نماز کےلیئے صفوں کی تکمیل کیجیئے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دور پر فتن ہے اور عوام سہل پسندی کی طرف مائل، ایسے حالات میں علماء اور آئمہ مساجد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقتدیوں کو شرعی مسائل سے آگاہ کریں، نہ یہ کہ ہر بات فعل کو *عموم بلوی* کی بهینٹ چڑها دیا جائے.
صفوں کی تکمیل اور تصحیح امور مستحبات میں سے نہیں کہ صرف نظر برتا جائے، بلکہ احادیث مبارکہ میں صفوں کی درستگی و تکمیل پر اجر عظیم کی نوید اور ناقص صف بندی پر وعید شدید بیان ہوئی.
کچھ کلمات اس موضوع پر امام اهلسنت مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے فتاویٰ سے پیش خدمت ہیں، انہیں بغور پڑها جائے.
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تکمیل صف کا نہایت اہتمام فرماتے اور اس میں کسی جگہ فرجہ چهوڑنے کو سخت ناپسند فرماتے- صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو ارشاد ہوتا:اپنی صفیں سیدهی کرو اور ایک دوسرے سے خوب مل کر کهڑے ہو کہ بیشک میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکهتا ہوں۔( بخاری و نسائی )
دوسری حدیث میں ہے : صف چهدری نہ رکهو کہ شیطان بهیڑ کے بچے کی وضع پر اس چهوٹی ہوئی جگہ میں داخل ہوتا ہے ۔ ( مسند احمد)
سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں : صفیں خوب گهنی رکهو جیسے رانگ سے درزیں بهر دیتے ہیں کہ فرجہ رہتا ہے تو اس میں شیطان کهڑا ہوتا ہے۔( مسند احمد)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
چوتهی حدیث میں اس تاکید شدید سے ارشاد فرمایا : *صفیں درست کرو تمہیں تو ملائکہ کی سی صف بندی چاہئے اور اپنے شانے سب ایک سیدهه میں رکهو اور صف کے رخنے بند کرو اور مسلمانوں کے ہاتھوں میں نرم ہوجائو اور جو صف کو وصل کرے اللہ اسے وصل کرے اور جو صف قطع کرے اللہ اسے قطع کرے ۔ ( سنن ابوداؤد، مسند احمد، مستدرک للحاکم)
سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے باہر تشریف لا کر ارشاد فرمایا : *ایسے صف کیوں نہیں باندهتے جیسے ملائکہ اپنے رب عزوجل کے سامنے صف بستہ ہوتے ہیں، ہم نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ملائکہ اپنے رب تعالیٰ کے حضور کیسی صف باندهتے ہیں؟ فرمایا : اگلی صف پوری کرتے ہیں اور صف میں خوب مل کر کهڑے ہوتے ہیں ۔ ( صحیح مسلم، کتاب الصلوٰہ )
سیدی اعلی حضرت رحمہ فرماتے ہیں اور نہایت یہ کہ اگر اگلی صف والوں نے فرجہ چهوڑا اور صف دوم نے بهی اس کا خیال نہ کیا مگر اپنی صف گهنی کرلی اور نیتیں بندهه گئیں حالانکہ ان پر لازم تها کہ صف اول والوں نے بے اعتدالی کی تهی تو یہ پہلے اس کی تکمیل کرکے دوسری صف باندهتے، اب ایک شخص آیا اور اس نے صف اول کا رخنہ دیکها اسے اجازت ہے کہ اس دوسری صف کو چیر کر جائے اور فرجہ بهر دے کہ صف دوم بے خیالی کرکے آپ تقصیر وار ہے اور اس کا چیرنا روا- اس کے بعد سیدی اعلی حضرت رحمہ نے اس قول پر قنیہ ، بحرالرائق ، شرح نور الایضاح اور در مختار سے عبارات کو نقل فرمایا.
حدیث میں ہے : جسے صف میں فرجہ نظر آئے وہ خود وہاں کهڑا ہو کر اسے بند کردے اگر اس نے نہ کیا اور دوسرا آیا تو وہ اس کی گردن پر قدم رکھ کر چلا جائے کہ اس کےلئے کوئی حرمت نہ رہی ۔ ( دیلمی )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
یونہی اگر صف دوم میں کوئی شخص نیت باندھ چکا اس کے بعد اسے صف اول کا رخنہ نظر آیا تو اجازت ہے کہ کہ *عین نماز کی حالت میں چلے اور جا کر فرجہ بند کردے* کہ یہ مشی قلیل حکم شرع کے امتثال کو واقع ہوئی، ہاں دو صف کے فاصلہ سے نہ جائے کہ مشی کثیر ہوجائے گی.
سیدی اعلی حضرت رحمہ مذکور بالا مسئلہ کو حلیہ بحوالہ ذخیرہ سے نقل کرنے کے بعد لکهتے ہیں : یہ احکام فقہ و حدیث با علی ندا منادی کہ وصل صفوف اور ان کی رخنہ بندی اہم ضروریات سے ہے اور ترک فرجہ ممنوع و ناجائز، یہاں تک کہ اس کے دفع کو نمازی کے سامنے گزر جانے کی اجازت ہوئی جس کی بابت حدیثوں میں سخت نہی وارد تهی.
سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں : *اگر نمازی کے سامنے گزرنے والا جانتا کہ اس پر کتنا گناہ ہے تو چالیس برس کهڑا رہنا اس گزر جانے سے اس کے حق میں بہتر تها ۔ ( صحیح بخاری، کتاب الصلوٰہ)
اس کے بعد نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت پر مزید احادیث مبارکہ کو نقل فرمایا-
غور کیجئے! صف کی تکمیل کےلئے گردن پهلانگنے، حالت نماز میں چلنے حتی کہ نمازی کے آگے گزرنے جیسے افعال کی اجازت دیدی گئی.
تو آج عوام کی لاپراہی و غفلت یا آئمہ مساجد کی سستی کے سبب اس عمل یعنی تکمیل صفوف پر عموم بلوی کا سہارا لیکر کس طرح چشم پوشی اختیار کی جاسکتی ہے؟
مضمون طویل ہوگیا وگرنہ متعدد احادیث مبارکہ صفوں کی درستگی و تکمیل کے متعلق مزید نقل کرتا ، سمجهنے اور عمل کےلئے بیان کردہ بهی ناکافی نہیں.
نوٹ : امام اهلسنت رحمہ کے ارشادات فتاویٰ رضویہ جلد 7 سے نقل کئے گئے ہیں. (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