Pages

Saturday, 22 March 2025

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ کریم کے محبوب اور مقبول بندے مدد کرتے ہیں لیکن

*مولانا عدنان چشتی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری2023

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ کریم کے محبوب اور مقبول بندے مدد کرتے ہیں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ حضرات ذاتی طور پر ، خود بخود ، مستقل مشکل کُشا ہیں ، مَعاذَ اللہ۔ کوئی مسلمان ایسا عقیدہ رکھنا تو دور کی بات ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔مسلمانوں کا عقیدہ تو یہ ہے کہ امداد صرف اور صرف اللہ کریم ہی کی ہے ، اللہ پاک کے محبوب بندے اس مدد کا وسیلہ ، ذریعہ اور سبب ہیں اور اللہ کے نیک بندے جو مدد کرتے ہیں وہ حقیقت میں اللہ ہی کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔

جلیلُ القدر فقیہ و محدث ، شیخ الاسلام حضرت امام تقی الدین علی سبکی شافعی  رحمۃُ اللہ علیہ  استمداد و استعانت کو بہت سی احادیثِ صریحہ سے ثابت کرکے ارشاد فرماتے ہیں : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مددمانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو خالق اور فاعل مستقل ٹھہراتے ہوں ، کوئی مسلمان یہ بات ہرگز نہیں سوچ سکتا ، کلام کو اس معنی پر ڈھال کر مدد مانگنے سے روکنا ، دین میں دھوکا دینا اور مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہے۔[1]

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : اَلْمُسْتَغَاثُ بِہٖ فِی الْحَقِیْقَۃِ : ہُوَ اللہ تَعَالٰی ، وَ النَّبِیُّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وَاسِطَۃٌ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ الْمُسْتَغِیْث یعنی حقیقی مددگار تو اللہ پاک ہی ہے ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو اللہ پاک اور مدد مانگنے والے کے درمیان واسطہ و وسیلہ ہیں۔[2]

اعتراض کرنے والے کو چاہئے کہ مدد مانگنے والوں سے پوچھ کر تو دیکھے کہ  ” تم انبیا ء و اولیاء کو خدا مانتے ہو ، خدا کا ہم پلہ مانتے ہو ، خود سے قدرت رکھنے والا ، ہمیشہ ہمیشہ سے مستقل مددگار سمجھتے ہو یا انہیں اللہ کریم کے مقبول بندے ، اس کی بارگاہ میں عزت ووجاہت والے ، اُسی کے حکم سے اُس کی نعمتیں بانٹنے والے مانتے ہو؟ دیکھو تو تمھیں کیا جواب ملتا ہے۔ “  [3]

استغاثہ ، توسل ، سفارش وغیرہ ایک ہی ہیں :

جب اللہ کے محبوب بندے مدد کا وسیلہ ، واسطہ ، ذریعہ اور سبب ہیں تو اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ استغاثہ ، توسل دونوں ایک ہی عمل کے مختلف نام ہیں ، اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت امام سبکی فرماتے ہیں : وَ اِذَا تَحَرَّرْتُ ھَذِہِ الْاَنْوَاعَ وَ الْاَحْوَالَ فِی الطَّالِبِ مِنَ النَّبِیِّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، وَظَہَرَ الْمَعْنیٰ ، فَلَا عَلَیْکَ فِی تَسْمِیَتِہٖ : تَوَسُّلًا ، اَوْ تَشَفُّعًا ، اَوِاسْتِغَاثَۃً ، اَوْ تَوَجُّھًا ، لِاَنَّ الْمَعْنٰی فِی جَمِیْعِ ذَلِکَ سَوَاءٌ یعنی اور جب میں نے  ( توسل و استغاثہ وغیرہ کی )  تمام اقسام اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے  ( مدد )  مانگنے کے تمام احوال لکھ دئیے اور معنی بھی ظاہر ہوگیا توتم پر کوئی حرج نہیں کہ اسے توسل ، سفارش ، استغاثہ اور توجّہ میں سے کوئی بھی نام دے دو کیونکہ ان سب کا ایک ہی مطلب ہے۔[4]

حضرت امام احمد بن حجر مکی شافعی رحمۃُ اللہ علیہ نے بھی توسل ، استغاثہ ، اور شفاعت کے بارے میں یہ نقل فرمایا ہے کہ ان میں فرق نہیں ہے : وَلَا فَرقَ بينَ ذکرِ التَّوَسُّلِ وَالْاِسْتِغَاثَةِ وَالتَّشَفُّعِ وَالتَّوَجُّہِ بِہٖ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اَوْ بِغَیْرِہٖ مِنَ الْاَنْبِیَاءِ وَکَذَا الاَوْلِیَاء یعنی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، انبیائے کرام اور اولیائے عظام سے توسل ، استغاثہ ، تشفع اور توجہ میں کوئی فرق نہیں۔[5]

اتنی صاف وضاحت کے بعد یہ کہنا سراسر الزام ہے کہ انبیاء و اولیاء سے مدد مانگنے والے ، ان حضرات کو قادر اور مستقل جان کر مدد مانگتے ہیں۔ایسے الزام تراشوں کے بارے میں امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں :  ( یہ )  ایک ایسی سخت بات ہے جس کی شناعت  ( بُرائی )  پر اطلاع پاؤ تو مدتوں تمہیں توبہ کرنی پڑے ، اہلِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ پر بدگمانی حرام ، اور ان کے کام کہ جس کے صحیح معنی بے تکلف درست ہوں خواہی نخواہی مَعَاذَاللہ معنی کفر کی طرف ڈھال  ( کر ) لے جانا قطعاً گناہ کبیرہ ہے۔[6]

کیا فوت شدہ سے مدد مانگنا شرک نہیں؟

فوت شدہ سے مدد مانگنا شرک ہے یا نہیں؟اس سوال کا جواب جاننے کے لئے امامِ اہلِ سنّت ، امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کی عبارت پڑھئے جو کچھ آسان الفاظ میں پیشِ خدمت ہے : اللہ والوں سے مدد مانگنے کے مخالفین بیچارے کم علم لوگوں کو اکثر دھوکا دیتے ہیں کہ یہ تو زندہ ہیں فلاں عقیدہ یا معاملہ اِن سے شرک نہیں ، وہ مُردہ ہیں اُن سے شرک ہے یا یہ تو پاس بیٹھے ہیں اِن سے شرک نہیں ، وہ دور ہیں اُن سے شرک ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسی باتیں کرنا سخت جہالت ہے ، جو شرک ہے وہ جس کے ساتھ کیا جائے شرک ہی ہوگا ، ایک کے لئے شرک نہیں تو کسی کے لئے بھی شرک نہیں ہوسکتا۔ کیا اللہ پاک کے شریک مُردے نہیں ، زندے ہوسکتے ہیں! دور والےنہیں ہوسکتے ، پاس کے ہوسکتے ہیں! انبیاء نہیں ہوسکتے حکیم ہوسکتے ہیں! انسان نہیں ہوسکتے ، فرشتے ہوسکتے ہیں!

حاشالِلّٰہ! اللہ تبارک وتعالیٰ کاکوئی شریک نہیں ہوسکتا ، مثلاً جو بات ، نِدا ، خواہ کوئی شے جس اعتقاد کے ساتھ کسی پاس بیٹھے ہوئے زندہ آدمی سے شرک نہیں وہ اُسی اعتقاد سے کسی دور والے یا مُردے بلکہ اینٹ پتھر سے بھی شرک نہیں ہوسکتی ، اور جو ان میں سے کسی سے شرک ٹھہرے وہ قطعاً یقیناً تمام عالَم سے شرک ہوگی۔

 مزید فرماتے ہیں : مسلمان اس نکتے کو خوب محفوظ ملحوظ رکھیں ، جہاں ان چالاکوں ، عیاروں کو کوئی فرق کرتے دیکھیں کہ فلاں عمل یا فلاں اعتقاد فلاں کے ساتھ شرک ہے فلاں سے نہیں ، یقین جان لیجئے کہ نرے جھوٹے ہیں ، جب ایک جگہ شرک نہیں تو اس اعتقاد سے کسی جگہ شرک نہیں ہوسکتا۔[7]

 انتقال کے بعد بھی مدد مانگنا جائز ہے :

مُحَقِّق عَلَی الِاْطلاق ، شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی حنفی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت امام محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا : كُلُّ مَنْ يُّسْتَمَدُّ بِهٖ فِيْ حَيَاتِهٖ يُسْتَمَدُّ بِهٖ بَعْدَ وَفَاتِهٖ ، یعنی جس سے اس کی زندگی میں مدد مانگنا جائز ہے ، اس سے انتقال کے بعد بھی مدد مانگنا جائز ہے۔ مشائخِ عظام میں سے ایک ولی نے فرمایا : میں نے چار اولیاء کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی قبروں میں اُسی طرح تصرف کرتے ہیں جس طرح اپنی زندگی میں کرتے تھے یا اس سے بھی بڑھ کر۔  ( ان میں سے ایک )  حضرت معروف کرخی ، اور  ( دوسرے )  حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ہیں ، اور دو اور بزرگ شمار کئے۔  ( یاد رہےیہ صرف چار ہی اولیاء نہیں ہیں بلکہ جو کچھ ان بزرگ نے خود دیکھا ، پایا ، اُس کو بیان کر دیا۔ )  [8]

اللہ رب العزّت ہمیں اسلافِ کرام کے بتائے ہوئے عقائد و نظریات پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مکمل تحریر >>

Monday, 27 January 2025

شب معراج کےروزے اور شب بیداری کی فضیلیت اور شب بیداری کرنے کا طریقہ اور چیلنج کا جواب اور بدعت کی تفصیل اور اجتماع اور نوافل کی جماعت کی دلیل اور معراج کی تاریخ اور مکہ مدینہ میں شب معراج منائی جاتی تھی......!!*

