Pages

Wednesday, 15 February 2017

مختصر تذکرہ جنگ یمامہ اور مسلہ استمداد

مختصر تذکرہ جنگ یمامہ اور مسلہ استمداد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیدنا عکرمہ بن ابی جہل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اس مسیلمہ کی سرکوبی کے لیے روانہ فرمایاتھا اور پھر حضرت سیدنا شرحبیل بن حسنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کوان کی مدد کے لیے بھیجا لیکن ان دونوں کے آگے اس نے ہتھیار نہ ڈالے۔ کیونکہ حضور اکرم نور مجسم، شاہ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد مسیلمہ کذاب کا کاروبار چمک اٹھا تھااور تقریباً ایک لاکھ سے زائد افراد اس کے گرد جمع ہوگئے تھے، حضرت سیدنا عکرمہ بن ابی جہل اور حضرت سیدنا شرحبیل بن حسنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے بھی اس کی خوب جنگ ہوئی جس کے مقابلے میں اس کے کئی لوگ مارے گئے ، اتنے میں ان دونوں صحابہ کی مدد کے لیے حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی آپہنچے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے لشکر کی تعداد چوبیس ہزار تھیاور مسیلمہ کذاب کے پاس اس وقت چالیس ہزار فوج تھی، فریقین بے جگری سے لڑےاور جنگ کا نقشہ کئی بار تبدیل ہوا، کبھی حالات مسلمانوں کے حق میں ہوجاتے اور کبھی کفار کے۔’’ثُمَّ بَرَزَ خَالِدٌ وَدَعَا اِلَی الۡبَرَّاز وَنَادَی بِشِعَارِھِمۡ وَکَانَ شِعَارُھُم یَا مُحَمَّدَاہ، فَلَم یَبْرُزْ اِلَیْہِ اَحَدٌ اِلَّا قَتَلَہُ یعنی جب حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو یقین ہوگیا کہ بنوحنیفہ قبیلے والے اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک مسیلمہ کو قتل نہ کیا جائے تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بذات خود میدان میں تشریف لائے اور مقابلے کے لیے کفار کے شہسواروں کو طلب کیا اور مسلمانوں کے شعار یعنی عادت کے مطابق ’’یَامُحَمَّدَاہ‘‘ نعرہ لگایا اوراس وقت جنگ میں مسلمانوں کا شعار یہ تھا کہ وہ مشکل وقت میں باآواز بلندیہ نعرہ لگایا کرتے تھے ’’یَامُحَمَّدَاہ‘‘یعنی یا رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ہماری مدد فرمائیے۔اسی طرح حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بھی نعرہ لگایااورپھر دشمنوں کی طرف سے جو بھی مقابلے پرآیا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس کی گردن اڑادی ۔بالآخر مشرکین کو شکست ہوئی اوروہ سارے بھاگ کھڑے ہوئے۔مسلمانوں کی ایک جماعت نے ان کا تعاقب کیااور بہت سوں کو واصل جہنم کیا اور بہت سوں کو گرفتار کرکے قیدی بنالیا نیزکثیر مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔یہ جنگ یمامہ ۱۱سن ہجری میں لڑی گئی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)(سیرت سید الانبیاء، ص۵۷۵، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۲۲۱)

صحابۂ کرام کا عقیدہ استمداد

اس جنگ میں حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسمیت تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  مشکل گھڑی میں حُسنِ اَخلاق کے پیکر، محبوبِ رَبِّ اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے وصال ظاہری کے بعد مدینہ منورہ سےبہت دور ’’یَا مُحَمَّدَاہ‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں ، یعنی حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاور صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کا یہ عقیدہ تھا کہ حضور نبیٔ کریم، رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد دنیا کے کسی بھی کونے میں تم پر مصیبت آپڑے تو رسول کائنات، فخر موجودات صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو پکارو۔اعلی حضرت، امام اہلسنت، مجدددین وملت حضرت علامہ مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکے اسی عقیدہ کی ترجمانی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

فریاد امتی جو کرے حال زار میں

ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو

نہ کیوں کر کہوں یَا حَبِیْبِی اَغِثْنِی

اسی نام سے ہر مصیبت ٹلی ہے

اگر اللہ 1 کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصال ظاہری کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مدد کے لیے پکارنا جائز نہ ہوتا تو یقیناً حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ودیگر تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  ایسا قطعاً نہ کرتے، حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی ذات گرامی تو وہ ہے جن کو دو عالم کے مالِک و مختار، مکی مَدَنی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے’’ سیف اللہ یعنی اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار کے خطاب سے نوازا، جو ایسے اسلامی لشکر کا سردار ہوجس میں جید صحابۂ کرام ہوں ،جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تربیت یافتہ ہوں یقیناًً وہ سردار کسی ناجائز کام کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔بلکہ اسے یقین کامل تھا کہ ’’یَا مُحَمَّدَاہ‘‘کا نعرہ لگانا باعث رحمت وبرکت ہے، کیونکہ حضور پرنور، شافع یوم النشور صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خود اس کی تعلیم فرمائی۔

