سیّدہ کے غیر سیّد سے نکاح کا شرعی حکم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ مسلہ اختلافی ہے اس لیئے ہم کوشش کریں گے مختلف مکاتب فکر کے حوالہ جات کی روشنی میں اس مسلے کا شرعی حکم کیا ہے اور مختلف مکاتب فکر کیا کہتے ہیں پیش کرینگے بہت سے احباب کے میسج آئے اور اس مسلہ کے بارے میں کافی دوست پریشان ہیں اس مضمون کو ایک بار مکمل ضرور پڑھیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شرعی مسائل کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
کتب شیعہ کی روشنی میں : اہل تشیع کی مستند ترین کتب کتب اربعہ میں سے ایک اصول کافی کی حدیث ہے سند کے ساتھ ذرا غور سے پڑہیئے گا : محمد بن يعقوب ، عن علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن الحسن بن علي بن فضال ، عن ثعلبة بن ميمون ، عن عمرو بن أبي بكار ، عن أبي بكر الحضرمي ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : إن رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) زوج المقداد بن الاسود ضباعة ابنة الزبير بن عبد المطلب ، وانما زوّجه لتتّضع المناكح ، وليتأسّوا برسول الله ( صلى الله عليه وآله ) ، وليعلموا أن أكرمهم عند الله أتقاهم .
ترجمہ: محمد بن یعقوب نے علی بن ابراہیم، نے ابیہ، نے حسن بن علی بن فضال، نے ثعلبہ بن میمون نے عن عمرو بن أبي بكار نے عن أبي بكر الحضرمي نے عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) سے روایت کی کہ : رسول (ص) نے مقداد بن اسود کا نکاح ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب سے کروایا، اور یہ نکاح اس لیئے کروایا تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ تم میں سے افضل وہ ہے جو متقی ہے۔ (نہ کہ قریشی یا ھاشمی )
(اصول کافی جلد 5 صفحہ 344)
دائود بن علی نے امام صادق ع سے کہا کہ آپ ع نے فلاں اموی کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیا تو امام ع نے جواب دیا ہاں ، میں نے ایسا کیا کیونکہ رسول اللہ ع نے بھی عثمان کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیا تھا (کیونکہ وہ بھی اموی تھے) اور میرے لئے رسول اللہ ع کی سیرت میں اسوہ موجود ہے ۔ (رجال الكشى ص 241 )
فوائد الحدیث : مندرجہ بالا معتبر روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صادق ع کے نزدیک سید ذادی یعنی اولاد زھراء ع کا نکاح صرف بنو ہاشم یا سادات بنو فاطمہ ع میں مقید نہیں بلکہ غیر شیعہ حتیٰ کہ امویوں کے درمیان بھی رشتہ دینا جائز ہے یعنی غیر شیعہ اور غیر سادات بھی سادات لڑکیوں کے لئے کفو ہیں ۔مندرجہ بالا روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایک شیعہ خاتون اور ایک سیدزادی کا نکاح غیر سید اور غیر شیعہ یعنی دیگر مذاہب اسلامیہ میں کرنا جائز ہے ۔
مندرجہ بالا روایت کی سند صحیح ہے ۔ آیت اللہ العظمیٰ الخوئی نے معجم میں اور آیت اللہ العظمیٰ آصف محسنی حفظہ اللہ نے مشرعتہ میں صحیح کہا ہے
عربی متن : قال : زوجت ابنتك فلانا الاموي قال : إن كنت زوجت فلانا الاموي ، فقد زوج رسول الله صلى الله عليه وآله عثمان ، ولي برسول الله صلى الله عليه وآله اسوة
----------------------------------
دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ :
Published on: Sep 14, 2015
جواب # 60513
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 987-1032/N=11/1436-U
(۱) اگر وہ غیر سید لڑکا، سیدہ لڑکی کا کفو نہ ہو مثلاً انصاری ہو اور سیدہ لڑکی اپنے والد کی اجازت ومرضی اور سرپرستی کے بغیر از خود نکاح کرلے تو حسن بن زیاد کی روایت کے مطابق وہ نکاح سرے سے صحیح ہی نہ ہوگا ،اور کسی زمانہ میں اسی روایت پر فتوی تھا ، لیکن اب حالات زمانہ کی وجہ سے فتوی اس پر ہے کہ وہ نکاح ہوجائے گا ،البتہ لڑکی کے والد کو حق اعتراض حاصل ہوگا ، وہ اپنے اس حق کی بنیاد پر شرعی پنچایت میں جاکر نکاح فسخ کراسکتا ہے بشرطیکہ وہ معلوم ہونے کے بعد بچہ کی ولادت یا حمل ظاہر ہونے تک خاموشی اختیار نہ کرے ورنہ اس کا یہ حق ختم ہوجائے گا قال فی الدر (مع الرد، کتاب النکاح،باب الولي ۴:۱۵۵- ۱۵۷ط مکتبة زکریا دیوبند):( فنفذ نکاح حرة مکلفة بلا ) رضا ( ولی )،والأصل أن کل من تصرف في مالہ تصرف في نفسہ وما لا فلا ( ولہ )أي: للولي ( إذا کان عصبة )……( الاعتراض في غیر الکفء) فیفسخہ القاضي،…… ( ما لم ) یسکت حتی ( تلد منہ ) لئلا یضیع الولد ، وینبغي إلحاق الحبل الظاھر بہ، ( ویفتی) في غیر الکفء ( بعدم جوازہ أصلاً ) وھو المختار( لفساد الزمان )اھ۔