*#شب معراج کےروزے اور شب بیداری کی فضیلیت اور شب بیداری کرنے کا طریقہ اور چیلنج کا جواب اور بدعت کی تفصیل اور اجتماع اور نوافل کی جماعت کی دلیل اور معراج کی تاریخ اور مکہ مدینہ میں شب معراج منائی جاتی تھی......!!*
*سوال....!!*
 جیسے ہی شب معراج قریب ہوتی ہے تو چند ویڈیوز اور تصاویر گردش کرنے لگ جاتی ہیں جس میں دیوبندیوں وہابیوں غیرمقلدوں کی طرف سے چیلنج و اعتراض کیا جاتا ہے کہ شب معراج 27 رجب کو نہیں ہے بلکہ کہتے ہیں شب معراج کی تاریخ ثابت نہیں ہے، جب تاریخ ثابت نہیں تو شب معراج منانا کہاں سے ثابت ہو گیا یہ بدعت ہے
اور
 یہی لوگ بلکہ کئ عوام کہتے ہیں کہ مکہ مدینہ میں شب معراج نہیں منائی جاتی تو ہم کیوں منائیں.....؟؟
شب معراج کی شب بیداری اور روزہ رکھنا اور نفل کی جماعت کرانا کہاں سے ثابت ہے؟ بدعت کسے کہتے ہیں...؟؟


*جواب و تحقیق......!!*

شب بیداری کیسے کریں اور مسجد میں جمع ہوکر قرآن و حدیث فقہ وغیرہ کا درس سننا سنانا علم پڑھنا پڑھانا نوافل پڑھنا پڑھانا ذکر و اذکار کرنا ان سب کی اصل پے دو حدیثں آخر میں لکھیں ہیں ۔پہلے شب معراج کی تاریخ اور مکہ مدینہ والوں کی شب 
بیداری کے حوالہ جات پڑھیے 

*#پہلی_بات*
 تاریخ میں اگرچہ اختلاف ہے مگر قوی راجح مشھور تاریخ شب معراج 27رجب ہے، اسی پر نجدیوں کے قبضہ سے پہلے مسلمانوں اور بالخصوص مکہ مدینہ والوں کا عمل تھا، اسی رات شب بیداری کرتے تھے...چند حوالہ جات ملاحظہ کیجیے

1=دیوبندی غیر مقلدین و اہلسنت و جماعت حنفی سب کی معتبر شخصیت شاہ  عبدالحق محدث دھلوی فرماتے ہیں:
والمشهور في السابعة والعشرين من رجب، وعليه عمل أهل المدينة
 مشہور بات ہے کہ شب معراج 27 رجب ہے اور اسی پر اہل مدینہ عمل ہے کہ عبادات(شب بیداری )کرتے ہیں
(عبد الحق الدِّهْلوي ,لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح ,9/376)
۔
وہ لوگ غور سے پڑھیں جو کہتے ہیں کہ 27 رجب کو اہل مدینہ مکہ مدینہ کے لوگ شب معراج نہیں مناتے تھے۔۔۔شاہ صاحب نے صاف صاف لکھا ہے کہ اہل مدینہ 27 رجب کو شب معراج مناتے تھے۔۔۔ عمل کرتے تھے ۔۔۔عبادات کرتے تھے شب بیداری کرتے تھے
مگر جب سے آل سعود نے وہاں قبضہ کیا تب سے اس عمل اپنے مذہب و مسلک کے مطابق ترک کر دیا 

2=السابع والعشرين من رجب المعظم - وليلته كانت ليلة المعراج على المشهور من الأقوال
 اقوال میں سے زیادہ مشہور قول یہی ہے کہ 27 رجب شب معراج ہے
(كتاب مرآة الجنان وعبرة اليقظان3/344)

"3=وقيل: كان ليلة السابع والعشرين من رجب" وعليه عمل الناس، قال بعضهم: وهو الأقوى، فإن المسألة إذا كان فيها خلاف للسلف ولم يقم دليل على الترجيح واقترن العمل بأحد القولين أو الاقوال، وتلقى بالقبول فإن ذلك مما يغلب على الظن كونه راجحا
 اور ایک قول یہ ہے کہ شب معراج 27 رجب ہے اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے کہ نیکیاں اور عبادات نوافل وغیرہ شب بیداری کرتے ہیں اور اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ یہی تاریخ قوی ترین تاریخ ہے… کیونکہ اسلاف میں جب کسی تاریخ میں اختلاف ہو اور اس میں اگر کسی ایک قول پر اسلاف کا عمل رہا ہوں اور انہوں نے اس قول کو قبول کر لیا ہو تو غالب گمان ہے کہ وہ تاریخ راجح ہے
(شرح الزرقاني على المواهب 2/71)
.
4=وكان الإسراء به صلّى الله عليه وسلّم والمعراج ليلة سبع وعشرين من رجب
 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی 27 رجب کو
(كتاب نهاية الإيجاز في سيرة ساكن الحجاز1/138)
.
؛5= قَدِ اشْتَهَرَ بَيْنَ الْعَوَامِّ أَنَّ لَيْلَةَ السَّابِعِ وَالْعِشْرِينَ مِنْ رَجَبٍ هِيَ لَيْلَةُ الْمِعْرَاجِ النَّبَوِيِّ وَمَوْسِمُ الرَّجَبِيَّةِ مُتَعَارَفٌ فِي الْحَرَمَيْنِ الشَّرِيفَيْنِ يَأْتِي النَّاسُ فِي رَجَبٍ مِنْ بَلادٍ نَائِيَةٍ لِزِيَارَةِ الْقَبْرِ النَّبَوِيِّ فِي الْمَدِينَةِ وَيَجْتَمِعُونَ فِي اللَّيْلَةِ الْمَذْكُورَةِ، وَهُوَ أَمْرٌ مُخْتَلَفٌ فِيهِ بَيْنَ الْمُحَدِّثِينَ وَالْمُؤَرِّخِينَ فَقِيلَ كَانَ ذَلِكَ فِي رَبِيعٍ الأَوَّلِ، وَقِيلَ فِي رَبِيعٍ الآخِرَةِ، وَقِيلَ فِي ذِي الْحَجَّةِ وَقِيلَ فِي شَوَّالٍ، وَقِيلَ فِي رَمَضَانَ، وَقِيلَ فِي رَجَبٍ فِي لَيْلَةِ السَّابِعِ وَالْعِشْرِينَ وَقَوَّاهُ بَعْضُهُمْ
 مشہور اور متعارف ہے کہ مکہ اور مدینہ کے لوگ 27 رجب کو جمع ہوتے ہیں اور عبادات کرتے ہیں، زیارت  قبر نبوی کرتے ہیں اسی وجہ سے عوام میں مشہور ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب شب معراج ہے اگرچہ شب معراج کی تاریخ میں اختلاف ہے بعض نے فرمایا ربیع الاول میں تھی بعض نے فرمایا ربیع الآخر ہے، بعض نے فرمایا ذوالحجہ، بعض نے فرمایا شوال ہے بعض نے رمضان کا کہا ، بعض نے 27 رجب کو شب معراج قرار دیا ہے اور بعض علماء نے اس کو قوی ترین قرار دیا ہے
(كتاب الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص77)
۔
دیکھو غور سے دیکھو مکہ اور مدینہ والے 27 رجب کو شب معراج میں عبادات شب بیداری کرتے تھے
.
6=ليْلَة الْإِسْرَاء إِلَى بَيت الْمُقَدّس بِمَكَّة بعد النُّبُوَّة بِعشر سِنِين وَثَلَاثَة أشهر لَيْلَة سبع وَعشْرين من رَجَب
 شب معراج 27 رجب ہے
(كتاب الإقناع في حل ألفاظ أبي شجاع2/556)

.
7=السابع والعشرين من رجب ليلة الإسراء والمعراج به- صلى الله عليه وسلم
شب معراج 27 رجب ہے
(المواهب اللدنية بالمنح المحمدية3/145)
.
8=السابع والعشرين من رجب، وكانت ليلة المعراج
 27 رجب اور یہ شب معراج ہے
(نزهة الأنظار في عجائب التواريخ والأخبار1/406)
.
9=السَّابِع وَالْعِشْرين من رَجَب...قلت: قَالَ ابْن خلكان وَلَيْلَته لَيْلَة الْمِعْرَاج
 27 رجب.... میں مصنف کہتا ہوں کہ ابن خلکان نے کہا ہے کہ یہ شب معراج تھی
(كتاب تاريخ ابن الوردي2/95)
.
10=السابع والعشرين من رجب، وليلته كانت ليلة المعراج
 27 رجب اور یہ شب معراج تھی
(كتاب وفيات الأعيان7/179)

11=قاضی سلیمان منصور پوری کو اہل حدیث کے علماء میں شمار کیا جاتا ہے اور دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ میں اسے معتبر عالم کہا گیا ہے…انکا نظریہ تھا کہ:
وقال الزرقاني: إن الإمام ابن عبد البر والإمام ابن قتيبة الدينوري والإمام النووي (تبعا للرافعي) حددوا شهر رجب للمعراج.وقال الحافظ عبد الغني المقدسي (ت ٦٠٠ هـ) أن الراجح هو السابع والعشرين من رجب، وذكر أن الاتفاق عملا كان على ذلك دائما (٣).وخلاصة الأقوال السابقة أن واقع المعراج كان في السابع والعشرين من رجب عام ٥٢ من ولادة النبي