حیات طیبہ میں مدد طلب کرنا

حضرت سیدنا عثمان بن حنیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ نورکے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک نابینا کو دعا تعلیم فرمائی کہ بعد نماز یوں کہے: ’’اللَّهُمَّ اِنِّي اَسْأَلُكَ وَاَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ یعنی اے  اللہ1! میں تجھ سے سوال کرتاہوں اور تیری طرف توجہ کرتاہوں تیرے نبی محمد صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وسیلہ سے جو نبی رحمت ہیں اور یارسول اللہ! میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اس حاجت میں متوجہ ہوتاہوں کہ میری حاجت روائی ہو، اے   اللہ1!ان کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔ ‘‘(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)(سنن الترمذی، کتاب الدعوات عن رسول اللہ، فی دعاء الضیف، الحدیث: ۳۵۸۹، ج۵،  ص۳۳۶، سنن ابن ماجۃ، کتاب الصلوۃ، باب ما جاء فی صلاۃ الحاجۃ، الحدیث: ۱۳۸۵، ج۲، ص۱۵۷)

اس حدیث پاک میں صاف لفظوں میں ’’یا محمد‘‘کہنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اگر اس طرح مدد طلب کرنا جائز نہ ہوتا تو اللہ 1 کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  اس کو کبھی تعلیم نہ فرماتے۔

بعد حیات ظاہری مدد طلب کرنا

امام اجل، ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب طبرانی قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی کی کتاب معجم کبیرمیں ہے کہ: ایک حاجت مند اپنی حاجت کے لیے امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں آتا جاتا تھا لیکن امیر المؤمنین اس کی طرف التفات نہ فرماتے تھےاور نہ اس کی حاجت پر نظر فرماتے تھے۔اس حاجت مند شخص نے حضرت سیدنا عثمان بن حنیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے اس امر شکایت کی۔ انہوں نے فرمایاکہ: ’’وضو کرکے مسجد میں دو رکعت نماز پڑھو ، پھر یوں دعا مانگو: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي اَتَوَجَّہُ بِكَ إِلَى رَبِّي فَیُقْضَى فِي حَاجَتِي یعنی اے  اللہ1! میں تجھ سے سوال کرتاہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں تیرے نبی محمد صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وسیلہ سے جو نبی رحمت ہیں اور یارسول اللہ! میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اس حاجت میں متوجہ ہوتاہوں تاکہ میری حاجت روائی ہو۔پھر اپنی حاجت ذکر کراور شام کے وقت میرے پاس آنا تاکہ میں بھی تیرے ساتھ امیر المؤمنین کے پاس چلوں ۔‘‘ وہ حاجت مندچلا گیااور جس طرح حضرت سیدنا عثمان بن حنیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایاتھا ویسا ہی کیا۔ پھر وہ اکیلا ہی امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا دربان اسے اندر لے گیا۔امیر المؤمنین نے اسے اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا اور اس کی حاجت پوچھی، اس شخص نے اپنی حاجت عرض کی تو امیر المؤمنین نے فوراً اس کی حاجت پوری کردی اور ارشاد فرمایا کہ’’ اتنے دنوں کے بعد تم نے اپنی حاجت بیان کی، اب جب بھی تمہیں کوئی حاجت پیش آئے تو ہمارے پاس چلے آیا کرو۔‘‘ وہ شخص امیر المؤمنین کے پاس سے نکل کر حضرت سیدنا عثمان بن حنیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ملا اور عرض کرنے لگا:’’  اللہ1 آپ کو جزائے خیر دے، آپ کی سفارش کی وجہ سے امیر المؤمنین نے میری حاجت پر نظر فرمائی اور میری حاجت کو پورا کیا۔‘‘حضرت سیدنا عثمان بن حنیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا کہ ’’خدا کی قسم! میں نے تمہارے معاملہ میں امیر المؤمنین سے کچھ بھی نہیں کہا، مگر ایک بات ضرور ہے کہ میں نے سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   کو دیکھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں ایک نابینا شخص حاضر ہوا اور اپنی حاجت ذکر کی تو سرکار صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے یہی دعا تعلیم فرمائی ، خداکی قسم ! ہم اٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ وہ نابینا شخص ہمارے پاس اس حال میں آیا کہ گویا وہ کبھی اندھا ہی نہ تھا۔‘‘(المعجم الکبیر، ما اسند عثمان بن حنیف، ج۹، ص۳۱، فتاوی رضویہ، ج۲۹، ص۵۵۰ تا ۵۵۱)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت سیدنا عثمان بن حنیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکا شمار اکابر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  میں ہوتا ہے انہوں نے ایک حاجت مند کو خلافتِ عثمانی کے زمانے میں یہ دعا تعلیم فرمائی، اگر ’’یارسول اللہ، یا محمد‘‘کہنا ناجائز ہوتا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کبھی یہ دعا ارشاد نہ فرماتے۔ بہر حال حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ودیگر اکابر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  نے جنگ یمامہ میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  سےمدد ونصرت کے لیے نعرہ لگایا تو   اللہ1اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کی مدد ونصرت فرمائی اور مسیلمہ کذاب کو ذلیل و رسوافرمایااور وہ اپنی ناپاک جھوٹی نبوت کے ساتھ ہی واصل جہنم ہوگیا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مسیلمہ کذاب کا قتل

