جنگ آزادی کے نام نہاد ہیرو سر سیّد احمد خان کے عقائد و نظریات
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز کو چنگ سینٹرز نیز عوام و خواص کے ذہن میں جنگ آزادی کے اعتبار سے ایک نام نمایاں طور پر سامنے لایا جاتا ہے اور وہ ’’سر سیداحمد خان‘‘ کا ہے مگر تصویر کا ایک رخ ہی فقط لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے اور اس کے عقائد فاسدہ جو اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں وہ لوگوں کو نہیں بتائے جاتے۔ آئیے اس کے عقائد کو جانتےہیں۔ ہم نے بلا تبصرہ ان کی کتابوں سے نقل کر دیئے ہیں۔ کتابیں مارکیٹ میں عام ہیں جس کا جی چاہے خریدے اور اصل کتاب سے مذکورہ حوالہ جات کو ملائے۔
اللہ عز و جل کے بارے میں عقائد
اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ اس کا پسندیدہ دین اسلام ہے مگر احمد خاں اس پر راضی نہیں وہ کہتا ہے ،جو ہمارے خدا کا مذہب ہے، وہی ہمارا مذہب ہے، خدا نہ ہندو ہے نہ عرفی مسلمان، نہ مقلدنہ لا مذہب نہ یہودی نہ عیسائی وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے۔ (مقالات سرسید، حصہ15 ص 147، ناشر مجلس ترقی ادب) ’’نیچر خدا کا فعل ہے اور مذہب اس کا قول ہے اور سچے خدا کا قول اور فعل کبھی مخالف نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے ضرور ہے کہ مذہب اور نیچر متحد ہو۔ (خود نوشت، ضیاء الدین لاہوری، ص 56)
نبوت کے بارے میں عقائد
علمِ عقائد کی تقریباً ساری کتابوں میں نبی کی یہ تعریف لکھی گئی ہے ’’نبی وہ مرد ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مبعوث کیا احکام کی تبلیغ کے لیے اور یہی معنی عوام میں مشہور و معروف اور یہی حق ہے مگر سر سید کہتا ہے کہ ’’نبوت ایک فطری چیز ہے …ہزاروں قسم کے ملکات انسانی ہیں، بعض دفعہ کوئی خاص ملکہ کسی خاص انسان میں ازروئے خلقت و فطرت ایسا قوی ہوتا ہے کہ وہ اس کا امام یا پیغمبر کہلاتا ہے، لوہار بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہو سکتا ہے، شاعر بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہو سکتا ہے، ایک طبیب بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہو سکتا ہے‘‘ (تفسیر القرآن، احمد خان، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور ا/23-24) جتنے پیغمبر گزرے ہیں سب نیچری تھے۔ (مقالات سر سید حصہ 15ص 147 ناشر مجلس ترقی و ادب)
حضرت ابراہیم کی شان میں گستاخی: ’’حج جو اس بڈھے (حضرت ابراہیم ) خدا پرست کی عبادت کی یادگاری میں قائم ہواتھا تو اس عبادت کو اسی طرح اور اسی لباس میں ادا کرنا قرار پایا تھا، جس طرح اور جس لباس میں اس نے کی تھی، محمدﷺ نے شروع سویلزیشن (تہذیب) کے زمانے میں بھی اس وحشیانہ صورت اور وحشیانہ لباس کو ہمارے بڈھے دادا کی عبادت کی یادگار میں قائم رکھا۔ (تفسیر القرآن، احمد خان، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور جلد اص 206)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت موسیٰ کی شان میں گستاخی: ’’پس اگر موسیٰ کو کو ئی ٹرگنا میٹری کا قاعدہ نہ آتا ہو اور اس نے اس کے بیان میں غلطی کی ہو تو اس کی نبوت و صاحب وحی الہام ہونے میں نقصان نہیں آتا کیونکہ وہ ٹرگنا میٹری یا اسٹرانومی کا ماسٹر نہیں تھا۔ وہ ان امور میں ایسا ناواقف تھا کہ ریڈسی (red sea)کے کنارہ سے کنعان تک کا جغرافیہ بھی نہیں جانتا تھا اور یہی اس کا فخر یہی دلیل اس کے نبی اولو العزم ہونے کی تھی۔ (مقالات سرسید حصہ 13 ص 396 ناشر مجلس ترقی ادب)
