کو حرف یا کے ذریعے پکارا جس سے ظاہر ہواکہ ’’یا‘‘سے پکارنا تو خود رب تعا لیٰ کی سنت کریمہ ہے بلکہ یہ رب تعا لیٰ کا حکم بھی ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا:لا تجعلوادعا ء الرسول کد عاء بعضکم بعضا۔(سورہ نور،آیت ۶۳)یعنی’’رسول کے پکارنے کوآپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دو سرے کو پکارتا ہے’’یعنی جس طرح کسی کا نام زید ، خالد ہے تو اسے اس کے نام کے ساتھ یا زید (اے زید) یا خالد(اے خالد) کہہ کر پکارا جاتا ہے تو اﷲ تعا لیٰ کے محبوب کوان کے نام پاک محمدسے یعنی یا محمد کہہ کر نہ پکارو بلکہ یا رسول اﷲ یا نبی اﷲ کہو۔ یہی قرآن پاک کا حکم ہے۔
جس کی وضاحت اجلہ مفسرین کرام نے فرمائی۔ تفسیر خزائن العرفان میں صدر الافاضل مفتی سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ نے اس آیت کے تحت فرمایا:’’رسول اﷲ کو ندا کرے تو ادب  وتکریم اور تو قیر وتعظیم کے ساتھ آپ کے معظم القاب سے نرم آواز کے ساتھ متواضعانہ و منکسرانہ لہجہ میں یانبی اﷲ یا رسول اﷲ یاحبیب اﷲ کہہ کر (ندادے)‘‘۔
تفسیر ات احمدیہ میں شیخ ملاجیون (متوفٰی۰ ۱۱۳) علیہ الر حہ تحریر فرماتے ہیں:لا تجعلوا ندا ء ہ کندا ء بعضکم بعضا با سمہ و رفع الصوف بمثل یا احمد و یا محمد و لکن بلقبہ المعظم مثل یا نبی اﷲ و یا رسول اﷲ یعنی حضور نبی پاک ﷺکو ان کے نام پاک کے ساتھ نہ پکا رو جیسا تم میں کوئی ایک دوسرے کو پکارتا ہے جیسے یہ کہے یا احمد اور یا محمد لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان کے القاب کے ساتھ جیسے یا نبی اور یا رسول اﷲ کہہ کر پکارے۔ (صفحہ ۵۸، مطبوعہ مکتبہ الحرم اردو بازار لاہور)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تفسیرروح المعانی میں شیخ شھاب الدین محمود آلوسی بغدادی (متوفٰی۱۲۷۰) فرماتے ہیں: لا تجعلو ا نداء ہ علیہ الصلوٰۃ والسلام  و تسمیۃ کنداء بعضکم باسمہ و رفع الصوت بہ والند ء من وراء الحجرت و کلن بلقبہ المعظم یا نبی اﷲ و یا رسول اﷲ مع التو اضع وخففن الصوت (مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ) یعنی’’حضور نبی پاک ﷺکو ایسے نہ پکارو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو بلند آواز کے ساتھ اور حجروں کے باہر سے پکارتے ہو بلکہ حضورﷺکو ان کے معظم القاب یا نبی اﷲ اور یا رسول اﷲ کہہ کر پکارے تو قیر و تعظیم اور نرم آواز کے ساتھ ۔تفسیر جلالین میںہے:بان تقو لوا یا محمد بل قو لوا یانبی اﷲ یا رسول اﷲ فی لین وتو اضع و خففن صوت یعنی یامحمد نہ کہو بلکہ یا نبی اﷲ یا رسول اﷲ نرمی عجزو انکساری اورپست آواز کے ساتھ کہو۔ تفسیر صاوی میں ہے نداء بمعنی لا تنا دوا باسم فتقو لوایا محمدوہ بکنیتہ فتقولوا یا اباالقاسم بل نادوہ و خا طبور با لتعظیم وا لتکریم والتوقیربان تقولوایا رسول اﷲ یا نبی اﷲ یا امام المرسلین یا رسول رب العالمین یا خاتم النبین و غیر ذلک واستفید من الا یۃ انہ لا یجور نعاء النبی بغیر مایفید التعظیم لا فی حیا تہ ولا وفا تہ (جلد ۴، صفحہ۱۴۲۱، مطبوعہ امیرحمزہ کتب خانہ کانی روڈ کوئٹہ)یعنی قرآن کا لفظ نداء ہ سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی پاک ﷺکو ان کے نام