 علامہ زرقانی علامہ ابن عبدالبر امام ابن قتیبہ امام نووی امام رافعی کے مطابق معراج رجب کے مہینے میں تھی اور امام عبدالغنی مقدسی نے فرمایا کہ راجح یہ ہے کہ 27 رجب میں شب معراج ہے اور مزید فرمایا کہ اس پر ہمیشہ سے عمل ہوتا چلا آرہا ہے کہ لوگ عبادات کرتے ہیں، تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ معراج کا واقعہ 27 رجب میں ہوا تھا
(اہلحدیث غیر مقلدین وغیرہ کی معتبر کتاب رحمة للعالمين ص705)
.
12=ليلة السابع والعشرين من رجب..وهي ليلة المعراج الذي شرف الله به هذه الأمة
 رجب کی ستائیسویں شب.... جو معراج کی رات ہے کہ اللہ نے اس امت کو یہ عظیم الشان رات عطا فرمائی
(تنبيه الغافلين عن أعمال الجاهلين وتحذير السالكين من أفعال الجاهلين ص497)
.
13=وكان يأتي المدينة ببركة النبي صلى الله عليه وسلم نسيم بارد. وكان انطفاؤها في السابع والعشرين من شهر رجب ليلة الإسراء والمعراج
 ایک طرف یہ بہت بڑی آگ تھی لیکن مدینے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں اور یہ آگ 27 رجب میں بجھ گئی ، 27 رجب کہ جو شب معراج ہے
(إظهار الحق4/1017)
.
14=وقد جرى عملُ المسلمين على متابعة ما اختاره الحافظ عبد الغني المقدسي، فجعلوا ليلة سبع وعشرين من رجب ليلة ذكرى الإسراء، ولعل الله قد وفقهم في هذا العمل فيكون ترجيحًا لذلك الاختيار
 امام حافظ عبدالغنی مقدسی نے جو اختیار فرمایا کہ 27 رجب اور شب معراج ہے تو مسلمانوں کا عمل بھی اس پر جاری ہوا... شاید کہ اللہ تعالی نے لوگوں کو اس عمل کی توفیق عطاء فرمائی تو مسلمانوں کا یہ عمل اس بات کی ترجیح ہے کہ 27 رجب شب معراج ہے
(جمهرة مقالات ورسائل الشيخ الإمام محمد الطاهر ابن عاشور1/481)
.
15=وجزم الحافظ ابن حجر بأنه ليلة السابع والعشرين من رجب، وعليه عمل أهل الأمصار
 امام ابن حجر نے یقین کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ 27 رجب شب معراج ہے اور اسی پر لوگوں کا ، مسلمانوں کا عمل ہے(کہ 27 رجب کو عبادات کرکے شب بیداری کرکے یہ رات مناتے ہیں)
(كتاب الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي1/654)
۔
دیکھیے صاف لکھا ہے کہ صرف مکہ مدینہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام ممالک میں شب معراج 27 رجب کو منائی جاتی تھی،عبادات کی جاتی تھی شب بیداری کی جاتی تھی اور اسی پر اج بھی عمل ہے الحمدللہ تعالی
.
16=أنه كان في سبعة وعشرين من شهر رجب على وفق ما هم عليه في الحرمين الشريفين من العمل
 ایک قول کے مطابق 27 رجب شب معراج ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ حرمین شریفین مکہ مدینہ کے لوگ اسی رات شب بیداری کرتے ہیں نوافل پڑھتے ہیں عبادات کرتے ہیں
(شرح الشفا للقاری ,1/394)
.
*#دوسری_بات*
شب قدر کی تاریخ کنفرم نہیں لیکن قوی امکان کے تحت 27 رمضان کو شب بیداری و عبادات کرنا سب کے ہاں اچھا و بہتر ہے...اسی طرح شب معراج کی تاریخ متعین نہ بھی ہو تو راجح قوی بلکہ ممکنہ تاریخ پر شب بیداری عبادات کرنا جائز و ثواب کہلائے گا اور قوی راجح تاریخ شب معراج کی ستائیس رجب ہے جیسے کہ اوپر بیان ہوا
.
وہابیوں و غیر مقلدوں کا معتبر عالم ابن عثیمین لکھتا ہے:
كل هذا ممكن أن تكون فيه ليلة القدر، والإنسان مأمور بأن يحرص فيها على القيام، سواء مع الجماعة إن كان في بلد تقام فيه الجماعة، فهو مع الجماعة أفضل
 ممکن ہے کہ 27 رمضان کو شب قدر ہو تو انسان کو یہ حکم ہے کہ اس رات قیام کرے عبادات کرے نوافل پڑھے اکیلے پڑھے یا جماعت کے ساتھ... مل کر عبادات کریں تو یہ افضل ہے
(كتاب مجموع فتاوى ورسائل العثيمين20/66)
.
اس رات کی تعیین میں بھی اختلاف ہے کہ وہ کون سی رات ہے، رمضان کے اخیر عشرے کی طاق راتوں میں اس کو تلاش کرنا چاہیے، اورتلاش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان راتوں میں جاگ کر انفرادی طور پر نماز، تلاوت اوردعا وذکر کا اہتمام کرنا چاہیے، رمضان کی ستائیسویں شب کو اس کا امکان زیادہ ہے
(دار الافتاء دیوبند جواب نمبر: 16814فتوی(م):1617)
.
یہ مبارک رات رمضان کے آخری عشرہ کی پانچ طاق راتوں میں سے کوی ایک ہے بلکہ اس بات کا بھی ظن حاصل ہوتا ہے کہ وہ طاق رات ستائیسویں رمضان کی ہے....اس رات میں بھی دنیا کی رغبتوں سے بے نیاز ہوکر ،اذکار و اعمال میں مشغول رہے کثرت سے نفل نمازیں پڑھے، قرآن کی تلاوت کرے۔ دل کو حسد، بغض، کینہ، عداوت، غرور، تکبر کی آلائشوں سے پاک رکھے
(دیوبند کی کتاب...رمضان المبارک کے فضائل و مسائل جلد دوم ص187..189)

 ان حوالہ جات میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ غالب گمان کے طور پر شب قدر کی تاریخ مقرر کی گئ اور انفرادی و اجتماعی عبادت کا بھی حکم دیا گیا.... اسی طرح شب معراج میں بھی غالب گمان یہی ہے کہ 27 رجب کو ہے تو اس رات میں بھی عبادت اجتماعی یا انفرادی طور پر کرنی چاہیے
.
*#اگر کوئی کہے کہ شب قدر میں عبادات کا حکم حدیث پاک میں ہے لیکن شب معراج میں عبادت کا حکم نہیں....تو اسکا جواب یہ ہے کہ ہر شب نفلی عبادات و درود ذکر اذکار کرنے کی شریعت نے ترغیب دی ہے اور ضعیف حدیث میں شب معراج میں بالخصوص شب بیداری عبادات کی ترغیب ہے اور فضائل میں ضعیف حدیث مقبول و معمول ہے تو لہذا ستائیس رجب شب معراج  کو مطالعہ علم و وعظ و عبادات  صدقہ خیرات شب بیداری  کرنی چاہیے*

*شب معراج کے متعلق  دو احادیث مبارکہ*
الحدیث:
فى رجب يوم وليلة من صام ذلك اليوم وقام تلك الليلة كان كمن صام من الدهر مائة سنة وقام مائة سنة وهو لثلاث بقين من رجب
ترجمہ:
رجب میں ایک ایسا دن ہے اور ایک ایسی رات ہے کہ جس نے اس دن روزہ رکھا اور اس رات قیام اللیل(عبادات،شب بیداری) کی تو گویا اس نے زمانے میں سے سو سال روزے رکھے اور سو سال قیام اللیل کیا،اور وہ ستائیس رجب ہے.
(شعب الایمان حدیث3811)
(تبیین العجب ص43)
(كنز العمال حدیث35169)
(فضل رجب لابن عساكر ص315)
(جامع الأحاديث حدیث14813)

امام ابن حجر نے اسکی سند پر تفصیلی کلام کیا…موضوع متھم کذاب وغیرہ کا حکم نہ لگایا بلکہ نکارت ضعیف کا حکم لگایا
(تبیین العجب ص43)
.
امام ابن عراق نے امام ابن حجر کی جرح کو برقرار رکھتے ہوئے ضعیف قرار دیا
(تنزيه الشريعة المرفوعة2/161)

امام سیوطی نے ضعیف قرار دیا
(الدر المنثور في التفسير بالمأثور4/186)

امام ابن عساکر نے غریب ضعیف قرار دیا
(فضل رجب لابن عساكر ص315)
.
علامہ لکھنوی نے کذاب یا متھم بالکذب کی جرح نہ کی، ضعیف نکارت کی جرح کو برقرار رکھا 
(الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص60)
.
امام بیھقی نے ضعیف قرار دیا
(شعب الإيمان5/345)

الحدیث:
بعثت نبياً في السابع والعشرين من رجب فمن صام ذلك اليوم كان له كفارة ستين شهراً
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ 27 رجب کو میں نبی مبعوث ہوا تو جو شخص اس دن کا روزہ رکھے گا اس کے لیے ساٹھ مہینوں کا کفارہ ہوگا
(تبین العجب ص44..تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة2/161)

امام ابن حجر نے ضعیف نکارت کا حکم لگایا...موضوع متھم متروک وغیرہ کا حکم نہ لگایا(تبین العجب ص44)
.
امام ابن عراق نے ضعیف نکارت کا حکم لگایا...موضوع متھم متروک وغیرہ کا حکم نہ لگایا(تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة2/161)

فضائل میں حدیث ضعیف پے عمل جائز و ثواب ہے
اصول:
يتْرك)أَي الْعَمَل بِهِ فِي الضَّعِيف إِلَّا فِي الْفَضَائِل
فضائل کے علاوہ میں حدیث ضیف پر عمل نہ کیا جائے گا مگر فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے
(شرح نخبة الفكر للقاري ص185)
.
قال العلماءُ من المحدّثين والفقهاء وغيرهم: يجوز ويُستحبّ العمل في الفضائل  والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعاً
علماء محدثین فقہاء وغیرہ نے فرمایاکہ فضائل ،ترغیب و ترہیب میں جائز ہے مستحب و ثواب ہے ضعیف حدیث پے عمل کرنا بشرطیکہ موضوع و من گھڑت نہ ہو 
(الأذكار للنووي ص36)
.
*شب_بیدری کیسےکریِں...........!!*
روزانہ ورنہ کم از کم بابرکت راتوں جیسے شب قدر شب معراج شب برات وغیرہ میں شب بیداری کرنی چاہیے...گھر میں بھی یہ عبادات و شب بیداری کرسکتے ہیں اور بہتر ہے کہ مسجد میں اجتماعی شب بیداری میں شامل ہوں تاکہ بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملے اور سستی بھی نہ ہو....کچھ نوافل ذکر و اذکار درج ذیل ہیں جو ہوسکے تو روزانہ ورنہ کم سے کم بابرکت راتوں میں تو ضرور ادا کرنے چاہیے.....*#مگر یاد رہے کہ شب بیداری ، نفلی عبادات کو فرض واجب مت سمجھیے، مروجہ طریقے سے سنت مت سمجھیے بلکہ جائز و ثواب سمجھیے کہ جسکی اصل احادیث سے ثابت ہے*
✍️علامہ عنایت اللہ حصیر
مکمل تحریر >>

