تقلید کی شرعی حیثیت اور ترک تقلید کے نقصانات
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس مضمون میں مسئلہ تقلید کے متعلق ضروری بحث کی گئی ہے ان شاءاللہ العزیزاس مضمون میں آپ کو تقلید کی اہمیت، تقلید کی شرعی حیثیت اور خیر القرون میں تقلید کے مروج ہونے کے دلائل معلوم ہونگے اور ساتھ ہی ان وساوس کا بھی رد ملے گا جن کے سبب عامة الناس کو ورغلایا جاتا ہے ۔ نیزمختصر انداز میں ترک تقلید کے نقصان و برے نتائج پر بھی متنبہ کیا گیا ہے ۔ اس مسلہ کو سمجھنے کےلیئے ابتداءً دو باتیں ذہین نشین فرمالیں
(1) اجتہاد ۔ مجتہد ۔ اجتہادی مسائل (2) تقلید ۔ مقلد ۔ تقلیدی مسائل
اجتہاد :۔ قرآن و حدیث کے غیر واضح مسائل کی وضاحت وپےش آمدہ مسائل کو قرآن وسنت کی روشنی میں حل کرنا ۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مجتہد :۔ جس کے اندر اجتہاد کی صلاحیت ہو اور کم ازکم درج ذیل شرائط پائے جائیں
(1) لغت کی معرفت میں مہات تامہ ہو ۔الفاظ و ضعیہ ،استعارہ،نص ،ظاہر ،عام ،خاص ، مطلق مقید ،مجمل مفصل ،مفہوم کلا م اورفحوائے خطاب کے درمیان تمیز کی اہلیت ہو۔
(2) قرآن مجید کی ضروریات تفسیر کا علم ہو۔
(3) احادیث کی اسناد ومتون، ناقلین وروات کے حالات پر گہر ی نظر ہو ۔
(4) صحابہ کرام تابعین ،تبع تابعین سلف صالحین کے اجماع کے مواقع معلوم ہوں۔
(5)استدلال کی کیفیت ،قیاس کے مواقع سے آشنا ہو ۔ملخصاً الملل والنحل ص ۰۱۲
گویا مزاج شناس شریعت ہو
اجتہادی مسائل :۔ اجتہادی مسائل وہ ہوتے ہیں جن کا حکم قرآن و حدیث میں واضح نہ ہو (مثلاً نماز باجماعت میں امام کا بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا اور مقتدی کا آہستہ کہنا ، امام کا بلند آواز سے السلام علیکم و رحمة اللہ کہنا اور مقتدی کا آہستہ کہنا ) یا حکم تو موجود ہو مگر بظاہر دو ارشادات نبوی متعارض معلوم ہوتے ہوں مثلاً آگ پر پکی ہوئی چیز کا کھانا ،موجب وضو ہے یا نہیں ۔دونوں طرف احادیث موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو مشکوٰة شریف ج۱ ص ۰۴
تقلید : ۔امام پر اعتماد کر کے بلا مطالبہ دلےل اس کی تابعداری میں قرآن و حدیث پر عمل کرنا۔
مقلد :۔ جس کے اندر اجتہاد کی صلاحیت نہ ہو
تقلیدی مسائل : ۔قرآن وحدیث کے غیر واضح مسائل اور نئے پےش آمدہ مسائل ۔
خوب اچھی طرح سمجھیں اور بار بار سمجھیںکہ تقلید صرف اور صرف اجتہادی مسائل میں ہی ہوتی ہے غیر اجتہادی مسائل میں نہیں ہوتی۔
مشہور غیر مقلد (اہلحدیث )عالم نواب وحید الزمان کے قلم سے : "اگر مجتہد اس مسئلہ میں جس میں اس کو قرآن وحدیث کا حکم نہ ملے قیاس اور اجتہاد کر ے پھر اس سے غلطی ہو تب بھی اس کو ایک اجر ملے گا (کیونکہ اس کی نیت بخیر تھی جب وہ مسئلہ اس کو قرآن و حدیث میں نہ ملا تو پھر قیاس کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا ) ہم اگلے تمام مجتہدو ںکو جےسے امام ابو حنیفہ،امام شافعی ،امام مالک، وغیرہم ہیں پرور دگار کے مقبول بندے اور ما¿جور ومثاب سمجھتے ہیں جن مسئلوں میں ان کا قیاس حدیث کے خلاف ہو تو سمجھ لینا چاہئیے کہ ان کو وہ حدیث نہیں ملی (یا وہ حدیث ان کے نزدےک موضوع یا منسوخ یا مو¿ول ہے۔مو¿لف) ورنہ ہر گز حدیث کو چھوڑ کر قیاس نہ کرتے خصوص امام اعظم ؒ کی نسبت وہ تو سب مجتہدوں سے زیادہ حدیث کے پیروتھے ان کا تو قول یہ ہے کہ ضعیف حدیث بھی قیاس پر مقدم ہے اسی طرح صحابی کا قول بھی، لغات الحدیث بحث ج ۔ج۱۔ ص ۶۳۱ ۔
قارئین محترم :۔ ان گذارشات کو ذہن نشین کرلینے کے بعد کم ازکم دو باتیں یقینا دل و دماغ میں جاگزیں ہوچکی ہونگی۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(1) قیامت تک نت نئے آنے والے مسائل کا حل اجتہاد و تقلید میں ہی ہے اس کے علاوہ نہیں۔
(2) تقلید صرف اور صرف اجتہادی مسائل میں کی جاتی ہے غیر اجتہادی مسائل میں نہیں۔
تقلید کے لغوی معنٰی
( 1) تقلید کا اطلاق اس فرمان شاہی پر بھی ہوتا ہے جو پیروی حکم کے لیے جاری ہوتا ہے
مصباح اللغات ص ۱۰۷
(2) گلے میں ہار لٹکانا ۔ لغات الحدیث ج ۳ ۔مولفہ مولانا وحید الزمان صاحب ( مشہور اہلحدیث عالم )
تقلید کے اصطلاحی معنٰی :۔ التقلیداتباع الغیر علی ظن انہ محق بلانظر فی الدلیل نامی
غیر کی اتباع کرنا دلیل کی طرف توجہ کیے بغیر اس خیال سے کہ جسکی اتباع کررہے ہیں وہ اہل حق میں سے ہے یعنی مجتہد کو دلائل معلوم ہیں مگر مقلد کو انہیں معلوم کرنے یا پوچھنے کی ضرورت نہیں ۔
مطلب یہ ہوا کہ قرآن و سنت پر عمل کیا جائے مجتہد کی پیروی میں ۔ا س کو تقلید کہتے ہیں ۔
مثال :۔ جس طرح جسمانی مریض ڈاکٹر صاحب کے بتائے ہوئے نسخہ کو استعمال کرتا ہے مگر ڈاکٹر سے اس دوائی کے خواص ،ما¿خذ وغیرہ کا سوال نہیں کرتا کیونکہ جانتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب سب کچھ جانتے ہیں اسی طرح مقلد بھی روحانی اور دینی مسائل میں مجتہد کی بات پر عمل کرتا ہے مگر دلائل کا مطالبہ نہیں کرتا یہ جانتے ہوئے کہ مجتہد کو دلائل کا بخوبی علم ہے۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اتباع اور تقلید ایک چیز ہے ۔ یہی وجہ ہے کشاف اصطلاحات الفنون ص ۸۷۱۱ ۔شرح منار ۲۵۲ ۔نامی شرح حسامی ص ۰۹۱ پر تقلید کا معنی اتباع سے کیا گیا ہے
سوال : اگر واقعی اتباع و تقلید ایک چیز ہے تو لفظ تقلید استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟
جواب : یہ بات وہی جانتے ہیں جن کے دل میں ادب کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھراہو۔ عام طور پر لفظ ،رضی اللہ عنہ ( اللہ ان پر راضی ہو ) صحابہؓپر بولا جاتا ہے اگر اولیاءاللہ امام بخاری ؒو مسلم ؒ پر بول دیا جائے تو بظاہر کوئی حرج نہیں مگر ادب اسی میں ہے کہ جو لفظ اللہ کے نبی ﷺ کے صحابہ ؓ پربولا جاتا ہے وہ کسی دوسرے پر استعمال نہ ہو یہی وجہ ہے کہ اکثرمحدثین و مفسرین پر رحمة اللہ علیہ کا لفظ بولا جاتا ہے رضی اللہ عنہ نہیں تاکہ فرق مقام واضح رہے
یہ سمجھ لینے کے بعد گذارش ہے کہ چونکہ عموماً اتباع و اطاعت کا لفظ رسول اللہ ﷺ کے متعلق مستعمل ہے اس لئے ائمہ کرام کے لئے اس لفظ ( اتباع ) کے علاوہ لفظ تقلید بولا جاتا ہے تاکہ نبی و امتی کے درمیان فرق صاف نظر آئے
گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی
اتنی گذارش سمجھ لینے کے بعد انشاءاللہ یہ بات آسان ہوجائے گی کہ وہ آیات مقدسہ یا احادیث طیبہ جن میں اتباع یا اطاعت کا حکم ہے وہ ہرگز تقلید کے منافی نہیں بلکہ مو¿ید ہیں ۔
قرآن کریم اور تقلید
(1) یایھاالذین آمنوااطعیوا اللہ واطعیوا الرسول واولی الامر منکم (پ۵نسائ)
اے ایمان دارو اطاعت کر واللہ کی اور اطاعت کرو رسول اللہﷺ کی اور اطاعت کرو اولی الامر کی ۔ اس آیت کریمہ میں خدا اور رسول ﷺ کی اطاعت کا معنی تو واضح ہے ہمارا استدلال اولی الامرسے ہے کہ قرآن کریم میں ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے مگر وہ کون لوگ ہیں ہمارا عرض یہ ہے کہ اس سے مراد فقہاءوعلماء ہیں ۔
(1) صحابی رسول ﷺ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اس سے فقہاءمراد لیتے ہیں
(مستدرک حاکم ج ۱ ص۳۲۱)
(2) صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ ؓ بن عباس ؓاس سے فقہاءمراد لیتے ہیں (مستدرک حاکم ج ۱ ص۳۲۱)(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(3) حضرت ابن عباس ؓ، حضرت جابر، حضرت حسن، حضرت عطائ، حضرت مجاہد بھی فقہاءمراد لیتے ہیں ۔احکام القرآن لجصاص ۔ج۲۔ ص۸۹۲ یہ بات امام جصاص متوفی ۰۷۳ نقل فرمارہے ہیں
(4) یہی بات خاتم المفسرین علامہ آلوسی متوفی ۰۷۲۱۔ روح المعانی ج ۵ ص ۵۶ پر رقمطراز ہیں
(5) مشہور اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں : "حضرت ابن عباس جابر حسن ابوالعالیہ عطاءضحاک مجاہد امام احمد رحمہم اللہ علیہم اولی الامر سے علماءمراد لیتے ہیں،، ۔ الجنہ ص ۴ ۔تفسیرکبیر امام رازی ۔ج۰۱۔ص۴۴۱ ۔ دیگر مشہور مفسرین نے بھی اولی الامر سے فقہاءمراد لئے ہیں ۔ تفسیر کشاف ۔ ج ۱ ص۶۵۵۔ابن کثیر۔ ج۱ ۔ص۸۱۵ ۔معالم التنزیل ۔ ج۱ ۔ص۹۵۴ ۔
محترم قارئین :۔صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین ،مفسرین و محدثین علیہم الرّحمہ کے ارشادات سے بات بالکل واضح ہوگئی کہ اللہ کا قرآن جس طرح خدا ،رسول کی اطاعت کا حکم دے رہاہے اسی طرح فقہاءکی اطاعت کا حکم دے رہا ہے ۔
سوا ل:۔اگر فقہاءکی اطاعت کی جائے تو پھر شرک فی الرسالة لازم آئے گا
جواب :۔ اگر اطاعت رسول ﷺ سے شرک مع اللہ لازم نہیں آتا تو فقہا ءکی اطاعت سے بھی شرک فی الرسالة لازم نہیں آتا ۔کیونکہ قرآن میں سب کی ( خدا ، رسول ،فقہائ) اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اگر بات سمجھنے کی نیت ہو تو مسئلہ بالکل آسان ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت عبادت سے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اتباع سے اور فقہاءکی اطاعت تقلید سے کی جائے گی فرمائیے ۔اب کیسے شرک کی خرابی پیدا ہوگی ؟
اعتراض:۔ بعض محقق علماءنے اولی الامر سے امراءبھی تو مراد لےے ہیں؟
جواب :۔ بجائے اس کے کہ میں اپنی طرف سے گذارش کروں اس کا جواب مشہور زمانہ مفسر امام فخرالدین رازی کی قلم حقیقت رقم سے ملاحظہ فرماویں ان اعمال الامراءوالسلاطین موقوفة علی فتاوی العلماءوالعلماءفی الحقیقة امراءالامراءفکان حمل لفظ اولی الامر علیہم اولی ۔تفسیر کبیر ص ۶۴۱۔ ج ۰۱
بلاشبہ امراءو بادشاہو ںکے اعمال علماءکے فتاوی پر موقوف ہیں اور در حقیقت علماءامراءکے امراءہیں بایں وجہ اولی الامر کے لفظ سے علماءمراد لینا زیادہ بہتر ہے
فرمائیے ۔اب تو تسلی ہوگئی ہوگی کہ بادشاہ و امراءبھی فقہاءو علماءکے محتاج ہیں
یہ جواب امام رازی دے رہے ہیں کسی ایرے غیرے کا جواب نہیں
واذاجاءہم امر من الامن اوالخوف اذاعو ا بہ ولو ردو ہ الی الرسول والی اولی الامر منہم لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم (پ ۵ ۔سورہ نسائ)
اور جب ان کے ہاں امن یا خوف کا کوئی واقعہ پہنچتا ہے تووہ اسکو مشہور کردیتے ہیں اور اگرو ہ اس کو جناب رسول خدا اور اولی الامر کی طرف لوٹاتے (تو بہتر ہوتا ) تاکہ جو اس کی حقیقت کو پہنچ سکتے ہیں جان لیتے
اس آیت مقدسہ میں عامة الناس کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ہر معاملہ ان کے سمجھنے کا نہیں ہوتا تو جب بھی کوئی امن یا خوف کی بات ان کے سامنے آئے تو جناب رسالت مآب ﷺ اور اولی الامر سے اس کے متعلق پوچھ لیاکریں ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے علاوہ اولی الامر سے بات پوچھنے اور سمجھنے کا ارشاد فرمارہے ہیں ۔ اولی الامر کے متعلق پہلے ہی گذارش کرچکاہوں کہ اس سے مراد فقہاءکرام اور علماءعظام ہیں تو اس آیت میں بھی عوام الناس کو مسائل کے سلسلہ میں فقہاءکے پاس جانے کا حکم ہے اور علماءبھی وہ جن میں قوت استنباط ہو عام زبان میں انہیں کو مجتہد کہا جاتا ہے۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
احکام القرآن ج ۲ ص ۵۰۳ پر امام المفسرین فرماتے ہیں
ومنھا ان العامی علیہ تقلید العلماءفی احکام الحوادث
اس آیت سے یہ بھی ثابت ہواکہ عامی (غیر مجتہد ) پر پیش آمد ہ مسائل میں علماءکی تقلید لازم ہے
تفسیر حقانی ج۵ ص ۵۲ پر ہے کہ پس جو استنباط نہ کرسکتا ہو اس کو اس مسئلہ میں جو اس کو کتاب وسنت و اجماع میں نہ ملے تو مستنبط یعنی مجتہد سے پوچھ کر اس پر عمل کرنا چاہئیے اور اسی کو تقلید شرعی کہتے ہیں ۔اسی بات کو امام سرخسی متوفی ۰۹۴ نقل فرماتے ہیں ۔
لیجیے اس آیت کو ثبوت تقلید کے لئے صرف راقم الحروف ہی بطور دلیل نہیں پیش کررہا بلکہ چوتھی صدی ہجری کے متوفی امام جصاص ا ور پانچویں صدی ہجری کے متوفی امام سرخسی بھی یہی فرماتے ہیں ۔
گویا آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل کبار علماءو مفسرین نے وہی کچھ کہا اور سمجھا جو آج راقم عرض گذار ہے ۔
وقالوا لو کنا نسمع اونعقل ماکنا فی اصحاب السعیر
(پ ۹۲ ۔سورة الملک )
اور کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو نہ ہوتے اہل جہنم میں
یہ الفاظ ان بد قسمت لوگوں کے ہیں جو جہنم کی آگ میں جلتے ہوئے کہہ رہے ہونگے ۔
خانوادہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے چشم و چراغ جن کے ذریعہ برصغیر علم حدیث کے نور سے منور ہوا حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی تفسیر عزیزی میں نسمع کا معنی تقلید اور نعقل کا معنی تحقیق و اجتہاد نقل فرماتے ہیں اس تفسیر کی رو سے تو معلوم ہوا نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ جہنمی کہیں گے کاش ہم مقلد ہوتے یا مجتہد ہوتے تو آج نار جہنم میں نہ جلتے
