عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم احادیث سے....حدیث نمبر 1تا5........
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ قُبِضَ، وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ، فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ : قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَيْفَ تُعْرَضُ صَـلَاتُنَا عَلَيْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ قَالَ : يَقُوْلُوْنَ : بَلِيْتَ. قَالَ : إِنَّ اﷲَ عزوجل حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.
وفي رواية : فَقَالَ : إِنَّ اﷲَ جَلَّ وَعَـلَا حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَامَنَا.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَاءِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ. وَقَالَ الْوَادِيَاشِيُّ : صَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ : رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : وَقَدْ صَحَّحَ هٰذَا الْحَدِيْثَ بْنُ خُزَيْمَةَ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَالدَّارَ قُطْنِيُّ، وَالنَّوَوِيُّ فِي الْأَذْکَارِ.
1 : أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الصلاة، باب فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة،1 / 275، الرقم : 1047، وأيضًا في کتاب الصلاة، باب في الاستغفار، 2 / 88، الرقم : 1531، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب بإکثار الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 / 91، الرقم : 1374، وأيضًا في السنن الکبری،1 / 519، الرقم : 1666، وابن ماجه في السنن،کتاب إقامة الصلاة، باب في فضل الجمعة،1 / 345، الرقم : 1085، والدارمي في السنن،1 / 445، الرقم : 1572، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 8، الرقم : 16207، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8697، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 118، الرقم : 1733.1734، وابن حبان في الصحيح، 3 / 190، الرقم : 910، والحاکم في المستدرک،1 / 413، الرقم : 1029، والبزار في المسند، 8 / 411، الرقم : 3485، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 97، الرقم : 4780، وأيضًا في المعجم الکبير،1 / 261، الرقم : 589، والبيهقي في السنن الصغری، 1 / 371، الرقم : 634، وأيضًا في السنن الکبری، 3 / 248، الرقم : 5789، وأيضًا في شعب الإيمان، 3 / 109، الرقم : 3029، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم / 37، الرقم : 22، والوادياشي في تحفة المحتاج، 1 / 524، الرقم : 661، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 370، والعجلوني في کشف الخفائ، 1 / 190، الرقم : 501، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 515.
’’حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے اِس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی. پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ کیا آپ کا جسدِ مبارک خاک میں نہیں مل چکا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (نہیں ایسا نہیں ہے) اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَنبیاء کرام (علیھم السلام) کے جسموں کو (کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام فرما دیا ہے۔‘‘
’’ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ بزرگ و برتر نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ ہمارے جسموں کو کھائے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، نسائی، ابن ماجہ، دارمی، احمد ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث امام بخاری کی شرائط پر صحیح ہے اور امام وادیاشی نے بھی فرمایا : اِسے امام ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور امام عسقلانی نے فرمایا : اِسے امام ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے اور امام عجلونی نے فرمایا : اِسے امام بیہقی نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ علامہ ابن کثیر نے فرمایا : اِسے امام ابن خزیمہ، ابن حبان، دار قطنی اور نووی نے الاذکار میں صحیح قرار دیا ہے۔
2. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم : أَکْثِرُوْا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ مَشْهُوْدٌ تَشْهَدُهُ الْمَـلَاءِکَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتّٰی يَفْرُغَ مِنْهَا. قَالَ : قُلْتُ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اﷲِ حَيٌّ يُرْزَقُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ. وَقَالَ الْمُنَاوِيُّ : قَالَ الدَّمِيْرِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ : حَسَنٌ.
2 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 524، الرقم : 1637، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 328، الرقم : 2582، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 515، 4 / 493، والمناوي في فيض القدير، 2 / 87، والعجلوني في کشف الخفائ،1 / 190، الرقم : 501.
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی خصوصی حاضری کا دن) ہے۔ اِس دن فرشتے (خصوصی طور پر کثرت سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں، جب کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اُس کے فارغ ہونے تک اُس کا درود میرے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) اور آپ کے وصال کے بعد (کیا ہو گا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں (میری ظاہری) وفات کے بعد بھی (میرے سامنے اسی طرح پیش کیا جائے گا کیوں کہ) اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیائے کرام علیھم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس اﷲ تعالیٰ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اُسے رزق بھی عطا کیا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا : اِسے امام ابن ماجہ نے جید اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام مناوی نے بیان کیا کہ امام دمیری نے فرمایا : اِس کے رجال ثقات ہیں۔ امام عجلونی نے بھی اسے حدیثِ حسن کہا ہے۔
3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَا مِنْ أَحَدٍ يُسلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اﷲُ عَلَيَّ رُوْحِي حَتّٰی أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّـلَامَ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَفِيْهِ عَبْدُ اﷲِ بْنُ يَزِيْدَ الإِسْکَنْدَرَانِيُّ وَلَمْ أَعْرِفْهُ وَمَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ ثِقَةٌ…وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.
3 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، 2 / 218، الرقم : 2041، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 527، الرقم : 10867، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 262، الرقم : 3092، 9329، والبيهقي في السنن الکبری، 5 / 245، الرقم : 10050، وأيضًا في شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم : 5181. 4161، وابن راهويه في المسند، 1 / 453، الرقم : 526، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 162.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میری اُمت میں سے کوئی شخص) ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے مگر اﷲتعالیٰ نے مجھ پر میری روح واپس لوٹا دی ہوئی ہے یہاں تک کہ میں ہر سلام کرنے والے (کو اُس) کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، اَحمد، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ نیز امام عسقلانی نے فرمایا : اِسے امام ابوداود نے روایت کیا ہے اور اِس کے راوی ثقہ ہیں۔ امام ہیثمی نے بھی فرمایا : اِس کی سند میں عبد اللہ بن یزید الاسکندرانی راوی کو میں نہیں جانتا جبکہ مہدی بن جعفر اور دیگر تمام راوی ثقات ہیں۔
4. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَتَيْتُ، (وفي رواية هدّاب : ) مَرَرْتُ عَلٰی مُوْسٰی لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْکَثِيْبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَاءِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَاءِيُّ.