Wednesday, 2 October 2024

رولز برائے تنظیم دھرابی

از سرے نو رولز برائے *تحریک اتحاد نوجوانان اہلسنت دھرابی* 2024

*تحریک اتحاد نوجوانان اہلسنت دھرابی* جس مشن پر گامزن ہے وہ دین کی سربلندی اور نظام مصطفیٰ کا نفاذ ہے اور ناموس رسالت ﷺ ختم نبوت و ناموس صحابہ و اہلبیت کا تحفظ ہے ۔۔۔
یہ اتحاد حضور علیہ السلام کے بعد از وصال حیات نبی کے قائل فقہ حنفی کے مقلد دو مکاتب فکر مابین اہلسنت بریلوی اور اہلسنت دیوبند کے قایم کیا گیا ہے ۔۔۔
اور یہ اتحاد کسی بھی مکتبہ فکر کے خلاف نہیں بلکہ ختم نبوت و ناموس رسالت ﷺ اور ناموس صحابہ و اہلبیت کے تحفظ کیلئے کیا گیا اور جو آپس میں ماضی میں مسائل رہے ہیں وہ آئندہ پیش نہ آئیں یا آئیں بھی تو مل جل کر ان پر قابو پایا جائے اور انہیں حل کیا جاسکے ۔۔۔

دھرابی میں ایک دوسرے کی مساجد اور مدارس میں مداخلت نہیں کریں گے
 ابھی وقت حال بہترین نظام چل رہا ہے جیسا چل رہا ہے ایسے ہی اسے چلنے دیا جائے گا 

دونوں طرف کے علماء کے خلاف سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ نہیں کی جائے گی 

دونوں طرف سے ایک دوسرے کے عقیدے کے خلاف کوئی پوسٹ نہیں کی جائے گی 

فروعی معاملات کو نہ ہوا دی جائے گی نہ ان پر بحث کی جائے گی 

اگر کسی بات پر اختلاف ہو بھی جاتا ہے تو احسن انداز میں اخلاق کے دائرے میں رہتے ھوۓ بات کی جائے گی 

اول تو یہ کہ اتحاد کے ذمہ داران سوشل میڈیا پر کوئی بحث نہیں کریں گے اور اپنے اپنے کارکنان کو بھی ایسی ہی تربیت دی جائے گی 

دونوں مکاتب فکر کے علاوہ کسی اور مسلک کے علما کو ذمہ داران پروموٹ نہیں کریں گے اور نہ حمایت کریں گے 

اور ایسے لوگوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہو گا جو حضورﷺ کو مردہ خیال کرتا ہو اور جو نبی کی حیات بعد از وصال کا قائل نہ ہو 
اور ایسے لوگوں سے بھی ذمہ داران تعلق نہیں رکھیں گے نہ انھیں پروموٹ کریں گے جو یزید کو حق پر مانتے ہوں اہلبیت سے بغض رکھتے ہوں اور کربلا کی لڑائی کو محض سیاسی لڑائی قرار دیتے ہوں 

ایسے لوگوں سے بھی کوئی دینی تعلق نہیں رکھا جائے گا جو تمام صحابہ بشمول خلفائے راشدین یا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے عداوت رکھتے ہوں

سوشل میڈیا پر حتی الامکان ایسی پوسٹس سے گریز کیا جائے گا جس سے دھرابی کے پر امن ماحول میں خلل آتا ہو یا ہمارے اتحاد کو گزند پہنچتی ہو ۔۔

سالانہ پروگرام کو امیر اور نائب امیر مینیج کریں گے 
علماکو اتحاد کے حوالے سے امیر اور نائب امیر گائیڈ کرنے کے پابند ہوں گے تا کہ انتشار اور غیر یقینی صورت حال سے بچا جا سکے 
سالانہ پروگرام والے دن امیر اور نائب امیر سوائے اس کے اور کوئی کام نہیں کریں گے کہ صرف علما کا استقبال اور ان کو گائیڈ کرنے کا کام کریں گے۔۔

 اسٹیج کی ذمہ داری بھی امیر اور نائب امیر کی ہو گی 

اگر امیر صاحب خود ان تمام رولز کی پابندی کرتے ہیں تو پھر ہر کارکن اور ذمہ دار چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو امیر صاحب کے حکم کا پابند ہو گا ۔۔۔

اور نئی تنظیمی پالیسی کے تحت جس کارکن یا ذمہ دار کو جو بھی ذمہ داری دی جائے گی وہ اسے پورا کرنے کا پابند ہو گا 

اگر کبھی آپس میں کوئی چپقلش یا غلط فہمی ہو جاتی ہے تو اسے اوپن پلیٹ فارم یا سوشل میڈیا پر زیر بحث نہیں لایا جائے گا بلکہ پہلے مشاورت گروپ میں اور پھر مل بیٹھ کر اس کو حل کیا جائے گا

منظور شدہ : 
امیر اور نائب امیر تحریک اتحاد نوجوانان اہلسنت دھرابی
مکمل تحریر >>

Thursday, 29 August 2024

الحَمْد اللّٰہ‎ میں کٹر سُنّی حنفی بریلوی ہوں اور مجھے بریلوی ہونے پر فخر ہے

🖊الحَمْد اللّٰہ‎ میں کٹر سُنّی حنفی بریلوی ہوں اور مجھے بریلوی ہونے پر فخر ہے

عشق و محبت عشق و محبت
اعلیٰ حضرت اعلیٰ حضرت

جو اعلیٰ حضرت الشَّاہ اِمام احمد رضا خان بریلوی ؒ کو نہیں مانتے تو سُن لو ہم اُن کو نہیں جانتے

ہم مخلوقِ خُداﷻکے ناطے انسان ہیں"
 ہم دین  کے اعتبار  سے  مسلمان ہیں"
 شریعت کے اعتبار سے مصطفائی ہیں"
 مذہب کے اعتبار سے سُنّی حنفی ہیں" 
 مسلک و مشرب کے اعتبار سے قادری ہیں"
 اور مکتبِ فکر کے لحاظ سے بریلوی ہیں"

*🌸... بریلوی مکتبہ فکر کی تفصیل...🌸*

جنوبی ایشیا میں عقیدے کے لحاظ سے ابتدائی اہل سنت وجماعت سنی مسلمانوں کو جدید دور میں بریلوی کہا جاتا ہے۔ 

*انگریزی وکیپیڈیا کے مطابق ان کی تعداد 200 ملین سے زائد ہے۔*

انگریزی وکیپیڈیا کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق انڈیا ٹائم کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے 

🍀👈 اسی طرح ہیریٹیج فاؤنڈیشن ، ٹائم اور واشنگٹن پوسٹ کے اندازے کے مطابق اسی طرح کی اکثریت پاکستان میں ہے۔

*سیاسیات کے ماہر روہن بیدی کے تخمینہ کے مطابق پاکستان کے مسلمانوں میں سے 60 فیصد بریلوی ہیں۔* 

🌻😐 برطانیہ میں پاکستانی اور کشمیری تارکین وطن (مسلمانوں) کی اکثریت بریلوی ہے، جو دیہات سے آئے ہیں۔ 

*لفظ بریلوی اہل سنت و جماعت کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے لیے ایک اصطلاح (پہچان) ہے۔*

اس کی وجہ 1856ء مطابق 1272 ہجری میں پیدا ہونے والے ایک عالم دین کا علمی کام ہے

*ان کا نام مولانا احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ تھا* 

وہ بھارت (برطانوی ہند) کے شمالی علاقہ جات میں واقع ایک شہر بریلی کے رہنے والے تھے1921ء مطابق 1340 ہجری میں ان کا انتقال ہوا.

بریلی ان کا آبائی شہر تھا۔ انہیں امامِ اہل سنت اور اعلیٰ حضرت کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ 

*🌸👈دنیا بھر کے اکثریتی مسلم علماء کی نظر میں وہ چودھویں صدی کے ابتدائی دور کے مجدد تھے انہیں مجدد دین و ملت کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔*

آج کے دور میں میڈیا اور تعلیمی ادارے مسلمانوں کی بین الاقوامی اکثریت اہل سنت وجماعت کو بریلوی کے عنوان سے جانتے ہیں۔

 یہ وہی جماعت ہے جو پرانے اسلامی عقائد پر سختی سے قائم ہے اور مغربی مستشرقین کے بنائے ہوئے جدید شرپسند اور فتنہ پرور فرقوں کے خلاف برسرِ پیکار رہتی ہے۔ 

*🌸 اہل سنت بریلوی جماعت پرانے دور کے بزرگ صوفیاء اور اولیاء کے طور طریقے اپنائے ہوئے ہے اور جنوبی ایشیا میں صدیوں پہلے سے موجود سنی اکثریت کی نمائندہ ہے*

البتہ پچھلے چند برسوں سے چند جدید فرقوں کے پروپیگنڈے سے اہل سنت و جماعت کو بریلوی جماعت یا بریلوی مسلک کہا جاتا ہے حالانکہ اپنے عقائد اور طرز عمل میں یہ *قدیم اہل سنت و جماعت کی نمائندہ ہے۔* 

🍀 ان کے عقائد قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح (ثابت) ہیں۔ ان کے عقائد کی بنیاد 

🍒 توحید باری تعالیٰ اور 
🍒 حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی نبوت پر کامل ایمان، 
🍒 تمام نبیوں اور رسولوں پر یقین،
🍒 فرشتوں پر،
🍒 عالَم برزخ پر،
🍒 آخرت پر،
🍒 جنت اور دوزخ پر، 
🍒 حیات بعد از موت پر،
🍒 تقدیر من جانب اللہ پراور 
🍒 عالَم امر اور عالَم خلق پر ہے۔

🌻👈 وہ ان تمام ضروریات دین اور بنیادی عقائد پر ایمان رکھتے ہیں جن پر شروع سے اہل اسلام، اہل سنت و جماعت کا اجماع چلا آرہا ہے۔

