Pages

Sunday 5 February 2017

قُلْ مَا کُنتُ بِدْعاً مِّنْ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ (سورة احقاف، آیت ٩) ترجمہ۔ آپ فرمادیں کہ میں کوئی نیا رسول تو ہوں نہیں مجھے'' معلوم نہیں'' کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے۔

قُلْ مَا کُنتُ بِدْعاً مِّنْ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ (سورة احقاف، آیت ٩)
ترجمہ۔ آپ فرمادیں کہ میں کوئی نیا رسول تو ہوں نہیں مجھے'' معلوم نہیں'' کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے۔
نبی پاک ۖ کی زبان مبارک سے یہ فرمان پیش کیا گیا ہے کہ ماادری مایفعل بی ولا بکم ، جس کا ترجمہ انہوں نے یہ کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے، اس کے ساتھ ہی بعد میں دی جانے والی حدیث کو کو بھی شامل کردیا جائے تو بہتر ہوگا ۔
حدیث نمبر 1 میں ہے کہ ایک صحابیہ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد یہ الفاظ کہے کہ میں گواہی دیتی ہوں اس بات کی کہ ضرور تحقیق اﷲ نے تیرا اکرام کیا ہے (بخاری) اس کے بعد نبی پاک ۖ نے فرمایا میں خدا کا نبی ہوں مگر درایت کی رو سے میں ایسا بیان جاری نہیں کرتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا، (مشکوٰة بحوالہ بخاری) ، آیت وحدیث ملا کر پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل کے حوالے سے کوئی یقینی بات روایت کی رو سے کرنی چاہئے ، درایت(عقل وقیاس) کی رو سے نہیں، لیکن بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ جیسے نبی پاک ۖ کو اپنا اور دوسروں کا انجام معاذ اﷲ معلوم نہیں، یہی وجہ ہے کہ جب مشرکین نے یہ آیت سنی تو ہمارے دور کے کم فہموں والا مفہوم مراد لے بیٹھے اور خوشی سے پھولے نہ سمائے، پھر اﷲ تعالیٰ نے سورة فتح نازل فرمائی تو درایت سے پیدا ہونے والے ابہام کو توضیحی بیان سے دور فرمایااور صحابہ کرام کو سورة فتح کے نزول سے بہت زیادہ خوشی ہوئی، جس میں سورة الاحقاف کی مذکورہ زیر بحث آیت میں بیان شدہ خبر کے ابہام کو توضیح سے بدل دیا، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سورة الاحقاف کی مذکورہ آیت کو سورة فتح نے منسوخ کردیا، جو اخبار میں نسخ کے قائل ہیں وہ یہی کہتے ہیں، اور دوسرے یہ کہتے ہیں کہ خبر کے ابہام کو بعد میں آنے والی توضیح نے منسوخ کردیا۔
ایک تو یہ لوگ ہیں جو سورة الاحقاف کے نزول تک بھی نبی پاک ۖ کو اپنے اور اپنے صحابہ کے انجام سے بے خبر بتاتے ہیں اور دوسری طرف ہم محبت کے مارے ہیں جو کہتے ہیں کہ جس قلم نے ماکان ومایکون کا علم لکھا وہ نور محمدی ۖ ہی ہے، اور آپ اُس وقت سے اپنے اور سب کے انجام سے واقف ہیں، تفصیل یہ ہے کہ ترمذی شریف میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ کی حدیث ابواب القدر کے باب نمبر ١٧ میں موجود ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو تخلیق فرمایا ، اسے فرمایا لکھ، اس نے عرض کیا کیا لکھوں، حکم ہوا کہ اکتب القدر ما کان وماھو کائن الی الابد(حدیث نمبر ٢١٥٥) ، یعنی لکھ تقدیر کو جو کچھ ہوا اور جوکچھ ابد تک ہونے ولا ہے۔ (مشکوٰة، ص٢١)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اوّل الخلق کاتب تقدیر ذی شعور قلم ہے کون سا ؟ اس کا جواب بخاری ، کتاب القدر، حدیث نمبر٦٦٠٩، بخاری کتاب الایمان والنذور، حدیث نمبر ٦٦٩٤، ابودائود، کتاب الایمان، حدیث نمبر٣٢٨٨میں آچکا ، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے ''لا یاتی ابن أدم النذر بشی لم أکن قدرتہ '' کہ ابن آدم کو نذر (منت) سے وہ چیز نہیں ملتی جو میں (نبی پاک ۖ) نے اُس کی تقدیر میں نہ لکھی ہو۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ تقدیر لکھنے والے نبی پاک ۖ ہی ہیں اور قلم لا لفظ آپ ۖ کے لئے بطور استعارہ آیا ہے، عجب نہیں کہ ن والقلم (سورة قلم، آیت ١) میں نور محمدی بشکلِ قلم مراد ہو، ورنہ قلموں کی کیا مجال کہ وہ ماکان وما یکون جان سکیںلکھنا تو دُور کی بات ہے، (سورة لقمان، آیت ٢٧)، بعض عارفین نے کہا کہ اوّل الخلق نبی پاک ۖ ہیں، اوّل الخلق کے طور پر حدیثوں میں آنے والے سب نام آپ ۖ کے لئے استعارةً استعمال ہوئے ہیں۔(سر الاسرار، ص١٢، ١٤ ۔ مرصاد العباد، ص٣٠۔ تاریخ الخمیس،ج ١، ص١٩) ع
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
ماکان ومایکون کا علم تو نبی پاک ۖ کو اُس وقت بھی حاصل تھا، البتہ آپ ۖ کا علم مبارک تکمیلِ نزولِ قرآن تک ہر لمحہ اﷲ تعالیٰ بڑھاتا رہا، اور ہر لمحہ کا علم پچھلے لمحہ کی نسبت تفصیل بنتا چلا گیا اور ماضی والا علم اُس کی روشنی میں اجمالی نظر آیا، تاہم باقی تمام مخلوقات کے تفصیلی علوم کے مجموعے سے آپ ۖ کا اجمالی علم جو لوح نے قلم سے محفوظ کیا وہ زائد ہے، امیر مینائی نے کیا خوب کہا !
حضرت کا علم علمِ لدنی تھا اے امیر
دیتے تھے قدسیوں کو سبق بے پڑھے ہوئے
تعلیم جبرائیلِ امیں تھی برائے نام
حضرت وہیں سے آئے تھے لکھے پڑھے ہوئے
اس کلام کی روشنی میں قصیدہ بردہ کا وہ مصرعہ سمجھنا مشکل نہ رہا کہ'' ومن علومک علم اللوح والقلم '' ، لوح وقلم کا علم تو آپ کے علوم میں سے صرف ایک علم ہے، یہ محض عقیدت نہیں حدیثوں کو ملا کر دیکھنے سے ثابت ہے، یہ قرآن کے عجائب وغرائب ہیں جنہیں قیامت تک ظاہر ہوتے رہنا ہے، حاصل یہ ہوا کہ حضور ۖ کا یہ علم درایة پر مبنی نہیں ، قیاس کے گھوڑے دوڑا کر حاصل نہیں کیا گیا ، یہ قطعی یقینی تعلیم الٰہی پر مبنی ہے۔
    حدیث نمبر ١۔ رسول اﷲ ۖ نے فرمایا کہ گو میں خدا کا نبی ہوں مگر مجھے یہ'' معلوم نہیں '' کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے۔
اس کی وضاحت آیت نمبر ٦ کے ضمن میں پیش کی جاچکی ہے کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا، کے حوالے سے میرا علم ظن وتخمین اور درایت وقیاس پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں میرا علم قطعی اور وحی الٰہی پر مبنی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