پا ک کے ساتھ نہ پکارو کہ تم یہ کہو یا محمد اور نہ ہی ان کی کنیت کے ساتھ پکارو اور یہ کہو یا با القاسم بلکہ انہیںتعظیم و تکریم وتو قیر کے ساتھ پکارو اور یا رسول اﷲ یا نبی اﷲ یا امام المرسلین یا رسول رب العالمین یا خاتم النبیین اور ان کے علاوہ دیگر القاب کے ساتھ پکارو اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کو پکارنا ایسے الفاظ کے ساتھ جو تعظیم کا فائدہ نہ دیتے ہوں ان کی حیات میں اور ان کے وصال کے بعد ان سے پکارنا جائز نہیں ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا:لا تنا دو کما ینا دی بعضکم بعضا یا محمد ولکن قولوا یا رسول اﷲ یا نبی اﷲ (جلد ۸، صفحہ۴۲۵، مطبوعہ مکتبہ علوم اسلامیہ اردو بازار لاہور)یعنی’’حضور نبی پاک ﷺکو یا محمد کہہ کر نہ پکارو جیسا تم میں کوئی ایک دوسرے کو پکارتا ہے بلکہ یا رسول اﷲ یا نبی اﷲ کہو‘‘۔تفسیر بغوی میں امام جلیل محی النستہ ابو محمد حسن بن مسعود نرزء بغوی شافعی متونی۵۱۶ھ فرماتے ہیں:وقال مجاہد و قتادۃ لا تدعوہ باسمہ کما ید عوابعضکم بعضا یا محمد یا عبداﷲ ولکن فخموہ وشر فوہ فتقو لو ایا نبی اﷲ ویا رسو ل اﷲ فی لین و تو اضع یعنی حضرت مجاہد اور فتادہ نے کہا کہ نبی پاک ْﷺکو ان کے نام پاک کے ساتھ یعنی یامحمد یاعبداﷲ کہہ کر پکارو جیسا تم ایک دوسرے کو پکارو بلکہ ان کی تعظیم وتو قیر کرتے ہو ئے یا نبی اﷲ یارسول اﷲ پکارو نرمی اور عجز و انکساری کے ساتھ۔ (جلدا۳، صفحہ۳۵۹ طبوعہ ادرہ تا لیفات اشرفیہ ملتان)۔
تفسیر مدارک میں امام عبدا ﷲ بن احمد بن محمود نسفی علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں:لا تجعلوا تسمیۃ ونحاء ہ بینکم کما یسمی بعضکم بعضاوینادیہ باسمہ الذی سماہ بہ ابواہ ولا تقولوایا محمد ولکن یانبی اﷲ و یا رسول اﷲ مع التو قیر واتعظیم والصوت المخضوض یعنی’’حضور نبی پاک ﷺکا نام پاک لینا اور آپ کو پکارنا جیسا آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہوا ورانہیں ان کے والدین کریمین کے رکھے ہوئے نام سے نہ پکارنا جیسا آپس میں ایک دوسرے کو پست آواز میں یانبی اﷲ اور یارسول اﷲ کہو‘‘۔(الجزء الثالث، صفحہ ۵۲۲، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی )یہی مضمون تفسیرکشاف میں امام ابو القاسم جار اﷲ زمخشر ی نے بیان کیا (الجز ء الثالث ، صفحہ۲۶۵)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تفسیر احکام القرآن میں امام ابوبکر احمد رازی جصاص متوفی ۳۷۰ فرماتے ہیں: وقال مجاہد وقتادہ ادعو ہ بالخضوع واتعظیم نحو یا رسول اﷲ یا نبی اﷲ ولا تقو لو ایا محمد کما یقول بعضکم بعض۔(جلد۳، صفحہ۴۹۰ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)یعنی مجاہد اور قتادہ نے کہا کہ حضور نبی پاک ﷺکوعاجزی اور تعظیم کے ساتھ پکارو جیسے یا رسول اﷲ یا نبی اﷲ اور یا محمد نہ کہو جیسا کہ تم میں سے بعض اپنے بعض کو پکارتے ہو۔ مذکورہ بالا آیت اور معتبر تفا سیر کی روشنی میں یہ واضح ہوگیا کہ یارسول اﷲ کہنا کسی ایک جماعت کا طریقہ نہیں بلکہ یہ حکم ربی ہے قرآن پاک اور اس کی تفاسیر اسی امر کی متقا ضی ہیں اب اگر کوئی منع کرتا ہے تو وہ اپنی طرف سے دین میں فساد پیدا کرنے کی جسارت کررہا عہد رسالت مآبﷺسے بھی یا رسو ل اﷲکہنے کی متعد د حدیث پاک روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اﷲﷺمدینہ منورہ تشریف لائے:فصعد الر جال والنسا ء فوت البیوت وتفرق الغلمان والخدم فی الطر یق ینا دون یامحمد یا رسول اﷲ (صحیح مسلم، کتاب الزھد ، باب فی حدیث الہجدۃ۔، الجلدالثانی، صفحہ ۴۱۹ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی) یعنی ’’حضور ﷺکی آمد پر مرداور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چھڑ ھ گئے اور بچے اور خدام راستے میں پھیل گئے اور وہ نعرے لگارہے تھے یا محمد یا رسول اﷲیا محمدیارسول اﷲ‘‘۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ ایک نابینا صحابی رسول اپنی بینائی کا مسئلہ لے کربارگاہ رسالت میں حاضر ہو ئے حضور رحمۃ للعالمین ﷺنے انہیں نماز حاجت پڑھنے کی اور اس کے بعد ایک وظیفہ پڑھنے کی تلقین فرمائی جس میں یا محمد کے الفاظ ہیں:اللھم انی اسئلک واتو جہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قد تو جھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقفی لی اللھم منشفسی فی یعنی’’اے اﷲمیں تجھ سے مدد چاہتا ہوں اور تیری طرف حضور علیہ الصلوۃ والسلام نبی رحمت کے ساتھ متوجہ ہو تا ہوں۔ یا محمد ﷺمیں نے آپ کے ذریعے سے اپنے رب کی طرف اپنی اس حاجت میں تو جہ کی تاکہ حاجت پو ری ہو۔اے اﷲ!میرے لئے حضور ﷺکی شفاعت قبول فرما‘‘(سنن ابن ماجہ ء باب ماجاء فی صلوۃ الحاجۃ ، صفحہ۹۹ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس حدیث پاک میں قیامت تک کے مسلمانوں کیلئے ان کی حاجات و مسائل کے لئے ایک وظیفہ تعلیم فرمایا گیا جس میں یامحمد کے الفاظ ہیں۔ترمذی شریف میں حضرت علی بن ابی طالب یعنی اﷲعنہ سے روایت ہے کنت مع النبی ﷺبمکۃ نخر جنا فی بعنں نواحیھا فما استقبلہ جبل وہ شجر اہ وھو یقول السلام علیک یا رسول علیک یا رسول اﷲ یعنی’’میں نبی کریمﷺکے ہمراہ مکہ میں تھا پھر سرکار اقدس ﷺاور ہم مکہ شریف کے گردونواح میں گئے تو جس پہاڑ اور درخت کا سامنا ہوتا وہ عرض کرتا السلام علیک یا رسول اﷲ‘‘(جامع ترمذی ابواب المناقب عن رسول اﷲﷺ، باب ماجاء فی ایات النبوۃ ﷺوما قد خصہ اﷲ بہ، صفحہ۲۰۴ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
اسی طرح مشکوٰۃالمصا بیح کی پہلی مشہور حدیث ، حدیث جبریل جو صاحب مشکوٰۃ نے بخاری اور مسلم سے نقل فرمائی اس میں جبریل امین کے الفاظ ہیں یا محمد اخبر نی عن الا سلام یعنی ’’اے محمدﷺمجھے اسلام کے متعلق بتا دیجئے ‘‘۔
ندا سے جہا ں فرط محبت میں حضور رحمۃ لعالمین ﷺکو پکارا جاتا ہے ہیں اس سے مقصود آپ سے استعا نت (مدد)چا ہنا اور آپ کو پکارکر آپ کی توجہ خاص حاصل کرنا شرعاً اس میں کوئی قیامت نہیں کیو نکہ آپ سے مدد چاہنا حقیقۃ اﷲ رب العزت ہی سے مدد کا حاصل کرنا ہے کہ ہر کام کا فاعل حقیقی اﷲ تعا لیٰ ہی ہے کبھی فعل کی نسبت فاعل حقیقی کی طرف کی جاتی ہے اور کبھی متعلقات فعل کی طرف نسبت کی جاتی ہے اس کے مثالیں اردو زبان میں مشہور ہیں مثلاً کوئی کہے کہ ڈاکٹر نے مریض کو اچھا کردیا۔