*فقہی لحاظ سے وہ چاروں اماموں کے ماننے والوں کو اہل سنت وجماعت ہی سمجھتے ہیں۔* 

🔸وہ ائمہ اربعہ امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ، 
🔸امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، 
🔸امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ 
🔸اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ 

*کے باہمی علمی تحقیقی اجتہادی اختلاف کو باعث برکت اور رحمت سمجھتے ہیں*

اور چاروں مذاہب 
🔸حنفی، 
🔸شافعی،
🔸 مالکی،
🔸 حنبلی

کے ماننے والے راسخ العقیدہ لوگوں کو اہل سنت وجماعت سمجھتے ہیں چاہے ان میں سے کوئی اشعری ہو یا ماتریدی مسلک کا قائل ہو۔ 

🌸👈 اس کے ساتھ ساتھ وہ تصوف کے چاروں سلسلوں کے تمام بزرگوں کا احترام کرتے ہیں اور ان کے معتقد ہیں۔ 

🍀👈 صدیوں سے اہل سنت وجماعت لوگ 
*🔅 قادری،*
*🔅 چشتی،*
*🔅 سہروردی،* 
*🔅 نقشبندی،*

سلسلوں سے وابستہ رہے ہیں اور ان سلسلوں میں اپنے پیروں کے ہاتھ پر بیعت کرتے رہے ہیں
 
🌸👈 *اس جماعت کے حق پر ھونے کی اک یہ بھی دلیل ہے کہ تمام اولیاء کرام اسی جماعت اہلسنت سے وابستہ تھے یعنی یہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ،اولیاءاللہ کے طور طریقے پر عمل پیرا ہیں*

اب بیسویں صدی کے اختتام سے منہ زور میڈیا کے بل بوتے پر ان سب سلاسل کو بریلوی مکتبہ فکر کی شاخیں بتایا جا رہا ہے۔ 

شاید مغربی میڈیا اور اس کے پروردہ لوگ پاک و ہند سے باہر دنیائے اسلام کو کوئی غلط تاثر دینا چاہتے ہیں اور اہلسنت والجماعت کے نام پر چھوٹی چھوٹی فرقہ ورانہ دہشت گرد جماعتیں بنا کر فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں 

🍀 افریقہ کے مسلم ممالک بھی اس قسم کی سازشوں کی زد میں ہیں جیسا کہ صومالیہ وغیرہ۔ 

*مسلمان ہمیشہ سے اپنے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے آئے ہیں اور آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے،*

🍒 سن 2012 ء میں جب عالم مغرب خصوصاً امریکی انتظامیہ کی درپردہ حمایت میں ایک گستاخانہ فلم منظر عام پر آئی تو ملک مصر سے شروع ہونے والا احتجاج پوری دنیا میں پھیل گیا خصوصاً مسلم ممالک نے اس کا شدت سے رد کیا۔

*پاکستان چالیس سے زائد اہل سنت وجماعت بریلوی تحریکوں کے ایک اتحاد نے ایک ہی وقت میں فلم کے خلاف احتجاج کیا اور اس فلم کی شدید مذمت کی۔* 

🌸👈اسی جذبہ حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت اہل سنت بریلوی کثرت سے درود پاک پڑھتے ہیں. ان کی ایک پہچان یہ ھے کہ وہ یہ سلام کثرت سے پڑھتے ہیں.. 

*🌻اَلصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَیْكَ یَارَسُوْلَ اللّٰهﷺ🌻*

 اپنے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ کسی قسم کے نازیبا الفاظ سننے یا کہنے کے قائل نہیں ہیں اس معاملے میں وہ انتہائی حساس پائے گئے ہیں.

🌸 ان کے عقیدہ کے مطابق اللہ عزوجل نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے اپنے نور سے پیدا فرمایا اس کے لیے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک مستند حدیث کا علمی حوالہ بھی دیتے ہیں۔

*🍒 وہ اپنے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر لحاظ سے آخری نبی اور آخری رسول مانتے ہیں* 

🍀 وہ عیسیٰ علیہ السلام کے ایک امتی کے طور پر لوٹ آنے پر ایمان رکھتے ہیں۔

🌻 ان کے نزدیک انبیاء کرام علیھم السلام کی ارواح ظاہری موت کے بعد پہلے سے برتر مقام پر ہیں اور وہ ان کوعام لوگوں سے افضل مانتے ہوئے زندہ سمجھتے ہیں 

*🌸 ان کے نزدیک ان مقدس ہستیوں کو اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم عطا فرمایا ہوا ہے اور وہ نزدیک و دور سے دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں*

📌اہل سنت وجماعت بریلوی کے نزدیک اللہ عزوجل نے انبیاء کرام علیھم السلام کو بہت سے اختیارات دے رکھے ہیں جیسے عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کر دینا وغیرہ۔

*🌸 اہل سنت وجماعت بریلوی اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی سالگرہ بارہ ربیع الاول کے دن کو عید میلاد النبی کے عوامی جشن کے طور پر مناتے ہیں۔*

وہ اللہ کے نیک بندوں کی تعظیم کرتے ہیں اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں ان کے لیے ایصال ثواب کرنے کو

🍒 ان کے نزدیک اللہ عزو جل جسے اپنا محبوب بنالے اسے دین اسلام کا خادم بنا دیتا ہے۔ وہ لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اللہ کے لیے قربانی کرتے ہیں اللہ کے لیے جیتے ہیں اور اللہ کے لیے ہی مرتے ہیں ایسے لوگ جب یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے تو پھر اس پر قائم بھی رہتے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے فرشتے اترتے ہیں ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی ڈر ہے اور نہ آخرت میں وہ غمگین ہوں گے۔

اور

ان کے لیے اللہ کے ہاں ایک بہترین مقام جنت ہے جس کا ان کے لیے وعدہ ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ عز وجل ان کا دوست ہے۔ اور ان کے لیے آخرت میں جو مانگیں اس کا ان کے رب کی طرف سے وعدہ ہے۔

*🍒چونکہ وہ اللہ کے دوست اور اللہ ان کا دوست ہے لہذا ان کے نیک کاموں کا صلہ انہیں ظاہری زندگی ختم ہو جانے کے بعد ملتا ہے۔ کیونکہ اللہ نے ان کے ساتھ اپنی دوستی کا وعدہ دونوں جہانوں میں فرمایا ہے۔ انہیں انبیاء کرام علیھم السلام، صدیقین، شہیدوں اور صالحین کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا اور یہ اللہ کا فضل ہی تو ہے کہ نیک لوگ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب اور کامران ہیں۔*

 جب ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے انعامات اس قدر ہیں تو وہ بخشش و مغفرت کے بھی ضرور حق دار ہیں۔ 

🌻 اہل سنت وجماعت ان بزرگوں سے دعا کرانے کے قائل ہیں اور ظاہری زندگی ختم ہو جانے کے بعد ان کی عظمت کے قائل ہیں اور ان کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے مانگنے کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک اگر اللہ چاہے تو یہ مقدس ہستیاں مدد بھی فرما سکتی ہیں

*🌸 ان کے نزدیک اپنے آقا کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے اصحاب، اہل بیت کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور نیک مسلمانوں کےمزارات پر حاضری دینا کتاب و سنت کی تعلیمات کےعین مطابق ہے۔ لیکن وہ ان میں سے کسی بھی مزار، دربار یا قبر کی عبادت کفرسمجھتے ہیں اور ان کو تعظیمی سجدہ کرنا حرام جانتے ہیں۔* 

🌻👈 اہل سنت بریلوی جماعت کے نزدیک مرد حضرات کا ایک مٹھی تک داڑھی رکھنا ضروری ہے اس کا تارک گنہگار ہے۔

❣ امام اہل سنت مولانا احمد رضا خان قادری محدث بریلوی علیہ الرحمۃ الرحمان نے 1904 میں جامعہ منظر اسلام بریلی شریف قائم کیاان کے علمی کام کا پاکستان میں بہت چرچا ہے۔ 

🍀 ان کی تحریک پاکستان کے قیام عمل میں آنے سے قبل کام کررہی تھی بنیادی طور پر یہ تحریک جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے دفاع کے لئے قائم کی گئی تھی عقائد کے دفاع کے لئےاہل سنت بریلوی جماعت نے مختلف باطل مکاتب فکر اور تحریکوں کا تعاقب کیا اور ان کے ڈھول کا پول کھول دیا۔ 

🌸 دیگر تحریکوں کے برعکس خطے میں سب سے زیادہ اہل سنت بریلوی جماعت نے موہن داس کرم چند گاندھی کا ساتھ نہ دیا اور اس ہندو لیڈر کی سربراہی میں
*🍒 تحریک خلافت،*
*🍒 تحریک ترک موالات*
 اور
*🍒 تحریک ہجرت* 

کا مقاطعہ (بائیکاٹ) کیا وہ تمام ہر قسم کے کافر و مشرک کو مسلمانوں کا دشمن سمجھتے رہے۔ 

🌻👈 اہل سنت بریلوی جماعت تحریک پاکستان کے بنیادی حامی تھے اس کے قیام کے لیے انہوں نے بہت جدوجہد کی۔

منبعِ فیضانِ سنت،شارح اُمُّ الکتاب
نازش اسلاف و آبائے عظام احمد رضا

ہے لقب الشّاہ واعلیٰ حضرت وبحر العلوم
ہے رضا ان کا تخلص،اور نام،احمد رضا

دوستوں کے باب میں اک پیکر لطف وکرم
دشمنوں کے حق میں تیغ بے نیام احمد رضا

طے کیا آخر یہ ارباب نظر نے اے نصیر
ترجمان اہل سنت ہیں ، امام احمد رضا


 ⭕👈 اللّٰه پاک بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے عاشقان مصطفیٰﷺ کو دنیا و آخرت میں سرکار مدینہﷺ کا قرب نصیب فرمائے آمین ثم آمین... 