حضرت عیسیٰ کی شان میں گستاخی: آج تک ملتِ اسلامیہ اس بات پر متفق ہے کہ حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے مگر احمد خاں کہتا ہے۔ ’’میرے نزدیک قرآن مجید سے ان کا بے باپ ہونا ثابت نہیں ہے۔ (مکتوبات سر سید حصہ 2 ص 116) اور وہ (حضرت مریم ) حسبِ قانونِ فطرت انسانی اپنے شوہر یوسف سے حاملہ ہوئیں۔‘‘ (تفسیر القرآن، احمد خان، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور 2/30)
حضور ﷺکی شان میں گستاخی: ’’ایک یتیم بن باپ کے بچے کا حال سنو جس نے نہ اپنی ماں کے کنارہ عافطت کا لطف اٹھایا، نہ اپنے باپ کی محبت کامزہ چکھا، ایک ریگستان ملک میں پیدا ہوا اور اپنے گردبجز اونٹ چرانے والوں کے غول کے کچھ نہ دیکھا اور بجزلات و منات و عز ٰی کو پکارنے کی آواز کے کچھ نہ سنا مگر خود کبھی نہ بھٹکا‘‘(تفسیر القرآن، احمد خان، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور ا/19)
حضرت خضر کے علیہ السّلام بارے میں عقیدہ
اور کچھ نہیں رہتا کہ یہ پرانے قصوں میں ایک فرضی نام ہے اور اس کو حضرت موسیکے اصلی واقعات کے ساتھ شامل کر دیا ہے۔ (تفسیر القرآن، احمد خان، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
معجزات کے بارے میں عقائد
معراج حالت خواب میں ہوئی، معراج کی نسبت جس چیز پر مسلمانوں کو ایمان لانا فرض ہے وہ اس قدر ہے کہ پیغمبر خدا نے اپنا مکہ سے بیت المقدس پہنچنا ایک خواب میں دیکھا اور اسی خواب میں انہوں نے درحقیقت اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں مشاہدہ کیں ….. مگر اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ آنحضرتﷺ نے جو کچھ خواب میں دیکھا یا وحی ہوئی یا انکشاف ہوا وہ بالکل سچ اور برحق ہے۔‘‘ (خطبات سر سید ص 427، ناشر مجلس ترقی ادب)
چاند کے ٹکڑے ہونے کا انکار: شق القمر کا ہونا محض غلط ہے اور بانی اسلام نے کہیں اس کا دعویٰ نہیں کیا۔ (تصانیف احمدیہ، حصہ اول، جلد ا ص 21)
حضرت ابراہیم کے معجزات کا انکار: ’’ہمارے علماء مفسرین نے قرآن مجید کی آیتوں کی یہی تفسیر کی کہ حضرت ابراہیم آگ میں ڈالے گئے اور وہاں سے صحیح سلامت نکل آئے حالانکہ قرآن مجید کی کسی آیت میں اس بات کی نص نہیں ہےکہ حضرت ابراہیم آگ میں ڈالے گئے۔(تفسیر القرآن، احمد خان،8/208-206، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
کتنا بڑا جاہل تھا کہ اسے قرآن کی واضح آیت بھی نظر نہیں آئی۔
’’انہوں (حضرت ابراہیم ) نے رویا میں خدا سے کہا کہ مجھ کو دکھا کہ تو کس طرح مردے کو زندہ کرے گا پھر خواب میں خدا کے بتلانے سے انہوں نے چار پرندے لیے اور ان کا قیمہ کر کے ملا دیا اور پہاڑوں پر رکھ دیا اور پھر بلایا تو وہ سب الگ الگ زندہ ہو کر چلے آئے (تفسیر القرآن، احمد خان، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور) حقیقی واقعہ کو خواب کہنا معجزہ کا انکار اور قرآن میں تحریف ہے جو کہ یہودیوں کا فعل ہے۔
حضرت موسیٰ کے معجزات کا انکار: انہوں نے (حضرت موسیٰ ) نے اس خیال سے کہ وہ لکڑی سانپ ہے اپنی لاٹھ پھینکی اور وہ ان کو سانپ یا اژدھا دکھائی دی یہ خود ان کا تصرف تھا اپنے خیال میں تھا وہ لکری لکڑی ہی تھی اس میں فی الواقع کچھ تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ (تفسیر القرآن، احمد خان، جلد 13 ص 171 ، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