تقلید کے اثبات میں کتنی واضح آیت قرآنی ہے۔اللہ تعالی سمجھنے کی تو فیق دے
اپنے ہی من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا توبن
قارئین محترم :۔ مومن کے لئے ایک آیت ہی کافی ہے مگر آپ کی خدمت میں تین آیات قرآنی سے تقلید کو ثابت کیا گیا وہ بھی اصحاب رسولﷺ ، تابعین کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور محقق مفسرین کے اقوال وارشادات سے ۔
تقلید دو قسم ہے ۔ (1) تقلید مطلق (2) تقلید شخصی
اس کی تفصل اہلحدیث عالم جناب ثناءاللہ امرتسری سے وہ لکھتے ہیں : تقلید مطلق یہ ہے کہ بغیر تعیین کے کسی عالم سے مسئلہ پوچھ کر عمل کیا جائے جو اہلحدیث کا مذہب ہے اور تقلید شخصی یہ ہے کہ خاص ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی بات مانی جائے جو مقلدین کا مذہب ہے ۔فتاوی ثنائیہ ج۱ ص۶۵۲ ۔
اس عبارت سے دو باتیں ثابت ہوئیں:۔ (1) تقلید کی دو قسم ہیں ۔تقلید مطلق اور تقلید شخصی
(2)تقلید مطلق اہلحدیث کا مذہب ہے ۔
جب فریق مخالف نے تقلید مطلق کو مان لیا تو اس میں کلام کرنے اور دلائل دینے کی چنداں ضرورت نہیں البتہ آنے والی بحث میں ہم تقلید شخصی کے ثبوت میں دلائل پیش کرتے ہیں تاکہ بات نکھر کر سامنے آجائے اور مسئلہ مکمل طور پر بے غبار ہوجائے
تقلید شخصی دلیل نمبر 1 : حضرت جبیر بن مطعم ؓ فرماتے ہیں ایک عورت نے حضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کی اگر میں پھر کسی وقت آو¿ںاور آپ کو نہ پاو¿ں (یعنی آپ کی وفات حسرت آیات ہوجائے )تو پھر کیا کروں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا فا¿تی ابابکر پھر ابوبکر ؓ کے پاس آنا ۔بخاری شریف ۔ج۱ ۔ص ۶۱۵ ۔مسلم شریف ۔ج۲۔ ص۳۷۲
اللہ کے نبی ﷺ نے یہ نہیں فرمایا میرے کتنے صحابہ موجود ہیں وقتاًفوقتاً ہر ایک سے مسئلہ دریافت کرتے رہنا بلکہ صرف ایک سیدنا ابوبکر ؓ کا نام لے کر مسئلہ تقلید شخصی کو آفتاب نیم روز کی طرح واضح فرمادیا ۔ فرمائیے۔ اگر صرف ایک امام کی تقلید شرک ہے تو پھر صرف ایک ابوبکر ؓ کی خدمت مےں حاضری کا حکم بھی نعوذ باللہ ترغیب شرک کہلائے گا ۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
کسی نے میرے چند تنکوں کو جلانے کے لئے
آگ کی زد میں گلستاں کا گلستاںرکھ دیا
دلیل نمبر 2 : حضرت اقدس ﷺکی ذات با برکات نے ۰۱ ہجری میں (بخاری ج۱ص ۷۸۱ ہامش )حضرت معا ذ ؓ کو ےمن کی طرف گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا کیف تقضی اذا عرض لک قضاءً قال اقتضی بکتاب اللہ جب آپ کے سامنے کوئی فیصلہ طلب معاملہ آئے گا تو آپ کیسے فیصلہ کریں گے ؟ جناب معاذ ؓ نے عرض کی کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرو ں گا حضرت ﷺ نے فرمایا فان لم تجدفی کتاب اللہ قال فبسنة رسول اللہ اگرآپ کو کتاب اللہ میں اس کا حکم نہ ملے تو پھر جناب معاذ ؓ نے عرض کی پھر سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق فیصلہ کروں گا حضر ت ﷺ نے فرمایا فان لم تجد فی سنةرسول اللہ قال اجتہدبرائی ولا اٰلو اگر آپ کوسنت رسول اللہ ﷺ میں بھی اس کا حکم نہ ملے تو پھر جناب معاذ ؓ نے عرض کی میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اجتہاد کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا قال فضرب رسول اللہ ﷺ علی صدرہ وقال الحمد للہ الذی وفق رسو ل رسول اللہ لما یرضی بہ رسول اللہ حضرت معاذ ؓ فرماتے ہیں حضور اکرم ﷺ نے ان کے سینہ پرہاتھ رکھا اور فرمایا الحمد للہ جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق بخشی جس کو اس کا رسول پسند کرتا ہے ۔ترمذی شریف۔ ج ۱ ۔ص ۳۹۱۔ ابوداو¿د شریف ۔ج ۲ ۔ص۹۴۱ ۔
ہمیں کی طرف ایک حضرت معاذ ؓ کو روانہ کیا گیا اور سب اہل یمن غیر منصوص مسائل ( وہ مسائل جن کا حکم قرآن و سنت میں واضح طورپر ذکر نہ ہو ) میں صرف اور صرف ایک مجتہد کے فتا وی پر عمل کرتے رہے تو یہ تقلید شخصی نہیں تو اور کیا ہے
اگر تقلید شخصی شرک ہے تو فرمائیے نعوذ باللہ حضرت ﷺ نے اس کے لئے اپنے صحابی کو کیوں روانہ فرمایا تھا ؟
دلیل نمبر 3 : حضرت عرباض بن ساریہ ؓ فرماتے ہیں حضرت ﷺ نے فرمایا
علیکم بسنتی و سنة الخلفاءالراشدین المہدیین تمسکوا بہا و عضواعلیہا بالنواجذ ۔رواہ احمد ابوداودترمذی ابن ماجہ ۔مشکوة ۔ج۱ ص ۰۳ ۔ میرے اور میرے خلفاءراشدین جو کہ ہدایت یافتہ ہیں کے طریقہ کو لازم پکڑو اور ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑو ۔
نبی کریم ﷺ نے سیدنا ابوبکر و عمر عثمان و حیدر رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک کی تابعداری کا حکم دیا۔ بات بالکل واضح ہے کہ خلافت صدےقی میں صرف حضرت ابو بکر ہی کی اطاعت ہوتی تھی۔حضرت عمر ؓکے زمانہ خلافت میں صرف اور صرف حضرت عمر ؓ کی اطاعت ہوتی رہی ۔خلافت عثمانی میں صرف حضرت عثمان ؓ کی اور خلافت مرتضوی ؓ میں صرف اور صرف حضرت علی المرتضٰی ؓ کے احکامات پر ہی عمل ہوتا رہا ۔
اور یاد رکھیں :۔ کسی ایک امام کے احکامات پر بلامطالبہ دلیل عمل کو تقلید شخصی کہا جاتا ہے ۔ یار لوگ جس کو شرک سے تعبیر کرتے ہیں اللہ کے نبی ﷺ اسے سنت فرمارہے ہیں نیز علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :۔ فان عمر لما فتح الامصار بعث الیھا من علمہم و فقہہم۔ المنتقٰی ص۷۱۴ ۔ سیدنا عمر ؓ مختلف علاقہ جات فتح ہونے کے بعد انکی طرف عالم روانہ فرماتے جوانہیں تعلیم دیتے او ر مسائل سمجھاتے ۔
محترم قارئین : ہر علاقہ کے لوگ ایک ہی عالم کی بات پر عمل کرتے ۔فرمائیے یہ تقلید شخصی ہوگی یا نہ ؟جادو وہ جو سرچڑھ کر بولے
کتب صحاح ستہ کے مصنف بھی مقلد تھے
(1) امیرالمو¿منین فی الحدیث محمد ابن اسماعیل بخاری متوفی ۶۵۲ شافعی تھے ۔طبقات الشافعیہ مشہور اہلحدیث عالم نواب صدیق الحسن خان نے ابجد العلوم ص ۰۱۸ پر شافعی لکھا ہے ۔
(2) امام مسلم متوفی ۱۶۲ شافعی تھے
(3) امام محمد بن شعیب نسائی متوفی ۳۰۳ شافعی تھے
(4) امام ترمذی متوفی ۹۷۲ شافعی تھے
(6) امام ابوداو¿د متوفی ۵۷۲ ابن تیمیہ کی تحقیق میں حنبلی تھے
(7)امام ابن ماجہ متوفی ۳۷۲ شافعی تھے
ملاحظہ ہو ظفر المحصلین باحوال المصنفین ۔معارف السنن ج ۱ ۔