🖊@محمد گلفام مصطفائی
مکمل تحریر >>

Saturday, 22 June 2024

نبی علیہ السلام کی زائد شادیوں کی حکمت

: ایک پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ کافی عرصہ کی بات ہے کہ جب میں لیاقت میڈیکل کا لج جامشورو میں سروس کررہا تھا 

تو وہاں لڑکوں نے سیرت النبی ﷺ کانفرس منعقد کرائی اورتمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا ۔ 
چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت الله جوکھیو ( جو ہڈی جوڑ کے ماہر تھے) کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس نشست میں اسلامیات کے ایک لیکچرار نے حضور اقدس صلی الله تعالى علیه وسلم  کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شادی کیوں کی اور اس سے امت کو کیا فائدہ ھوا۔ 
 یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سراہا ۔ کانفرس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کار آرہے تھے تو ڈاکٹر عنایت الله جوکھیو نے عجیب بات کی...
  اس نے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔ آج رات میں دوبارہ مسلمان ھوا ھوں 
میں نے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آٹھ سال قبل جب وہ FRCS کے لیے انگلستان گئے تو کراچی سے انگلستان کا سفر کافی لمبا تھا  ہوائی جہاز میں ایک ائیر ہوسٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔
ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد اس عورت نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟  
میں نے بتایا اسلام ۔ ہمارے نبی ﷺ کا نام پوچھا میں نے حضرت محمد ﷺ بتایا ، پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے نبی ﷺ نے گیارہ شادیاں کی تھیں؟ 
میں نے لاعلمی ظاہر کی تو اس لڑکی نے کہا یہ بات حق اور سچ ہے ۔ اس کے بعد اس لڑکی نے حضور ﷺ کے بارے میں (معاذالله ) نفسانی خواہشات کے غلبے کے علاوہ  دو تین دیگر الزامات لگائے، جس کے سننے کے بعد میرے دل میں (نعوذ بالله) حضور  ﷺکے بارے میں نفرت پیدا ہوگئی اور جب میں لندن کے ہوائی اڈے  پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا۔
 آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا، حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی۔ اتوار کو میں گرجوں میں جاتا اور وہاں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے۔
 جب میں آٹھ سال بعد واپس پاکستان آیا تو ہڈی جوڑ کا ماہر بن کر لیاقت میڈیکل کالج میں کام شروع کیا ۔ یہاں بھی میری وہی عادت رہی ۔ آج رات اس لیکچرار کا بیان سن کر میرا دل صاف ہو گیا اور میں نے پھر سے کلمہ پڑھا ہے۔ 
غور کیجئے ایک عورت کے چند کلمات نے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر آج ڈاکٹر عنایت الله کا یہ بیان نہ سنتا تو پتہ نہیں میرا کیا بنتا؟ 
اس کی وجہ ہم مسلمانوں کی کم علمی ہے۔ ہم حضور  ﷺ کی زندگی کے متعلق نہ پڑھتے ہیں اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ 
کئی میٹنگز میں جب کوئی ایسی بات کرتا ہے تو مسلمان کوئی جواب نہیں دیتے، ٹال دیتے ہیں۔ جس سے اعتراض کرنے والوں کےحوصلے بلند ہوجاتے ہیں ۔ 
اس لئیے بہت اہم ہے کہ ہم اس موضوع کا مطالعہ کریں اور موقع پر حقیقت لوگوں کو بتائیں ۔ 
میں ایک دفعہ بہاولپور سے ملتان بذریعہ بس سفر کر رہا تھا کہ ایک آدمی لوگوں کو حضور ﷺ کی شادیوں کے بارے میں گمراہ کر رہا تھا۔ میں نے اس سے بات شروع کی تو وہ چپ ہوگیا اور باقی لوگ بھی ادھر ادھر ہوگئے۔
لوگوں نے حضور صلی الله تعالى علیه وسلم کی عزت و ناموس کی خاطر جانیں قربان کی ہیں۔ کیا ہما رے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم اس موضوع کے چیدہ چیدہ نکات کو یاد کر لیں اور موقع پر لوگوں کو بتائیں ۔
 اس بات کا احساس مجھے ایک دوست ڈاکٹر نے دلایا جو انگلستان میں ہوتے ہیں اور یہاں ایک قافلے کے ساتھ آئے تھے ۔ انگلستان میں ڈاکٹر صاحب کے کافی دوست دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے ، وہ ان کو اس موضوع پر صحیح معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں ۔
 انہوں نے چیدہ چیدہ نکات بتائے، جو میں پیش خدمت کررہا ہوں۔  اتوار کے دن ڈاکٹر صاحب اپنے دوستو ں کے ذریعے ”گرجا گھر“ چلے جاتے ہیں ، وہاں اپنا تعارف اور نبی کریم  ﷺکا تعارف کراتے ہیں ۔ عیسائی لوگ خاص کر مستورات آپ کی شادیوں پر اعتراض کرتی ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب جو جوابات دیتے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
◀️ (1) میرے پیارے نبی ﷺ نے عالم شباب میں (25 سال کی عمر میں) ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجه رضی الله تعالى عنها سے شادی کی۔ حضرت خدیجه رضی الله تعالى عنها کی عمر 40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی الله تعالى عنها زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔
  50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کیا ۔ (اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا ) حضرت خدیجہ رضی الله تعالى عنها کی وفات کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپ ﷺنے نکا ح کئے ۔

پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال پوچھا کہ یہاں بہت سے نوجوان بیٹھے ہیں ...... آپ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شادی کرے گا....؟
 سب خاموش رھے ۔  ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے یہ کیا ہے ، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیارہ شادیاں آپ ﷺنے کی ہیں سوائے ایک کے، باقی سب بیوگان تھیں ۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے ۔ 
پھر مجمع کو بتایا کہ جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی الله تعالى عنهم شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے  بےآسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔
 اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم  ﷺ نے اپنے صحابہ رضی الله تعالى عنهم کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لوگوں کو ترغیب دینے کے لئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔
 ◀️ (2) حضرت سودہ رضی اللہ عنہا 
 ◀️ (3) حضرت ام سلمه رضی الله تعالى عنها اور
  ◀️ (4)حضرت زینب بنت خزیمه رضی الله تعالى عنها سے مختلف اوقات میں نکاح کئے ۔ آپ کو دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی الله تعالى عنهم نے بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا خواتین کے گھر آباد ہوگئے - 
 ◀️ (5) عربوں میں کثرت ازواج کا رواج تھا۔ دوسرے شادی کے ذریعے قبائل کو قریب لانا اور اسلام کے فروغ کا مقصد آپ ﷺ کے  پیش نظر تھا۔  
  ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عربوں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔ 
 ابوسفیان رضی الله تعالى عنه اسلام لانے سے پہلے حضور ﷺکے شدید ترین مخالف تھے ۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی الله تعالى عنها سے حضور  ﷺ کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔ ہوا یہ کہ ام حبیبہ رضی الله تعالى عنها شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کر گئیں ، وہاں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا ۔
 حضرت ام حبیبہ رضی الله تعالى عنها نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور بہت مشکلات سے گھر پہنچیں ۔ حضور ﷺ  نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا.
◀️  (6) حضرت جویریہ رضی الله تعالى عنها کا والد قبیلہ مصطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور ﷺ نے اس قبیلہ سے جہاد کیا ، ان کا سردار مارا گیا ۔ 
حضرت جویریہ رضی الله تعالى عنها قید ہوکر ایک صحابی رضی الله تعالى عنه کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی الله تعالى عنهم نے مشورہ کر کے سر دار کی بیٹی کا نکاح حضور ﷺ سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے ۔
◀️ (7) خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی الله تعالى عنها قید ہو کر ایک صحابی رضی الله تعالى عنه کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی الله تعالى عنهم نے مشورے سے ا ن کا نکاح حضور اکرم  ﷺ سے کرا دیا ۔ 
◀️ (8)  اسی طر ح میمونہ رضی الله تعالى عنها سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا ۔ ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور ﷺکے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مشاہدہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔
 ◀️ (9) حضرت ماریہ رضی الله تعالى عنها سے نکاح بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔ آپ پہلے مسیحی تھیں اور ان کا تعلق ایک شاہی خاندان سے تھا۔ ان کو بازنطینی بادشاہ شاہ مقوقس نے بطور ہدیہ کے آپ ﷺکی خدمت اقدس میں بھیجا تھا۔
◀️ (10) حضرت زینب بنت جحش رضی الله تعالى عنها سے نکاح متبنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا ۔ حضرت زید رضی الله عنه حضور ﷺ کے متبنی(منہ بولے بیٹے) کہلائے تھے، ان کا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی الله تعالى عنها سے ہوا ۔ مناسبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی الله تعالى عنه نے انہیں طلاق دے دی تو حضور ﷺنے نکاح کر لیا اور ثابت کردیا کہ متبنی ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا.
 ◀️ (11)  اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سرچشمہ قرآنِ پاک اور حضور اقدس ﷺ کی سیرت پاک ہے۔ 
آپ  ﷺکی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی الله تعالى عنهم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ عورتوں میں اس کام کے لئے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔ 
ایک صحابیہ سے کام کرنا مشکل تھا ۔ اس کام کی تکمیل کے لئیے آپ ﷺ نے کئی نکاح کیے ۔ آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی الله تعالى عنهن کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں ۔ حضرت عائشه رضی الله تعالى عنها جو بہت ذہین، زیرک اور فہیم تھیں، حضور ﷺ نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی ۔
 حضور اقدس ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشه رضی الله تعالى عنها 48 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی الله تعالى عنها سے مروی ہیں ۔
 صحابہ کرام رضی الله تعالى علیهم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی الله تعالى عنها کو اس کا علم ہوتا ۔

اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی الله تعالى عنها کی روایات کی تعداد 368 ہے ۔ 
ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازواجِ مطہرات رضی الله تعالى عنہن کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لئیے تھیں اور سار ی دنیا کے لیے  تھیں اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جاسکتا۔ 
آخر میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مذکورہ بالا بیان میں گرجوں میں لوگوں کو سناتا  ہوں اور وہ سنتے ہیں ۔ باقی ہدایت دینا تو الله تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔
  پڑھے لکھے مسلمان ان نکات کو یاد کرلیں
مکمل تحریر >>