4 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب من فضائل موسی عليه السلام، 4 / 1845، الرقم : 2375، والنسائي في السنن، کتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب ذکر صلاة نبي اﷲ موسی عليه السلام، 3 / 215، الرقم : 161.1632، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 419، الرقم : 1328.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، (اور ھدّاب کی ایک روایت کے مطابق) سرخ ٹیلے کے پاس سے میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، نسائی، اَحمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
5. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ.
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ وَابْنُ عَدِيٍّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ. وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ : وَأَرْجُوْ أَنَّهُ لَا يَأْسَ بِهِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُ أَبِي يَعْلٰی ثِقَاتٌ. وَقَالَ الشَّوْکَانِيُّ : فَقَدْ صَحَّحَهُ الْبَيْهَقِيُّ وَأَلَّفَ فِي ذَالِکَ جُزْئًا. وَقَالَ الزُّرْقَانِيُّ : وَجَمَعَ الْبَيْهَقِيُّ کِتَابًا لَطِيْفًا فِي حَيَاةِ الأَنْبِيَاءِ وَرَوَی فِيْهِ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه مَرْفُوْعًا.
5 : أخرجه أبو يعلی في المسند، 6 / 147، الرقم : 3425، وابن عدي في الکامل، 2 / 327، الرقم : 460، والديلمي في مسند الفردوس،1 / 119، الرقم : 403، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 487، وأيضًا في لسان الميزان، 2 / 175، 246، الرقم : 787، 1033، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 211، والسيوطي في شرحه علی سنن النسائي، 4 / 110، والعظيم آبادي في عون المعبود، 6 / 19، وقال : وألفت عن ذالک تأليفا سميته : انتباه الأذکياء بحياة الأنبيائ، والمناوي في فيض القدير، 3 / 184، والشوکاني في نيل الأوطار، 5 / 178، والزرقاني في شرحه علی موطأ الإمام مالک، 4 / 357.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیاءِ کرام علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں حیات ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو یعلی، ابن عدی، بیہقی اور دیلمی نے ثقہ راویوں سے بیان کیا ہے۔ اور امام ابن عدی نے فرمایا : اِس حدیث کی سند میں کوئی نقص نہیں ہے۔ اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا : امام ابو یعلی کے رجال ثقات ہیں۔ اور علامہ شوکانی نے فرمایا : اسے امام بیہقی نے صحیح قرار دیا ہے اور حیاتِ انبیاء علیہم السلام پر انہوں نے ایک جزء (صحیح اَحادیث کی مختصر سی کتاب) بھی تالیف کی ہے۔ اسی طرح امام زرقانی نے بھی فرمایا کہ امام بیہقی نے حیاتِ انبیاء علیہم السلام پر ایک نہایت لطیف کتاب تالیف کی ہے جس میں انہوں نے حضرت اَنس رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایات اِسنادِ صحیح کے ساتھ بیان کی ہیں۔
وقال العسقـلاني في ’’الفتح‘‘ : قَدْ جَمَعَ الْبَيْهَقِيُّ کِتَابًا لَطِيْفًا فِي حَيَاةِ الْأَنْبِيَاءِ فِي قُبُوْرِهِمْ أَوْرَدَ فِيْهِ حَدِيْثَ أَنَسٍ ص : اَلْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ. أَخْرَجَهُ مِنْ طَرِيْقِ يَحْيَی بْنِ أَبِي کَثِيْرٍ وَهُوَ مِنْ رِجَالِ الصَّحِيْحِ عَنِ الْمُسْتَلِمِ بْنِ سَعِيْدٍ وَقَدْ وَثَّقَهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ عَنِ الْحَجَّاجِ الْأَسْوَدِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي زِيَادِ الْبَصْرِيُّ وَقَدْ وَثَّقَهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَعِيْنٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْهُ وَأَخْرَجَهُ أَيْضًا أَبُوْ يَعْلٰی فِي مُسْنَدِهِ مِنْ هٰذَا الْوَجْهِ وَأَخْرَجَهُ الْبَزَّارُ وَصَحَّحَهُ الْبَيْهَقِيُّ.
ذکره العسقلاني في فتح الباري، 6 / 487.
’’امام عسقلانی فتح الباری میں بیان کرتے ہیں کہ امام بیہقی نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اپنی قبروں میں زندہ ہونے کے بارے میں (صحیح اَحادیث پر مشتمل) ایک خوبصورت کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی وارد کی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبور میں (حیاتِ ظاہری کی طرح ہی) زندہ ہوتے ہیں اور صلاۃ بھی ادا کرتے ہیں۔ یہ حدیث اُنہوں نے یحیی بن ابی کثیر کے طریق سے روایت کی ہے اور وہ صحیح حدیث کے راویوں میں سے ہیں۔ اُنہوں نے مستلم بن سعید سے روایت کی اور امام احمد بن حنبل نے بھی انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام ابن حبان نے یہ حدیث حجاج اسود سے روایت کی ہے اور وہ ابن ابی زیاد البصری ہیں اور اُنہیں بھی امام اَحمد بن حنبل نے ثقہ قرار دیا ہے۔ امام ابن معین نے بھی حضرت ثابت سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ امام ابو یعلی نے بھی اپنی مسند میں اسی طریق سے یہ حدیث روایت کی ہے اور امام بزار نے بھی اس کی تخریج کی ہے اور امام بیہقی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