جناب غیر مقلد اہلحدیث حضرات فرمائیے اگر تقلید شخصی شرک ہے تو صحاح ستہ سے ہاتھ دھونا ہوگا اور اگر صحاح ستہ ،صحاح ستہ کے گن گانے ہیں تو تقلید شخصی کو شرک کہنے سے توبہ کرنی ہوگی ۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
عجب مشکل میں آیا سینے والا جیب داماں کا
ادھر ٹانکا ادھر ادھڑا ادھر ٹانکا ادھر ادھڑا
محترم قارئین : ۔ آپ کی خدمت میں ان محدثین کی مختصر سی تعدادذکر کی جاتی ہے جو محدث ہونے کے باوجود مقلد تھے تاکہ ذہن میں یہ خلش نہ رہے کہ محدث و مقلد دو متوازی یا مخاصم جماعتیں ہیں ۔
محدثین حنفیہ
(1) امام اعظم سیدنا امام ابوحنیفہ ؒ متوفی ۰۵۱ھ۔کان ابوحنیفہ من کبار حفاظ الحدیث تا¿نیب الخطیب ۔مطبوعہ مصر۔ ص ۶۵۱
(الف )حضرت ابوحنیفہ کا شمار بڑے حفاظ حدیث میں تھا ۔
(ب)جب امام صاحب سے حدیث بیا ن کی جائے تو گویا شہنشاہ سے حدیث مروی ہو تی ہے ۔تاریخ بغداد ج۱۱۔ص۵۴۲
(2)امام زفر ؒ متوفی ۸۵۱ ھ ۔کان من اصحاب الحدیث ۔
آپ محدث تھے ۔ذیل الجواہر۔ ج ۲۔ ص ۶۳۵
(3)امام داو¿د الطائی ؒ متوفی ۰۶۱ ۔ حنفی محدث تھے تاریخ بغداد ۔۴۔ص۷
(4)امام ابو یوسف متوفی ۳۸۱ حافظ اور کثیر الحدیث تھے ۔ابن خلکان ۔ج ۲۔ص۳۰۳
(5)محدث جلیل عافیہ بن یزید متوفی ۰۶۱ ۔حنفی المسلک تھے ۔تاریخ بغداد۔ ج ۰۱ ۔ص۶۲۲
(6)محدث اعظم اسد بن عمر و متوفی ۰۹۱ امام ابو حنیفہ کے مذہب پر تھے ۔
تاریخ بغداد۔ ج ۵۔ص ۔۳۱۳
(7 )استاذ المحدثین محدث عبداللہ بن مبارک ائمہ حنفیہ میں سے تھے ۔
سیر اعلام النبلائ۔ج ۲ ص۶۷۴۲
(8)محدث کبیر یحیٰی بن زکریا بن ابی زائدہ ۔کوفہ کے بڑے فقیہ تھے ۔
سیر اعلام النبلائ۔ج ۳ ص۳۶۱۴
(9)محدث جلیل وکیع بن الجراح امام ابوحنیفہ کے مذہب پرفتوٰی دیتے تھے ۔
تاریخ بغدادی ۔ج ۲۱۔ ص ۷۲۔
(10)بلند پایا محدث یحیٰی بن سعید القطان امام ابوحنیفہ کے مذہب پر فتوٰ ی دیتے تھے ۔ سیر اعلام النبلاءج ۔۳ ص ۶۶۱۴
(11)استاذ المحدثین امام ابو عاصم النبیل متوفی ۲۱۲ حنفی تھے ۔الجواہر ۔ج ۲۔ص ۶۵۲
(12)سند المحدثین امام مکی بن ابراہیم متوفی ۵۱۲کان یحب اباحنیفة حباً شدیداً ویتعصب لمذہبہ ۔مناقب موفق۔ ج ۱ ۔ص ۴۰۲
یہ حضرت امام صاحب سے انتہائی محبت کرتے تھے اور حنفی تھے
مکی بن ابراہیم امام بخاری کے استاذ ہیں انہیں کے سبب امام بخاری ؒ کو صحیح بخاری میں گیارہ ثلاثی روایات رقم کرنے کی سعادت ملی۔
(13) فن جرح و تعدیل کے مسلَّم امام حضرت یحیٰی بن معین متوفی ۳۳۲ حنفی المسلک تھے۔ سیر اعلام النببلاءج۳۔ص ۷۰۲۴
(14)فن حدیث کے نامور امام حضرت امام طحاوی ؒ متوفی ۱۲۳ تو وکیل احناف تھے
(15) برصغیر جن کے سبب نور حدیث سے منور ہوا میری مراد خاندان ولی اللہی ہے یہ بھی حنفی تھے ۔ مشہور اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں :
(1) خاندان ایشان علوم حدیث و فقہ حنفی است ۔اتحاف ص ۷۹۲
(2) بل ہم بیت علم الحنفیہ ۔ان کا سارا گھرانہ حنفی تھا ۔الحطہ ص ۱۷
روئے زمین پر سب سے پہلا دار الحدیث احناف نے بنایا ۔ الجواہر المضیہ ج۱۔ص۸۵۱
محدثین شافعیہ
امام اہل السنة والجماعة حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی ؒ متوفی ۴۰۲
امام ربیع بن سلیمان المرادی متوفی ۰۴۷ ۔کان من کبار اصحاب الشافعی ۔آپ کبار شوافع میں سے تھے ۔تہذیب التہذیب ۔ج ۳ ۔ص۱۲۲
امام ابو عوانہ متوفی ۶۱۳یہی وہ شخصیت ہیں جن کے سبب مذہب امام شافعی اسفرائن میں پہنچا۔ ص ۳ ۔ج ۳
امام عبدان بن محمد وہ امام عالی مقام ہیں جو علم حدیث میں مہارت تامہ رکھتے تھے مگر انہیں کے ذریعہ خراسان میں امام شافعی کا مذہب پہنچا ۔تذکرہ ۔ج ۲۔ ۰۸۱
امام ابوبکر محمد بن عبداللہ متوفی ۴۵۳بھی شافعی المسلک تھے۔ تذکرہ ۔ج ۳ ۔ص ۹۶
امام ابو حاتم محمد بن حبان ؒ متوفی ۴۴۲ بھی امام شافعی کے پیرو تھے ۔
تذکرہ ۔ج ۳ ۔ص ۵۲۱
خطیب بغدادی متوفی۳۶۴ کان من کبار الشافیعہ آپ کا شمار شوافع بزرگوں سے تھا۔تذکرہ ۔ج ۳ ۔ص ۴۱۲۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مفسر قرآن امام بغوی ؒ متوفی ۶۱۵بھی شافعی تھے ۔
تذکرہ ۔ج ۴ ۔ص ۶۱۵۔شرح مسلم ج۱ص ۵۲
امام نووی ؒ متوفی ۶۷۶ آپ فن علم حدیث کے بحر بے کنار تھے مگر شافعی تھے ۔
تذکرہ ۔ج ۴۔ ص۰۵۱
فخر المحدثین امام خطابی متوفی ۸۸۳ شافعی تھے ۔شرح مسلم نووی ۔ج۱ ۔ص ۵۲
محدثین حنابلہ
امام اہل السنة حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کی مسند امام احمد بن حنبل علم حدیث کا بحرذخار ہے ۔یہ عظیم محدث ہونے کے ساتھ ساتھ خود مجتہد ہیں آج سعودی عرب حرم بیت اللہ اور حرم نبوی ﷺ کے ائمہ انہیں کے مقلد ہیں
امام وقت حافظ الحدیث امام خلال ؒ متوفی ۱۱۳ حنبلی تھے ۔تذکرہ۔ ج ۳ ۔ص۹
امام المحدثین شیخ اثرم ؒ ۔حنبلی المسلک تھے ۔سیر اعلام النبلائ۔ج۱۔ص۰۱۰۱
مشہور مفسرو محدث علامہ جوزی متوفی ۷۹۵ بھی حنبلی تھے ۔تذکرہ ۔ج ۴۔ص۵۹
حافظ الحدیث مقدسی متوفی ۰۰۶ بھی حنبلی تھے ۔تذکرہ ۔ج ۴ ۔ص ۴۱۱
سید المحدثین والاولیاءشاہ عبدالقادر جیلانی متوفی ۳۰۶ ۔بھی حنبلی تھے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ متوفی ۸۲۷ ۔بھی حنبلی تھے ۔الحطہ ص۱۵۱
استاذ الحدیث علامہ الشقراوی متوفی ۲۰۷ ھ حنبلی تھے ۔تذکرہ ۔ج ۴۔ص۶۸۱
امام المحدثین ابو اسماعیل الہروی متوفی ۱۸۴حنبلی المسلک تھے ۔
سیر اعلام النبلاءج۲۔ص۸۰۵۲
بلکہ فرماتے تھے
انا حنبلی ماحییت وان مت
فوصیتی للناس ان یتحنبلوا
جب تک زندہ ہوں حنبلی رہو ں گااور اگر مر جا و¿ں تو لو گوں کو حنبلی ہونے کی وصیت کروں گا
فخر المحدثین علامہ بعلبکی ؒ متوفی ۹۰۷۔حنبلی تھے ۔تذکرہ ۔ج ۴ ۔ص۵۰۲
محدثین مالکیہ
امام دار الہجرة امام المحدثین حضرت امام مالک ؒ متوفی ۹۷۱جن کے رسوخ فی الحدیث پر مو¿طا امام مالک آج بھی ناطق ہے اس کو اصح الکتب بعد کتاب کے القاب سے نوازا گیا ہے جو امام مجتہد تھے اور لاکھو ں مقلدین آپ کی تقلید کا ہار اپنے گلے میں سجاتے تھے
امام ابو الطیب متوفی ۸۳۳محدث ہونے کے باوجود مالکی تھے ۔
الدیباج المذہب ۔ ص۲۴۳۔
امام ابن رشدمتوفی ۰۲۵ مالکی تھے۔الدیباج المذہب۔
امام عسال متوفی ۴۵۲ کان فقیہا مفتیاً مذکورا فی فقہا ءالمالکیة ۔آپ حافظ الحدیث فقیہ اور مفتی تھے آپ کا شمار فقہاءمالکیہ میں ہوتا تھا
الدیباج ۔ص ۹۶۲
امام ابن الباجی متوفی ۶۹۳ انہیں کے متعلق امام خولانی فرماتے ہیں میںنے ایسا محدث نہیں دیکھا مگر بایں ہمہ مالکی المسلک تھے ۔الدیباج۔ ص۸۲۱
معروف زمانہ امام ابن عبدالبر متوفی ۳۶۴ امام اور وکیل مالکیہ تھے ۔
تذکرہ ۔ج ۳ ۔ص۴۲۲
امام فی الحدیث عبدالملک بن حبیب متوفی ۹۲۲
