Pages

Saturday 18 February 2017

وسیلہ کیا ہے آیئے قرآن اور حدیث کی روشنی میں سمجھیں

وسیلہ کیا ہے آیئے قرآن اور حدیث کی روشنی میں سمجھیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وسیلہ ،وہ واسطہ ہے جس کے ذریعے کسی چیز تک پہونچا جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے،اور شر یعت کی زبان میں بارگاہ الہی میں قرب حاصل کر نے کے لئے یا حصول مراد کے لئے بوقت دعا کسی مقبول عمل،صالح بزرگ یا با بر کت چیز وغیرہ کا واسطہ پیش کر نے کو وسیلہ کہتے ہیں۔

الحمد للہ! وسیلہ کے جواز پہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بہت سے دلائل موجود ہیں ،ان میں سے کچھ مند رجہ ذیل ہیں۔

دلیل نمبر: 1 ۔  ارشاد ربانی ہے۔یا یھا الذین آمنو ا اتقوا للّٰہ و ابتغو الیہ الو سیلۃ۔(سورہ مائدہ،آیت:۳۵) ائے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور (اس کی بارگاہ تک پہونچنے کے لئے)وسیلہ تلاش کرو۔
اس آیت کر یمہ میں اللہ تعالی نے خود ہی اپنے بندوں کو اپنی بارگا ہ تک پہونچنے کے لئے وسیلہ تلاش کر نے کا حکم دیا ہے ۔تو معلوم ہوا کہ وسیلہ بلا شبہ جا ئز ہے۔

دلیل نمبر : 2 ۔ جب مدیینہ طیبہ میں قحط پڑ جاتا تو سید نا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ، حضور نبی کریم ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا کرتے ہو ئے کہتے’’اللھم انا کنا نتوسل الیک بنبینا فتسقینا و انا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا‘‘ اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم ﷺ کے وسیلے سے دعا کرتے تھے تو ،تو ہم پر بارش نازل فرما تا تھا ۔ اور اب ہم تیری بارگا میں اپنے نبی(ﷺ)کے چچا جان کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں کہ ہم پر بارش نازل فر ما۔راوی کہتے ہیں تو پھر ان پر (اس دعا کی بدولت) بارش بر سائی جاتی۔(صحیح بخاری ،کتاب الاستسقاء ،باب سوال الناسِ الامام َ الاستسقاء اذا قحطوا، حدیث :۱۰۱۰)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس حدیث شریف سے معلوم ہو کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ صحابہء کرام کی جماعت کے ساتھ سر کار علیہ السلام کے چچا کے وسیلے سے دعا مانگتے تھے ۔مگر کسی صحا بی رسول ﷺ نے اعتراض نہ کیا ۔گو یا وسیلہ کے جواز پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم کا اجماع ہو گیا۔اس لئے اس کے جواز میں کسی مسلمان کو ذرّہ برابر بھی شبہ نہیں ہو نی چاہئے۔

اللہ تعالی نے بغیر کسی چیز کو خاص کئے ہو ئے مطلق ارشاد فر مایاکہ’’ائے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی بارگا ہ تک پہو نچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو‘‘ تو اب ہر اس چیز کو وسیلہ بنا نا جائز ہو گا جو اس کی بارگاہ میں مقبول و محبوب ہو اور جس کے ذریعے اس کی رحمت کو اپنی طرف متو جہ کیا جا سکتا ہو ۔چا ہے وہ نیک اور مقبول عمل ہو یا نیک اور مقبول ذات۔چا ہے وہ زندہ ہو ںیا وفات فر ماچکے ہوں۔ہاں ہمیں اپنے کسی عمل کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں معلوم کہ وہ بارگا ہ الہی میں مقبول ہے یا مردود؟مگر کچھ مقدس ہستیوں کے بارے میں ہمیں صرف معلوم ہی نہیں بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگا ہ میں مقبول اور محبوب ہیں جیسے کہ انبیائے کرام،صحابہ کرام اور اولیائے کرام وغیرہ ۔اس لئے ان کے وسیلے سے دعا کرنے میں قبولیت کی امید زیادہ ہے۔

حضور ﷺ نے خود اپنے صحابی کو اپنی ذات اقدس کا وسیلہ بنا کر دعا کر نے کی تعلیم دی ۔چنانچہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نا بینا شخص نبی کر یم ﷺ کے پاس آیا ا ور اس نے کہا :میر ے لئے اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالی مجھے عا فیت بخشے ۔تو حضور ﷺ نے کہا :اگر تم چاہو تو میں مو خر کردوں اور وہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر چاہو تو دعا کر دوں۔تو انہوں نے کہا :دعا کر دیجئے،تو اس کو حضور ﷺنے حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑ ھے اور اس طر ح سے دعا کرے:ائے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیری طرف رحمت والے نبی محمد ﷺ کے وسیلے سے متوجہ ہو تا ہوں ،یا محمد ﷺ!بے شک میں نے آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف لَو لگائی اپنی اس ضرورت میں تاکہ میری یہ ضرورت پو ری ہو جائے،ائے اللہ! تو میری اس ضرورت کو پو ری فر ما۔ (ابن ماجہ،رقم الحدیث:۱۳۸۵،ترمذی ،رقم الحدیث: الحدیث:۳۵۷۸)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

