توہین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم میں قائل کی نیت کا اعتبار نہیں ہوتا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ناظرین کرام کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ توہینی عبارات پڑھتے ہوئے یہ خیال بھی دل میں نہ لائیں کہ قائل کی نیت توہین کی ہے یا نہیں؟ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی شان میں توہین آمیز الفاظ بولتے وقت نیت کا اعتبار نہیں ہوتا اور کلمۂ توہین بہرصورت توہین ہی قرار پاتا ہے بشرطیکہ قائل کو یہ علم نہ ہو جائے کہ یہ کلمہ کلمۂ توہین ہے یا یہ کلمہ توہین کا سبب ہو سکتا ہے تو ایسی صورت میں بغیر نیت توہین کے بھی اس کلمے کا بولنا یقینا موجب توہین ہو گا۔ دیکھئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو بہ نیت تعظیم راعنا کہہ کر خطاب کیا کرتے تھے لیکن یہودی چونکہ اس کلمہ کو حضور کے حق میں بہ نیت توہین استعمال کرتے تھے یا ادنیٰ تصرف سے اس کو کلمۂ توہین بنا لیتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو راعنا کہنے سے منع کر دیا اور اس حکم کے بعد اس کلمہ کا حضور کے حق میں بولنا توہین اور موجب عذاب الیم قرار دے دیا۔ معلوم ہوا کہ ابنائے زمانہ کی رکیک تاویلوں سے ساخت نبوت بہت بلند و بالا ہے اور مؤولین کی من گھڑت تاویلات ان کو توہین کے جرم عظیم سے بچا نہیں سکتیں ۔
توہین کا دارو مدار واقعیت پر نہیں ہوتا : بعض لوگ توہین کو واقعیت پر موقوف کرتے ہیں حالانکہ توہین و تنقیص کا تعلق الفاظ و عبارات سے ہوتا ہے۔ بسا اوقات کسی واقعہ کو اجمال کے ساتھ کہنا موجب توہین نہیں ہوتا لیکن اسی امر واقعہ میں بعض تفصیلات کا آ جانا توہین کا سبب ہو جاتا ہے اگرچہ ان تفصیلات کا بیان واقعہ کے مطابق بھی کیوں نہ ہو۔ ملاحظہ فرمایئے شرح فقہ اکبر مطبوعہ مجتبائی ص ۶۴ بار سوم ۱۹۰۷ء میں ہے
عالم میں کوئی شے ایسی نہیں جس کے ساتھ ارادہ الٰہیہ متعلق نہ ہو اور اس بناء پر اگر یہ کہہ دیا جائے کہ تمام کائنات اللہ تعالیٰ کی مراد (یعنی ارادہ کی ہوئی) ہے تو اس میں کوئی توہین نہیں لیکن اگر اسی واقعہ کو اس تفصیل سے کہا جائے کہ ظلم، چوری، شراب خوری اللہ تعالیٰ کی مراد ہے تو اگرچہ یہ کلام واقعہ کے مطابق ہے لیکن ظلم و فسق وغیرہ کی تفصیلات میں آ جانے کے باعث خلافِ ادب اور توہین آمیز ہو گا۔ اسی طرح بدلیل آیۂ قرآنیہ ’’اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ‘‘ یہ کہنا بالکل جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شے کا خالق ہے لیکن ’’اَللّٰہُ خَالِقُ الْقَاذُ وْ رَاتٍ وَغَیْرِہَا‘‘ (اللہ تعالیٰ گندگیوں اور دوسری بری چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے) کہنا جائز نہیں کہ ذلیل اور رذیل اشیاء کی تفصیل ابہام کفر کی وجہ سے یقینا موجب توہین ہے۔ (ملخصاً شرح فقہ اکبر مطبوعہ مجتبائی ص ۶۴ بار سوم ۱۹۰۷ء )(ماخوذ : الحق المبین استاذی المکرّم غزالئ زماں قبلہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ۔ دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