یہی بزرگ ہیں جن کے توسل سے اندلس میں حدیث مبارک کاچرچا ہوا مگر مالکی تھے ۔تذکرہ ۔ج ۲ ۔ص ۵۸
امام شہیر ابو العباس متوفی ۵۱۴ مالکی تھے ۔
نامور محدث امام ابن دقیق العید متوفی ۲۰۷ بھی محقق قول کے مطابق امام مالک کے مقلد تھے ۔تذکرہ ۔ج ۴۔ ص ۵۸۱
امام علی بن المفضل متوفی ۱۱۶۔جن کا ذکر خیر حفاظ حدیث میں کیا جاتا ہے مالکی تھے ۔تذکرہ ۔ج ۴ ۔ص ۶۲۱
قارئین محرم : امید کرتا ہوں اس مختصر بحث میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوچکی ہوگی کہ جو حضرات حدیث کی خدمت کرنے والے ہیں انہیں کا شمار فقہاءو مقلدین کے ائمہ کے طور پر کیا جاتا ہے لہذا کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا انسان یہ نہیں سمجھ اور کہہ سکتا کہ محدث و مقلد ہونا دو متضاد چیزیں ہیں بلکہ ہر غیر متعصب انسان دل ودماغ سے کام لیتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر حدیث وفقہ ایک دوسرے کے خلاف ہوتیں تو محدث مقلد نہ ہوتے اور مقلد محدث نہ ہوتے ۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
وسوسہ (1) قرآن وحدیث کے ہوتے ہوئے فقہ کی کیا ضرورت ہے
جواب :۔ یہی بات تو منکر ین حدیث کرتے ہیں قرآن کریم کے ہوتے ہوئے حدیث کی کیا ضرورت ہے؟ ہم کہیں گے جس طرح قرآن مجید کے ہوتے ہوئے حدیث کی طرف احتیاج باقی رہتا ہے اسی طرح حدیث کے ہوتے ہوئے فقہ کی ضرورت بھی باقی رہتی ہے۔
مثلا¾نمازکی فرضیت قرآن کریم سے معلوم ہوئی اقیمو الصلواة مگر صبح ،ظہر ،عصر،مغرب،عشاءکے فرض کی رکعتوں کی تعداد اوریہ کہ ہر رکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے ہیں ہر دورکعت کے بعد تشہد ہے یہ تفصیل قرآن مجید میں موجود نہیں یہ سب کچھ حدیث پاک میں ہے لہذا بغیر حدیث پاک کے نماز کی تفصیل سمجھنا محال ہے۔
معلوم ہوا قرآن مجید کے باوجود نماز کے لئے حدیث پاک کی ضرورت باقی رہتی ہے اور حدیث کے درواز ہ پر آنے سے قرآن کا انکا ر بھی نہیں ہوتا ۔
اب مسئلہ ہے باجماعت نمازشروع کرنے کا امام زور سے اللہ اکبر کہتا ہے (خواہ مقلد ہو یا غیر مقلد ) اور مقتدی آہستہ اللہ اکبر کہتا ہے یہ بات نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث پاک میں لہذا اب فقہ کے دروازے پر آئینگے اور فقہاءبتائیں گے کہ امام پکار کر اللہ اکبر کہے جبکہ مقتدی آہستہ کہے ۔اسی طرح نما ز کے اذ کار وافعال مےں فرائض ،واجبات ،سنن ،اور مستحبات کی تفصےل مجتہدین حضرات نے فقہ میں کی ہے ۔ یہ تفصےل نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں ہے ۔
معلوم ہوا جس طرح حدیث رسول اللہ ﷺ کے بغیر نماز کی تفصیل ناممکن ہے اسی طرح فقہ کے بغیر نماز میں شروع ہونا اور جزئیات کے احکام کا معلو م ہونا بھی مشکل ہے ۔
لہذا حدیث پاک کے دروازہ پر تفصیل نماز کے لئے جانے سے اگر قرآن مجید کاا نکار نہیں ہوتا تو جزئیات نماز کی وضاحت کے لئے فقہ کے دروازہ پر جانے سے بھی حدیث کا انکار نہیں ہوتا
نما زکی فرضیت قرآن مجید سے ثابت ہوئی ،نماز کا طریقہ حدیث پاک سے ثابت ہوا اور نماز کی جزئیات فقہ شریف سے ثابت ہوئیں ۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
وسوسہ (2) یقینا ائمہ اربعہ کے اساتذہ اور خلفاءراشدین ائمہ اربعہ سے افضل تھے تو آپ افضل کو چھوڑ کر مفضول کی تقلید کیوں کرتے ہیں؟
جواب (1)یہ وسوسہ دراصل روافض سے چوری شدہ ہے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت علی المرتضی ؓ ہاشمی اور رسول اللہ ﷺ کے داماد اور چچا زاد ہونے کے سبب افضل ہیں آپ افضل کوچھوڑکر مفضول ابوبکر ؓ کو خلیفہ بلافصل کیوں مانتے ہو
جواب (2)یقینا اصحاب رسول ﷺ صحبت نبوت اور کبار علماءتابعین قرب عہد نبوت کے سبب افضل ہیں مگر آج ان حضرات کی مرتب و مدون فقہ تواتر کے ساتھ موجود نہیں اگر ہمت ہے تو خلفاءراشدین و کبار تابعین کی مکمل مدون فقہ متواتر طریقہ پر ثابت فرماویں کارے باشد
جواب (3)جس طرح امام بخاری وامام مسلم کی جمع کردہ احادیث کو اللہ کے نبی ﷺ کی حدیث ہی کہیں گے بخاری و مسلم کی حدیث نہیں کہیں گے البتہ جمع کرنے کے سبب رواہ البخاری رواہ المسلم کہا جاتا ہے اسی طرح اصحاب رسول ﷺ اور تابعین کبار کے فتاوٰی چونکہ فقہ ائمہ اربعہ کے لئے اصل وما¿خذ ہیں جن کو ائمہ اربعہ نے اپنے لئے راہ نما اصول کے طورپر اپنایا ہے لہذا ان کی فقہ دراصل انہی حضرات کی تحقیق کہلائے گی اگرچہ تدقیق و اجتہاد کے سبب ان کی نسبت ائمہ اربعہ کی طرف ہوگی
جواب (4) علامہ بن تیمیہ کا ارشاد المنتقٰی ص ۳۱۱ پر مرقوم ہے امام احمد بن حنبل کے مقلدین کوئی نئی بات نہیں کہتے بلکہ وہی کچھ کہتے ہیں جو اہل السنة والجماعة کا مذہب ہے اور اہل السنة والجماعة کا مذہب صحابہ کا مذہب ہے اور صحابہ کے فیض کا سرچشمہ سرور کائنات ﷺ کی ذات بابرکات ہے۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قارئین محترم :۔ واقعی بڑوں کی بات بڑی ہوتی ہے علامہ ابن تیمیہ نے مقلدین کی نسبت بواسطہ اصحاب رسول حضرت ﷺ کی ذات اقدس سے جا ملائی۔ معلوم ہوا مجتہدین ترجمان دین ہیں بانیان دین نہیں۔
وسوسہ (3) کیا امام ابو حنیفہ نے اپنے ہاتھ سے کوئی کتاب تحریر فرمائی ہے؟
جواب (1) کیا اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے دست مبارک سے کوئی کتاب تحریر فرمائی ہے؟ ثبوت چاہئیے ۔
جواب (2) قرآن کریم رسول اللہ ﷺ نے سنایا صحابہ نے لکھا مگر کلام خدا کہلائے گا حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا صحابہ ؓ نے جمع فرمایا مگر حدیث رسول اللہ کہلائی اسی طرح امام اعظم سیدنا امام ابو حنیفہ ؒ نے مسائل ارشاد فرمائے قاضی ابویوسف وامام محمد نے تحریر فرمائے فقہ ابو حنیفہ کہلائے گی
اگر اللہ اور اللہ کے رسول کے اپنے دست مبارک سے نہ لکھنے کے سبب قرآن مجید کی حجیت و حقانیت پر حرف نہیں آتا تواسی طرح امام ابو حنیفہ کے اپنے ہاتھ سے تحریر نہ کرنے کے سبب فقہ حنفی پر اعتراض بے جاہے۔
وسوسہ (4) جب چاروں امام برحق ہیں تو ایک کی تقلید سے دیگر کی تکذیب لازم آئے گی؟
جواب ۔جب تمام انبیاءعلیہم السلام پر ایمان لانا ضروری ہے تو کیا پھر صرف اور صرف حضرت ﷺ کی اتباع سے دیگر کی تکذیب لازم آئے گی؟ ۔نہیں نہیں ہر گز نہیں
جس طرح ایمان سب انبیاءپر ضروری ہے مگر اتباع صرف حضرت ﷺ کی کرنا ہوگی اسی طرح ائمہ سب برحق ہیں مگر تقلید صرف ایک امام مجتہد کی کرنی ہوگی ۔
