Pages

Monday, 13 February 2017

الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ کہنے کا جوا

الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ کہنے کا جواز
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ کے صیغے سے حضورنبی کریم رؤف الرحیم علیہ التحیۃ والتسلیم پردورو سلام پڑھنا جائزومستحسن ہے جس طرح دیگر درود شریف کے صیغوں سے درود و سلام پڑھنا جائز ہے اور یہ اللہ تعالی کے اس فرمان پاک سے ثابت ہے ۔
:ارشاد باری تعالی ہے ۔

إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
ترجمۂ کنزالایمان : بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے ( نبی ) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (سورۃ الاحزاب اٰیۃ نمبر ۵۶)

اس آیت کریمہ میں لفظ " صلاة" اورلفظ "سلام" ہے اور "الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ" میں بھی لفظ "صلاۃ" اورلفظ "سلام" دونوں ہیں

: مشکوٰۃ شریف کی حدیث پاک میں ہے : (عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ قال کنت مع النبی ﷺ بمکۃ ،فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھو یقول :السلام علیک یا رسول اللہ)

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں حضورﷺ کے ساتھ مکہ میں تھا اور تو ہم مکہ کے نواح میں نکلے تو کسی پہاڑ اور درخت کے پاس سے نہیں گزرتے تھے مگر وہ السلام علیک یا رسول اللہ کہتا‘‘۔
(مراقاۃ شرح مشکوٰۃ ،ج:۱۱،ص:۶۵،حدیث:۵۹۱۹،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

اس حدیث پاک میں "اسلام علیک یا رسول اللہ" ہے ۔ اب اگر آیت پاک اور حدیث شریف دونوں کی وضاحت اس طرح کی جائے کہ اللہ تعالی نے حضوراکرم ﷺ پر دورد وسلام بھیجنے کا حکم ارشاد فرمایا اور حدیث پاک میں لفظ السلام موجود ہے تولہذا آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے "الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ" اس میں "صلوا" اور "وسلموا" دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے سلام کے الفاظ پر بھی عمل ہو جاتا ہے

اگر کوئی یہ کہے کہ یہی الفاظ کیوں ہیں؟ احادیث پاک میں کثرت سے دوردو سلام کے صیغے موجود ہیں ان میں سے ہی پڑھا جانا چاہئے تو اس کے لئے جواب یہ ہے کہ وہ دورد پاک جواحادیث میں وارد ہیں ان میں حصر نہیں کہ صرف وہی پڑھے جائیں اس کے علاوہ نہیں پڑھ سکتے بلکہ علماء نے صراحت کی ہے کہ جتنے اچھے الفاظ حضورﷺ کی شان میں ہو سکیں اس کے ساتھ حضور اکرم ﷺ پردورد اورسلام بھیجا جائے اس کی ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں جن میں قصیدہ بردہ شریف ،اور دورد تاج ،دلائل الخیرات شریف اس کے علاوہ بھی بہت سارے دورد وسلام حضور اقدس ﷺ کو خراج عقیدت پیش کر نے کے لئے موجود ہیں ۔اگر اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر دلائل الخیرات اور قصیدہ بردہ شریف کا کیا جواب دیں گے ؟(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ہاں بعض لوگوں کو یارسول اللہ کے الفاظ ہضم نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ اس طرح کہنا شرک ہے جیسا کہ سوال میں بھی مذکور ہے تو میرا ان سے ایک سوال یہ ہے کہ جو شرک ہو تا ہے وہ ہر زمانہ اور ہر وقت اور ہر لحاظ سے شرک ہو تا ہے تو پھر یہ لوگ صحابہ کرام اور بزرگان دین کے بارے میں کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے یارسول اللہ کے الفاظ سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو مخاطب کیا اور خود اللہ تعالی کے بارے میں ان لوگوں کا کیا خیال ہے کہ جب اللہ تعالی قرآن کریم میں حضور ﷺ کو کبھی "یاایھا المزمل" کے خطاب سے مخاطب فرماتا ہے اور کبھی "یاایھا المدثر" کے لقب سے اور کبھی "یاایھا النبي" کے مبارک الفاظ سے ۔کیا نعوذباللہ ،اللہ تعالی خود شرک کی تعلیم دیتا ہے ؟نہیں ہر گز نہیں بلکہ ان لوگوں کے دلوں اور عقلوں پر اللہ تعالی نے مہر لگا دی ہے ان کو حقیقت بات بھی الٹی سمجھ آتی ہے ۔

بلکہ حقیقت بات یہ ہے کہ ندائے یارسول اللہ ﷺکا ثبوت قرآن وحدیث   میں موجود ہے ۔اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : لَا تَجْعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاء بَعْضِکُم بَعْضاً
ترجمۃکنزالایمان :یعنی’’ رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے-( النور:63)