Monday, 23 October 2023

غازی یوسف قادری کون ہیں ؟ اصغرکذاب کیس کیا ہے ؟

غازی یوسف قادری کون ہیں ؟
اصغرکذاب کیس کیا ہے ؟
از محمد عثمان صدیقی
23 جنوری 2014ء کو ایڈیشنل سیشن جج راولپنڈی جناب محمد نوید اقبال نے برطانوی نژاد جھوٹے مدعی نبوت اور گستاخ رسول اصغر کذاب کو توہین رسالت کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور دس لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی یہ کیس کیا تھا آئیں ھم آپکو بتاتے ھیں
۔اصغر کذاب برطانیہ کے شہر ایڈن برگ اسکارٹ لینڈ
Edinburgh Scotland
کا رہائشی ہے۔ چند سال پہلے اُس نے راولپنڈی میں رہائش اختیار کی۔ تفصیلات کے مطابق ستمبر 2010
میں راول پنڈی کے پوش ایریا گلزار قائد سے ملحق ایئر پورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہائشی برطانوی نژاد اصغر کذاب نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کی جسارت یہاں تک بڑھی کہ وہ خود کو ”محمد رسول اللہ“ کہتا ۔(نعوذ باللہ) اس سلسلہ میں اُس نے باقاعدہ اپنے ویزیٹنگ کارڈ اور لیٹر پیڈ چھپوا رکھے تھے۔
22 ستمبر 2010ء کو تھانہ صادق آباد پولیس نے ملزم کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-C اور ایف آئی آر نمبر 842/10 کے تحت باقاعدہ مقدمہ درج کر کے اُسے صادق آباد سے گرفتار کر لیا۔(گرفتاری میں الحمدللہ راقم کا بھی کردارتھا مکمل واقعہ تحریر میں آگے پڑھئے)
دوران تفتیش ملزم نے اعتراف کیا کہ وہ اللہ کا رسول (نعوذ باللہ) ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ راولپنڈی اور اُس کے مضافات میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے جتنے بھی سائن بورڈ لگے ہوئے ہیں، وہ سب اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بنے اور لگے ہیں۔ پولیس نے ملزم کے اس اعترافی بیان کی باقاعدہ ایک ویڈیو بنوائی، تا کہ وہ عدالت میں اپنے اس بیان سے منحرف نہ ہو سکے۔ پولیس نے مقدمہ کا چالان مکمل کر کے ملزم کو اڈیالہ جیل بھجوا دیا۔ ملزم کی طرف سے ابتدا میں کئی وکلاء پیش ہوئے، جن میں پی پی کے سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ کی بیٹی بیرسٹر سارہ بلال پیش پیش تھی۔ سارہ بلال نے کیس کی سماعت کے دوران کئی مرتبہ جج صاحب جناب جناب نوید اقبال سے نہایت بدتمیزی والا رویہ اختیار کیا، جس پر انہوں نے بے حد روا داری اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔ مقدمہ کو 3سال تک غیر ضروری طوالت دینے، جج صاحب کو نفسیاتی طور پر مرعوب کرنے، اسلام دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر کام کرنے والی ڈالرائزڈ این جی اوز کے بے بنیاد واویلا کرنے اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے مقدمہ پر اثر انداز ہونے کے کئی منفی ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ عدالت میں ملزم کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ وہ پاگل پن کی بیماریParanoid Schizophrenia کا مریض ہے۔ اس پر محترم جج صاحب نے ملزم کے دماغی معائنہ کے لیے ایک بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا،جس پر ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل ایک بورڈ نے ملزم کا مکمل طبی معائنہ اور ٹیسٹ وغیرہ کیے۔ میڈیکل بورڈ نے ملزم کی ذہنی حالت بالکل تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اُسے ایک صحت مند نارمل شخص قرار دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد کے پوش ایریاز میں ملزم نے کروڑوں روپے کی مہنگی ترین چھے کوٹھیاں خریدی ہیں، جن کی رجسٹریاں باقاعدہ اُس کے نام ہیں۔ یہاں تو اُس کی نام نہاد بیماری نے کوئی غلطی نہیں کی۔
ملزم کی روز مرہ کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس سے اُس کا پاگل پن ثابت ہو۔ لیکن جب شان رسالت میں توہین کا مقدمہ درج ہوتا ہے تو ایسے ملزم کو پاگل پن کی بیماری کا شکار قرار دے کر اُسے بچانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ایک موقع پر جب عدالت نے ملزم کے اعتراف جرم کی ویڈیو طلب کی تو پتا چلا کہ متنازع ویڈیو ریکارڈ سے غائب ہے۔ کافی تگ و دو کے بعد اس متنازع ویڈیو کا سراغ ملا اور ”اوپر“ سے حکم آیا کہ یہ ویڈیو عدالت کے علاوہ کہیں استعمال نہ ہو گی، کیوں کہ اس سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
اس کیس کی سب سے بڑی خوبی اس کی غیر جانب دارانہ اور شفاف ترین تفتیش ہے جو انتہائی ایمان دارانہ شہرت کے حامل پولیس آفیسر جناب زراعت کیانی ایس پی نے کی۔ قانون توہین رسالت کے مخالفین کا مطالبہ تھا کہ اس قانون کے تحت درج کیے گئے مقدمہ کی تفتیش ایس ایچ او وغیرہ نہ کرے، بلکہ ایس پی کے عہدہ کا حامل آفیسر اس کی تفتیش کرے۔ مشرف دور میں یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا اور اب اس قانون کے تحت درج کیے گئے ہر مقدمہ کی تفتیش ایس پی کے عہدہ کے برابر پولیس آفیسر کرتا ہے۔ چناں چہ اس کیس کی تفتیش بھی ایک ایس پی نے کی اور اپنی تفتیش میں انہوں نے ملزم اصغر کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دیا۔ اس سب کے بعد پروپیگنڈا کیا جا تارھا کہ مقدمہ ھی غلط درج ہوا۔
22 جنوری 2014ء کو ملزم نے عدالت کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے جج صاحب جناب نوید اقبال سے درخواست کی کہ اُسے اعتراف جرم کرنے پر کم سے کم سزا سنائی جائے۔ جج صاحب نے ملزم سے دریافت کیا کہ کیا آپ یہ بات ہوش و حواس میں کہہ رہے ہیں؟ ملزم نے کہا جی سر! میں یہ سب سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔ اس پر جج صاحب نے ملزم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا یہ اعترافی بیان کاغذ پر تحریر کر دے۔ اس پر ملزم اصغر کذاب نے عدالت کے روبرو اپنے رسول ہونے کا اعترافی بیان کاغذ پر تحریر کر کے اُس پر اپنے دستخط بھی ثبت کر دئیے۔ جج صاحب نے ملزم کے وکیل کو گواہ بناتے ہوئے اُس کے دستخط بھی اس بیان پر کروا لیے۔ بعد ازاں جج صاحب نے رائٹنگ ایکسپرٹ سے ان کے دستخط کے اصل ہونے کا سرٹیفکیٹ لیا۔ چناں چہ 23 جنوری 2014ء کو جج صاحب نے فریقین کے وکلاء کی بحث مکمل ہونے اور دیگر قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد شام 4 بجے اڈیالہ جیل میں ملزم کو *سزائے موت* دینے کا حکم سنایا۔ اس کے چند دن بعد ملزم کے وکلاء نے اس کی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔
مسلمانوں کی طرف سے اس اہم اور نازک کیس کی پیروی ماہر قانون، مجاہد ختم نبوت پاکستان سنی تحریک کی جانب سے نامزد کردہ معروف سنی وکیل جناب راجہ شجاع الرحمن نے کی۔(آپ بیرون ملک سے لا کی تعلیم مکمل کر کے راولپنڈی میں وکالت کر رھے ھیں ناموس رسالت یا دین و مسلک سے متعلق کیسز کی بڑی محبت، غیرت ایمانی و  بڑی جانفشانی سے پیروی کرتے ھیں آپ غازی ممتاز قادری شہید کے وکیل بھی رھے ھیں) انہوں نے اس اصغرکذاب کیس میں بھی مضبوط دلائل دئیے،
ایڈیشنل سیشن جج جناب محمد نوید اقبال نہایت مبارک باد کے مستحق ہیں، جنہوں نے بے پناہ دباؤ، سفارشوں، دھمکیوں، وکلائے صفائی کے غیر اخلاقی رویوں کے باوجود انصاف اور میرٹ کا بول بالا کرتے ہوئے مبنی بر انصاف، اصغر کذاب کے لیے سزاۓ موت کا تاریخی فیصلہ صادر فرمایا۔ بین الاقوامی میڈیا کے علاوہ عیسائی اور قادیانی لابی اس فیصلے کے خلاف نہ صرف اپنے غم وغصہ کا اظہارکرتے رھے ھیں، بلکہ محترم جج محمد نوید اقبال صاحب کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال بھی کیا جاتا رھا
مقدمہ کی سماعت کے دوران ملزم اور اس کے سرپرستوں کی طرف سے کیس پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ ہر پیشی پر برطانوی ہائی کمیشن کی طرف سے ماڈریٹ اور بااثر خواتین کی ایک کثیر تعداد عدالت میں موجود ہوتی اور مقدمہ کی سماعت میں بلا وجہ رکاوٹ ڈالتی۔ یہاں تک کہ 23نومبر 2012ء کو برطانوی ہائی کمیشن نے کیس میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے ملزم کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے ایک معزز جج کو خط لکھا، جسے فاضل جج نے کیس کا حصہ بناتے ہوئے سیشن جج کو کوئی دباؤ قبول کیے بغیر سماعت جاری رکھنے کا حکم دیا۔دریں اثنا حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اصغر کذاب کو ضمیر کا قیدی قرار دے کر حکومت پاکستان سے اس کی غیر مشروط فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اصغر کذاب کو حقوقِ انسانی کے تحت آزادی اظہار رائے کا حق ہے اور اس پر کوئی جرم نہیں بنتا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ آئندہ ایسے واقعات پر کسی ملزم کے خلاف نہ پرچہ درج ہو اور نہ کسی کو سزا دی جائے۔
برطانوی دفتر خارجہ کی سینئر وزیر بارونس سعیدہ وارثی نے کہا کہ ہم اصغر کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے ۔
ایڈن برگ سے رکن پارلیمنٹ شیلا گلمور نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کو یقین دہانی کروائیں کہ سزائے موت کے مرتکب برطانوی شہری اصغر کو برطانیہ واپس لایا جائے گا۔ جس کے جواب میں کیمرون نے پارلیمنٹ کو یقین دلایا کہ وہ اصغر کو ہر حال میں واپس لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نژاد برطانوی شہری کو توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت سنائے جانے پر وہ شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈیوڈ کیمرون نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حکومت پاکستان کو اپنے خیالات سے آگاہ کر دیا ہے کہ وہ برطانوی شہری اصغر کو سزاۓ موت سناۓ جانےپر مضطرب ھیں اُمید ہے حکومت پاکستان ہمارے شہری کو رہا کر دے گی۔ اصغر کذاب کو بچانے کے لیے قادیانی اور عیسائی لابی بے حد متحرک رھی
مغرب میں ملزم کی رہائی کے لیے ایک دستخطی مہم چلائی گئی، جس پر ہزاروں افراد نے دستخط کیے۔ یہ یادداشت اس وقت کے امریکی صدر اوباما سمیت دنیا بھر کے بااثر افراد کو بجھوائی گئی برطانوی قونصلیٹ کی سفارش پر ملزم اصغر کذاب کو جیل میں خصوصی پروٹوکول دیا جاتا رہا ہے۔ اسے موبائل فون، ٹی وی، اخبارات، انٹرنیٹ سمیت ہوٹل سے کھانا منگوانے کی مکمل سہولیات حاصل ہیں۔ ان واقعات پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔اب آتے ھیں اصغر کذاب کی گرفتاری کی تفصیل اور غازی یوسف قادری کے اس معاملے میں کردار پر۔
اصغر کذاب نے ھمارے علاقے صادق آباد راولپنڈی میں غازی ممتاز قادری شہید کی رھائیش گاہ سے قریب ھی ایک پراپرٹی ڈیلر ملک حفیظ اعوان (یہی کیس کے پہلے مدعی ھیں) کے دفتر میں اپنا وزٹنگ کارڈ دیا جس میں اپنے نام کے ساتھ درود (ﷺ) درج تھا یہ بدبخت وزٹنگ کارڈ دے کر آگے نکل گیاپراپرٹی ڈیلر نے اس وقت تو دھیان نہ دیا مگرکچھ ھی دیر بعد جب کارڈ دیکھا تو ارد اردگرد کے تاجروں کو فوری آگاہ کیا اس وقت اصغر کذاب بدبخت تھوڑا ھی آگے پہنچا تھا اس کے پیچھے اسے مارکیٹ کے لوگ پکڑنے کو دوڑے یہ ایک دکان میں داخل ھوا میں راقم (محمد عثمان صدیقی) بھی اُس وقت اسی مارکیٹ سے کچھ فاصلے پر دوست حافظ عمیر مغل کی موبائل شاپ پر موجود تھا جوں ھی مجھے پتہ چلا میں کچھ دوستوں کو لے کر  موقع پر پہنچ گیا علاقے کے نوجوانان و تاجر حضرات مل کر لبیک یا رسول اللہ ختم نبوت زندہ باد کے نعرے بلند کررھے تھے اصغر کذاب کو اسی دکان کہ جس میں وہ داخل ھوا تھا ھم نے شٹر گرا کے اندر بند کر دیا تمام بازار میں تشویش پھیل گئی انتہائی تحمل کامظاہرہ کرتےہوئے قریب ھی پولیس سٹیشن رابطہ کرکے اس بدبخت ملعون کی گرفتاری کروا دی (لبرلز ومنہاجیے بتائیں کہ ھم نے قانون پر عمل کیا کہ نہیں ؟)
قارئین آپ کو بتایا گیا کہ اس بدبخت کا تعارف کیا تھا اور اس کے تحفظ کے لیے بیرونی و لادینی طاقتیں کیا کیا ھتھکنڈے استعمال کرتیں رھیں اس سب کو دیکھتے ھوۓ عشاقان رسول میں اضطراب ایک فطری امر تھا یہی سب وجہ بنی غازی یوسف قادری کے جرآت مندانہ عمل کی، جوانہوں نے بڑی زبردست پلاننگ کے ساتھ اڈیالہ جیل میں کیا۔
اڈیالہ جیل میں اسیر اصغر کذاب کی وجہ سے جیل میں بھی اکثر اشتعال پایا جاتا تھا کئی بار اسے غیور مسلمان قیدیوں سے مار بھی پڑی۔
اب پڑھئے غازی یوسف قادری عطاری صاحب کے حوالے سے معلومات:
غازی یوسف قادری مدظلہ چنیوٹ سے تعلق رکھتے ھیں ”عطاری“ ہیں گھر کے اکیلے کمانے والے فرد ھیں یہ پنجاب پولیس میں بھرتی ھوۓ تو اڈیالہ جیل میں تعینات کیے گئے دوران ڈیوٹی اڈیالہ جیل کی مسجد میں امامت فرماتےاور باقاعدگی سے درس بھی دیتے رھے غازی ممتاز قادری شہید سے بے پناہ محبت فرماتے اکثر غازی ممتاز قادری شہید کے بیرک میں آتے جاتے رھتے۔
انہی دنوں یہ اصغر کذاب بھی اڈیالہ جیل قید تھا ایک دن غازی یوسف قادری باوردی ڈیوٹی پراڈیالہ جیل آتے ھوۓ اپنی جرابوں میں چھوٹی خودکار پسٹل چھپا کر لے آۓ اور اصغر کذاب کے بیرک پہنچ گئے  اس بدبخت کو سامنے بلایا للکار کر اس پر فائر کھول دئیے مگر شومئی قسمت کہ اس کے چند گولیاں لگیں مزید فائر جاری تھے کہ وہ زخمی حالت میں بیرک کے پیچھے باتھ روم والی سائڈ پر بھاگ کھڑا ھوا اس کا بازو اور پیٹ کافی متاثر ھوا غازی یوسف قادری اس کو زندہ چھوڑنے پر ھرگز تیار نہ تھے مگر اس اچانک کاروائی پر جیل عملہ الرٹ ھو گیا اور غازی یوسف قادری کو قابو کر کے گرفتار کر لیا گیا۔
غازی یوسف قادری کو بھی بیرونی دباؤ کی بدولت دوران اسیری بہت مشکل اٹھانی پڑی مگر استقامت کا منارہ بنے رھے۔ دوران اسیری بھی انکا غازی ممتاز قادری شہید سے بڑا رابطہ رھا غازی ممتاز قادری شہید ان سے بڑی محبت فرماتے جب غازی صاحب کو پھانسی کے لیے لے جایا جا رھا تھا اسی راستے میں غازی یوسف قادری کا بیرک بھی تھا پھانسی کےوقت گزرتے ہوئے غازی یوسف قادری صاحب کے بیرک کو بڑی محبت سے دیکھتے رھے۔یہ عشاقِ صادقین اجازت نہ ملنے کے سبب اس وقت مل نہ سکے
غازی یوسف قادری کیس کی پیروی بڑے احسن انداز میں کی گئی غازی ممتاز قادری شہید کے اھل خانہ بالخصوص غازی صاحب کے بھائی عابد قادری عطاری اور ھمارے دوست جناب زبیر ھارونی بھائی کا بہت کردار ھے۔
الحمدللہ غازی یوسف قادری کی رھائی نومبر سال2017 میں ممکن ہوئی۔یوسف بھائی کی رہائی کی اھم وجہ مضروب اصغر کذاب کی جانب سے کیس کی عدم پیروی ھے۔ کیس میں اسکے وکیل نے پیش ھونا ھی چھوڑ دیا تھا۔ایسا کیوں ھوا اسکی بہت سی وجوھات ھیں مگر ھمارے غازی یوسف قادری تو رھا ھوئے یہ اللہ کا کرم ھے کہ ایسا ممکن ھوا وگرنہ ایسا نظر نہیں آرھا تھا۔الحمدللہ یوسف قادری بھائی رہا ہیں اور آزاد زندگی گزار رہے ہیں۔
اللہ یوسف قادری بھائی کو صحت عافیت والی زندگی عطا فرماۓ۔
از محمد عثمان صدیقی
میڈیا ریسرچ اینالسٹ
مکمل تحریر >>

