لڈو کھیلنے کا شرعی حکم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہمارے پیج کے ایک محترم قاری نے سوال کیا ہے کہ : آجکل گتّے والی کے علاوہ آن لائن لڈو کا بھی کافی چرچہ ہے، لڈو کھیلنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب : اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ لڈو کھیلنا، چاہے جوا لگایا جائے یا نہیں، مکروہ تحریمی ہے یعنی حرام سے ایک درجہ کم ۔ یہ ناجائز و گناہ ہے۔ اگر کوئی دوست یہ سوال اٹھائے کہ آخر لڈو میں ایسی کیا برائی ہے تو اسکا جواب محض اتنا ہے کہ دین میں عقل کو نقل یعنی روایت کے تابع رکھا جاتا ہے اس لئے عقلی پیمانے کو ایک طرف رکھ کرسرکار دوعالم ﷺ کے فرامین پر توجہ فرمائیں۔ چَوْسَر (لڈو) کھیلنا
(چوسر ایک گھریلو کھیل ہے جو چوسر کی بساط(یعنی بِچھی ہوئی چادر) پر کَوڑیوں کے پانسے(یعنی شش پہلو ٹکڑے جسے بار ی باری کھلاڑی پھینکتے ہیں ) سے کھیلا جاتا ہے اور 4 فریق 4 مختلف رنگ کی گوٹیوں سے کھیل سکتے ہیں۔ (فرہنگ تلفُّظ، ص۴۲۹)
چوسر کھیلنے کا حکم:’’بہارِشریعت‘‘جلدسوم صَفْحہ 511 پر ہے : ’’گنجفہ، چوسر(یعنی نرد شیر) کھیلنا ناجائز ہے، شطرنج کا بھی یہی حکم ہے۔ اسی طرح لہو ولعب کی جتنی قسمیں ہیں سب باطل ہیں۔گنجفہ ایک کھیل کا نام ہے جو تاش کی طرح کھیلا جاتا ہے اس میں 96 پتے اورآٹھ رنگ ہوتے ہیں اور تین کھلاڑی کھیلتے ہیں۔
(1) حضرت سیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’جس نے چوسر کھیلا تحقیق اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نافرمانی کی۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب الادب، باب فی النھی عن اللعب بالنرد، الحدیث:۴۹۳۸،ص۱۵۸۵۔)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(2) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب، حبیبِ لبیب صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’جس نے چوسر کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے خون سے رنگا۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الشِعْر، باب تحریم اللعب بالنردشیر، الحدیث:۵۸۹۶،ص۱۰۷۸۔)
(3) ایک روایت میں ہے: ’’گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈالا۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب الادب، باب فی النھی عن اللعب بالنرد، الحدیث:۴۹۳۹،ص۱۵۸۵۔)
(4) شہنشاہِ خوش خِصال، پیکر ِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَـــیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’جو چوسر کھیلتا پھر نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے وہ اس کی مثل ہے جو پیپ اور خنزیر کے خون کے ساتھ وضو کرکے نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔‘‘ (المسند للامام احمد بن حنبل، احادیث رجال من اصحاب النبی، الحدیث:۲۳۱۹۹،ج۹،ص۵۰۔)
(5) شعب الایمان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ شطرنج عجمیوں کا جواہے اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :'' شطرنج گناہگار کا کھیل ہے۔'' دوسری روایت میں ہے کہ اس بارے میں جب ان سے دریافت کیا گیا توکہا: ''یہ باطل ہے اور اللہ تعالیٰ باطل کو پسند نہیںکرتا۔
صحیح مسلم میں حدیث ہے : من لعب بالنرد شير فکأنما صبغ يده في لحم خنزير ودمه ۔ (حدیث۵۸۵۶) جو نرد شیر سے کھیلا،گویا اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے گوشت اور اس کے خون میں ڈبو دیا۔
اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے شطرنج کے کھیل کو گمراہی قرار دیا ہے۔ ( مرقاۃ :۷؍۳۳۸)
امام منذری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذھب جمهور العلماء إلی أن اللعب بالنرد حرام یعنی ''جمہور علماء کے نزدیک نرد سے کھیل حرام ہے ۔ (مرقاۃ:۸؍۳۳۳)
لہٰذا ایسے بیہودہ کھیلوں سے اجتناب ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں احکام شرع کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