دو اسے بیماری دور ہوگئی اس میں کہنے والے کی ہر گز یہ مراد نہیں ہو تی کہ اﷲ رب العزت نے یہ کام نہیں کیے بلکہ یہ مقصود ہو تا ہے کہ ان اسباب کی وجہ سے اور ان کی موجودگی میں کام ہو گیا جب کہ مسبب (سبب پید اکرنے والا) اور حقیقی مددگار اور شفاء دینے والا رب تعالیٰ کی ذات ہی ہے ۔اسی طرح کسی سے قرض اور مدد مانگنے والا اس بات کو جانتا ہے کہ حقیقی مددگار تو اﷲ تعا لیٰ ہی کی بارگاہ سے مدد طلب کرنا ہے اور جس طرح رسول اﷲ ﷺکو پکارنا اور مدد چاہنا آپ کی ظاہری حیات مقدسہ میں تھا اسی طرح بعداز وصال بھی ہے کیو نکہ انبیائے کرام اور محوبین خدا بعداز وصال بھی زندہ ہوتے ہیں بتقا ضائے بشریت ایک لمحے کیلئے وقت وصال آتا ہے اور پھر ہمیشہ کیلئے زندگی حاصل ہوجاتی ہے۔کلام الٰہی کی آیات بینات اس پر واضح دلیل ہیں۔ارشاد ہواولا تقولوا لمن یقتل  فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون (سورہ بقرہ، آیت۱۵۴)یعنی’’اورجو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں‘‘۔نیز فرمایا:وہ تحبسن الذین قتلو افی سبیل اﷲ امواتا بل احیاء عند ربھم پر زقون(سورہ آل عمران،آیت) یعنی’’اور جو اﷲ کی راہ میں مارے گئے ہر گز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں‘‘۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حدیث پاک میں ہے عن ابی الحدداء قال قال رسول اﷲ ﷺان اﷲ حرم علی الارض ان ان تاکل احبسار الا بیناء ننبی اﷲ حی یرزق (سنن ماجہ کتاب الصلوٰۃ، باب فی فضل الجمۃ، صفحہ۷۶،باب ذکر وفاتۃ ود فنہ ﷺ۱۱۸مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)یعنی حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺنے فرمایاکہ: ’’بے شک اﷲ تعالیٰ نے زمین پرحرام کردیا ہے کہ وہ نبیوں کے جسموں کو کھائے اﷲ کے نبی زندہ ہیں رزق د یے جاتے ہیں‘‘۔اس حدیث کے تحت حضرت ملاعلی قاری علیہ رحمۃ الباری تحریر فرماتے ہیں:لا فرق لھم فی لحالین ولذا قیل اولیاء اﷲ لا لمیوتون، وکلن ینتقلون من دارالی دار یعنی’’انبیائے کرام کی دنیوی اور بعد وصال کی زندگی میں میں کوئی فرق نہیں ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ اولیائے کرام مرتے نہیں بلکہ ایک دار(گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہوجاتے ہو جاتے ہیں ‘‘(مرقاۃ المفا تیح ، جلد ۳، صفحہ۴۱۴ مطبوعہ مکتبہ رشید یہ کوئٹہ)
ہم نے مذکورہ  مضمون میں صرف چند تقا سیر اور صحاح ستہ کی چند احادیث پر اکتفاء کیا ا بھی اس باب میں دیگر معتبر و معروف کتب احادیث کی ہزارہا احادیث اور بزرگان دین اور سلف و صالحین کی بے شمار مثالیں اور دلائل ہیں طوالت کی بناء پر ذکر نہیں کیا کہ عقل مند اور تسلیم کرنے والے کے لئے تو ایک ہی دلیل کافی اور نا سمجھ وہٹ دھرم کے لئے دفتر بھی ناکافی۔حاصل کلام یہ ہے کہ قرآنی آیات اور ان کی تفاسیر اور احادیث مقدسہ سے یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ علیہ و السلام کو نداء کرنا’’یا رسول اﷲ‘‘ کہنا سنت الٰہیہ ہے ، فعل ملائکہ اور فعل صحابہ ہے کوئی محبت رسول ہو نے کا دعویدار اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اﷲ کریم ہمیں اپنے رسول عظیم ﷺکو پکارنے اور ان کے دامن سے دائمی و ابستگی نصیب فرماتے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