(۲) اگر لڑکا، لڑکی کا کفو نہیں ہے تو اس کا حکم اوپر آگیا،اور اگر کفو ہے تو یہ نکاح ہوجائے گا اورلڑکی کے ولی کو نکاح فسخ کرانے کا حق بھی نہ ہوگا،البتہ لڑکی کا اس طرح اپنے ولی کی اجازت ومرضی اور سرپرستی کے بغیر نکاح کرنا شریعت میں پسندیدہ نہیں ہے؛بلکہ برا ہے قال في رد المحتار(کتاب النکاح،باب الولي ۴:۱۵۴):قولہ: ( ولایة ندب )أي: یستحب للمرأة تفویض أمرھا إلی ولیھا کی لا تنسب إلی الوقاحة، بحر، وللخروج من خلاف الشافعي فی البکر اھ۔
(۳) اس کا جواب اوپر نمبر ایک اور دو میں آگیا۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء ، دارالعلوم دیوبند
-----------------------------------
علمائے اہلحدیث کا فتویٰ :
(1) : سیدہ عورت کا غیر سید سے نکاح بلا شبہ جائز ہے اس میں قطعاً کوئی قباحت نہیں جیسا کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بنت رسول ﷺ حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں اور حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ مروجہ اصطلاح کے مطابق سید نہ تھے اور غالباً ہاشمی بھی نہ تھے جیساکہ صحیح البخا ری میں تصریح ہے ۔(۲: ابن کثير:ج۱ص۲۳۲ )
(2) : اور اسی طرح حضرت نبی کریمﷺ کی دو بیٹیاںسیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ یکے بعد دیگرے حضرت عثمان بن عفان اموی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں اور ظاہر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپﷺکی اصطلاح کے مطابق سید نہ تھے۔بلکہ وہ ہاشمی بھی نہ تھے اور یہ واقعات ایسے مشہور ہیں کہ ان کے حوالہ جات کی بھی ضرورت نہیں ۔ احادیث واسیر تاریخ اسلام پر مشتمل تمام معتبر کتب میں مرقوم اور مصرح ہیں۔(۱: تاریخ ابن کثیر : ج ۱ ص ۲۳۲)
سیدہ ام کلثوم بنت علی جو سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہ کے بطن سے تھیں ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نطفہ سے زید بن عمر تولد ہوئے تھے جوکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادے کے بعد تک زندہ رہے ۔(صحیح بخاری : حمل النساء القرب الی لناس فی الغرو،ج۱ ص ۴۱۳ و باب ذکر ام سلبط ج۲ ص ۵۸۲ نیز کتب شیعہ احتجاج طبرسی) طوسی کی توضیح الاحکام اور استبصار اور مجالس المومنین ملاحظہ فرمائیں ۔مزید کہ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی آیت یا حدیث نہیں ہے جس میں سیدہ عورت کو غیر سید مرد کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کر دیا گیا ہو ۔ بڑائی کی بنیاد نسل و نسب اور خاندانی امتیاز نہیں بلکہ تقویٰ ہے ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب ۔(فتاویٰ محمدیہ ج1ص694)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
---------------------------------------
سیدہ کا غیر سید سے نکاح کے بارے میں اصل مسئلہ کفو یعنی برابری اور مساوات کا ہے۔ اس بنیاد پر بعض علماء کرام سیدہ کا نکاح غیر سید سے حرام جانتے ہیں لیکن تحقیقی بات یہ نہیں ہے۔
اسلام نے نکاح کا مقصد محبت و الفت بتایا ہے لہذا نکاح کرتے وقت چند امور کو پیش نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے میاں بیوی کے درمیان جہاں تک ممکن ہو محبت، یگانگت اور ہمدردی پیدا کی جائے، جو رشتہ ازدواج کی پائیداری کا سبب بنے تاکہ میاں بیوی میں اتفاق ہو اور وہ پرسکون زندگی گرار سکیں۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ.(النِّسَآء ، 4 : 3)
ترجمہ : تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں۔
یہ بات بنیادی ہے، اسلام نے یہ حق ہر مرد اور عورت کو دیا ہے لہذا کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی پر اپنی مرضی مسلط کرے۔ یہاں تک کہ باپ اور دادا کو بھی جبر کا اختیار نہیں ہے۔
ہدایہ میں ہے : ولا يجوز للولی اجبار البکر البالغة علی النکاح.(هدايه، 2 : 312)
ترجمہ : کنواری (خواہ مطلقہ یا بیوہ) بالغ لڑکی کا زبردستی نکاح کرنے کا اس کے ولی کو بھی اختیار نہیں۔
فقہاء کرام فرماتے ہیں : ينعقد نکاح الحره العاقلة البالغة برضائها وان لم يعقد عليها ولی.