حضرت عیسیٰ کے معجزات کا انکار: قرآن کریم کی صراحت کے مطابق آج تک اسلامیہ اس بات پر متفق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مردوں کو زندہ کرنا ، مادر زا اندھوں کو بینا کرنا، مٹی کی مورت میں پھونک کر اسے زندہ پرندہ بنا دینا ثابت ہے مگر احمد خاں ان تمام کا انکار کرتا اور کہتا ہے کہ ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام بچپنے میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنے میں مٹی کی جانور بنا لیتے تھے اور جیسے کبھی کبھی اب بھی ایسے مواقعوں پر بچے کھیلنے میں کہتے ہیں کہ خدا ان میں جان ڈال دے گا، وہ بھی کہتے ہوں گے …… (تفسیر القرآن، احمد خان، جلد 2 ص 154 ، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور) یونہی اس نے اس بات کا بھی انکار کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اندھوں اورکوڑھیوں کو بھلا چنگا کر دیتے تھے اور اس بات کو بھی نہیں مانا کہ وہ مُردوں کوزندہ کرتے تھے۔ (تفسیر القرآن، احمد خان، جلد2 ص 159 ، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قرآن کے بارے میں عقائد
قرآن مجید کی فصاحت بے مثل کو معجزہ سمجھنا ایک غلطی ہے۔ (تصانیف احمدیہ حصہ 1ص21) ہم نے قرآن میں ایسا کوئی حکم نہیں پایا اس لیے ہم کہتے ہیں کہ قرآن میں ناسخ ومنسوخ نہیں ہے۔ (تفسیر القرآن، احمد خان، جلد 1 ص 143 ، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
فرشتوں کے بارے میں عقائد: جن فرشتوں کا ذکر قرآن میں آیا ہے ان کا کوئی اصلی وجود نہیں ہو سکتا بلکہ خدا کی بے انتہا قوتوں کے ظہور کو اور ان قویٰ کو جو خدا نے اپنی تمام مخلوق میں مختلف قسم کے پیدا کیے ہیں ملک یا ملائکہ کہتے ہیں۔ (تفسیر القرآن، احمد خان، جلد 1 ص 42 ، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور) جبریل نام کا کوئی فرشتہ نہیں نہ وہ وحی لے کر آتا تھا بلکہ یہ ایک قوت کا نام ہے جو نبی میں ہوتی ہے۔ (تفسیر القرآن، احمد خان، جلد 1 ص 130 ، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور) اب ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیے جو اپنے سکولوں کے نام گستاخ کے نام پر رکھتے ہیں جو قرآن کا منکر ہے اور سکولوں کے نصاب میں اس خبیث، بےدین کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں۔
جنات کے بارے میں عقائد
جس طرح جنوں کی مخلوق کو مسلمانوں نے تسلیم کیا ہے ایسی مخلوق کا وجود قرآن سے ثابت نہیں۔ (مقالات سرسید حصہ 2ص 180 ناشر مجلس ترقی ادب) شیطان کوئی جدا مخلوق نہیں بلکہ انسان ہی میں موجود ایسی قوت جو شر کی طرف لے جائے اسے شیطان کہتے ہیں۔ (خودنوشت ص 70، ضیاء الدین لاہور)
عذابِ قبر کے بارے میں عقیدہ: اگر عذابِ قبر میں گناہگاروں کی نسبت سانپوں کا لپٹنا اور کاٹنا بیان کیا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو تاکہ درحقیقت سچ مچ کے سانپ جن کو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں مردے کو چمٹ جاتے ہیں بلکہ جو کیفیت گناہوں سے روح کو حاصل ہوتی ہے۔ اس کا حال انسانوں میں رنج و تکلیف و مایوسی کی مثال سے پیدا کیا جاتا ہے جو دنیا میں سانپوں کے کاٹنے سے انسان کو ہوتی ہے، عام لوگ اور کٹ ملا اس کو واقعی سانپ سمجھتے ہیں۔ (تہذیب الاخلاق جلد 2ص 165)