اس آیت کے تحت تفسیر روح المعانی میں اور تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے تحت مذکور ہے:
( والفظ لہ :قال الضحاک عن ابن عباس ،کانو یقولون یامحمد یااباالقاسم فنہاھم اللہ عزوجل عن ذلک اعظاما لنبیہ ﷺ قال فقولو ایانبی اللہ ،یارسول اللہ ھکذا قال مجاہد وسعید بن جبیر ،وقال قتادۃ)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
‘‘یعنی،’’ حضرت ضحاک علیہ الرحمہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے تھے یامحمد ،یااباالقاسم ،تو اللہ تعالی نے اپنے محبوب ﷺکی عزت اورتوقیر کے لئے اس سے منع فرمادیااور فرمایا کہو’یانبی اللہ ،’یارسول اللہ ،اور مجاہد اور سعید بن جبیر اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنھم نے اسی طرح روایت کیا -
(تفسیر ابن کثیر :ج،6ص81مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

اسی سے ملتاجلتا مضمون تفسیر درمنثور :ج،8ص230پر بھی موجود ہے اور تفسیر کبیر میں علامہ فخرالدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’ لا تنادو ہ کما ینادی بعضکم بعضا یامحمد ولکن قولوا یا رسول اللہ ،یانبی اللہ ‘‘یعنی ان (حضورﷺ)کو ندا اس طرح نہ دیں جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکار تے ہو(یعنی یامحمد کہہ کرنہ
-پکارو)لیکن یا رسول اللہ ، یا نبی اللہ کہہ کر پکارو
(تفسیر کبیر:ج،8ص 425مطبوعہ دار الا حیاء بیروت)

حدیث پاک میں ہے کہ جب سرکار دوعالم ﷺ نے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے یارسول اللہ کے نعرے کے ساتھ آپ ﷺ کا استقبال کیا:
( ’’فصعد الرجال والنساء فوق البیو ت وتفرق الغلمان والخد ام فی الطرق ینادون یامحمد ،یارسول اللہ ،یامحمد ،یارسول اللہ‘‘)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
یعنی،’’ پس مرد اور عورتیں مکان کی چھتوں پر چڑھ کر اور بچے اور خدام بازاروں کے راستوں میں پھیل کر یا محمد ،یارسول اللہ ،یامحمد ،یارسول اللہ ،کا نعرہ لگاتے تھے.
(صحیح مسلم شریف :ج،1ص419مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)

امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں
’’ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنا باجماع مسلمین جائز ومستحب ہے جس کی ایک دلیل ظاہر وباہر التحیات میں ،السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہے اور اس کے سواء صحاح کی حدیث میں ،’’یامحمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہ ‘‘یعنی،’’ اے محمد ﷺ میں اپنی حاجت (ضرورت )میں آپ کو اپنے پروردگار کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور آپ کووسیلہ بناتا ہوں ‘‘۔موجود جس میں بعد وفات اقدس حضور سید عالم ﷺکے حضور کو پکارنا حضور سے مدد لینا ثابت ہے مگر ایسے جاہل کو احادیث سے کیا خبر جب اسے التحیات ہی یاد نہیں جو مسلمان کا ہر بچہ جانتاہے ‘‘۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(فتاوی رضویہ :ج،۲۳،ص۶۸۰مطبوعہ رضاء فا ؤنڈیشن لاہور)

علامہ طحطاوی حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،فصل فی زیارۃ النبی ﷺ میں نبی اکرم ﷺ کی زیارت کے آداب بیان کر تے ہوئے فرماتے ہیں حضور اکرم ﷺ کے مواجھہ شریف سے چار ہاتھ دور کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے سر جھکائے ہوئے کہے’’السلام علیک یاسیدی یا رسول اللہ ،السلام علیک یا حبیب اللہ ،السلام علیک یا نبی الرحمۃ‘‘(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،ص،747،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

علامہ ابن عابدین المعروف شامی علیہ رحمۃ الباری تحریر فرماتے ہیں : ( یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ :صلی اللہ علیک یا رسول اللہ ،عند الثانیۃ منھا :قرت عینی بک یارسول اللہ )
یعنی’’مستحب یہ ہے کہ اذان میں مؤذ ن سے پہلی مرتبہ شہادت( اشھد ان محمد رسول اللہ ) سنے تو کہے۔صلی اللہ علیک یارسول اللہ ۔اور جب مؤذن سے دوسری مرتبہ ( اشھد ان محمد رسول اللہ )سنے تو کہے قرّت عینی بک یا رسول اللہ (یارسول اللہ ﷺ آپ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں)‘‘۔(ردلمحتار ،ج:۲،ص:۶۸،مطبوعہ امدایہ کتب خانہ ملتان)

اس مذکوہ بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ’’ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ ‘‘کہنا جائز اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