ترجمہ : ہر آزاد عقل مند بالغ لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح کرے تو نکاح ہو جاتا ہے۔
احناف اور دیگر ائمہ نے کفو کا اعتبار کیا ہے۔ انہوں نے بھی کبھی کہیں یہ نہیں فرمایا کہ غیر کفو میں نکاح نہیں ہوتا بلکہ یہ فرمایا کہ بالغ لڑکی غیر کفو میں نکاح کرے اور باپ یا دادا سے اجازت نہ لے تو ان حضرات کو اعترض کا حق ہے اور وہ قاضی کے پاس تنسیخ نکاح کا دعویٰ کرسکتے ہیں اگر نکاح ہی نہیں ہوتا تو اعتراض کس کا۔
(بدائع الضائع، 2 / 318)
باپ اور دادا کی اجازت سے تو غیر کفو میں نکاح ناجائز ہونا کسی کے قول سے ثابت نہیں ہے، سب کے نزدیک جائز ہے۔ قرآن مجید میں جن رشتوں کو حرام قرار دیا گیا ہے اس میں سیدہ کا غیر سید سے نکاح نہ ہونے کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی حدیث پاک میں ہے۔
رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار صاحبزادیاں ہیں اور چاروں ہی ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مبارک بطن سے پیدا ہوئیں۔ یہ چاروں سیدزادیاں ہیں۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے دو کا نکاح یکے بعد دیگرے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا، جن میں سیدہ رقیہ اور سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہما شامل ہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تیسری صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح ابوالعاص سے کیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور ابوالعاص دونوں اموی تھے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادیوں کا نکاح اموی مردوں کے ساتھ کرنے کے بعد کبھی نہیں فرمایا کہ آج کے بعد کسی ہاشمی لڑکی کا غیرہاشمی لڑکے کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ترجیح اور برتری کی بنیاد نسلی امتیازات اور خاندانی حسب و نسب، جاہ وجلال، مال و زر اور ذات و براردری رکھنے کی بجائے تقویٰ، پرہیزگاری، خوف خدا جیسی صفات عالیہ پر موقوف کی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
معاذاللہ ہمارا دعویٰ اور عقیدہ یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد علیہم السلام کی برابری کرسکتا ہے۔ اگر ایک پڑھی لکھی سید زادی کا نکاح اس کی پسند کے پڑھے لکھے غیرسید کے ساتھ کر دیا جائے تو غیرسید، سید نہیں بن جائے گا بلکہ یہ شرعی احکام کے عین مطابق عمل ہوگا۔ اس کی بجائے ایک پڑھی لکھی سیدہ کا نکاح زبردستی ایک ان پڑھ، بےروزگار اور جرائم پیشہ کے ساتھ صرف اس لیے کر دیا جائے کہ ہماری انا غیرسید کے ساتھ نکاح کی اجازت نہیں دیتی، شرعاً یہ نکاح جرم ہے۔
سیدہ لڑکی کا نکاح اسکے ولی کی اجازت سے غیرسید لڑکے سےجائزہے البتہ ولی کی اجازت کے بغیرلڑکی کا از خود غیر سید لڑکے سےنکاح کرنا جائز نہیں اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سیدہ لڑکی کاغیر سید لڑکے سے نکاح کوہر حالت میں ناجائز سمجھنا درست نہیں،لہٰذااگر سیدخاندان میں مناسب رشتہ نہ مل رہا ہو اور ولی کسی مصلحت مثلاً لڑکے کی دینداری عمدہ اخلاق اور اس کی شرافت وغیرہ کی وجہ سے اپنی لڑکی کا نکاح غیرسید خاندان میں کرنا چاہیں اورلڑکی بھی اس رشتہ کے لئے راضی ہوتو ولی کی رضامندی سےبلا شبہ اسکا نکاح غیر سید خاندان میں کرنا بھی جا ئز ہےشرعاً کوئی حرج نہیں ۔
الدر المختار – (3 / 93) (و) الكفاءة (هي حق الولي لا حقها) فلو نكحت رجلا ولم تعلم حاله فإذا هو عبدلا خيار لها بل للاولياء.
الفتاوى الهندية – (1 / 290) الحسيب كفء للنسيب حتى أن الفقيه يكون كفئا للعلوية ذكره قاضي خان والعتابي في جوامع الفقه وفي الينابيع والعالم كفء للعربية والعلوية والأصح أنه لا يكون كفئا للعلوية، كذا في غاية السروجي.
الدر المختار – (3 / 56 – 57) (وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم…(الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي …(ويفتى) في غير الكفء (بعدم جوازه أصلا) وهو المختار للفتوى (لفساد الزمان)
برائے کرم اس مسلے کے متعلق جاہلانہ کمنٹس نہ کیئے جائیں یہ ایک اہم شرعی مسلہ ہے ہم نے تمام مکاتب فکر کے حوالہ جات پیش کیئے ہیں اس موضوع پر ضرورت محسوس ہوئی تو مزید لکھیں گے ان شاء اللہ ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