ایسے ہی لوگوں کے متعلق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا
خود کو بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
مسٹر احمد خاں نے یونہی میزان ، پل صراط، اعمال نامے اور شفاعت کا بھی انکار کیا ہے۔ (تفسیر القرآن، احمد خان، جلد 3 ص 73 ، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور) یعنی ضروریات دین کی ہر چیز کا منکر ہے۔
امام مہدی کے بارے میں عقیدہ: ان غلط قصوں میں سے جو مسلمانوں کے ہاں مشہور ہیں ایک قصہ امام مہدی آخر الزماں کے پیدا ہونے کا ہے اس قصے کی بہت سی حدیثیں بھی ہیں مگر کچھ شبہ نہیں کہ سب جھوٹی اور مصنوعی ہیں۔ ……اور ان سے کسی ایسے مہدی کا جو مسلمانوں نے تصور کر رکھا ہے اور جس کا قیامت کے قریب ہونا خیال کیا جاتا ہے بشارت مقصود نہیں تھی۔ (مقالات سر سید 6 ص 121 ناشر مجلس ترقی ادب)
دیدارِ باری تعالیٰ کا انکار
خدا کا دیکھنا دنیا میں نہ ان آنکھوں سے ہو سکتا ہے اور نہ ان آنکھوں سے جو دل کی آنکھیں کہلاتی ہیں اور نہ قیامت میں کوئی شخص خدا کو دیکھ سکتا ہے۔ (تفسیر القرآن ، احمد خان) یہ سورۃ القیامہ کی آیت 21 اور 22 کا انکار ہے۔ جس میں ہے ’’کچھ منہ اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے رب کو دیکھتے‘‘۔
مرزا قادیانی سے عقیدت
مرزا صاحب کے متعلق زیادہ کدو کاوش کرنی بے فائدہ ہے ایک بزرگ زاہد اور نیک بخت آدمی ہیں …… ان کی عزت اور ادب کرنا بہ سبب ان کی بزرگی اور نیکی کے لازم ہے۔ (خطوط سر سید)
انگریزوں سے محبت
البتہ میری خواہش رہی کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں محبت پیدا ہو کیونکہ قرآن مجید کے موافق اگر کوئی فرقہ ہمارا دوست ہو سکتا ہے تو وہ عیسائی ہیں۔ (مکتوبات سر سید ج ا ص 3 ناشر مجلس ترقی ادب) حالانکہ قرآن میں ان کی دوستی سے منع کیا گیا ہے اور فرمایا گیا، جو ان سے دوستی کرے گا وہ انہی میں سے ہے اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (سورۃ المائدہ آیت:51)
گو ہندوستان کی حکومت کرنے میں انگریزوں کو متعدد لڑائیاں لڑنی پڑتی ہوں مگر درحقیقت انہوں نے یہاں کی حکومت بہ زور حاصل کی اور نہ مکرو فریب ہے۔ بلکہ حقیقت ہندوستان کو کسی حاکم کی اس کے اصلی معنوں میں ضرورت تھی سو اس ضرورت نے ہندوستان کو ان کا محکوم بنا دیا۔ (حیات جاوید جلد 2 ص 242-241 ناشر بک ٹاک لاہور) جن مسلمانوں نے سرکار (انگریز) کی نمک حرامی اور بدخواہی کی میں ان کا طرف دار نہیں ہوں۔ میں ان سے بہت زیادہ ناراض ہوں اور ان کو حد سے زیادہ بُرا جانتا ہوں کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا چاہیے تھا جو اہلِ کتاب اور ہمارے بھائی بند ہیں۔ (حیات جاوید جلد 1 ص 158 ناشر بک ٹاک لاہور) (قرآن کہتا ہے کہ مومن ہی مومن کا بھائی ہے) (سورۃ حجرات) تمام اہل ہند ناظم کشور ہندو وائسراے لارڈ کا یہ رحم اور احسان کبھی دل سے نہیں بھولیں گے جس میں تمام اصلی حالات فساد پر غور کرکے اس پُر رحم اشتہار کے جاری ہونے کی اصلاح دی …..تمام اہل ہند اس کے اس احسان کے بندے ہیں اور دل و جان سےااسکودعا دیتے ہیں الٰہی جہان ہوا اور ہمارا وائسراے لارڈ ہو۔ (خطبات سر سید ص 34 ناشر مجلس ترقی ادب)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