وسوسہ (5) کیا ائمہ مجتہدین نے اپنی تقلید پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے؟
جواب (1)حضرت امام اعظم حضرت امام ابو یوسف اورامام محمد کا ارشاد الکفایہ میں موجود ہے کہ عامی (غیر مجتہد )پر مفتی ( مجتہد ) کی تقلید لازم ہے
جواب (2)میرے دوست کیا صحاح ستہ میں سے ایک اور صرف ایک صحیح صریح غیر معارض روایت پیش کرنا پسند فرمائیں گے کہ اللہ کے نبی ﷺ اپنی حدیث پر عمل کرنے کا حکم فرماویں ۔
سنبھل کر قدم رکھنا میکدہ میں مولوی صاحب
یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں
وسوسہ (6) ائمہ اربعہ کا کافی مسائل میں باہم اختلاف ہے مگر باوجود اختلاف کے سب کو حق پر کہنا درست نہیں؟
جواب (1) قرآن مجید حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے اختلاف کو بہت سخت انداز میں ذکر فرماتے ہیں
اب ارشاد فرمائیں کون سے نبی حق پرنہ تھے؟ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ
جواب( 2)امت میں سات قراءکی قرات پر تلاوت کلام پاک مشہور و متواتر ہے مگر قراتیںباہم مختلف ہیں ۔
فرمائےے کس قاری صاحب کے غلط ہونے پر علماءامت نے اتفاق و اجماع فرمایا ہے ۔
جواب (3)امراض جسمانی کے علاج میں طب یونانی ،ہومیو پیتھک،ایلوپیتھی، بائیوکیمک ،نظریہ مفردات کا باہمی طریقہ علاج میں اختلاف ہے فرمائیے امت نے کس نظریہ کو اختلاف کے سبب غلط قرار دیا ہے یا سارا غصہ ائمہ اربعہ پر ہی نکالنا ہے
جواب (4)قرآن مجید چور کی سزا علی الا طلاق السارق والسارقة فاقطعو ایدیہما (چور مرد وعورت کا ہاتھ کاٹا جائے )ارشاد فرماتا ہے مگر حدیث پاک میں ہے نہی ان تقطع الایدی فی الغزو ۔ ابوداو¿د شریف ۔ج ۲۔ ص۹۴۲۔ترمذی شریف۔ ج۱ ۔ص۵۷۱
حضرت ﷺ نے جنگ کے موقع پر چوروں کے ہاتھ کاٹنے سے منع فرمایا
قارئین محترم : بظاہر قرآن وحدیث میں اختلاف نظر آتا ہے کیونکہ قرآن چوروں کے ہاتھ کاٹنے کا حکم مطلقاً دیتا ہے جبکہ حضرت ﷺ جنگ کے مواقع پر چوروں کے ہاتھ کاٹنے سے منع فرماتے ہیں۔فرمائیے ۔ان میں سے نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ کون ناحق ہے؟
جواب (5)حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے دو صحابی سفر میں تھے نماز کا وقت ہوگیا مگر پانی ندار۔د ونوں نے تیمم کرکے نماز ادا فرمائی ۔بعدا زاں ابھی وقت نماز باقی تھا کہ پانی دستیاب ہوگیا ایک صحابی نے دوبارہ وضو کرکے نماز ادا کی جبکہ دوسرے نے اعادہ صلوٰة نہ کیا۔ جب حضرت ﷺ سے ملاقات ہوئی تو ہرایک نے اپنی نماز کا مسئلہ عرض گذارا۔ حضرت ﷺ نے اعادہ کرنے والے سے فرمایا لک الاجر مرتین تیرے لیے ڈبل ثواب ہے اور جس نے اعادہ نہ کیا اسے فرمایا اصبت السنة واجزا¿ تک صلوٰتک آپ نے سنت کی موافقت کی اور نماز ہوگئی ۔رواہ ابوداو¿دوالدارمی وروی النسائی ۔مشکوٰة ج ۱ ص۵۵ ۔ فرمایئے دونوں بظاہر متضاد عمل کررہے ہیں مگر حضرت ﷺ کی دربا ر سے دونوں کی تصویب ہورہی ہے ۔آخر کیوں ؟
جواب (6)سورة انبیاءمیں ہے کہ ایک قوم کی بکریاں بغیر چرواہے کے کسی شخص کے کھیت میں چلی گئیں اور کھیت چر ڈالا۔ یہ فیصلہ حضرت سیدنا داﺅد علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوا آپ نے حکم فرمایا چونکہ کھیت کا نقصان بکریوں کی مالیت کے برابر ہوا ہے لہذا یہ بکریاں انکو دے دی جائیں ۔مگر حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام نے فرمایا اس طرح کیا جائے کہ بکریاں کھیت کے مالک لے جائیں اس سے نفع کمائیں اور کھیت کی زمین بکریوں والے اپنے پاس رکھیں خوب محنت کریں جب کھیت کی فصل تیار ہوجائے تو کھیت اصل مالک لے لیں اور بکریاں واپس کردیں۔ اللہ رب العزت اسی کو بیان فرماتے ہیں وداو¿د و سلیمان اذ یحکمٰن فی الحرث اذ نفشت فیہ غنم القوم وکنا لحکمہم شاہد ین ففہمناہا سلےمان وکلاً ایتناحکماً وعلماً
جناب داﺅد و سلیمان علیہما السلام کا تذکرہ فرمائیے۔جب دونوں کسی کھیت کے متعلق فیصلہ کرنے لگے جبکہ بعض لوگوں کی بکریاں رات کے وقت کھیتی میں جاپڑیں اور ہم اس فیصلہ کو دیکھ رہے تھے سو ہم نے اس فیصلہ کی سمجھ دی سلیمان علیہ السلام کو اور دونوں کو علم وحکمت عطا فرمایا تھا۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
محترم قارئین :۔ دونوں نبیوں کے فیصلے بظاہر متضاد ہیں مگراللہ تعالیٰ دونوں کے متعلق فرماتے ہیں ہم نے ان کو علم وحکمت سے نوازا تھا
فریق ثانی کو بتانا ہوگا ان دونوں نبیوں میں سے العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ کون غلط تھا ؟
جواب (7)شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جا تا ہے یا باقی رہتاہے ۔دونوں طرف احادیث موجو د ہیں ۔مشکٰو ة ص۱۴ ۔فرمائیے کونسی حدیث غلط ہے ؟ العیاذ باللہ
ہم نے آپ کے سامنے سات جوابات عرض کئےے ہیں جن میں سے چھ کا تعلق قرآن وحدیث سے ہے اور ایک عقل سے متعلق ہے جس طرح درج بالا مقامات میں کسی کو غلط کہنا ناحق کہنا نقل و عقل کے منافی ہے کیونکہ ان میں اختلاف بوجہ دلیل و اجتہاد کے ہے ۔اسی طرح ائمہ اربعہ کا اختلاف بھی دلیل و اجتہاد کے سبب ہے اوریہ تو ہر اہل علم جانتا ہے کہ مجتہد اجتھاد کے باوجو د خدانخواستہ غلطی پر ہے تو بھی اسے ایک اجر ملے گا اور اجتہاد صواب ہو تو دو اجر ملیں گے ۔البتہ جو شخص غیر مقلد و غیر مجتہد ہو وہ اپنے مقدر پر جتنا ماتم کرے کم ہے ۔
وسوسہ (7) جب ائمہ اربعہ برحق ہیں تو آپ صرف اور صرف امام ابو حنیفہ ؒ کی تقلید کیوں کرتے ہیں؟
جو اب (1) اس کے متعلق اپنے نواب صاحب سے سنیں ولا یلزم من کون الشئی حقاً وجوب اتباعہ ۔الجنہ ۔ص۰۱
کسی چیز کے حق ہونے سے اسکی اتباع واجب نہےںہوتی ۔اس لئے باقی ائمہ کے برحق ماننے سے ان سب کی تقلید و اتباع مقلد پر ضروری نہیں البتہ وجوہ ترجیح ملاحظہ ہو ں۔
(2)چونکہ ائمہ اربعہ میں سے آپ (امام اعظم )سب سے مقدم ہیں آپ کی ولادت ۰۸ھ اور وفات ۰۵۱ ھ میں ہوئی ۔والفضل للمتقدم
(3)حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی فقہی فوقیت مسلّم ہے ۔امام مجتہد امام شافعی ؒ فرماتے ہیں الناس فی الفقہ عیال علی ابی حنیفہ ۔تذکرہ الحفاظ ۔ج ۱ ۔ص۷۷۱
(4)امام مالک جو کہ خود امام مجتہد اور امام مدینة الرسول ہیں نے ساٹھ ہزار مسئلے امام ابو حنیفہ سے لیے ہیں ۔تا¿نیب الخطیب۔ ص۶