Sunday, 22 October 2023

ن لیگ کا قائد نواز شریف کون؟

ن لیگ کا قائد نواز شریف کون؟

قرض اتارو ملک سنوارو مہم کے نام پر قوم سے فنڈ اکٹھا کر کے کھا جانے والا

اپنی داشتہ ہندوستانی خاتون دلشاد بیگم کے کہنے پر کشمیر میں فوجی آپریشن رکوانے والا

کارگل کا سودا کرنے والا

غازی ممتاز قادری کا قاتل

ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کرنے والا
فیض آباد میں آٹھ مسلمانوں کو شہید کروانے والا

قادیانیوں کو بہن بھائی کہنے والا

ہندوستان کے ہندوؤں اور پاکستان کے مسلمانوں کو ایک ہی قوم کہہ کر دو قومی نظریے کا مذاق اڑانے والا

ایمل کانسی کو بیچنے والا

اپنی نواسی کی شادی پر مودی کو بلانے والا

پیر مہر علی شاہ رحمتہ اللّٰہ علیہ کی کتاب سیف چشتیائی پر پابندی لگوانے والا

غوثِ اعظم رحمتہ اللّٰہ علیہ کی کتاب غنیہ الطالبین پر پابندی لگوانے والا

توہینِ رسالت کے مجرم اصغر کذاب کو اگست 2017 میں لاہور پاگل خانے سے خصوصی طیارے کے ذریعے لندن فرار کروانے والا

علامہ اقبال کی چھٹی ختم کرنے والا
مساجد کے تین اطراف کے سپیکر اتروانے والا

میچ کے لئے مساجد کو تالے لگوانے والا (جس کے نتیجے میں جمعہ کی نماز بھی ادا نہ ہو سکی)

بھارتی جاسوسوں کو اپنی فیکٹری میں پناہ دینے والا

بمبئی حملوں کا الزام
مکمل تحریر >>