خدارا انصاف! یہ انگریز کا ایجنٹ مرزا قادیانی کی طرح آزادی کا درس دے رہا ہے یا انگریزی کی غلامی کا اور پھر اس کا عقیدہ بھی اسلامی نہیں ہے اگر اس نے کوئی مسلمانوں کی خدمت کی ہے تو اس میں کوئی تعجب و حیرانگی والی بات نہیں ہے اللہ تعالیٰ فاسق و فاجر لوگوں سے بھی اس دین کی مدد کرا دیتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ کرتے ہیں کہ ہم غزوہ حنین میں رسولﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھے تو رسولﷺ نے ایک ایسے شخص کے بارے میں جو اسلام کا دعویٰ کرتا تھا فرمایا: کہ یہ جہنمی ہے۔ جب میدانِ کارزار گرم ہوا تو اس شخص نے قتل وقتال میں بڑھ چڑھ کر کار گزاری دکھائی۔ پس وہ زخمی ہو گیا۔ بارگاہِ رسالتﷺ میں عرض کی گئی کہ جس شخص کے متعلق آپﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے آج کافروں سے بڑی جان توڑ کر لڑا اور مر چکا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: وہ جہنمی ہے۔ راوی کہتے ہیں بعض صحابہ اس فرمان کی تہہ تک نہ پہنچ سکے۔ اسی اثناء میں کسی نے کہا کہ وہ مرا نہیں بلکہ وہ سخت زخمی ہے۔ جب رات ہوئی تو وہ زخم پر صبر نہ کر سکا اور خود کشی کر لی۔ جب رسول اللہﷺ کو یہ بات بتائی گئی تو آپﷺ نے نعرہ ٔ تکبیر بلند کیا اور فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر آپﷺ نے حضرت بلال کو لوگوں میں علان کرنے کا حکم فرمایا ’’ کہ جنت میں مسلمان کے سوا کوئی داخل نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس دین کی فاجر و فاسق شخص کے ذریعے بھی مدد فرماتا ہے۔‘‘ (بخاری حدیث: 3062کتاب الجہاد باب، مسلم حدیث: 111 کتاب الایمان: مشکوۃ 5892 کتاب الفضائل باب المعجزات)
یعنی بغیر ایمان اور عقیدہ صحیحہ کوئی نیکی جنت میں پہنچنے کا ذریعہ نہیں تمام نیکیوں کی درستی کےلیے ایمان ایسا ہی ضروری ہے جیسے نماز کے لیے وضو یا جیسے درخت کی سرسبزی کے لیے جڑ کا درست ہونا۔
بہر حال وہ حرام موت مرا یا کافر ہو کر مرا یا فاسق ہو کر ظاہر یہ ہے کہ کافر ہو کر مرا ظاہری حالت لوگوں نے دیکھ لی کہ اس نے خود کشی کی دل کی حالت کی خبر حضورﷺ نے دے دی اُس کا یہ کام اُس کے دلی کفر کی علامت بن گیا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سر سید نہ کہا جائے بلکہ اس کا نام لیا جائے احمد خاں کیونکہ حدیث میں ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: منافق کو سید (سردار) نہ کہو کہ اگر وہ سید ہوا تو تم نے اپنے رب کو ناراض کر دیا۔ (ابوداؤد 4977 مشکوۃ کتاب الادب باب الاسامی حدیث 4780) مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں اس حکم میں کافر، فاسق، منافق سب ہی داخل ہیں بلا ضرورت خوشامد کے لیے ان لوگوں کو ایسے الفاظ کہنا سخت جرم ہے۔ بے دین ذلیل ہے سید عزت والا ہوتا ہے تعظیمی الفاظ کفار کے لیے استعمال کرنا رب تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث اور حرام ہیں۔ ضرورتِ دینی یا ضرورتِ دنیاوی کی وجہ سے یہ کہنا معاف ہے۔ یوں ہی بے دینوں کو مولانا تعظیماً کہنا جائز نہیں کہ مولیٰ تو سید سے بھی زیادہ تعظیم کا لفظ ہے ہاں اگر مولیٰ بمعنی غلام مراد لے تو جائز ہے۔ (مراۃ شرح مشکوۃ ج 8 ص 295)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