وجہ ترجیح ارشاد نبوت لو کان الایمان عند الثریالنالہ رجال اورجل من ھو لاء۔بخاری ۔ج۲ ۔ص۷۲۷ ۔مسلم ج۲ ۔ص ۲۱۳
لوکان العلم بالثر یا لتناولہ ناس من ابناءفارس
مسند احمد ۔ج ۲ ۔ص ۲۴۲۔مواردالظمآن
اگر علم ثریاء(ستارہ) میں بھی ہو تو اہل فارس میں سے بعض لوگ لازماً اس کو حاصل کرلینگے ۔تو اس حدیث پا ک کا مصداق اول حضرت امام ابو حنیفہ ؒ ہیں۔
تبےیض الصحیفہ۔ ص۳ ۔الخیرات الحسان۔ ص ۲۱
وجہ ترجیح (۴) حضرت امام صاحب تابعی ؒ ہیں
کان من التابعین لقی عدة من الصحابة ۔
الفہرست ص ۸۹۲۔
امام صاحب تابعی ہیں اور صحابہ کی زیارت کی ہے ۔
وقد ثبت رو¿یتہ لبعض الصحابة۔
امام صاحب کا بعض صحابہ کی زیارت کرنا ثابت ہے ۔
ذیل الجواہر ج۲ ص ۲۵۴۔
را¿ی انس بن مالک غیرمرة لما قدم علیہم بالکوفة
تذکرہ ج ۱۔ ص ۶۷۱
امام صاحب ؒ نے کئی مرتبہ صحابی رسول حضرت انس کی کوفہ میں زیارت فرمائی ۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
را¿ی انس بن مالک قیل وغیرہ ذکر بعضہم انہ روی عن سبعة من الصحابة ۔البدایہ والنھایہج ۷ص۶۸
امام صاحب نے حضرت انس ابن مالک کی زیارت کی بعض نے تو سات صحابہ سے روایت کرنا بھی نقل کےا ہے ۔
رای انس بن مالک لما قدم علیہم بالکوفة
امام صاحب نے حضرت انس کو دیکھا جب وہ کوفہ تشریف لائے ۔
سیر اعلام النبلاءج۲ ص۱۸۵۱
مشہور مو¿رخ علامہ شبلی نعمانی سیرت النعمان میں رقمطراز ہیں
خطیب بغددادی ،علامہ سمعانی، علامہ نووی، علامہ ذہبی ،حافظ ابن حجر سخاوی نے قطعی فیصلہ فرمایا ہے کہ امام صاحب نے حضرت انس ؓ صحابی رسول کو دیکھا ہے (ملخصاً) سیرت النعمان ص ۷۱
ان امتیازی عظمتوں کے سبب ہم نے حضرت امام اعظم رحمہ اللہ کو منتخب کیا
ع اس گل پہ نظررکھتاہوں جو شبنم سے بھی ہے پاک ۔
وسوسہ (8) اگر ائمہ اربعہ قرآن و حدیث سے مسائل اخذ کرسکتے ہیں تو آپ ہمیں کیوں روکتے ہیں؟
جواب :۔جس طرح مختلف امراض کے علاج کے سلسلہ میں نسخہ جات پر مشتمل سینکڑوں کتب بازار میں موجود ہیں مگر کوئی بھی عطائی انہیں دیکھ کر معالج بنے گا تو قوانین پاکستان کے تحت سزا کا مستحق ہوگا کیونکہ یہ حق کوالیفائی ڈاکٹر و طبیب کا ہے اسی طرح اگر غیر مجتہد قرآن و حدیث سے مسائل اخذ کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ شرعی تعزیز کا مستحق ہوا ۔کیونکہ یہ حق صرف اس خوش قسمت کا ہے جسے اللہ نے اجتہاد کی صفات سے مالا مال کیا ہے ۔
وسوسہ (9) اگرائمہ اربعہ برحق ہیں تو ایک مجتہد کی تقلید کے سبب مقلد دین کے تین حصوں سے محروم ہوجائے گا یا پھر مکمل دین پر عمل پیرا ہونے کے لئے زندگی کو چار حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا
جواب :۔جس طرح قرآن کریم کو ایک قرا¿ت پر تلاوت کرنے سے مکمل قرآن کی قرا¿ت ہوجاتی ہے اور زندگی کو سات حصوں میں تقسیم کرنا ضروری نہیں اسی طرح ایک امام مجتہد کی تقلید میں دین پر عمل کرنے سے مکمل دین پر عمل ہوجائے گا اور زندگی کو چار حصوں میں تقسیم کرنا ضروری نہیں۔
وسوسہ (10) کیا ائمہ اربعہ کے بعد کوئی مجتہد پیدا نہیںہوا کہ اسکی بھی تقلید کی جائے؟
جواب :۔اس سے کسی کو انکار نہیں کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ اور بھی مجتہد ین عظام امت میں گذرے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے جو قبولیت عامہ ائمہ اربعہ کو عطا ءفرمائی وہ کسی کو نصیب نہ ہوسکی یہی وجہ ہے کہ آج دنیاکے طول وعرض میں صرف اور صرف انہیں کی کتب میسر ہیں اور کسی کی نہیں ۔ ہر پھول کی قسمت میں کہا ں ناز عروساں
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الدبیاج المذہب ص ۲۱۔
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وصار الناس الیوم فی اقطار الارض علی خمسة مذاہب مالکیہ و حنبلیہ و شافعیہ وحنفیہ و داو¿دیہ المعرفون بالظاہر یة۔
اور اب تمام اطراف عالم میں پانچ مذاہب ہیں مالکی ،حنبلی ،شافعی ،حنفی اور ظاہری ۔مگرمقدمہ ابن خلدون۔ ج۲ ۔ص۹۲۱ پر مزید ہے کہ ثم درس مذہب اہل الظواہر الیوم بدرس ائمتہ ۔مگر اب نہ اہل ظواہر موجود ہیں اور نہ ہی ان کے ائمہ ۔
بات بالکل واضح ہے کہ ائمہ مجتہدین اور بھی گذرے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ انکے مقلدین و کتب سب ختم ہوگئیں اب صرف اور صرف چار مذاہب محفوظ رہے۔
وسوسہ (11) آیت (۱) واذا قیل لہم اتبعو ا مانزل اللہ قالو بل نتبع ماالفنیاعلیہ آبائنا ۔پ ۲ ا۔لبقرہ
آیت (۲) واذا قیل لہم تعالو ا الی ماانزل اللہ والی الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا علیہ آبائنا ۔پ ۷۔ المائد آیت (۳) واذا قیل لہم اتبعو ا ماانزل اللہ قالو بل نتبع ماجد نا علیہ آبائنا۔پ۱۲لقمٰن
ان تمام آیات میں خدا اور مصطفی کی اتباع کا حکم ہے مگرآپ مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں۔
جواب (1) شکر ہے کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ۔ آپ کے وسوسہ کا مدار اس بات پر ہے کہ قرآن مجید نے صرف اور صرف اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اتباع کا حکم دیا ہے لہذا تقلیدمجتہد ناجائز ہے۔
جواب (1) :۔ میں عرض کرتا ہوں یہ فرمائیں کہ تقلید و اتباع ایک چیز ہے یا نہ؟ اگر ایک چیز ہے تو آپ کے جملہ علماءکرام کا یہ کہنا کہ تقلید و اتباع الگ الگ چیزیں ہیں غلط ہوا اور اگر الگ الگ چیزیں ہیں تو پھر تقلید کی رد کے لئے اتباع والی آیات پڑھنا آپکو نفع نہ دےنگی کیونکہ بحث تقلید کی ہے اتباع کی نہیں
جواب (2) بالفرض اگر آپ کی بات تسلیم کربھی لیں کہ آیات تقلید کی نفی کرتی ہےں تو فرمائیے مطلق تقلید کی یا تقلید شخصی کی ؟ اگر ان آیات سے مطلق تقلید کی نفی ہوتی ہے تو پھر ذرا فتاوی ثنایہ ج ۱۔ ص ۶۵۲ کو دیکھ لیں وہاں مطلق تقلید کو اہلحدیث کا مسلک بتایا گیا ہے ۔پھر آپ کو اعلان کرنا ہوگا مسلک اہلحدیث قرآن کے خلاف ہے ۔اور اگر تقلید شخصی کی نفی ہوتی ہے تو پھر قرآن مجید کے پہلے مفسر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی صحیح احادیث سے ان آیات کی تفسیر بایں طور بیان کرنا ہوگی ۔کہ ان آیات میں جس تقلید سے روکا گیا ہے وہ مطلق تقلید نہیں بلکہ تقلید شخصی ہے۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازومیرے آزمائے ہوئے ہیں
جواب (3) :۔مفسر قرآن صحابی رسول حضرت ﷺ کے چچازاد حضرت ابن عباس ؓ ان آیات کے مخاطب مشرکین عرب مشرکین مکہ اور کفار مکہ کو بتلاتے ہیں۔
تفسیر ابن عباس ص ۸۲،۴۳۱،۴۳۴۔
مفسر طبری ان آیات کے مخاطب یہود ،کفار،منکرےن توحید بیان فرماتے ہیں ۔تفسیر طبری ۔ج۲۔ ص۴۹۔ج ۷۔ ص ۲۱۱۔ج ۱۱۔ص۲۹
مفسر شیخ زادہ علی البیضاوی بھی ان آیات کو یہود ،مشرکین مکہ ،کے متعلق فرماتے ہیں ۔بیضاوی شریف۔ ج۲۔ص۷۱۴۔ شیخ زادہ۔ ج۳۔ ص۰۰۶ ج۶۔ص۶۷۵
قارئین محترم:۔ اہلحدیث غیر مقلدین جن آیات سے تقلید ائمة المسلمین حرام کرنا چاہتے ہیں صحابی رسول و دیگر مفسرین کبار ان آیات کا شان نزول یہود ومشرکین بتاتے ہیں آپ خود ہی فیصلہ فرماویں ان کی با ت مانی جائے یا ترجمان قرآن حضرت ابن عباس ؓ و مفسرین کبار کی؟
جواب (4) عقل سلیم رکھنے والا ہر ذی عقل سمجھ سکتا ہے کہ ان آیات کا تعلق ائمہ اربعہ کے مقلدین سے ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہود و مشرک اپنے آبا ءو اجداد کی بات مانتے تھے قرآن و سنت کی مخالفت میں مگر مقلدین ائمہ اربعہ اپنے ائمہ اسلام کی بات مانتے ہیں قرآن و سنت کی موافقت متابعت میں
گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی
وسوسہ (12) جب حرمین شریفین کے ائمہ مسلک اہلحدیث پر ہیں تو آپ ہمیں کیو ں روکتے ہو؟
جواب :۔یہ اتنا بڑا جھوٹ، دھوکہ ،اور فراڈ ہے جس کی مثال دنیامیں ملنا مشکل ہے کیونکہ
حرمین شریفین (مسجد حرام مسجدنبوی )میں بیس رکعت نماز تراویح کی جماعت ہوتی
ہے جبکہ آپ آٹھ رکعت کے قائل ہیں ۔
مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز جنازہ آہستہ ادا کی جاتی ہے ۔جبکہ آپ خوب اونچی آواز سے پڑھتے ہیں ۔
مسجد حرام او ر مسجد نبوی میں جمعہ کی دو اذانیں دی جاتی ہیں جبکہ آپ ایک دیتے
ہیں ۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ایک مجلس کی تین طلاقوں کے متعلق علماءسعودی عرب کا متفقہ فیصلہ شائع ہوچکاہے کہ وہ ہماری طرح تین طلاقیں ہی شمار فرماتے ہیں جبکہ آپ ایک شمار کرتے ہیں ملاحظہ ہو سعودی علماءکا فیصلہ
القرار ربیع الثانی ۳۹۳۱ ھ
فیصلہ : وبعد دراسةالمسا¿لة وتداول الرا¿ی واستعراض الاقوال التی قےلت فیھاومناقشة ماعلی کل قول من ایراد توصل المجلس باکثریتہ الی اختیار القول بوقوع الطلاق الثلاث بلفظ واحد ثلاثاً
اس مسئلہ پربحث و تمحیص کے بعد مجلس علماءنے کثرت رائے سے یہ فیصلہ کیاہے کہ ایک ہی لفظ سے تین طلاق دینے کی صورت میں تین طلاقیں ہی واقع ہوں گی۔مکمل فیصلہ مع دلائل ملاحظہ ہو احسن الفتاوی ج ۵ ص۳۲۲ایچ ایم سعید کمپنی کراچی
سعودی حکومت نے حنبلی المسلک امام ۔امام ابن تیمیہ کے فتاوی جات پر مشتمل مجموعہ شائع کرواکے اپنے حنبلی المسلک ہونے کا اظہار کیا ہے جبکہ آپ تقلید شخصی کو شرک فرماتے ہیں
قارئین محترم :۔ آپ ہی فیصلہ فرماویںکہ ان کے اس دعوی(ہمار امذہب مکہ مدینہ ولا ہے ) میں کتنی صداقت ہے
دستار کے ہرپیچ کی تحقیق ہے لازم
ہر صاحب دستار معزز نہیں ہوتا
وسوسہ (13) اگر تقلید نہ کی جائے تو کونسی قیامت ٹوٹے گی؟
جواب : قیامت تو اپنے وقت پر قائم ہوگی البتہ قیامت میں رسوائی کا خطرہ ضرورہے ۔کیونکہ جو بھی اکابر کے دامن تحقیق کو چھوڑ کر نئی راہ کے متلاشی ہوئے تو یقینا من شذشذ فی النار کے مصداق بنے ۔مثلاً عبداللہ چکڑالوی ،ڈاکٹر احمد
دین نیاز فتح پوری ۔اسلم جیراجپوری ۔چوہدری غلام احمد پرویز ،علامہ مشرقی وغیرہ منکر حدیث بنے یا مرزا غلام احمد قادیانی بزعم خویش مدعی نبوت بنا اورماضی قریب کے مسٹر نے جب مولانا بن کر قرآن مجید کی تفسیر لکھتے ہوئے ،مشاجرات صحابہ میں بے تکی قلمکاری فرمائی تو شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ نے ضال ومضل ہونےکا ارشاد فرمایا۔
قارئین گرامی قدر :۔
یہ سب کارستانیان ہیں اکابرین امت ائمہ دین کے راہ ہدٰی اور نقش تحقیق کو چھوڑ کر نئی منزل کے متلاشی ہونے کی یعنی غیر مقلد ہونے کی۔
وسوسہ (14) : ۔ تقلید کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
جواب :۔ جی ہاں محققین کے نزدیک تقلید لازم وواجب ہے۔
ان العامی یجب علیہ تقلید العلماءفی احکام الحوادث ۔تفسیر کبیر۔ پ ۵ سورة نساء
غیر منصوص مسائل میں غیر مجتہد پر علماء(مجتہدین ) کی تقلید واجب ہے
ان العامی علیہ تقلید العلماءفی احکام الحوادث
غیر مجتہدپر غیر منصوص مسائل میں علماء(مجتہدین ) کی تقلید لازم ہے ۔
احکام القرآن سورة النساءص ۵
یلزم غیر المجتہد عامیاً کان اوغیرہ التقلید للمجتہد
غیر مجتہد پر مجتہد کی تقلید لازم ہے ۔روح المعانی سورة نحل پ ۴۱
وسوسہ(15):۔ہم مکہ مدینہ والوں کو چھوڑ کر کوفہ والوں کو کیوں اپنائیں؟
جواب 1 :۔فرمائیے جب اصحاب رسول ﷺ کی کثیر تعدداد (پندرہ صدصحابہ ستر بدری ۔مزید تفصیل کے لئے ہماری تالیف ترک رفع یدین احادیث کی روشنی میں ملاحظہ فرماویں )کوفہ میں آکر آباد ہوئی تو وہ مکہ مدینہ والا علم ساتھ لائے یا نعوذ باللہ وہیں چھوڑ کر خالی ہاتھ آئے تھے ؟ یقینا یہ نفوس قدسیہ کوفہ آتے ہوئے دین بھی مکہ مدینہ والاساتھ لائے تھے اور نماز بھی مکہ مدینہ والی ساتھ لائے ۔
جواب 2 : ۔ گورنمنٹ سعودی عرب نے جو قرآن کریم شائع کیا ہے اس کی باقاعد ہ سند بھی تحریر کی ہے کہ یہ روایت ہے حفص کوفی کی اور قرات ہے عاصم کوفی کی تو ہم گذارش کریں اگر کوفہ سے اتنی چڑ ہے تو پھر اس قرآن کریم سے بھی ہاتھ دھونا ہوں گے جو کوفیوں کی وساطت سے آیا ۔(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
جواب 3 ۔ :۔چلو حضرت عمرؓ سے تراویح و طلاق کے مسائل میں اور حضرت عثمان ؓ سے جمعہ کی آذان اول کے مسئلہ میں جناب کی مخالفت ہے مگر حضرت علی ؓ کے متعلق کیا حکم ہوگا کیونکہ باب العلم نے بھی اپنا دارالخلافہ کوفہ بنایا ۔
وسوسہ 16 :۔امام اعظمؒ کس کے مقلد تھے ؟
جواب :۔ جن مسائل کی وضاحت سے قرآن وحدیث اور آثار صحابہ ؓخاموش ہیں ان مسائل میں آپ نے اجتہاد فرمایا ۔
وسوسہ 17: ۔ اما م ابو یوسف و اما م محمد نے کافی مسائل مےں امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا ہے ۔آخر کےوں ؟
جواب :۔اس وسوسہ کا دفعیہ تو علامہ شامی متوفی ۲۵۲۱ھ نے شامی شریف ج۱۔ ص۶۶ پر ارشاد فرمادیا ہے کہ امام صاحب کے تلامذہ کے اقوال بھی در اصل اما م صاحب کے ہی ارشادات ہیں ۔البتہ جہاں حضرت الامام منفرد نظر آئیں تو یہ ان کی دقت نظر اور بلندی علم کا وہ مقام ہے جہا ں تک دو سرو ں کی رسائی نہیں ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