بزرگوں کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہے۔ کیو نکہ قرآن حکیم اور احادیث طیبہ سے ثابت ہے کہ حضور علیہ السلام کے پیدا ہونے سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے حضور اکرم ﷺکے وسیلے سے دعا فر مائی ۔ تو اللہ تعالی نے ان کی دعاء قبول فر مائی۔
چنانچہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺنے کہا :جب حضرت آدم سے خطائے اجتہادی سرزد ہوئی ،تو انہوں نے دعا کی: ائے میرے رب !میں تجھ سے محمد ﷺکے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔اس پر اللہ رب العزت نے فر مایا:ائے آدم !تونے محمد (ﷺ) کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی میں نے انہیں پیدا بھی نہیں کیا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا :مولا! جب تونے اپنے دست قدرت سے مجھے پیدا کیا اور اپنی روح میرے اند ر پھونکی میں نے اپنا سر اوپر اٹھایاتو عرش کے پایوں پر لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا ،میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہو سکتا ہے جو تمام مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ۔اس پر اللہ تعالی نے فر مایا:ائے آدم !تو نے سچ کہا:مجھے ساری مخلوق میں سب سے زیادہ وہی محبوب ہیں ۔اب جبکہ تم نے اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمد(ﷺ)نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہیں کرتا۔یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔( المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب تواریخ المتقدمین من الانبیاء والمر سلین ،باب ومن کتاب آیا ت رسول اللہ ﷺ التی ھی دلائل النبوۃ ،حدیث:۴۲۲۸)
اسی طرح بنی اسرائیل کے لوگ اپنے دشمنوں کے خلاف حضور ﷺکی پیدائش سے پہلے حضور علیہ السلام کے وسیلے سے دعا کرتے تھے تو اللہ تعالی انہیں کامیابی عطا فر ماتا تھا۔چنانچہ جب حضور ﷺکے اعلان نبوت کے بعد ان لوگوں نے سرکشی اختیار کی تو اللہ تعالی نے ان لوگوں کے اس رویہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فر مایا:اور اس سے پہلے وہ اس نبی کے وسیلے سے کافروں پر فتح(کی دعا)مانگتے تھے۔پھر جب تشریف لایا وہ ان کے پاس جانا پہچانا ہوا(یعنی اس حال میں کہ وہ لوگ اس نبی کی صفات کو خوب جانتے اور پہچانتے تھے)تو ان لوگوں نے انکار کردیا تو اللہ کی لعنت ہے منکروں پر۔ (سورہ بقرہ،آیت:۸۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مذکورہ آیت کریمہ اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ کسی ایسے بزرگ کے وسیلے سے بھی دعا کرنا جائز ہے جو ابھی پیدا بھی نہ ہوئے۔در اصل وسیلہ میں خا ص نکتہ یہی ہے کہ جس کو ہم وسیلہ بنا رہے ہیں وہ اللہ کی بارگا ہ میں پسندیدہ اور مقبول ہو ۔چا ہے وہ ابھی دنیا میں موجود ہو یا دنیا سے جا چکا ہو یا ابھی آیا ہی نہ ہو۔ان سب کو وسیلہ بنانا جائز ہے۔اور جو اللہ کی بارگا ہ میں مردود ہو، اس کو وسیلہ بنانا ہر گز جائز نہیں چاہے وہ دنیا میں موجود ہو یا جا چکا ہو یا ابھی آیا ہی نہ ہو۔چنانچہ ہم ایک فاسق وفاجر یاکافر،مشرک کی ذات کو کسی صورت میں وسیلہ نہیں بنا سکتے ۔چا ہے وہ زندہ ہو یا مردہ ۔اور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہستیوں جیسے انبیائے کرام ،صحابہ عظام اور اولیائے کرام وغیرہ کو ہر حال میں وسیلہ بنا سکتے ہیں۔ کیو نکہ وہ ہر حال میں اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہیں۔بہت سارے سادہ لوح قسم کے لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے ۔اس لئے اس نکتہ کو خوب سمجھ لیںکہ وسیلہ بنانے کے لئے اُس ذات کا زندہ یا موجود ہونا شرط نہیں بلکہ اس کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہونا شرط ہے۔

بعد وصال بھی حضور ﷺ اور دیگر بزرگانِ دین کے وسیلے سے دعا کر نا جائز ہے : وصال کر جا نے سے آپ ﷺ کی مقبولیت اور محبوبیت ختم نہیں ہوئی بلکہ اب بھی ہی ہے جیسے حیات مبارکہ میں تھی،بلکہ اب تو اور زیا دہ بڑھ گئی کہ قرآن حکیم میں آپ ﷺ کے تعلق سے ارشاد ہو ا’’وللاٰ خرۃخیر لک من الاولی‘‘کہ آپ کی ہر آنے والی گھڑی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے۔اس لئے جس طرح آپ کی حیات مبارکہ میں آپ کے وسیلے سے دعا کر نا جائز تھا ویسے ہی اب بھی جائز ہے بلکہ قبولیت د عا کا سب سے عظیم ذریعہ ہے۔
چنانچہ امام دارمی اپنی سنن میں اوس بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کر تے ہیں کہ:ایک مر تبہ مد ینہ شر یف کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو انہوں نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اپنے حالات کی شکایت کی،تو آپ رضی اللہ عنھا نے فر مایا :حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور کے پاس جائو اور اس کی ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھول دو کہ قبر مبارک اور آسمان کے درمیان کو ئی پر دہ نہ رہے۔راوی کہتے ہیں کہ :انہوں نے ایسا ہی کیا،تو خوب بارش ہو ئی۔اور اُس سال خوب سبزہ اُگا جس کی وجہ سے اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ محسوس ہوتا کہ چربی کی وجہ سے پھٹ پڑیں گے ۔اس لئے اُس سال کا نام ہی’’ عام الفتق‘پیٹ پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا۔(سنن دارمی،باب ما اکرم اللہ تعالیٰ نبیہ ﷺ بعد موتہ، حدیث:۹۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اب آپ خود ہی سوچیں کہ مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سید ھے اللہ پاک سے کیوں نہ دعا کی؟ پھر اس وقت صحابہ کرام اور جلیل القدر تابعین بھی تو زندہ تھے۔ انہوں نے شر ک کا فتوی کیوں نہ لگایا؟کیا آج کے اہل حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام اور تابعین عظام سے بڑھ کے تو حید پر ست ہیں؟اگراِن سوالوں میں سے ہر ایک کا جواب’’ نہیں ‘‘ہے تو بلاشبہ جس طر ح باحیات بزرگوں کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہے ۔اسی طر ح وفات یافتہ بزرگوں کے وسیلہ سے بھی دعا کرنا جائز ہے۔

وسیلہ ،کے جواز اور اس کے استحسان پر تمام علمائے اہل سنت و جماعت متفق ہیں ۔چنانچہ ائمہ اربعہ،امام طبرانی،امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی،امام فخر الد ین رازی،امام قر طبی،علامہ ابن حجر عسقلانی،امام احمد بن محمد شہاب الدین قسطلانی،ملا علی قاری ،علامہ جلال الدین سیوطی،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمائے امت علیھم الرحمۃ والرضوان نے اس کے جواز کا فتوی صادر فرمایا ۔ہم یہاں پر بنظر اختصار صرف امام ابو زکریا محی الدین بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر اکتفا کر تے ہیں ۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ’کتاب الاذکار‘کے باب ’الاذکار فی الاستسقائ‘میں کسی بزرگ کے وسیلے سے دعا کرنے کے جواز پر اس طرح سے اظہار خیال فر ماتے ہیں۔’’جب تم میں کو ئی ایسا آدمی ہو جس کا زہد و تقوی مشہور ہو تو اس کی ذات کے وسیلے سے بارش طلب کیا کرو ،اور یوں دعا مانگا کرو’’ائے اللہ! ہم تیرے فلاں بندے کے وسیلے سے بارش اور شفاعت طلب کر تے ہیں ۔جس طرح بخاری شر یف میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے بارش طلب فر مائی۔(کتاب الاذکار ،صفحہ ۱۴۰)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

الحمد للہ : وسیلہ کے جواز پر قرآن کریم ، احادیث مبارکہ،معمولات صحابہ اور اقوال ائمہ سے ، بہت سارے دلائل فراہم کئے گئے ہیںجو متلا شیان حق کے لئے کافی سے زائد ہیں ۔مگر اس کے باوجود کوئی انکار کرے ،اسے شر ک و بدعت اورناجائز وحرام کہے اور مسلمانوں کے درمیان بلا وجہ لڑائی جھگڑے کی صورت پیدا کرے اور اپنی مخصوص ذ ہنیت لوگوں پر مسلط کرنا چاہے تو دنیا میں اس کا کو ئی علاج نہیں ۔ہاں !البتہ جب میدان محشر بپا ہو گا اور لوگ اس دن کے سخت مصا ئب و الام سے گھبرا کر انبیائے کرام کو پر یشانیوں سے نجات پانے کے لئے وسیلہ بنا ئیں گے اور ان کی بارگا ہوں میں جا کر ان سے فر یاد کریں گے ۔ سب دوسرے کے پاس جانے کا مشورہ دیں گے اور آخرمیں حضو ر رحمۃ للعا لمین ﷺ ’’اَناَ لَھاَ‘‘ کا مژدہ سنائیں گے، تب جا کے لو گوں کو سکون نصیب ہو گا۔تو یقینا اس دن یہ لوگ مان جائیں گے کہ :ہاں ہم بغیر وسیلہء مصطفی ﷺ کے بارگاہ خدا وندی میں نہیں پہونچ سکتے۔مگر اس دن ماننے سے فائدہ بھی کیا ہو گا جبکہ دنیا میں انکار کر چکے۔پھر انجام کیا ہوگا؟ٹھنڈے دل سے سو چئے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