مسیلمہ کے لشکری جب بھاگے تو خود مسیلمہ کذاب بھی بھاگ کھڑا ہوا اور ایک دیوار کے پیچھے جاکر چھپ گیا، لیکن ایک جیدصحابی حضرت سیدنا وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے اسے دیکھ لیا اور اس زور کا نیزہ مارا کہ اس کے سینے کے آر پار ہوگیااور وہ اپنے بھیانک انجام کو پہنچ گیا۔  (سیرت سید الانبیاء، ص۶۰۹، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۲۲۲، تاریخ الخلفاء، ص۵۸)

حضرت سیدنا وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکون تھے؟

حضرت سیدنا وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ وہی صحابی تھے جنہوں نے جنگ اُحُد میں حضور نبی ٔپاک، صاحبِ لَوْلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا حضرت سیدنا امیر حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو شہید کیا تھا،بعد میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مسلمان ہوگئے تھے۔ جب سرکار صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضرہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں اپنے سامنے آنے سے منع فرمادیا، کہ ان کو دیکھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اپنے چچا یاد آجایا کرتے تھے۔لیکن جب حضرت سیدنا وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے مسیلمہ کو قتل کیا توبعد میں آپ فرمایا کرتے تھے کہ’’ اگرمیں نے خیر الناس سیدنا امیر حمزہ کو شہید کیا ہے تو شر الناس مسیلمہ کذاب کو بھی قتل کیا ہے۔‘‘

(المعجم الکبیر، باب الحاء، الحسین بن علی بن ابی طالب،الحدیث: ۲۹۴۷، ج۳، ص۱۴۶،صحیح ابن حبان ،کتاب اخبارہ عن  مناقب الصحابہ، ذکر البیان بان وحشیا۔۔۔الخ، الحدیث:۶۹۷۸، ج۶،الجزء:۹،  ص۴۸۱ ملتقطا)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

برادر فاروق اعظم کی شہادت

اس جنگ یمامہ میں کئی جید صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن بھی شہید ہوئے ان میں سے حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے سگے بھائی حضرت سیدنا زید بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی شامل ہیں ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے عمر میں بڑے اور اسلام لانے میں مقدم تھے۔اسی طرح خطیب الانصار حضرت سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور حضرت سیدنا عباد بن بشر انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بھی جام شہادت نوش کیا۔

دیگرمختلف صحابۂ کرام کی شہادت

مسیلمہ کذاب کے لشکر سے بیس ہزار مشرکین اس جنگ میں مارے گئے۔ حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے لشکر سے ایک ہزار دوسو مسلمانوں کو شہادت نصیب ہوئی جن میں ماقبل مذکورصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے علاوہ صحابۂ کرام کی ایک جماعت شامل تھی ، بعض کے اسمائے گرامی یہ ہیں :

حضرت سیدنا ابو حذیفہ بن عتبہ، حضرت سیدنا ابوحذیفہ کے غلام حضرت سیدنا سالم، حضرت سیدنا شجاع بن وہب ، حضرت سیدنا عبد اللہ بن سہل، حضرت سیدنا مالک بن عمرو، حضرت سیدنا طفیل بن عمرو دوسی، حضرت سیدنا یزید بن قیس، حضرت سیدنا عامر بن کبیر، حضرت سیدنا عبد اللہ بن مخرمہ، حضرت سیدنا سائب بن عثمان بن مظعون، حضرت سیدنا معن بن عدی، حضرت سیدنا ابو دجانہ سماک بن خرشہ رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن  ۔وغیرہ وغیرہ (سیرت سید الانبیاء، ص۶۰۹)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